ایمان’توحید’کفر’شرک

ہم ایمان’اسلام اورعمل صالح کو کس طرح مانیں اس سے متعلق احکام و عقائد
ہم ذاتِ باری تعالی پر کس طرح ایمان لائیں اس سے متعلق احکام و عقائد
ہم صفاتِ باری تعالی پر کس طرح ایمان لائیں اس سے متعلق احکام و عقائد
ہم کفر اور اس سے متعلقہ احکام و عقائد کو کس طرح سمجھیں
ہم شرک اور اس سے متعلقہ احکام و عقائد کو کس طرح سمجھیں
ہم نفاق و فسق و فجور اور اس سے متعلقہ احکام و عقائد کو کس طرح سمجھیں

ان تمام چیزوں کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں، ضروریات دین کہا جاتا ہے مومن بننے کے لئے ان تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانا ضروری ہے، ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کے انکار سے آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔
ایمان کا لغوی معنیٰ ہے: امن دینا، اعتماد کرنا، کسی کو بے خوف کرنا، کسی کو سچا سمجھ کر اس کی بات پر یقین کرنا وغیرہ، ایمان کے اصطلاحی اور شرعی معنیٰ ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی جو بات قطعی طور پر ثابت ہے اُسے دل و جان سے تسلیم کرلینا۔
ضروریاتِ دین بہت ساری ہیں، مثلاً اللہ کی توحید اور اس کی صفات پر ایمان لانا، فرشتوں پر ایمان لانا، آسمانی کتابوں پر ایمان لانا، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان لانا، قیامت پر ایمان لانا، تقدیر پر ایمان لانا، موت کے بعد زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ارکانِ اسلام کی فرضیت کا قائل ہونا، سود، زنا، جھوٹ اور فرائض اسلام کی عدم ادائیگی کی حرمت کا قائل ہونا وغیرہ۔

ان تمام چیزوں کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں، ضروریات دین کہا جاتا ہے مومن بننے کے لئے ان تمام ضروریاتِ دین پر ایمان لانا ضروری ہے، ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کے انکار سے آدمی دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتاہے۔
ایمان کا لغوی معنیٰ ہے: امن دینا، اعتماد کرنا، کسی کو بے خوف کرنا، کسی کو سچا سمجھ کر اس کی بات پر یقین کرنا وغیرہ، ایمان کے اصطلاحی اور شرعی معنیٰ ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین کی جو بات قطعی طور پر ثابت ہے اُسے دل و جان سے تسلیم کرلینا۔
ضروریاتِ دین بہت ساری ہیں، مثلاً اللہ کی توحید اور اس کی صفات پر ایمان لانا، فرشتوں پر ایمان لانا، آسمانی کتابوں پر ایمان لانا، اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے رسولوں پر ایمان لانا، قیامت پر ایمان لانا، تقدیر پر ایمان لانا، موت کے بعد زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، جہاد وغیرہ ارکانِ اسلام کی فرضیت کا قائل ہونا، سود، زنا، جھوٹ اور فرائض اسلام کی عدم ادائیگی کی حرمت کا قائل ہونا وغیرہ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اصل ایمان دل کی تصدیق کا نام ہے۔تشریح
اصل ایمان دل کی تصدیق کا نام ہے، زبان سے اقرار کرنا اجرائے احکامِ اسلام کے لئے شرط ہے کہ ہمیں آدمی کا مسلمان ہونا زبانی اقرار سے ہی معلوم ہوگا، ایک شخص دل سے تصدیق کرتا ہے اور زبان سے اقرار نہیں کرتا تو وہ اللہ کے ہاں مسلمان ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اعمالِ صالحہ نماز، روزہ وغیرہ سے ایمان کامل اور مکمل ہوتا ہے۔تشریح
اعمالِ صالحہ نماز، روزہ وغیرہ ایمان کے اجزائے ترکیبی نہیں یعنی ایسے اجزاء نہیں کہ ان اعمال کے نہ کرنے کی وجہ سے آدمی کافر ہوجائے۔اعمالِ صالحہ نماز، روزہ وغیرہ ایمان کے اجزائے تزیین ہیں کہ ان اعمال سے ایمان زینت اور رونق حاصل ہوتی ہے، ایمان کامل اور مکمل ہوتا ہے۔
انہی اعمالِ صالحہ کی کمی بیشی کی وجہ سے لوگوں کے ایمانی مراتب مختلف ہوسکتے ہیں، مراتبِ ایمانی کا یہ اختلاف نورِ ایمان اور کمالِ ایمان کے اعتبار سے ہے، ورنہ نفسِ ایمان میں سب برابر ہیں، اس لئے کہ ایمان تصدیق کا نام ہے اور تصدیق سب کی یکساں ہوتی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ضروریاتِ دین جو تفصیل کے ساتھ بتلائے گئے ہیں اس پر تفصیلاً ایمان لانا ضروری ہے،اور جواجمالاً بتائے گئے ہیں اس پر اجمالاً ایمان لانا کافی ہے۔تشریح
ضروریاتِ دین بعض تفصیل کے ساتھ بتلائے گئے ہیں اور بعض اجمالاً، جو ضروریاتِ دین تفصیلاً بتلائے گئے ہیں ان پر تفصیلاً ایمان لانا ضروری ہے، مثلاً نماز پر اس کے متعلقہ بتلائی گئی ہئیت، کیفیت سمیت ایمان لانا ضروری ہے، اگر کوئی شخص نماز کی فرضیت کا تو قائل ہے لیکن اس تفصیل کے ساتھ قائل نہیں تو وہ مؤمن نہیں، اور جو ضروریات اجمالاً بتلائے گئے ہیں مثلاً فرشتوں پر ایمان لانا وغیرہ ان پر اجمالاً ایمان لانا کافی ہے۔
ایمان کے دو درجے ہیں، ایمان تحقیقی اور ایمان تقلیدی۔
ایمان تحقیقی یہ ہے کہ تمام ایمانیات کا قائل ہے اور انہیں دلیل سے ثابت بھی کرسکتا ہے، اور ایمان تقلیدی یہ ہے کہ تمام ایمانیات کا قائل تو ہے مگر انہیں دلیل سے ثابت نہیں کرسکتا، دونوں قسم کا ایمان معتبر ہے، تاہم ایمان تحقیقی، ایمان تقلیدی سے رتبہ میں بڑھ کر ہے دلائل
.بند
عقیدہ:
ایمانیات کے بارے میں شک کرنا کفر ہے۔تشریح
ایمان میں شک کرنا یعنی بعض ایمانیات کے بارے میں مشکوک ہوجانا کفر ہے، اس لئے ایمان کے بارے میں شک کو قریب سے بھی نہیں گذرنے دینا چاہئے، شک کی بناء پر ایمان کے ساتھ ان شاء اللہ نہیں کہنا چاہئے، یعنی یوں نہ کہے کہ ’’ان شاء اللہ میں مسلمان ہوں‘‘، اگر تواضعاً یا صورتِ دعویٰ سے بچنے کی غرض سے یا ایمان پر خاتمہ کا یقین نہ ہونے کی بناء پر ’’ان شاء اللہ میں مومن ہوں‘‘ کہدے تو درست ہے، تاہم نہ کہنا ہی بہر حال بہتر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ایمان اور اسلام دونوں ایک دوسرے کو لازم وملزوم ہیں۔تشریح
ایمان کے لغوی معنیٰ تصدیق کرناہے اور اسلام کے لغوی معنیٰ جھکنا اور فروتنی اختیار کرنا ہے، ایمان کا تعلق ان چیزوں سے ہے جن کی تصدیق کی جاتی ہے، یعنی اعتقادات سے، اسلام کا تعلق ان چیزوں سے ہے جنہیں عملی طور پر بجا لایا جاتا ہے، یعنی اعمالِ ظاہرہ نماز روزہ وغیرہ سے، لیکن قرآن و حدیث میں ان کا آپس میں ایک دوسرے پر اطلاق بھی کیا گیا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرعاً دونوں کا مصداق تقریباً ایک ہی ہے، یا دونوں ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کے بغیر دوسرا نامکمل یا غیر معتبر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مرتکب کبیرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔تشریح
کسی بد عملی اور گناہ سے مسلمان کافر نہیں ہوتا؛ لیکن ایسی بدعملی جو اماراتِ کفر و علامتِ تکذیب ہو آدمی کو دائرۂ اسلام سے خارج کردیتی ہے، مثلاً بت کو سجدہ کرنا، قرآن کریم کو نجاست میں ڈالنا یا پاؤں سے روندنا یا کسی بھی طریقہ سے اس کی توہین کرنا، تکذیب کی علامت ہونے کی بناء پر کفر ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ایمان و کفر کا مدار خاتمہ پر ہے۔تشریح
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبولیت اعمال کی تین شرطیں ہیں: ایمان، اخلاص اور عمل کا سنت کے مطابق ہونا، لہٰذا کافر و مشرک کے اعمال قبول نہیں ہوتے، ریاء کار کے اعمال اور سنت کے خلاف اعمال بھی قبول نہیں ہوتے۔دلائل
عقیدہ:
کسی عمل یا توبہ کا قبول کرنا اللہ پر ضروری اور لازمی نہیں۔تشریح
مومن کے ہر نیک عمل کا قبول ہونا ضروری نہیں اور ہر برے عمل کا معاف ہونا بھی ضروری نہیں، نیک عمل شرائطِ قبولیت کے ساتھ کیا گیا ہو اور اُسے باطل نہ کیا ہو یہاں تک کہ ایمان پر خاتمہ ہوگیا ہو، اللہ تعالیٰ ایسے عمل کو قبول فرمالیں گے؛ مگر یہ اللہ تعالیٰ پر لازم اور ضروری نہیں، برے عمل کے بعد شرائطِ توبہ کے ساتھ توبہ کی گئی ہو تو اللہ تعالیٰ توبہ قبول فرمالیتے ہیں؛ مگر یہ ان پر لازم و ضروری نہیں۔

ذات میں شرک کا مطلب:
ذات میں شرک کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً انسان ایک ذات ہے، تو انسان کا باپ بھی انسان ہے اور انسان کا بیٹا /یا بیٹی بھی انسان ہے، اور انسان کی بیوی بھی انسان ہے۔ یا مثلاً : کوئی جانور جیسے گھوڑا ایک ذات ہے، تو گھوڑے کی اولاد بھی گھوڑا ہے، اس کی مادہ بھی گھوڑا ہے، اور اصول یعنی اس کے ماں باپ بھی گھوڑا ہیں۔
اللہ کی ذات میں ترکیب و تقسیم نہیں ہے:
اسی طرح ذات میں وحدانیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ :اللہ رب العزت کی ذات اقدس کسی کا مرکب نہیں ہے، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات کی تقسیم ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کی ذات کسی میں حلول نہیں کرتی، جیسا کہ ہندو فلاسفہ مانتے ہیں کہ کائنات کا ذرہ ذرہ خدا ہے، اور خداہر ایک میں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مخلوقات میں سے کسی شخص میں حلول کرتے ہیں، جیسے ہندو اوتاروں کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا انسان کی صورت میں حلول کرکے آگیا، یہ سب باری تعالیٰ کی ترکیب و تقسیم کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ کو مرکب یا منقسم ماننا اس کی ذات میں وحدانیت کو ماننے کے خلاف ہے، جب وہ حلول کرگیا تو وہ ایک کہا ں رہا، جتنوں میں حلو ل کرگیا اتنی کثرت میں تقسیم ہوگیا، اور اگر یہ حقیقت ہوتی تو نعوذ باللہ وہ ان سب سے مرکب ہے۔
اللہ کو کسی کی اولاد ماننا یہ بھی ترکیب ماننا ہے، کہ ماں باپ کے اجزا٫ سے مرکب ہوکر وہ بنا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے اولاد کو ماننا یہ تقسیم کو ماننا ہےکہ وہ اولاد اس کا جز٫ ہے نعوذ باللہ ۔
ذات میں شرک کے نتائج:
ذات میں شرک کی یہی نزاکت ہوتی ہے کہ جب کسی ذات کا کفو یا اصول و فروع مانے جاتے ہیں تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ ان سب کفو اصول اور فروع کی ذات ایک ہی ہے، نعوذ باللہ اگر اللہ کا بیٹا مانیں گے تو دوسری ذاتوں کی طرح وہ بیٹا بھی اللہ ہوگا، بیٹی مانیں گے تو وہ بیٹی بھی اللہ ہوگی، اور اگر بیوی مانیں گے تو وہ بھی اللہ ہوگی۔ معاذ اللہ
اسی طرح اگر اللہ کا کسی میں حلول کرجانا مانا جائے تو نعوذ باللہ اس کو اللہ ماننا ہوگا، یا کائنات کے ذرہ ذرہ میں اللہ کا حلول کر جانا مانا جائے تو اس کے نتیجہ میں تو کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ ہو جائے گا، او رپھر مشرکین کو مشرک کہنا بھی درست نہیں ہے، ان کا ہر شجر و حجر کی پرستش کرنا درست ماننا ہوگا، نمرود اور فرعون کو ربوبیت کے دعوی میں جھوٹا ماننا خود غلط ہوجائے گا، اور یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ انبیا٫ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے، اور نعوذ باللہ بت پرست مشرکین حق پر ہیں معاذ اللہ ۔ اس لئے حلول اور اتارواد کے عقیدے سب شرک ہیں ۔
اللہ تعالیٰ اپنی ذات میں تنہا ہے کا مطلب یہ ہے کہ: نہ اس کی کوئی اولاد ہے ، اور نہ وہ خود کسی کی اولاد ہے، اور نہ ہی کوئی اس کی بیوی ہے، گویا اس کا کوئی خاندان اور کنبہ نہیں ہے،خاندان او رکنبہ ہونا ’’مخلوقات‘‘ میں پسندیدہ ہے، وہ بھی اس لئے کہ مخلوقات کی بقا٫ کے لئے نسل شرط ہے۔ پھر مخلوق کمزور ہوتی ہے، ایک ذات کے افراد دوسری ذاتوں کے مقابلہ میں ایک دوسرے کےلئے تقویت کا باعث ہوتے ہیں وغیرہ، اللہ تعالیٰ مخلوق کی ان تمام مجبوریوں سے پاک ہے، اس کو اپنی بقا٫ کے لئے کسی کی احتیاج نہیں ہے، اور نہ ہی اس کو کسی دوسرے کے سہارے کی ضرورت ہے، اس لئے اس کا خاندان نہ ہونا اس کے لئے کوئی عیب نہیں ہے، بلکہ اس کا خاندان ہونا اس کے لئے عیب ہے۔
اللہ کا بیٹا، بیٹی یا بیوی ماننا شرک ہے۔ عیسی و عزیر اللہ کے بیٹے نہیں اللہ کی مخلوق ہیں، فرشتے اللہ کی بیٹیاں نہیں اس کی مخلوق ہیں، اور دیویاں اور ماتائیں اللہ کی بیوی نہیں ہیں ،جن کو دیویاں یا ماتائیں مانا جاتا ہے اگر ان کا کوئی خارجی وجود تھا تو وہ اللہ کی مخلوق ہیں، اور اگر ان کا کوئی خارجی وجود نہیں تھا تو وہ محض گھڑے ہوئے نام ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے، اور جو بھی موجود ہیں یا تھے سب اپنے وجود اور بقا٫ میں اللہ کی جانب سے اس کی تخلیق کے محتاج ہیں، اللہ نے انہیں پیدا کیا ہے ، اللہ کے پیدا کرنے سے وہ وجود میں آئے ہیں، اور اللہ کے مارنے سے مر جاتے ہیں، اللہ کا کوئی بیٹا یا بیٹی ماننا یا اس کی کوئی بیوی ماننا شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ خود بخود موجود ہے، اپنے وجود میں کسی کا محتاج نہیں۔اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے، یعنی اس کا موجود ہونا لازمی و ضروری ہے اور اس کانہ ہونا ناممکن ہے۔اللہ تعالیٰ کے سواکوئی چیز واجب الوجود نہیں۔تشریح
باری تعالیٰ کا وجود ہے، یہ بدیہیات فطرت میں سے ہے، یعنی یہ بات فطرت میں جانی پہچانی حقیقت ہے، چنانچہ اس کائنات کی سب سے بڑی ثابت حقیقت یہی ہے، اگر یہ ثابت نہیں ہے تو کچھ بھی ثابت نہیں ہے، اس سوال پر غور کرنے والے کا وجود ہی باری تعالیٰ کے وجود کا ثبوت ہے کہ وجود باری تعالیٰ کے بارے میں سوچنے والا ذہن خود بخود پیدا ہوگیا یا اس کو کسی نے پیدا کیا ہے، ظاہر ہے وہ خود پیدا نہیں ہوا ہے، اب جس نے بھی اس کو پیدا کیا ہے وہی صانع عالم ،بدیع اور فاطر السموت والارض ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں۔تشریح
اللہ تعالیٰ کسی چیز میں کسی کا محتاج نہیں، یعنی وہ اپنی ذات و صفات اور اپنے کاموں میں کسی کا محتاج نہیں؛ کیونکہ کل عالم اس کا محتاج ہے، اگر اللہ تعالیٰ عالم کی کسی چیز کا محتاج ہو تو لازم آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اپنے محتاج کا محتاج ہے اور یہ محال ہے، لہٰذا کل عالم اسی کا محتاج ہے، وہ کسی کا محتاج نہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب اور لازم نہیںتشریح
اللہ تعالیٰ پر کوئی چیز واجب اور لازم نہیں، وہ کسی ضابطہ اور قانون کا پابند نہیں، جو چاہے کرسکتا ہے، کوئی اُسے پوچھنے والا نہیں، اگر وہ اپنی ساری مخلوق کو جہنم میں ڈال دے تو اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں، اگر وہ سب کو جنت میں داخل کردے تو بھی اُسے کوئی پوچھنے والا نہیں، اس لئے کہ اللہ کے سوا کون ہے جو اس پر کوئی چیز واجب کرسکے اور پوچھ سکے، اہلِ جنت کا جنت میں داخلہ اس کے فضل و کرم سے ہوگا، کسی کا اللہ تعالیٰ پر کوئی حق نہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کسی میں حلول نہیں کرتا، اور نہ ہی اوتاروں یا کسی اور شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔تشریح
اللہ رب العزت کی ذات اقدس کسی کا مرکب نہیں ہے، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات کی تقسیم ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کی ذات کسی میں حلول نہیں کرتی، جیسا کہ ہندو فلاسفہ مانتے ہیں کہ کائنات کا ذرہ ذرہ خدا ہے، اور خداہر ایک میں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مخلوقات میں سے کسی شخص میں حلول کرتے ہیں، جیسے ہندو اوتاروں کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا انسان کی صورت میں حلول کرکے آگیا، یہ سب باری تعالیٰ کی ترکیب و تقسیم کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ کو مرکب یا منقسم ماننا اس کی ذات میں وحدانیت کو ماننے کے خلاف ہے، جب وہ حلول کرگیا تو وہ ایک کہا ں رہا، جتنوں میں حلو ل کرگیا اتنی کثرت میں تقسیم ہوگیا، اور اگر یہ حقیقت ہوتی تو نعوذ باللہ وہ ان سب سے مرکب ہے۔
وحدۃ الوجود:
وحدۃ الوجود کی اصطلاح دو معنوں میں استعمال ہوتی ہے:
(۱) ایک یہی کہ ہر شے میں خدا ہے، کائنات، سورج چاند زمین تارے غرض ذرہ ذرہ میں خدا ہے، جیسا کہ ہندو مانتے ہیں اور ہر شجر و حجر کو وہ اسی لئے پوجتے ہیں کہ اس کو خدا کی ذات کا جز٫ مانتے ہیں، اس معنی میں وحدۃ الوجود صریح شرک فی الذات ہے، اور اس معنی میں یہ اصطلاح مسلمانوں کی اصطلاح نہیں ہے۔
(۲) وحدۃ الوجود ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ حقیقۃً وجود تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اللہ رب العزت کا وجود ہے، کیونکہ اس کا وجود ذاتی ہے، ازلی و ابدی ہے، باقی سب کے وجود اللہ کی عطا ٫ سے ہیں ، حادث ہیں، اور ان کو فنا ہے، اور جب تک ہیں اللہ کی قیومیت سے ہیں، جہاں اللہ نے ان کے فنا کا ارادہ کیا سب فنا ہوجائیں گے اس اعتبار سے حقیقی وجود تو ایک ہی ہوا تو اس معنی میں وحدۃ الوجود شرک نہیں ہے، بلکہ باری تعالیٰ کی تقدیس و تعظیم کا ایک بیان ہے، اور محض اصطلاح اور الفاظ میں وحدت سے ایسا ماننے والوں پر شرک کا حکم نہیں لگایا جائے گا، الفاظ و اصطلاح میں یہ اتفاقی ہے، اس میں اصل معیار معنی کا ہے، جیسا کہ ہم نے ’’مبادیات عقائد ‘‘میں و ضاحت کی ہے۔
ایک عالمی حقیقت: دنیا کی مختلف قوموں میں یہ تو ہوا کہ ذات باری تعالیٰ کی جانب اولاد کی نسبت کے ذریعہ یا حلول اور اوتار واد کے نظریہ کے ذریعہ شرک فی الذات تو ہوا ہے ، لیکن ذات باری تعالیٰ کے بالکل مد مقابل ایک ایسی ذات پر ایمان جو واجب الوجود سے علیحدہ ایک مستقل وجود رکھتا ہو او راس میں وہ تمام صفات کمال موجود ہوں جو ذات باری تعالیٰ میں مانے جاتے ہیں ایسا کسی قوم میں نہیں پایا گیا ہے، سب نے ایک ہی واجب الوجود ذات باری تعالیٰ میں ہی ترکیب و تقسیم کی ایسی صورتیں مانی ہیں جو انہیں اس کی ذات میں شرک تک لے گئیں ہیں۔
البتہ یہ بیٹا یا بیٹی مان کر یا حلول اور اوتار واد کے ذریعہ مانا جانےو الا شرک بھی بدترین شرک ہے، جس کی معافی نہیں ہے۔بند
عقیدہ:
اسم ’’اللہ ‘‘ اللہ تعالیٰ کا اسمِ ذات اور عَلم ہے، جبکہ باقی تمام اسماء اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام ہیں۔تشریح
مفہوم کے اعتبار سے اسماء و صفات باری تعالیٰ کی اقسام۔ لفظ ’’اللہ‘‘ باری تعالیٰ کا اسم عَلَمْ ہے، یعنی وہ اسم جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر دلالت کرتاہے، اسی اسم سے تمام دیگر اسماء و صفات منسوب کئے جاتے ہیں ، قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے دیگر تمام صفاتی ناموں کو ’’اللہ‘‘ کی صفت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے، چنانچہ کہا جاتا ہے رحمن اﷲ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ اﷲ رحمن کے ناموں میں سے ہے، یا اسی طرح کہا جاتا ہے عالم الغیب اللہ کے ناموں میں سے ایک نام ہے، یہ نہیں کہا جاتا کہ اللہ عالم الغیب کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔
’’اللہ‘‘ باری تعالیٰ کا ایسا اسم ذات ہے جس سے کسی اور کو موسوم نہیں کیا جاتا، یہ اسم صرف باری تعالیٰ جلّ جلالہ کے لئے خاص ہے، اس اسم کے متعدد معانی ہیں : (۱) وہ ہستی جس کے آگے عقلیں حیران رہ جاتی ہیں ۔ (۲) وہ ہستی جس سے چمٹا جاتا اور اسی کی جانب رجوع کیا جاتا ہے(۳) وہ ہستی جس کی پناہ لی جاتی ہے۔ (۴) وہ ہستی جس کے آگے حقیقی سکون اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ (۴) وہ ہستی جو حقیقتاً بلند تر ین ہے جس کے آگے ہر کوئی ہیچ ہے۔ اللہ اسم ذات ہونے کے ساتھ ان تمام معانی و صفات سے متصف ہے۔
اللہ کے ناموں میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا الحاد ہے۔
اسماء باری تعالیٰ میں الحاد۔ اللہ کے ناموں میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا یہ الحاد ہے، مثلاً اللہ کے ناموں کو بدل دینا جیسے، اللہ سے اس کی مؤنث ’’لات‘‘ بنانا، یا العزیز سے ’’عُزی‘‘ بنانا، اور منان سے ’’مناۃ ‘‘بنانا، یہ اسماء باری تعالیٰ میں الحاد کرنا ہے اور ممنوع ہے۔
اسی طرح اللہ کے نام و صفات میں اپنی عقل سے کچھ اضافہ کرنا یہی تشبیہ ہے، کیونکہ بندہ اضافہ وہی کر سکتا ہے جو وہ سوچ سکتا ہے اور وہ اسی دائرہ میں سوچتا ہے جتنا اس کا مَبْلغِ علم ہے، اس کا مَبْلغِ علم مخلوقات کا دائرہ ہے، اب وہ جو بھی اضافہ کرے گا اسی سے اضافہ کرے گا، اور اس میں وہ لازما اللہ کو مخلوقات کے مشابہ کردے گا، مثلاً اللہ کو باپ ماننا جیسے نصاری نے کیا ہے، یا اللہ کا جسم ماننا جیسے عام طور پر مشرکین کرتے ہیں، آیت کی رو سے یہ سب الحاد میں شامل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام بنانا یا کوئی ایسی صفت بیان کرنا جو خود اللہ تعالیٰ اور پیغمبر ﷺ کی تعلیمات میں نہیں ہے یہ کفر اور شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے لئے قرآن کریم میں کچھ ایسی چیزیں ثابت ہیں جن کا ظاہری معنیٰ مراد نہیں ہے، مثلاً چہرہ، ہاتھ اور پنڈلی وغیرہ، اللہ تعالیٰ ان اعضاء سے منزہ ہے، ان کے بارے میں یہ ایمان لانا ضروری ہے کہ ان سے جو مراد باری تعالیٰ ہے وہ حق ہے۔دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی چند صفات ذاتیہ ہیں جن سے ہمیں اللہ کی ذات کا تعارف حاصل ہوتا ہے۔تشریح
امہات الصفات۔ وہ اسماء جو ذات باری تعالی کےلئے ثابت ہیں ان کو صفات ذات اور امہات الصفات کہتے ہیں ، یعنی وہ صفات جن کے بغیر باری تعالیٰ کی ذات کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔یہ صفات حیات، علم، ارادہ، قدرت، سماعت، بصارت، کلام ہیں۔ ان صفات کے لئے اسما٫ مثلاً : الحیی العلیم، القدیر البصیر السمیع وغیرہ ہیں۔(تفصیل اور دلائل صفات باری تعالی کے عنوان میں ملاحظہ فرمائیں)بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے، مگر اللہ کو اس کی حاجت نہیں ہے،استوی کے معنی معلوم ہیں مگراس کی کیفیت معلوم نہیں،اور اس سے متعلق سوال کرنا بدعت ہے،استوی علی العرش پر ایمان لانا ضروری ہے، اللہ تعالی عرش اور تمام کائنات کا محافظ ہے۔تشریح
صفات ’’علو اور استوا٫‘‘ اور ان کے دلائل۔ ان صفات کو ظاہر پر رکھنے والوں اور ان کی توجیہ / اور تاویل کرنے والوں کے درمیان ان صفات میں سے بہت زیادہ زیر بحث رہنے والی صفات ’’علو‘‘ ’’فوق‘‘ اور ’’استواء‘‘ہیں۔ یہ صفات ثابت ہیں، جس کے دلائل درج ذیل ہیں۔
(۱) : يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِنْ فَوْقِهِمْ (سورۃ النحل:۵۰)۔اس میں فوقیت کی تصریح موجود ہے، جس کو حرف اداۃ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
(۲) : وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ (سورۃ الانعام:۱۸)۔اس میں فوقیت کی تصریح ہے جس میں حرف اداۃ استعمال نہیں کیا گیا ہے۔
(۳) : تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ (سورۃ المعارج:۴)۔ فرشتے اس کے یہاں عروج کی منزلیں طے کرکے جاتے ہیں۔ اس میں عروج کس معنی کو ظاہر کررہا ہے۔ انہیں الفاظ کے ساتھ حدیث بھی وارد ہوئی ہے: يعرج الذين باتوا فيكم فيسألهم ۔
(۴) :إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ (سورۃ الفاطر:۱۰)۔ اللہ کی جانب کلمات طیبات کا صعود ہوتا ہے، یہ صعود علو کی جانب نہیں تو پھر کہاں ہوتا ہے۔
(۵) نبی ﷺ کی معراج خود باری تعالیٰ کےلئے علو کو ثابت کرتی ہے، پھر معراج میں نبی ﷺ کا حضرت موسی علیہ السلام کے پاس متعدد بار آنا اور متعدد بار صعود کرکے تخفیف صلاۃ کےلئے اللہ کے پاس جانا علو کو بے تکلف ثابت کرتی ہے۔
(۶) :بَلْ رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ (سورۃ النساء:۱۵۸)۔ : إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ (سورۃ آل عمران:۵۵)۔ ان آیات میں رفع کو اللہ تعالیٰ نے اپنی جانب رفع کہا ہے، اس میں الیٰ صلہ کے ساتھ رفع سے کیا سمت علو کا اثبات نہیں ہے؟
(۷) : وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ(سورۃ البقرۃ:۲۵۵)، وَهُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ (سورۃ سبأ:۲۳)، إِنَّهُ عَلِيٌّ حَكِيمٌ (سورۃ الشوری: ۵۱)۔ مطلق علو کے اثبات کی یہ آیات ہر طرح کے علو کو ثابت کررہی ہیں۔
(۸) تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (سورۃ غافر:۲)، تَنْزِيلُ الْكِتَابِ مِنَ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (سورۃ الزمر:۱)، تَنْزِيلٌ مِنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (سورۃ فصلت:۲)، تَنْزِيلٌ مِنْ حَكِيمٍ حَمِيدٍ (سورۃ فصلت:۴۲)، قُلْ نَزَّلَهُ رُوحُ الْقُدُسِ مِنْ رَبِّكَ بِالْحَقِّ (سورۃ النحل:۱۰۲)، حم وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ إِنَّا أَنْزَلْنَاهُ فِي لَيْلَةٍ مُبَارَكَةٍ إِنَّا كُنَّا مُنْذِرِينَ فِيهَا يُفْرَقُ كُلُّ أَمْرٍ حَكِيمٍ أَمْرًا مِنْ عِنْدِنَا إِنَّا كُنَّا مُرْسِلِينَ (سورۃ الدخان:۱-۵)۔ ان آیات میں اور دیگر آیات میں قرآن مجید اللہ کی جانب سے ’’نازل ہوا‘‘ ہے متعدد مرتبہ وارد ہوا ہے جن سے علو کا اثبات بے تکلف ہو جاتا ہے۔
(۹) : إِنَّ الَّذِينَ عِنْدَ رَبِّكَ(الأعراف :۲۰۶). وَلَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَنْ عِنْدَهُ (الأنبیا٫:۱۹)چند مخلوقات اللہ کے پاس ہیں ، وہ کہاں ہیں، علو میں یا سفل میں ؟ حدیث میں بھی اس طرح کے الفاظ ا س کتاب کے بارے میں آئے ہیں جو اللہ کے پاس ہے، جس میں فوقیت کی صراحت ہے: أنه عنده فوق العرش ۔
(۱۰) متعدد آیات میں استواء علی العرش کی صراحت ۔
(۱۱) دعاء میں مانگنے کے لئے ہاتھ اٹھانے کا ذکر بتلاتا ہے کہ دعاء قبلہ علو ہے۔
(۱۲) ہر رات اللہ کا آسمان دنیا پر نازل ہونا علو کو ثابت کرتا ہے۔
(۱۳) حجۃ الوداع کے موقع پر جب آپ نے صحابہ کو اپنی رسالت کی ذمہ داری کی ادائیگی پر گواہ بنایا اور صحابہ نے گواہی دی تو رسول اللہ ﷺ نے آسمان کی جانب انگلی اٹھائی اور کہا : اللهم اشهد۔
(۱۴) رسول اللہ ﷺ کا اس باندی کے لئے ایمان کی شہادت دینا جو آسمان کی جانب اشارہ کرکے کہتی ہے کہ اللہ وہاں ہے۔
(۱۵) جنت میں جنتیوں کا اللہ کو سر اٹھا کر ایسے دیکھنا جیسے چودھویں کے چاند کو دیکھتا ہے، علو کو بے تکلف ثابت کرتا ہے۔
نصوص میں اس فوقیت و علو کا اللہ کےلئے انکار ممکن نہیں ہے، چنانچہ تمام اہل سنت والجماعت اللہ تعالیٰ کی ان صفات یعنی علو فوقیت اور استوا٫ پر ایمان رکھتے ہیں ، جن میں تمام فقہا٫ و محدثین سبھی شامل ہیں، شیخ الاسلام ابو اسماعیل انصاری نے اپنی کتاب ’’الفاروق‘‘ میں اپنی سند سے مطیع بلخی سے نقل کیا ہے کہ: انہوں نے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے ایک شخص کے بارے میں سوال کیا جو کہتا ہے کہ: لا أعرف ربي في السماء أم في الأرض اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ امام صاحب نے اس کے بارے میں جواب دیا کہ وہ کافر ہے، کیونکہ اللہ فرماتے ہیں کہ: الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى۔ اور اللہ کا عرش ساتوں آسمانوں کے اوپر ہے۔ مطیع بلخی کہتے ہیں کہ: میں نے امام صاحب سے پھر پوچھا: اگر کوئی کہے کہ اللہ تو عرش پر ہے، لیکن ساتھ ہی کہے کہ لا أدري العرش في السماء أم في الأرض اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ امام صاحب نے کہا کہ : وہ بھی کافر ہے، کیونکہ وہ عرش کے آسمانوں کے اوپر ہونے کا منکر ہے، تو گویا جس نے اللہ کے آسمانوں کے اوپر ہونے کا انکار کیا گویا اس نے کفر کیا۔
اس مشہور واقعہ سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ امام صاحب اور ان کے تلامذہ علو کے قائل تھے، جو امام ابو یوسف اور بشر مریسی کے بارے میں مشہور طور پر منقول ہے کہ: بشر مریسی نے اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے کا انکار کیا تھا، جس پر امام ابو یوسف نے اس کو توبہ کروائی تھی، اس واقعہ کو عبد الرحمن بن ابی حاتم نے روایت کیا ہے۔
لیکن ان صفات کی کیفیت کیا ہے کہ اللہ کےلئے علو فوقیت اور استوا٫ کا مفہوم کس معنی میں ہے اسی طرح مجہول ہے جس طرح ’’وجہ ید اور ساق ‘‘وغیرہ کی کیفیت مجہول ہے، اور ان کی کیفیت کا اس طرح بیان کے جہات ستہ سے ان کی تبیین اور تشریح کی جائے یہ صفات باری تعالیٰ میں صریح الحاد کرنا ہے۔
علو اور فوقیت کے لئے جہت کے اثبات کی بے راہ روی
یہ اوپر گذر چکا کہ تمام اہل سنت و الجماعت کا متفقہ عقیدہ ہے کہ ’’استوا٫ اور علو ثابت ہے، لیکن ان کی کیفیت کیا ہے وہ اللہ کے علم میں ہے، اور کیفیت کا سوال بدعت ہے‘‘۔ لیکن اِدھر کچھ عرصہ سے استوا٫ علو اور فوقیت کے بارے میں ایسی بیان بازی ہوئی ہے کہ ایک گروہ کی جانب سے یہ پروپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ جو شخص انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کرے وہی علو و استواء کو ماننے والا، اور جو ایسا نہ کرے اس کا عقیدہ صحیح نہیں ہے، حالانکہ اس طرح کا مطالبہ کرنا خود صحیح عقیدہ کے خلاف ہے، یہ سلف کا طریقہ ہر گز نہیں تھا، سلف اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس کے بیان میں تنزیہ کا مکمل خیال رکھتے تھے ، ہاں فرقہ مجسمہ اور ان کے متبعین جیسا کہ موجود ہ اہل حدیث ان کی پیروی کررہے ہیں، تنزیہ باری تعالیٰ میں ایسے طریقہ کے پیروکار ہیں جو انہیں کفر و شرک میں مبتلا کررہا ہے۔ ظاہر ہے مشار الیہ کا جہات ستہ میں محدود ہونا بالکل اظہر من الشمس ہے، اور جو جہات ستہ میں محدود ہو حداث ہوگیا، محدود ہوگیا، مخلوقات کے برابر ہوگیا، وغیرہ وغیرہ اور یہ سب امور تنزیہ وتقدیس باری عز اسمہ کے خلاف ہے، جن سے گریز لازمی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کے لئے مکانیت کو ثابت کرنا خلافِ ایمان ہے۔تشریح
’’این اللہ‘‘ کے جواب میں آسمان کی جانب اشارہ کی حقیقت:۔
استواء اور علو کی صفات ثابت ماننے کےلئے آج کل بعض لوگ جو خود کو صحیح عقیدہ کا حامل بتاتے ہیں آسمان کی جانب انگلی سے اشارہ کو لازم قرار دےرہے ہیں، حیرت ہے کہ انہوں نے ’’این اللہ‘‘ کے جواب میں انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کو لازم کیسے کردیا، جبکہ نصوص میں اس کےلئے حجت قطعی کہیں نہیں ہے۔ پھر یہ عمل اللہ تعالیٰ کی صفات میں تنزیہ کے بالکل خلاف ہے کیونکہ جہت کی طرف اشارہ اللہ کی محدودیت کو مستلزم ہے، جو اہل سنت و الجماعت کا نہیں بلکہ فرقہ مجسمہ کا طریقہ ہے ۔
جہاں تک رہی اس باندی کے بارے میں حدیث جس سے آپ ﷺ نے اس کے صاحب ایمان ہونے یا نہ ہونے کی تحقیق کی تھی اور اس نے ’’این اللہ‘‘ کے جواب میں ’’آسمان میں‘‘ کہا یا آسمان کی جانب اشارہ کیا تھا، اس حدیث کے بارے میں محدثین کیا کہتے ہیں ہم اس کو ذیل میں درج کرتے ہیں۔
اس مضمون کی دو احادیث کتابوں میں منقول ہے:
امام مسلم نےاپنی صحیح میں حضرت معاویہ بن حکم سلمی سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے کہا: میری ایک باندی تھی، جو میری بکریاں چَراتی تھی، ایک دن مجھے معلوم ہوا کہ اس کے پاس میری بکریوں میں سے ایک کو بھیڑیا لے گیا، مجھے بہت افسوس ہوا اور میں نے اس کو ایک چانٹا ماردیا، میں نے نبی ﷺ سے آکر یہ واقعہ بیان کیا، آپ ﷺ کو میرااس پر ہاتھ اٹھانا گراں گذرا، تب میں نے آپ ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ کیا میں اس کو آزاد کردوں، آپ ﷺ نے فرمایا : اس کو یہاں لاؤ، میں اس کو لے کر آیا، تو آپ ﷺ نے اس سے پوچھا’’این اللہ‘‘ (اللہ کہاں ہے)، (قالت فی السماء) باندی جواب میں کہا: آسمان میں۔ پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس باندی نے کہا :آپ اللہ کے رسول ہیں ﷺ۔ نبی ﷺ نے اس کے مالک سے کہا: اس کو آزاد کردو یہ مؤمنہ ہے۔
یہ حدیث صحیح مسلم میں ہے لیکن اس میں اس بات کا ذکر نہیں ہے کہ اس باندی نے ’’این اللہ‘‘ کے جواب میں آسمان کی جانب انگلی سے اشارہ کیا ہو، بلکہ اس کا : فی السماء کہنا ثابت ہے، جیسا کہ قرآن میں وارد ہوا ہے، و ھو اللہ فی السماء اور قرآن میں ساتھ ہی و فی الارض بھی ثابت ہے۔
اسی مضمون کی ایک دوسری حدیث سنن ابی داؤد میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، کہ ایک شخص نبی ﷺ کے پاس اپنی ایک سیاہ فام باندی کے ساتھ آیا، اور کہا یا رسول اللہ مجھ پر ایک مؤمنہ باندی کو آزاد کرناواجب ہے، آپ ﷺ نے اس باندی سے سوال کیا: ’’این اللہ‘‘ اس باندی نے اپنی انگلی سے آسمان کی جانب اشارہ کیا(فَأَشَارَتْ إِلَى السَّمَاءِ بِأُصْبُعِهَا)۔ پھر آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: میں کون ہوں؟ اس پر اس باندی نے آپ کی جانب اور آسمان کی جانب اشارہ کیا ، یعنی آپ اللہ کے رسول ہیں، اس پر آپ ﷺ نے فرمایا: اس کو آزاد کردو یہ مؤمنہ ہے۔
یہ دوسری حدیث جس میں آسمان کی جانب اشارہ کا ذکر ہے ،امام ابو داؤد نے تو سکوت اختیار کیا ہے، لیکن اہل حدیث حضرات کے عالم ناصر الدین البانی نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے۔ ظاہر ہے محض اس ضعیف حدیث کی بنیاد پر ایمانیات کے ایک ایسے مسئلہ کی بنیاد نہیں رکھی جا سکتی جو تنزیہ باری تعالیٰ کے خلاف بھی جاتا ہے ۔مگر ہم یہاں ناصر الدین البانی کی اس حدیث کی تضعیف کے قطع نظر امام ابو دادؤد کے اس حدیث پر سکوت کو معتبر مانتے ہوئے اس حدیث کی تشریح میں بڑے بڑے محدثین نے جو بات کہی ہےاس کو ذکر کرتے ہیں۔
سب سے پہلے یہ جاننا چاہئے کہ امام مسلم کی حدیث جس میں آسمان کی جانب اشارہ کا ہی ذکر نہیں ہے صرف فی السماء کہا گیا ہے، اور وہ حدیث صحیح بھی ہے اس کے بارے میں محدثین نے کیا کہا ہے اس کو جان لیجئے۔
امام نووی نے مسلم کی مذکور بالا حدیث پر کلام کرتے ہوئے کہا کہ:یہ حدیث احادیث صفات باری تعالیٰ میں سے ایک ہے۔ اور صفات (متشابہات ) کے بارے میں دو رائے ہیں، ایک تو یہ ہے کہ اس کے معنی میں کسی غور و خوض کے بغیر یہ جس طرح ہے اسی پر ایمان لایا جائے، اور ساتھ ہی یہ اعتقاد بھی ہو کہ اللہ تعالیٰ کسی چیز کے مثل نہیں ہے، اور وہ مخلوقات کی سمتوں سے منزہ ہے۔ دوسری رائے یہ ہے کہ اس حدیث کی اس کے مناسب تشریح کی جائے، جو اس تاویل و تشریح کے قائل ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ: این اللہ سےآپ ﷺ اس کا اس بارے میں امتحان لے رہے تھے کہ وہ باندی موحد ہے یا نہیں، کہ وہ خالق ، مدبر اور فعال اللہ واحد کا اقرار کرتی ہے یا نہیں، ، چنانچہ آپ ﷺ کے امتحان کی غرض یہ تھی کہ کہیں وہ مشرکین کی طرح بتوں کی پرستش کرنے والی تو نہیں ہے ، اگر ایسا ہوتا تو وہ زمینی معبودوں کی جانب اشارہ کرتی، جب اس نے : فی السماء کہا تو یہ متعین ہوگیا کہ وہ بتوں کو خدا نہیں مانتی، جیسے کوئی دعاء کرتا ہے تو آسمان کو قبلہ بناتا ہے ایسے ہی اس نے فی السماء کہہ دیا، جیسے کوئی نماز پڑھتا ہے تو کعبہ کو قبلہ بناتا ہے، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف آسمان میں منحصر اور محدود ہے، جیسے اللہ صرف کعبہ کی جہت میں محدود نہیں ہے، بلکہ جس طرح کعبہ نماز پڑھنے والوں کا قبلہ ہے ، اسی طرح آسمان دعاء کرنے والوں کا قبلہ ہے ۔ یہ امام نووی کی تشریح ہے۔
اس بارے میں صحیح مسلم کے ایک اور شارح امام ابو العباس انصاری قرطبی جو امام نووی کے ہی ہم زمانہ ہیں اپنی شرح المفهم لما أشكل من تلخيص كتاب مسلم میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں: آپ ﷺ نے اس باندی سے ’’این اللہ ‘‘ کا سوال اس کے فہم کے معیار سے فرمایا تھا، تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ وہ زمین کے معبود مثلاً کسی بت یا پتھر وغیرہ کی عبادت تو نہیں کرتی ہے، جب اس نے فی السماء کہا تو گویا اس نے اقرار کرلیا کہ اللہ زمینی معبودوں میں سے نہیں ہے۔
پھرسوال میں ’’این‘‘ کا لفظ ہے،جو ظرف مکان ہے، کسی کی مکانیت معلوم کرنے کےلئے استعمال ہوتا ہے، جیسے متی ظرف زمان ہے جس کے ذریعہ کسی کی زمانیت معلوم کی جاتی ہے، حقیقۃً ان الفاظ کا استعمال اللہ تعالیٰ کےلئے درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ مکان سے منزہ ہے جیسے وہ زمانہ سے بھی منزہ ہے، اللہ تعالیٰ تو زمان و مکان کا خالق ہے، وہ تو زمان و مکان کی تخلیق سے پہلے سے موجود ہے، اور زمان و مکان کی تخلیق سے پہلے جیسے تھا اب بھی ویسے ہی ہے، اگر اس کو زمان و مکان سے مختص کیا جائے تو اس کو اول و آخر نہیں بلکہ حادث ماننا لازم آئے گا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کسی کے مثل نہیں ہے، اور نہ ہی حادث ہے، اس کا حاصل یہی ہے کہ نبی ﷺ نے ’’این‘‘ کا لفظ حدیث میں توسع اور مجاز کے طور پر استعمال کیا ہے، اور وہاں اس باندی کے ذہنی معیار کے لحاظ سے سوال میں ایسی ہی سادگی کی ضرورت تھی، کہ اس ماحول میں لوگ گھروں میں بتوں کو رکھ کر ان کی پرستش کرتے تھے، اس سوال سےنبی ﷺ اس باندی کے بارے میں یہ جاننا چاہتے ہیں وہ ان گھروں کے یا زمینی معبودوں کو پوجتی ہے یا موحد ہے؟ اس لئے آپ نے فرمایا : این اللہ، جب اس نے فی السماء کہا تو آپ ﷺ نے اس جواب کو کافی سمجھا اور اس کو مؤمنہ قرار دے دیا، کیونکہ اس باندی کے فہم کے لحاظ سے اتنا ہی کافی تھا، کہ اس نے اللہ کو زمینی معبودوں اور بتوں سے علیحدہ منزہ قرار دیا، اور اللہ کو ان کے مقام سے بلند بتلایا، اور آپ نے اس کے جواب کو اس بات پر محمول کیا کہ مسلمان جب دعاء مانگتے ہیں تو ہاتھ اوپر اٹھاتے ہیں، آپ ﷺ نے اس کو اسی حالت میں اس کے فہم کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیا، اگر اللہ کے رسول ﷺ اس کو اس وقت یہ سمجھاتے کہ زمان و مکان کا اطلاق اللہ تعالیٰ پر محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ زمان و مکان سے ما وراء ہے ، تو اس کے بارے میں اندیشہ تھا کہ وہ صفات کے بارے میں نفی محض اور تعطل کا شکار ہو جاتی (جیسا کہ بعد میں بڑے بڑے عقلمند اس گمراہی کا شکار ہوئے ہیں)،ہر عقل اس لائق نہیں ہوتی کہ صفات کو مانے بھی اور اللہ کے زمان و مکان سے منزہ ھونے کو بھی سمجھ لے ، اس کو اہل علم ہی سمجھ سکتے ہیں ورنہ اکثر لوگ اوہام کا شکار ہوجاتے ہیں،اس لئے آپ ﷺ نے اس باندی کے فہم کے لحاظ سے اس جواب کو کافی سمجھا۔
پھر آگے امام قرطبی نے کہا کہ تمام مسلمان محدثین، فقہاء، متکلمین، اہل مناظرہ اور ان کے پیروکار سبھی بغیر کسی اختلاف کہ متفقہ طور پر ایسی نصوص جس میں اللہ کے آسمان میں ہونے کا ذکر ہے اس کو ظاہر پر محمول نہیں کرتے، کوئی تو اس کو فوق و علو کے معنی پر محمول کرتا ہے ، اور ساتھ ہی کیفیت کے بیان سے بھی گریز کرتے ہیں، اور فی کو علی کے معنی میں لیتے ہیں، جیسا کہ آیت ولأصلبنكم في جذوع النخل میں ’فی ‘ ’علی‘ کے معنی میں آیا ہے، اور دوسرے وہ ہیں جو اس کی غلبہ اور استیلاء جیسے معانی سے تاویل کرتا ہے، اور سبھی اُن جہات کی نفی کرتے ہیں جیسی جہات مخلوقات کے ساتھ لگی ہوئی ہیں، اور جو اللہ تعالیٰ سے جہت کی نفی کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ حق یہی ہے کہ اس سے جہات کی نفی کی جائے ۔ اور اخیر میں امام قرطبی نے فرمایا کہ وہ لوگ جو ایسی نصوص کو اس کے مطلق ظاہر پر لیتے ہیں وہ گمراہ ہیں۔
اس طرح کی تشریح حافظ ابن حجر عسقلانی نے کی ہے،انہوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اس باندی کے جواب کو اس کےفہم کے قصور اور اس کے معیار سے قبول کرلیا، ورنہ اگر اس کے سامنے اللہ تعالیٰ کے زمان و مکان کے استحالہ کی بات کی جاتی تو اندیشہ تھا کہ وہ صفات کے معاملہ تعطیل اور نفی مطلق میں پڑ جاتی ، جبکہ اللہ تعالیٰ تشبیہ اور جہات سے منزہ اور بلند و بر تر ہے۔
یہ تو اس حدیث کی تشریح ہوئی جس میں باندی نے آسمان کی جانب اشارہ نہیں کیا ہے بلکہ فی السماء کہا ہے، جس کے بارے میں تمام مذکورہ بالا محدثین نے کہا کہ ایسی نصوص کسی کے یہاں بھی ظاہر پر محمول نہیں ہیں۔ یہی حال اس حدیث کا بھی ہے جس میں فاشارت الی السماء کے الفاظ ہیں، اول تو آسمان کی جانب اشارہ نبی ﷺ نے نہیں کیا ہے، اور نہ ہی نبی ﷺ نے اس کی کہیں تعلیم دی ہے، ہاں اس باندی کے اس قول کو قبول کرلیا ، کیونکہ اس کا فہم اتنی ہی بات کا متحمل تھا، جیسا کہ محدثین نے کہا کہ اس سے اللہ تعالیٰ کےلئے زمان و مکان کا محال ہونا جیسی باتیں سمجھنا ممکن نہیں تھا، اور انبیاء اس طریقہ سے سمجھاتے بھی نہیں ہیں، اب ایسی صورت میں اس حدیث کی بنیاد پر جس میں ایک باندی کے قصور فہم کی وجہ سے جس بات کو گوارا کیا گیا ہو بنیاد بنا کر ایمان و عقیدہ کا ایک مسئلہ بنانا، اور یہ کہنا کہ این اللہ کے جواب میں آسمان کی جانب اشارہ کرنا لازم ہے، اپنے ایمان کے ساتھ بڑی زیادتی کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ کی ذات اقدس میں جہات کا عیب لگانا ہے، اور تنزیہ باری تعالیٰ کے بالکل خلاف اور فرقہ مجسمہ کی پیروی کرنا ہے نعوذ باللہ من ذلک۔
پھر ان لوگوں پر حیرت ہے جو عام مسائل کے لئے قوی و صحیح اور بخاری کی حدیث مانگتے ہیں وہ اتنے نازک مسئلہ میں ان کے ہی ایک عالم کی جانب سے اس حدیث کو ضعیف قرار دئیے جانے کے باوجود اس کو ایمانیات کے مسئلہ کی بنیاد بنا رہے ہیں ، کیا یہ بے راہ روی درست ہے؟
حاصل یہ ہے کہ استواء و علو کے اثبات کےلئے آسمان کی جانب اشارہ کرنے کو لازم سمجھنا یا یہ کہنا کہ اللہ آسمان میں ہے سلف کے طریقہ کے خلاف بدعت اور فرقہ مجسمہ کی پیروی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ جب آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں تو ان کا نزول بلا کیف ہوتا ہے اور جب قیامت کے دن میدانِ محشر میں نزول فرمائیں گے تو ان کا نزول بلا کیف ہوگا۔ دلائل
عقیدہ:
عبادت صرف اللہ تعالی کی کیجائے،اللہ تعالی کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں۔تشریح
الوہیت کے معنی ہیں وہ ہستی جس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جائے، اور منافع کے حصول اور نقصانات سے بچنے کےلئے اس کی جانب اس کی عبادت اور پرستش کے ذریعہ رجوع کیا جائے۔تو جس ہستی کی جانب اس طرح رجوع کیا جائے وہ الہ ہے۔ اور چونکہ عبادت کے ذریعہ اس سے رجوع کیا جاتاہے اس لئے الہ ہی معبود ہوتا ہے۔
جس طرح ذات و صفات میں توحید کو ماننا ضروری ہے، ایسے ہی الوہیت میں توحید کو ماننا اللہ تعالیٰ کا حق ہے، اور جب تک الوہیت میں توحید کامل نہیں ہو گی مقصود حقیقی حاصل نہیں ہوگا، انبیا٫ اسی مقصود حقیقی کی تکمیل کےلئے مبعوث ہوتے تھے، بندے اللہ کے اسی حق کی ادائیگی سے جہنم سے نجات پائیں گے۔
تمام انبیاء علیہم السلام نے اسی بات کی دعوت دی ہے کہ اللہ تعالی کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کیجائے اور اللہ کے ساتھ عبادت میں کسی کو شریک نہ کیا جائے۔
الوہیت ہی توحید کا وہ باب ہے جس میں قوموں کے قدم زیادہ پھسلے ہیں، اور ایک نبی کے بعد دوسرے نبی آکر اپنی قوم کو توحید الوہیت کی ہی خصوصیت کےساتھ دعوت دیتےرہے ہیں، اور طاغوت کی پیروی سے روکا ہے، اور سب سے آخر میں حضرت محمد ﷺ نے اپنی قوم اور پوری انسانیت کو اسی توحید الوہیت کی خصوصیت کے ساتھ دعوت دی کہ مخلوقات کی عبادت کا مستحق کوئی اور نہیں صرف اللہ ہے۔ اور الوہیت میں توحید کے ہر گوشہ کو آپ ﷺ نے شرک سے واضح فرمادیا، کہ اللہ کے علاوہ کسی اور کو الہ نہ بناؤ، اور آپ ﷺ پر جو کتاب نازل کی گئی اس میں یہ بات ہر طرح کے دلائل سے واضح کردی گئی ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہ نہیں ہے۔
غیر اللہ سے الوہیت کی مکمل طور پر نفی کی جائے، اور الوہیت کے جملہ حقوق صرف اللہ کے مانے جائیں۔
ان دونوں اصولوں میں غیر اللہ سے الوہیت کی نفی کرنا پہلا کام ہے، جب تک غیر اللہ سے الوہیت کی نفی نہیں ہوگی، الوہیت میں توحید مکمل نہیں ہوگی۔ کسی بھی زمانہ کے مشرکین الہٰ اعظم کے منکر نہیں رہے ہیں، بلکہ دنیا کے سبھی مشرکین الہٰ اعظم کو ماننے والے ہیں، ان کا جرم یہی ہے کہ وہ اللہ کے ساتھ دیگر الہٰوں کو بھی پوجتے ہیں ، اور اللہ کو الہ اعظم مانتے ہیں، اور یہی خلاف توحید ہے، انبیا٫ نے واضح فرمایا کہ اللہ کے علاوہ کوئی الہٰ ہے ہی نہیں ، بس وہی ایک الہ ہے، اس کے علاوہ کسی کو نہ الہ مانا جائے اور نہ ہی اس کے علاوہ کسی اورکےلئے الوہیت کے تقاضوں کو پورا کیا جائے ۔ الہٰ کے معنی اور الوہیت کے تقاضوں کا بیان آگے آرہا ہے۔
غیر اللہ سے الوہیت کی نفی میں طاغوت کا انکار بھی شامل ہے۔
غیر اللہ سے الوہیت کی نفی کرنے میں ہر طرح کے طاغوت کا انکار کرنا شامل ہے، اللہ کے علاوہ کسی اور کو عبادت کا مستحق ماننا، ساحروں اور کاہنوں کو ماننا، غیر اللہ میں تحلیل و تحریم یعنی تشریع کا اختیار ماننا (غیر اللہ کےلئے مقننہ کے حقوق تسلیم کرنا) یہ سب طاغوت کو ماننا ہے، اور ان کو نہ ماننا طاغوت کا انکار کرنا ہے، توحیدکو خالص کرنے اور شرک سے بچنے کےلئے تمام طواغیت کا انکار لازم ہے ۔
علما٫ نے نبی ﷺ کی توحید کی تعلیمات اور آپ کے طرز عمل کی بنیاد پر یہ بیان کیا ہے کہ : موحد ہونے کےلئے لازم ہے کہ غیر اللہ کی الوہیت سے برأت کا اعلان کیا جائے، اسی طرح عیسائی اسلام قبول کرے تو اس کے لئے لازم ہے کہ اللہ کی الوہیت کے اثبات کے ساتھ اقرار کرے کہ حضرت عیسی اللہ کے بندہ ہیں، اور جو انہیں اللہ کا بیٹا قرار دیتے ہیں ان سے برأت کا اظہار کرے۔ یہودی اسلام قبول کرے تو وہ اقرار کرے کہ تشریع کا حق صرف اللہ کا ہے، اور غیر اللہ میں حق تشریع ماننے والوں سے برأت کا اظہار کرے۔ مشرک بت پرست اسلام قبول کرے تو وہ اس اقرار کے ساتھ کہ صرف اللہ ہی عبادت کے لائق ہے غیر اللہ کے عبادت کے لائق ہونے سے برأت کا اظہار کرے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عبادت کی ہر صورت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے اختیار کی جائے۔تشریح
بالذات انتہائی محبت کے ساتھ کسی کے آگے انتہائی طور پر جھک جانے اور اس کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کرنے کو عبادت کہتے ہیں یہ صرف اللہ کا حق ہے۔
اللہ تعالیٰ کو الہ ماننے کا لازمی تقاضہ یہ ہے کہ عبادت صرف اللہ کی ہو، اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، عبادت کے جملہ مظاہر صرف اللہ کے لئے اختیار کئے جائیں۔ دل زبان اور عمل ہر ذریعہ سے صرف اللہ تعالیٰ کومعبود مانا جائے۔
معبود(الہ) ماننے کا مطلب۔ اللہ کو الہ ماننے کے چند تقاضے ہیں ، ان تقاضوں کو پورا کرنا ضروری ہے تبھی توحید الوہیت کامل اور مکمل ہوتی ہے، اگر ان تقاضوں کو پورا نہ کیا جائے تو پھر الوہیت میں شرک ہوجاتا ہے۔الہ ماننے کے تقاضوں میں جہاں صرف اللہ پر اعتماد اور بھروسہ کرنا ہے وہیں عبادت اور اس کے جملہ تقاضوں میں دل ، زبان اور عمل کو صرف اللہ کےلئے خاص کر لینا توحید الوہیت کا حصہ ہے، اللہ تعالیٰ کو الہ ماننے کے تقاضے درج ذیل ہیں۔
توکل، امید وخوف، خشوع و خضوع سب عبادت کی صورتیں ہیں اور صرف اللہ تعالیٰ کے حقوق ہیں۔
عبادت کے تقاضے مثلاً :توکل(بھروسہ کرنا)، رجا٫(امید رکھنا)، خوف و خشیت(ڈرنا)، خشوع و خضوع(تواضع کی وہ دلی کیفیت جس کو اعضا٫ و جوارح سے ظاہر کیا جائے)، حکم کی تعمیل کرنا، نافرمانی سے گریز کرنا، صبر و شکروغیرہ سب عبادت کے تقاضے ہیں۔ اور غیر اللہ پر بھروسہ کرنا ان سے امید رکھنا، ڈرنا، غیر اللہ کے حکم کی فرماں برداری اللہ کی نافرمانی میں کرنا، یا غیر اللہ کو حکم دینے کا مجاز ماننا(تحلیل ما حرم اللہ اور تحریم ماأحل اللہ) یہ سب شرک ہے۔
اور قنوت و قیام ، رکوع، سجدہ ،اور تقرب کا ہر ذریعہ عبادت کے مظاہر ہیں، یعنی پرستش کے جملہ طریقے عبادت کے مظاہر ہیں، نماز، اور نماز کے تمام اعمال عبادت ہیں، روزہ عبادت ہے ، حج، اور حج کے جملہ اعمال عبادت ہیں، نذر عبادت ہے، دعاء و سوال عبادت ہے، قربانی عبادت ہے، غیر اللہ کےلئے عبادت کا کوئی بھی طریقہ اختیار کرنا شرک ہے۔
انبیا٫ اسی لئے بھیجے جاتے تھے تاکہ وہ بندوں کو بتلائیں کہ وہ صرف اللہ کی عبادت کریں، اور طاغوت سے بچیں۔
رکوع و سجدہ صرف اللہ کا حق ہے۔
غیر اللہ کےلئے رکوع و سجدہ شرک ہے۔ اللہ کےعلاوہ کسی اور کو پرستش کےلئے سجدہ کرنا شرک ہے، خواہ زندوں کو خواہ مردوں کو، خواہ بتوں کو خواہ قبروں کو سب شرک ہے، اور الہ مانے بغیر محض تعظیم میں غیر اللہ کےلئے جھکنا اور غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی حرام ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
صفاتِ باری تعالیٰ نہ عینِ ذات ہیں اور نہ غیر ذات بلکہ لازم ذات ہیں۔تشریح
عقیدہ:
اللہ تعالی کی ذات اور صفات میں تغیر اور فنا نہیں ،اللہ تعالی کی ذات بھی ہمیشہ باقی رہے گی اوراس کی صفات بھی ہمیشہ باقی رہیں گی،یعنی نہ ا س کی ابتداء ہے نہ انتہاء وہ قدیم ہے ازلی ہے ابدی ہے،اس کے سوا ہر مخلوق فانی ہے اور ہلاک ہونے والی ہے۔تشریح
اللہ ازلی و ابدی ہیں۔ اللہ کو الحیی ماننے میں یہ بھی ماننا ہے کہ اللہ ہمیشہ سے ہیں، اور ہمیشہ رہیں گے، اللہ نے اپنی اس صفت کو اس طرح بیان کیا ہے کہ وہی اول ہے وہی آخر ہے، اس سے پہلے کوئی نہیں اور اس سے آخر کوئی نہیں ، یعنی ایسا ممکن نہیں کہ وہ کبھی ہلاک ہوجائے اور اس کے بعد کچھ باقی رہ جائے بلکہ باقی رہ جانے والی ہستی صرف اللہ کی ہے، اس کے علاوہ سب کو فنا ہے۔
ہاں جنت و جہنم ابدی ہیں، مگر ازلی نہیں ہیں، اللہ کے پیدا کرنے سے پیدا ہوئے ہیں، اور ان کا ابدی ہونا بھی اللہ کی مشیت کا مرہون منت ہیں، اللہ ان کو ہمیشہ رکھیں گے اس لئے وہ ابدی ہیں ، اسی طرح اہل جنت اور اہل جہنم بھی ازلی نہیں ہیں بلکہ ابدی ہیں، اور ان کا ہمیشہ رہنا اللہ کی عطا٫ سے ہے ذاتی نہیں ہے، اللہ میں قدرت ہے کہ جس وقت چاہے ان کو پھر فنا کردے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالی ہی حلال اور حرام قرار دینے والا ہے،اللہ تعالی کی اجازت کےبغیر کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ حلال وحرام قرار دے۔دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کا اس جہان میں دیدار نہیں ہوسکتا، آخرت میں اہل جنت اللہ تعالیٰ کا دیدار کریں گے، جس کی حقیقت و کیفیت اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالی ہر قسم کے نقص وعیب،کمزوری ومحتاجی اور تمام لوازمات بشریہ مثلاً پیدا ہونا بیماری، صحت، بچپن، جوانی، بڑھاپا،نیند،اونگھ، تھکاوٹ اورنسیان وغیرہ سے پاک ہے۔ دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالی ہی نے ہرچیز کو وجود بخشا ہے اور ہرچیز کے خواص اور تاثیر کا بھی وہی خالق ہے،کوئی چیز ذاتی طور پر مؤثر،مفید یا نقصان دہ نہیں ،بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز میں مؤثر حقیقی ہے اور ہر چیز کا نفع و نقصان اسی کے قبضہ میں ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ ہی نے ہر چیز کو وجود بخشا ہے اور ہر چیز کے خواص اور تاثیر کا بھی وہی خالق ہے، کوئی چیز ذاتی طور پر مؤثر، مفید یا نقصاندہ نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز میں مؤثر حقیقی ہے اور ہر چیز کا نفع و نقصان اسی کے قبضہ میں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جو شخص اللہ تعالی کے وجود کا منکر ہے وہ بے دین اورکافر ہے اور اس جرم کی پاداش میں ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا

نام اور صفات کی ضرورت۔
کسی بھی ہستی یا چیز کا ایک نام ہوتا ہے، اور اس کی چند صفات ہوتی ہیں، نام سے وہ ہستی جانی جاتی ہے اور دوسروں سے ممتاز ہوجاتی ہے، اور صفات سے اس کا تعارف حاصل ہوتا ہے۔
نام کے بغیر کسی ہستی یا کسی چیز کو آپ دوسروں سے ممتاز نہیں کر سکتے، ایک چیز یا ہستی کو دوسری چیزوں یا ہستیوں سے ممتاز کرنے کےلئے اس کا نام ضروری ہے، اس اعتبار سے ’’اللہ ‘‘باری تعالیٰ کا ذاتی نام ہے، جب یہ نام بولا جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات دوسرے موجودات سے ممتاز ہو کر سمجھ میں آجاتی ہے کہ اس سے کون مراد لیا جا رہا ہے۔
اللہ تعالی کےصفاتی نام احادیث مبارکہ میں ننانوے (۹۹) بتلائے گئے ہیں جو کہ مشہور و معروف ہیں، یہ ننانوے نام اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کمالیہ کی بنیاد اور اصل ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف یہی ننانوے نام ہیں ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے اور نام نہیں ہیں؛ بلکہ ان کے علاوہ اور بھی بے شمار نام ہیں جن میں سے بعض قرآن و حدیث میں ذکر فرمائے گئے ہیں، مثلاً ذو الفضل، ذی المعارج، ذی الطول، ملیک، اکرم، رفیع، قاہر، شاکر، دائم، وتر، فاطر وغیرہ۔
اللہ کے کلمات کی کوئی انتہا٫ نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:إن لله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدا من أحصاها دخل الجنة (صحیح بخاری، باب إن لله مائة اسم إلا واحدا، کتاب التوحید) اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان پر کاربند ہوجائے یعنی ان کے مطابق علم و عمل بنائے وہ گویا جنت میں داخل ہو گیا۔اس حدیث کے ظاہر متن سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ کے نام اور صفات بس ۹۹ ہی ہیں، کیونکہ افعال اور صفات باری تعالیٰ کی کوئی انتہا نہیں ہے، اس لئے ان کا احصاء و شمار محال اور نا ممکن ہے، بندہ کی یہ طاقت نہیں ہے کہ وہ تمام صفات و افعالِ باری تعالی کا احاطہ کرلے، اسی لئے باری تعالیٰ نے اپنے کلام میں واضح طور پر فرمادیا: قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَاتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَاتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (کہف:۱۰۹) اسی طرح قرآن مجید میں اس حقیقت کاذکر ایک اور جگہ اس انداز سے فرمایاگیا ہے: وَلَوْ أَنَّمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ أَقْلَامٌ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ مَا نَفِدَتْ كَلِمَاتُ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (لقمان:۲۷)
البتہ اﷲ تعالی نے اپنا اس حد تک تعارف جس کا تحمل اس کے بندے بآسانی کرسکتے ہیں ، اور وہ ان کی لازمی ضرورت بھی ہے اپنے کلام میں تفصیل کے ساتھ کرایا ہے۔ اور اپنے اسماء و صفات کو کھول کھول کر بیان فرمایا ہے ، اور اگر یہ کہا جائے کہ کُل قرآن تعارفِ اِلٰہ اور تعارفِ توحید پر ہی مشتمل ہے تو قطعاً مبالغہ نہیں ہوگا ، قرآن میں یا تو یہ ہے کہ اﷲ کیا ہے(اسماء و صفات)یا اس بات کا ذکر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کیاکرتے ہیں(ربوبیت)، یا اس بات کا ذکر ہے کہ اﷲ کیا چاہتے ہیں(توحید قصد و طلب /الوہیت)، یا پھر اس بات کا ذکر ہے کہ خالق و مالک اور رب ذو الجلا ل کے ماننےوالے کون ہیں اور ان کی جزاء کیا ہے، یا اس بات کا ذکر ہے کہ ُاس سے انحراف اور اعراض کرنے والے کون ہیں اور ان کی سزاکیا ہے۔
پھر اللہ کے بہت سے نام صرف اللہ کے علم میں ہیں:اہل سنت و الجماعت اللہ تبارک و تعالیٰ کے ان تمام اسما٫ و صفات پر تفصیلی ایمان لاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اور اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں، اور ان ناموں اور صفات پر بھی اس طرح اجمالی ایمان لاتے ہیں جو اللہ نے اپنے علم غیب میں رکھے ہیں کہ وہ ہیں۔
۹۹ ناموں کی تعداد صرف اسماء حسنی سے متعلق ہے، معلوم صفات بھی جن سے اسماء بنے ہوئے نہیں وہ بھی کسی تعداد میں محصور و محدود نہیں ہیں، بلکہ ان کو قرآن و سنت میں دی گئی تفصیلات میں گننا بھی ممکن نہیں ہے۔
حدیث پاک میں ما ئۃ الا واحدۃ کا مطلب کیا ہے؟
علماء اہل سنت و الجماعت نے اس بارے میں متفقہ طور پر کہا ہے کہ حدیث میں اس عدد کے ذکر سے یہ بیان کرنا مقصد نہیں ہے کہ اسماء الہٰی کی تعداد کیا ہے ، کہ ان ۹۹کے علاوہ اﷲ کے اسماء ہیں ہی نہیں ،بلکہ اصل مقصود ان اسماء کی فضیلت بیان کرنا ہے، کہ جو شخص ان ۹۹اسماء کو یاد کرکے، ان کے مطابق اپنا ایمان اور عمل بنائے تو یہ تعداد بھی اﷲ کے تعارف کےلئے بہت ہے اور ان کے ذریعہ اﷲ کی بابت بننے والا صحیح ایمان اور صحیح عقیدہ مکلف کی نجات اور دخول جنت کےلئے کفایت کرجائے گا، وہ تمام اسماء الہٰی جن کو ہمارے سامنے ذکر نہیں کیا گیا ہے ان کا احاطہ ضروری نہیں ہے۔
اس بات کی تائید کہ اسماء حسنٰی اس تعداد میں محصور نہیں ہیں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں انھوں نے آپ ﷺکی ایک دعا نقل فرمائی ہے، جس میں ایسے اسماء کا ذکر بھی ہے جو بندوں کو بتلائے بھی نہیں گئے آپ ﷺنے ایک مرتبہ دعاء کرتے ہوئے فرمایا :أسألک بکل اسم ھو لک سمیت بہ نفسک ، أو أنزلتہ فی کتابک أو علّمتہ أحدا من خلقک، أو استأثرت بہ فی علم الغیب عندک۔ (ائے اﷲمیں آپ سے آپ کے ہر اس نام کے واسطے سے دعاء کرتا ہوں جو آپ نے اپنے لئے بیان کیا ہے، یا اپنی کتاب میں اس کو نازل کیا ہے، یا اپنی مخلوقات میں سے کسی کو سکھلایا ہے، یا آپ نے اس کو اپنے علم غیب میں ہی رکھا ہے )امام احمد نے مسند میں اس روایت کی تخریج کی ہے، اور ابن حبان نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے، اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض اسماء ایسے بھی ہیں کہ اﷲ نے اپنی کسی مصلحت و حکمت سے بندوں کو ان کا علم نہیں دیا ہے۔اسی طرح کی ایک دعا ء امام مالک نے کعب أحبار سے بھی نقل کی ہے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اسماء الہٰی ۹۹عدد میں محصور نہیں ہیں، حاصل یہ کہ جس حدیث میں ۹۹کا ذکر ہے ، اس میں اسماء حسنٰی کی تعداد بتلانا غرض نہیں ہے بلکہ خاص ۹۹اسماء کی فضیلت بتلانا مقصود ہے۔وہ دعا جو امام مالک نے نقل کی ہے وہ یہ ہے:و أسألک بأسمائک الحسنٰی ما علمتُ منھا و ما لا أعلم۔ (ائے اﷲ میں آپ کے اسماء حسنیٰ جن کو میں جانتا ہوں اور جن کو میں نہیں جانتا ان کے واسطہ سے مانگتا ہوں)طبری نے بھی اس کو قتادہ سے نقل کیا ہے۔اور حضرت عائشہ سے بھی ثابت ہے کہ اسی طرح کی دعا ء وہ آپ ﷺکی موجودگی میں کیا کرتی تھیں (بیہقی: ص۱۲۔۱۴)
اسما٫ حُسنیٰ کی تعیین:
اللہ تعالیٰ کے اسما٫ حسنی قرآن و حدیث میں بیان کئے گئے ہیں۔ لیکن کسی ایک ہی جگہ یا ایک ہی حدیث میں یہ پورے ۹۹ نام گنوائے گئے ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں تفصیل ہے:اوپر مذکور حدیث ہی سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں منقول ہے جس میں یہ ۹۹ نام موجود ہیں۔
اس کے بارے میں چند محققین کی رائے یہ ہے کہ یہ ۹۹ نام نبی ﷺ کے گنائے ہوئے نہیں ہیں، بلکہ آپ کے ارشاد پر راویوں کی جانب سے قرآن سے نکالے ہوئے ہیں، اور حدیث میں ان کا اِدْراج ہوا ہے، جس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ سنن ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں بیان کئے ہوئے اوپر مذکورہ بالا اسما٫ اور ان کی ترتیب میں فرق ہے، نیز ان میں کئی ایسے اسماء ہیں جو قرآن و حدیث میں اسم کی شکل میں وارد نہیں ہوئے ہیں، بلکہ انہیں صفات فعلیہ سے اخذ کرکے اسم بنایا گیا ہے، جیسے المعز المذل (یہ تعز من تشاءو تذل من تشاء سے مأخوذ ہیں)، اسی طرح الباسط اور القابض ( یقبض و یبصط سے مأخوذ ہیں)، اور المبدیٔ اور المعید ہے ( یہ إنہ ھو یبدیٔ و یعید سے مأخوذ ہیں)وغیرہ۔
یہ بات متفق علیہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ۹۹ نام قرآن میں ہیں، حافظ ابن حجر عسقلانی نے محققین کی قرآن سے ان ناموں کے استخراج کے بارے میں غیر معمولی تحقیق پیش کی ہے اور اخیر میں قرآن سے نکالے ہوئے ان اسما٫ و صفات کو ذکر کیا ہے۔
مخلوقات کے بس میں نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ہستی کے بارے میں خود سے کوئی صفات بیان کریں، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف خود کرایا ہے۔
صفات باری تعالیٰ تک انسانی گمان خود سے نہیں جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ کا تعارف اس کی صفات سے ہی حاصل ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کی ہستی کا ادراک کہ اللہ تعالیٰ کیسے ہیں بندہ کا ذہن و خیال اس تک نہیں جا سکتا، محققین نے اسی کے بارے میں کہا ہے:لَا تَبْلُغُهُ الْأَوْهَامُ، وَلَا تُدْرِكُهُ الْأَفْهَامُ: یعنی نہ وہم و گمان ان کی حقیقت تک جا سکتا ہے، اور نہ ہمارا ناقص فہم ان کا پوری طرح سے ادراک کرسکتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ نبی ﷺ اپنی دعاؤں میں کہا کرتے تھے:لا أحصي ثناء عليك أنت كما أثنيت على نفسك ۔ اور باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:وَلاَ يُحِيطُونَ بِهِ عِلْمًا۔ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: وَمَا أُوتِيتُم مِّن الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً۔ اللہ تعالیٰ کا اسم ذات یعنی ’’اللہ‘‘ اس معنی کر بھی ہے کہ :وہ ہستی جس کی کنہ کا ادارک ممکن نہیں ہے اس کو اللہ کہتے ہیں، اس کا ذکر ہم آگے اسم ذات یعنی اللہ کے تحت مستقل بھی کریں گے۔دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ نے خود اپنے لئے جو اسماء و صفات بیان کئے ہیں ان کو ماننا ہے اور جن صفات سے خود کو منزہ بیان کیا ہے اس سے اللہ کو منزہ ماننا ہے۔تشریح
اسماء و صفات الہٰی میں فرق۔ اللہ کے اسماء اس کی صفات پر بنے ہوئے نام ہیں، مثلاً اللہ کی ایک صفت علم ہے، جو آیت :يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرۃ :۲۵۵)۔ میں بیان کی گئی ہے، اس صفت کا اظہار مثلاً : اللہ کے اسم ’’العلیم‘‘ میں کیا گیا ہے۔ اسی طرح اللہ کی ایک صفت رزق دینا ہے، جو آیت :اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (الشوری:۱۹) ۔ میں بیان ہوئی ہے، اس صفت کا اظہار مثلاً اللہ کے نام ’’الرزاق‘‘ میں ہوا ہے۔إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ (الذاریات:۵۸)۔
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات وہ ہیں جن سے بنے ہوئے اسماء اللہ تعالیٰ کےلئے قرآن و سنت میں وارد ہوئے ہیں، اور بعض وہ صفات ہیں جو صفت کے طور پر تو اللہ کےلئے استعمال ہوئے ہیں لیکن ان سے بنا ہوا کوئی اسم اللہ کے لئے استعمال نہیں ہوا ہے، مثلاً ارادہ اور مشیت اللہ کی صفات ہیں، صنعت اللہ کی صفت ہے، اسی طرح محض ’’مقابلہ ‘‘ میں مکر اور خداع بھی اللہ کے صفات فعلی میں استعمال ہوئے ہیں لیکن ان سے بنے اسماء اللہ کےلئے قرآن و سنت میں کہیں استعمال نہیں ہوئے۔
اب اس کا حکم یہ ہے کہ قرآن و سنت نے جو ثابت کیا ہے وہ اللہ کےلئے ثابت ہے، اور قرآن و سنت نے اللہ کےلئے جو ثابت نہیں کیا ہے وہ ثابت نہیں ہے، اس لحاظ سے جن صفات پر کوئی نام اللہ کےلئے قرآن و سنت میں آیا ہے وہ اللہ کے اسماء حسنی کا حصہ ہے، اور جن صفات سے کوئی اسم اللہ کےلئے استعمال نہیں ہوا ہے اس میں محض صفت ثابت ہے ان کےلئے کوئی اسم اپنی طرف سے نہیں بنایا جائے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ کی کوئی صفت بیان نہیں کر سکتے، اس کی ثناء کےلئے خود اس کے دئیے ہوئے علم کی پابندی ضروری ہے۔تشریح
اسماء و صفات باری تعالیٰ کےلئے ہمیں اللہ کی تعلیمات تک اس لئے محدود رہنا ہے کیونکہ اس معاملہ میں انسان و مخلوقات کا ذہن بالکل ناقص ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لئے ایسے اسماء و صفات بیان کرنا جو خود اللہ اور اس کے رسول سے منقول نہیں ہیں یہ الحاد ہے۔
اسماءو صفات باری تعالیٰ توقیفی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی انہیں صفات کا اثبات کیا جائے گا جن کو قرآن و سنت نے بیان کیا ہے، اور ان صفات کی نفی کی جائے گی جن کی قرآن و سنت میں نفی کی گئی ہے، اور ان باتوں کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے گا جن کے بارے میں قرآن و سنت نے سکوت اختیار کیا ہے۔
کیونکہ قرآن و سنت کی تنبیہ ہے کہ بندے اللہ کی صفات اوراس کے نام خود سے وضع نہیں کر سکتے ، اگر وہ ایسا کریں گے تو اس میں صرف غلطی نہیں کریں گے بلکہ اللہ کی شان میں گستاخی کے مرتکب بھی ہو سکتے ہیں، جیسا کہ دنیا کی دیگر مشرک اقوام نے اس راستہ میں ٹھوکر کھائی ہے اور حق سے بہت دور جا پڑے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کے اسما٫ و صفات کے بارے میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ اس کے متعلق جتنا سکھایا گیا ہے اسی کے دائرہ میں رہیں، یہ توقیفی معاملہ ہیں۔
توقیفی امر کے معنی : امر توقیفی اس بات کو کہتے ہیں کہ: اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ایک بات مقرر کردی گئی، اور ساتھ ہی یہ بھی طے ہے کہ اس میں بندے اپنی جانب سے کوئی حک و اضافہ اور کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔چنانچہ بندے اللہ تعالیٰ کا جتنا تعارف سمجھ سکتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام میں اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیم میں دے دیا ہےبندوں کو اسی کا پابند رہنا ہے۔
اسماء و صفات کے باب میں اجتہاد و قیاس آرائی کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔اس باب میں قیاس آرائی انسان کو یقینی طور پر حق سے گمراہ کردیتی ہے، باری تعالی کا ارشاد ہے : وَلِلَّهِ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِينَ يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَائِهِ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الاعراف: ۱۸۰) -باری تعالی کے ناموں کے ساتھ الحاد کی تفسیر میں مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ اﷲ کے ایسے نام بتانا جو خود اﷲ سے ثابت نہیں ہیں۔
صفات باری تعالیٰ کو توقیفی کیوں رکھا گیا؟
اس معاملہ کو توقیفی اس لئے رکھا گیا ہے کیونکہ کسی بھی شے یا ہستی کا خود سے تعارف وہی دے سکتا ہے جو اس سے پوری طرح واقفیت رکھتا ہو، اور جس کو مکمل تعارف نہ ہو اس سے غلطی بھی ہوسکتی ہے۔
پھر انسان کی عقل ناقص اور اس کی ما فی الضمیر کی ادائیگی میں نقص بھی اس میں رکاوٹ ہے ، اس لئے بھی کہا گیا کہ :اللہ تعالیٰ نے خود اپنی صفات اور اپنا تعارف پیغمبروں کے ذریعہ دے دیاہے، اب اس میں کسی بھی دخل اندازی کی ممانعت ہے۔
اسماء باری تعالیٰ میں الحاد۔ اللہ کے ناموں میں کسی بھی قسم کا تصرف کرنا یہ الحاد ہے، مثلاً اللہ کے ناموں کو بدل دینا جیسے، اللہ سے اس کی مؤنث ’’لات‘‘ بنانا، یا العزیز سے ’’عُزی‘‘ بنانا، اور منان سے ’’مناۃ ‘‘بنانا، یہ اسماء باری تعالیٰ میں الحاد کرنا ہے اور ممنوع ہے۔
اسی طرح اللہ کے نام و صفات میں اپنی عقل سے کچھ اضافہ کرنا یہی تشبیہ ہے، کیونکہ بندہ اضافہ وہی کر سکتا ہے جو وہ سوچ سکتا ہے اور وہ اسی دائرہ میں سوچتا ہے جتنا اس کا مَبْلغِ علم ہے، اس کا مَبْلغِ علم مخلوقات کا دائرہ ہے، اب وہ جو بھی اضافہ کرے گا اسی سے اضافہ کرے گا، اور اس میں وہ لازما اللہ کو مخلوقات کے مشابہ کردے گا، مثلاً اللہ کو باپ ماننا جیسے نصاری نے کیا ہے، یا اللہ کا جسم ماننا جیسے عام طور پر مشرکین کرتے ہیں، آیت کی رو سے یہ سب الحاد میں شامل ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا کوئی ایسا نام بنانا یا کوئی ایسی صفت بیان کرنا جو خود اللہ تعالیٰ اور پیغمبر ﷺ کی تعلیمات میں نہیں ہے یہ کفر اور شرک ہے۔
اور اللہ کی ثابت صفات میں کمی کردینا بھی الحاد ہے، اس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے کہ یہ تعطیل ہے۔
صفات باری تعالیٰ میں الحاد کا نتیجہ:
اسما٫ و صفات باری تعالیٰ کو وضع کرنے میں دخل اندازی نہ کرنے کی اس تنبیہ کو اس اعتبار سے بآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ بندے جب پیغمبرانہ تعلیمات کی پرواہ نہ کرکے اپنے خالق و مالک اور اس کی صفات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں تو اس کے وقار ،تقدیس اور سبحانیت کو پیش نظر رکھ ہی نہیں سکتے، اور اس کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں جس سے بجائے خالق و پروردگار کی تعریف ہونے کے الٹا توہین لازم آتی ہے، مثلاً انسانوں نے خالق و مالک کی قدرت اور انعامات کو بیان کرنا چاہا تو اس کی ایک خیالی مورت بنا کر اس کو کئی سَر دئے دئیے، اور اس کا خود ساختہ جسم بنا کر اس کو کئی ہاتھ دے دئیے، اور اِن ہاتھوں میں پتہ نہیں کیا کچھ تھما دیا، اور اُن کے ساتھ خود ساختہ فلسفے جوڑ دئیے۔ قہاریت و جباریت کے اظہار کےلئے بھیانک چہرے بنا دئیے، جانوروں کی تصویر کو خدا کی تصویر بتلایا، اور کہیں جانوروں کو اس کی سواری بنایا، دنیا کی کوئی بھی قوم جو صفات باری تعالیٰ کے بیان میں پیغمبروں کی تعلیمات تک پابند نہیں رہی ،ان میں سے ہر ایک ایسی کسی نہ کسی بے راہ روی کا شکار رہی ہے۔
اس بارے میں انسانی ذہن کی اُپَچ کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے، کہ ہندو ’’گنیش‘‘کی تصویر سال بسال بناتے رہتے ہیں، اور ہر سال اپنے ذہن سے اسکی قدرت کےاظہار کےلئے جو تنوع اختیار کرتے ہیں وہ انسانی ذہن کے نقص اور دیوالیہ پن کو ظاہر کرنے کےلئے نہایت عبرت انگیز ہے، سر گنیش کا رکھتے ہوئے وہ کہیں اس کا دھڑ رام کا بناتے ہیں، تو کہیں کرشن کا، اور کہیں شیو کا ،تو کہیں کسی پہلوان کے کسرتی بدن پر اس کا سر جوڑ دیتے ہیں، اور اس سے انسان سمجھتا ہے کہ اس نے خدا کی طاقت کا اظہار کردیا، انسانی ذہن کی یہی سب کچھ کارستانیاں اور محدودیت ہوتی ہے، ہر مشرک قوم میں یہ بے ہودگیاں پائی جاتی ہیں، جو خالق کائنات کی تقدیس و سبحانیت کے بالکل برخلاف اور اہانت آمیز طریقہ ہے، اس لئے انسان کو اس بات سے منع کیا گیا کہ وہ صفات باری تعالیٰ کا بیان اس کی تقدیس اور سبحانیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہیں کر سکتا ، بس وہ اسی دائرہ میں محدود رہے جو پیغمبروں کی تعلیمات میں کھینچ دیا گیا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کےلئے اسماء و صفات کسی بھی شے کے مثل یا مشابہ نہیں ہیں۔تشریح
تمثیل و تشبیہ۔ اللہ تعالیٰ کی صفات ثابت ہیں لیکن اسی طرح جیسا کہ خود اللہ نے اپنے کلام میں بیان کیا ہے، اور پیغمبر ﷺ نے اللہ کے دئے ہوئے علم کے مطابق ان کی تشریح کی ہے، اثبات صفات میں اللہ اور اس کے رسول کی بیان کردہ انہیں حدود میں رہنا ہے، جیسا کہ اوپر بیان ہوا، لیکن انسانی ذہن صفات کے بارے میں کئی اعتبارات سے غلطی کرتا ہے، صفات کو ثابت کرنے میں قرآن نے ایک اور تنبیہ یہ کی ہے کہ : ’’اللہ کی صفات ثابت ہیں، لیکن اس کا مثل کوئی نہیں ہے‘‘۔
اللہ تعالیٰ کے جیسا کوئی نہیں ہے، نہ ذات میں نہ صفات میں اور نہ ہی افعال میں، چنانچہ اللہ تعالیٰ کی جو خصوصیات ہیں مخلوقات میں کسی کو اس سے متصف نہیں کیا جا سکتا، اور نہ ہی اللہ کی صفات میں سے کسی شے میں مخلوقات اس کے مثل ہوسکتی ہیں، اللہ بندوں جیسا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے ارشادہے : لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۔جو لوگ غیر اللہ میں سے کسی کو اللہ کا مثل اور اس کے مشابہ قرار دیتے ہیں اس میں ان پر صاف طور پر رد کردیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کے بعض ناموں کے بارے میں عام انسان کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ شائد یہ صفات اللہ میں بندوں جیسی ہے، یا بندوں میں اس جیسی صفات اللہ کے مثل ہیں، لیکن اس طرح کا عقیدہ رکھنا کفر ہے، اللہ کی صفات میں سے ایک صفت خود یہ ہے کہ وہ سب سے جدا ہے، اور اس جیسا کوئی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ اس سے بہت بلند و برتر ہے کہ کوئی اللہ کے مثل ہو، اللہ تعالیٰ اپنی ذات و صفات اور حقوق میں سب سے یکتا ہے۔
صفات میں یہ بہت اہتمام سے جاننا ہے کہ: جس نے ’’اللہ‘‘ کو مخلوق کے مشابہ کردیا اس نے کفر کیا ہے،اور جس نے ’’مخلوق‘‘ کو اللہ کے مشابہ کردیا اس نے بھی کفر کیا ہے، کیونکہ باری تعالیٰ کے مثل کوئی نہیں ہے۔
ہم اہل سنت و الجماعت باری تعالیٰ کی صفات میں تعطل اور تشبیہ دونوں سے گریز کرتے ہیں۔ صفات بھی مانتے ہیں اور مثلیت کا بھی انکار کرتے ہیں۔
تعطیل اور تمثیل و تشبیہ سے اجتناب۔ ہم اللہ تعالیٰ کی صفات کے معاملہ میں تعطیل سے بھی بچتے ہیں، یعنی صفات کا انکار نہیں کرتے، اور تمثیل اور تشبیہ سے بھی بچتے ہیں، اور اللہ کی صفات کو بندوں کی صفات جیسا قرار نہیں دیتے، اور کیفیت سے بھی بچتے ہیں، یعنی جن صفات کی کیفیات کو اپنی جانب سے بیان کرنے میں بظاہر تمثیل اور تشبیہ لازم آتی ہے ان کی کیفیت کو اللہ کے حوالہ کرتے ہیں کہ وہ ان کی حقیقت جانتا ہے، باقی چونکہ اللہ نے ان کو بیان کیا ہے اس لئے ان کو ویسے ہی حقیقی مانتے ہیں جیسا کہ اللہ نے بیان کیا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
حیات اللہ کی صفت ذات ہے اور الحیی اللہ کا صفاتی نام ہے۔ باقی دوسروں میں حیات، اللہ کی جانب سے عطاء کی ہوئی ہے۔تشریح
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے لئے صفت قدرت بھی ثابت ہے کہ وہ ذات قادر مطلق ہے، کوئی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں، وہ ہر چیز پر قادر ہے ۔تشریح
قدرت اللہ کی صفتِ ذاتی ہے، اور اس صفت سے اللہ کا اسم القدیر ، القادر، المقتدر وغیرہ ہیں، اللہ تعالیٰ کو ہر چیز پر مکمل قدرت حاصل ہے، کوئی شے اس کو عاجز نہیں کر سکتی، وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، جو چاہتا ہے تخلیق کرتا ہے، اور سبھی کی تدبیر وہی کرتا ہے، کائنات کی تمام عظیم اور حیرت انگیز مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم‘‘کن’’ سے پیدا کیا، اور وہی اس کائنات کی تدبیر کررہا ہے، ہر کوئی اس کے آگے مقہور ہے، کوئی اس کے حکم سے باہر نہیں ہے، آسمان و زمین ، سورج و چاند ، خلاؤں میں بکھرے ہوئے سیارے، فضائیں اور سمندر، پہاڑ و دریا چرند و پرند سب اللہ کے حکم کے تابع فرمان اور مسخر ہیں، کوئی مخلوق اس حد سے آگے نہیں بڑھ سکتی جس میں اللہ نے اس کو رکھا ہے ۔اللہ تعالیٰ کی صفت قدرت کو ظاہر کرنے والی قرآن و حدیث میں اور کئی اسماء و صفت استعمال ہوئے ہیں، مثلاً:القیوم اللہ کی اسم و صفت قدرت ہے، اسی طرح القوی، القھار، القاھر، عزت دینا اور ذلت دینا اور ہر طرح کے خیر و شرکا تنہاء مالک ہونا، العزیز، الجبار، المتکبر، ذو القوۃ المتین وغیرہ سبھی اللہ کے اسماءو صفات قدرت ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ اپنی صفت قدرت میں کامل ہیں۔تشریح
اللہ کی قدرت میں کمال ہے کوئی نقص و عیب نہیں ہے، وہ سوتا اونگھتا یا تھکتا نہیں ہے، اس کو کوئی عاجز نہیں کر سکتا، سب اس کے تدبیر کے محتاج ہیں اور ان کی تدبیر و انتظام اس کو تھکاتی نہیں ہے، اس پر کوئی غالب نہیں آسکتا ، سب اس کے آگے مسخر اور مقہور ہیں ، اور اللہ کی صفت قدرت کی مظہر ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بندے اپنے افعال کو انجام دینے میں اللہ کی قدرت و مشیت کے محتاج ہیں۔تشریح
افعالِ عباد ’اللہ کی قدرت میں شامل ہیں۔ بندے جو کچھ کرتے ہیں اللہ ان کو پہلے سے جانتا ہے، اور ان کے ارتکاب کا جب بندے ارادہ کرتے ہیں تو ان کے وجود میں آنے کےلئے خود اللہ کی مشیت ضروری ہے، بندوں کی مشیت پر اللہ کی مشیت سے اجازت مل جائے تو وہ اس کو کر سکتے ہیں ورنہ اللہ کی مشیت نہ ہو تو وہ کچھ نہیں کر سکتے، اس لحاظ سے افعال عباد بھی اللہ کی قدرت کے تحت ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مخلوقات میں صفت قدرت اللہ کی عطاء سے ہے، اور اتنی ہی ہے جتنی کے اللہ نے دی ہے۔تشریح
غیر اللہ میں سے کسی میں صفت قدرت اس معنی میں ماننا جس معنی میں اللہ اور اس کے رسول نے ثابت مانی ہے شرک نہیں ہے، مثلاً یہ ماننا کہ : کسی مخلوق میں صفت قدرت ہے لیکن اللہ کی عطاء سے ہے، محدود ہے، اور حادث ہے یہ شرک نہیں ہے، ان شرائط کے ساتھ کسی میں قدرت کا کتنا ہی اونچا درجہ مانا جائے وہ شرک نہیں ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مخلوقات کے لئے ہر قسم کا نفع و نقصان اللہ کے ارادہ و مشیت کے تابع ہے۔تشریح
ہر قسم کا نفع و نقصان اللہ کے ارادہ اور مشیت کے تابع ہے، دنیا میں کسی چیز کا حاصل ہونا یا کسی چیز سے محروم ہونا انسان کی اپنی محنت و عقل سے جڑی ہوئی نہیں بلکہ اللہ کے ارادہ کے تحت ہے، اللہ جس کو چاہے نفع دے جس کو چاہے نقصان پہنچائے، بغیر اللہ کے ارادہ کے کوئی شے کسی کو نہیں ملتی، اور بغیر اللہ کے ارادہ کے کوئی کسی شے سے محروم نہیں ہوتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مخلوق کی زندگی اور موت، صحت و بیماری، اچھائی اور برائی سب اسی کے قبضہ میں ہے۔ تشریح
مخلوق کی زندگی اور موت، صحت و بیماری، اچھائی اور برائی سب اسی کے قبضہ میں ہے، وہ جب تک چاہتا ہے مخلوق کو زندہ رکھتا ہے اور جب چاہتا ہے اس کو موت دے دیتا ہے، اسی طرح جب تک چاہے گا کائنات کو باقی رکھے گا اور جب چاہے گا اس کو فناء کرکے قیامت برپا کردے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے لئے صفت ارادہ بھی ثابت ہے، یعنی اپنے ارادہ و اختیار سے جو چاہتا ہے کرتا ہے، جس کو چاہتا ہے وجود بخشتا ہے اور جس کو چاہتا ہے معدوم کردیتا ہے، اس نے ازل میں ارادہ کیا تھا اسی کے مطابق ہورہا ہے اور ہمیشہ ہمیشہ اسی کے مطابق ہوتا رہے گا، وہ جس کا ارادہ کرتا ہے وہ ہوکر ہی رہتا ہے، کوئی چیز بھی اس کے ارادہ و اختیار سے باہر نہیں۔تشریح
ارادہ اللہ کی صفت ذات ہے، لیکن اس صفت سے اللہ کےلئے کوئی‘‘اسم’’ قرآن وحدیث میں استعمال نہیں ہوا ہے، اس لئے اس صفت سے اللہ کےلئے کوئی ‘‘اسم’’ہمیں اپنی جانب سے بنانا جائز نہیں ہے، ہاں ’’ارادہ ‘‘اللہ کی صفت کے طور پر قرآن و حدیث میں بے شمار جگہوں پر آیا ہے، تکوین، تخلیق ، تقدیر اور ربوبیت کا ہر کام اللہ کے ارادہ سے جڑا ہوا ہے، کائنات میں جو کچھ ہو رہا ہے اللہ کے ارادہ سے ہور ہا ہے، اللہ جو چاہتا ہے وہی ہوتا ہے وہ نہ چاہے تو کچھ نہیں ہوتا۔
کوئی شے اللہ کےارادہ کے بغیر نافذ ہی نہیں ہوتی۔ کائنات اللہ کی مملکت ہے، یہاں کوئی شے اللہ کے ارادہ اور اس کی مشیت کے بغیر پوری نہیں ہوتی، کوئی چیز اس کے ارادہ کے بغیر وجود میں نہیں آتی ، کوئی چیز اللہ کے ارادہ کے بغیر پیدا نہیں ہوتی، حتی کے بندوں کے اعمال بھی پورا ہونے کےلئے ضروری ہے کہ اللہ ان کے پورا ہونے کا ارادہ فرمائے، اور ان کو پورا ہونے کا موقع دے، ارادہ میں اللہ کا کمال یہی ہے کہ ہر چیز اللہ کے ارادہ کے بعد ہی پوری ہو ، اس اعتبار سے اللہ کے ارادہ کی اقسام ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اشیاء و افعال کے وجود میں آنے اور پیدا ہونے کےلئے اللہ کا ارادہ و مشیت ضروری ہے۔تشریح
کافر کا عمل کفر اور فاسق کا عمل فسق بھی وجود میں آنے کےلئے اللہ کی اجازت کا محتاج ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ امتحان و ابتلاء کے پورا ہونے کےلئے ہر شخص کے عمل کے پورا ہونے کا اپنی مشیت سے حکم دیتے ہیں تبھی وہ وجود میں آتا ہے۔
ارادہ کی اقسام۔ اللہ تعالیٰ کا ارادہ دو طرح کا ہے(۱) ارادۂ کونی (۲) ارادۂ شرعی
(۱)ارادۂ کونی، خلقی و قدری:
اللہ تعالیٰ کا ایک ارادہ وہ ہے جو اس نے اس کائنات کو بنانے ، تخلیق کرنے، مخلوقات کی تقدیر بنانےکےلئے کیا ہے، اس کو ’’ارادہ کونی/ یا ارادہ تکوینی‘‘ کہتے ہیں، اور اسی معنی میں لفظ ’’مشیت‘‘ بھی استعمال ہوتا ہے، کسی بھی چیز کا وجود اللہ کے ارادہ کے بغیر نہیں ہوتا، یہ اللہ کی مملکت ہے یہاں ہر چیز وجود میں آنے کےلئے اللہ کی مشیت اور اس کے ارادہ کی تابع ہے۔
جس طرح ہر حرکت و سکون اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت کے تابع ہیں، اسی طرح بندوں کے افعال و اعمال بھی اللہ تعالیٰ کے ارادہ و مشیت سے پورے ہوتے ہیں، بندوں کو چاہنے اور اعمال کا اختیار دیا گیا ہے لیکن ان کی چاہت اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک کہ اللہ اپنی مملکت میں ان کی چاہت کے پوری ہونے کا ارادہ نہ کرے۔
ایمان ، کفر ، عمل صالح اور سیئات سب کے پورا ہونے کے لئے اللہ تعالیٰ کےارادہ کونی کی ضرورت ہے، یعنی اللہ کی مملکت میں کسی بھی شخص کا ارادہ اس وقت تک پورا نہیں ہوتا جب تک کہ خود اللہ کی مشیت اس کے ساتھ نہ جڑ جائے۔
(۲) ارادہ ٔشرعی:
مؤمن کے ایمان اور کافر کے کفر کا ارادہ دونوں کےپورا ہونے کےلئے یہ ضرروی ہے کہ اللہ کا ارادہ بھی اس کو قبول کرے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ایمان و کفر دونوں اللہ کی نگاہ میں برابر ہیں، بلکہ اللہ ایمان کو پسند کرتا ہے، اور اس سے راضی ہوتا ہے، اور اس معنی کر ایمان اور عمل صالح کے پورا ہونے کےلئے اللہ کا ارادہ ’’ارادۂ شرعی‘‘ ہے، اور کافر کے کفر کےلئے اللہ تعالیٰ کا ’’ارادہ تکوینی‘‘ہوتا ہے، کہ کافر کے ارادہ کے مطابق اس کی خواہش کو پورا کیا جائے تاکہ بندوں کا امتحان پورا ہو۔ بند
عقیدہ:
نیک اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور بُرا اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے۔تشریح
نیک اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور بُرا اللہ تعالیٰ سے دور ہوتا ہے، یہ قریبی اوردوری مسافت کے اعتبار سے نہیں بلکہ یہ قرب بھی بلا کیف ہے اور یہ بُعد بھی بلا کیف ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مشیت و تقدیر کو اعمالِ سیئہ کےلئے ڈھال بنانا کفر ہے۔تشریح
اس سے یہ واضح ہوگیا کہ شر کی تکوین اللہ نے امتحان اور آزمائش کی غرض سے کی ہے، اگر خیر کے ساتھ شر کی تخلیق ہی نہیں ہوتی تو امتحان کیسے ہوتا ؟اس لحاظ سے شر کی تخلیق اور اس کا تکوینی ارادہ غلط نہیں ہے، ہاں شر کو اختیار کرنا اور اس کا ارتکاب کرنا غلط ہے، یعنی بندہ اللہ کی پیدا کردہ خیر اور شر کی اقسام میں سے کسی ایک قسم کو اپنے اختیار سے کرتا ہے، اگر وہ شر کو اختیار کرتا ہے تو اس کا شر کو اختیار کرنا غلط ہے، اگر وہ شر کو اختیار کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا کردیتا ہے، اس کو زبردستی روکتا نہیں ہے، تاکہ امتحان پورا ہو۔
اس اعتبار سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ شر کو اختیار کرررہا ہے تو یہ اللہ کا ارادہ ہے، کیونکہ یہ اللہ کا ارادہ شرعی نہیں بلکہ تکوینی ہے، یعنی اس کے علم میں گناہ ہور ہا ہے تو وہ اس کو پورا ہونے دے رہا ہے، زبردستی روک نہیں رہا ہے، کیونکہ اس کو امتحان پورا کرانا ہے، باقی بندہ جو کچھ کررہا ہے اپنے اختیار سے کررہا ہے، اس لئے معاصی اور ذنوب کےلئے مشیت الہٰی کو آڑ بنانا درست نہیں ہے، اور اپنے اختیار سے کرنے والے سیئات /گناہوں کے بارے میں یہ کہنا کہ اللہ نے چاہا ہے اس لئے وہ گناہ کا ارتکاب کررہا ہے ایسا کہنا کفر ہے، کیونکہ اللہ کا ارادہ تکوینی کسی کےلئے جبر کی راہ نہیں کھولتا، جبکہ اس کا ارادہ شرعی اس کو گناہ سے باز رہنے کو بھی کہہ رہا ہے۔ ہاں غیر اختیاری حالات اور مصائب کی نسبت اللہ کی مشیت طرف ہی کی جائے گی، کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں، اور یہی ایمان کا تقاضہ ہے۔
احکام شرعیہ میں اللہ کا ارادہ:
بندوں کو دیئے جانے والے احکام میں بھی اللہ کا ارادہ کارفرما ہوتا ہے، جو اللہ چاہے حکم دے سکتا ہے، اور دیتا ہے، کوئی بندہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا ارادہ اور اپنی خواہش کو لانے کا حق دار نہیں ہے، ہاں اللہ بندوں کو ہر طرح کے احکام میں تخفیف ہی کا ارادہ کرتا ہے، وہ ان کی طاقت سے زیادہ احکام کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ، وہ ان کے حق میں یسر ہی چاہتا ہے، عسر نہیں چاہتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ بذات خود قائم اور دوسروں کو تھامے ہوئے ہیں۔تشریح
قائم بنفسہ و مقیم لغیرہ۔ اللہ تعالیٰ خود سے قائم ہے، کوئی اس کو تھامے ہوئے نہیں ہے، اس کا وجود و حیات اور بقا٫ کسی اور کی مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کا وجود و بقا٫ ذاتی ہے، جبکہ اس کے علاوہ سب اس کے محتاج ہیں، اللہ کے عطا٫ سے موجود، اور اللہ کی مشیت سے قائم ہیں، وہی ان کو تھامے ہوئے ہے، اور کبھی ان سے غافل نہی ہوتا، اگر اللہ ان سے اپنی توجہ ہٹا لے تو کوئی شے باقی نہ رہے سب فنا ہوجائیں، اسی کی قدرت سے سب کچھ جاری ہے۔
آسمان و وزمین اپنی اپنی جگہ اللہ کی قدرت سے موجود ہیں، پانی سمندر تک اللہ کی قدرت سے محدود ہے، سورج اور چاند اللہ کی قدرت سے مسخر ہیں، پرندے فضا٫ میں اللہ کی قدرت سے پر پھیلائے اڑتے ہیں، رات اور دن اللہ کی قدرت سے بدلتے ہیں، سب کچھ اللہ کی قدرت کے تابع ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالی سمیع ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ کو صفت سمع بھی حاصل ہے، سمع کا معنیٰ ہے: سننا، یعنی اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کی ہر بات کو سنتا ہے، ایک کی بات سننے سے، اُسے دوسروں کیبات سننے میں رُکاوٹ نہیں ہوتی، وہ بیک وقت فرشتوں، انسانوں، جنوں، جانوروں، چرندوں و پرندوں، پانی میں مچھلیوں، کیڑے مکوڑوں اور ان کے علاوہ دیگر تمام مخلوقاتِ عالم کی تمام باتوں کو سنتا اور سمجھتا ہے، انسانوں اور دوسری مخلوق کی مختلف زبانوں سے اُسے کسی قسم کا کوئی اشتباہ نہیں ہوتا، اتنی زبردست قوتِ سماعت کے باوجود وہ کانوں سے پاک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ بصیر ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ کے لئے صفت بصر بھی ثابت ہے، بصر کا معنی ہے: دیکھنا، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو دیکھتا ہے، کوئی چیز روشنی میں ہو یا اندھیرے میں، نزدیک ہو یا دور، دن میں ہو یا رات میں، بڑی ہو یا چھوٹی، مخلوق کو نظر آئے یا نہ آئے، اللہ تعالیٰ سب کو ہر وقت یکساں طور پر دیکھتا ہے، کسی بھی وقت کوئی چیزاس سے چھپ نہیں سکتی، بایں ہمہ وہ مخلوق جیسی آنکھوں سے اور آنکھوں کی ہر قسم کی شکل و صورت سے پاک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ صفتِ علم کے ساتھ متصف ہے۔ تشریح
علم کے معنیٰ ہیں: جاننا، وہ تمام عالم کی ظاہر و پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے، اس سے کوئی چیز مخفی نہیں، اُسے ذرّے ذرّے کا علم ہے، ہر چیز کو اس کے وجود میں آنے سے پہلے بھی اور اس کے ختم ہونے کے بعد بھی جانتا ہے، انسان کے سینہ میں مخفی راز سے بخوبی آگاہ ہے، علم غیب خاص اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، لہٰذا جو کچھ ہوا، ہورہا ہے اور ہوگا اللہ تعالیٰ کو ان سب کا تفصیلی علم ہے۔
علمِ الہیٰ ۔ علم اللہ کی صفت بھی ہے اور اس صفت سے اللہ تعالیٰ کا نام العلیم بھی ہے، اللہ تعالیٰ کےلئے اضافت کی شکل میں عالم الغیب و الشھادۃ نام بھی قرآن میں وارد ہوا ہے، اسی طرح علیم بذات الصدور بھی قرآن میں اسم وارد ہوا ہے، اللہ تعالیٰ کی صفت علم کی جو تفصیلات قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہیں ان کا حاصل یہ ہے کہ:
اللہ تعالیٰ کا علم ذاتی ہے، اللہ تعالیٰ کا علم لا محدود ہے، اور اللہ تعالیٰ کا علم ازلی ہے، اللہ تعالیٰ کا علم تمام کلیات و جزئیات کو شامل ہے، اللہ نے اپنے علم کے مطابق مخلوقات کو پیدا کیا ہے، ان کو پیدا کرنے سے پہلے اس کو ان کا علم حاصل تھا، اور پیدا کرنے کے بعد مخلوقات کی ہر بڑی اور چھوٹی چیز اللہ کے علم میں ہے، کائنات میں ایک ذرہ کے برابر شے بھی اس کے علم سے باہر نہیں ہے، ایک درخت سے ایک پتہ بھی گرتا ہے تو وہ اللہ کے علم میں ہے۔جو کام اور باتیں لوگ علانیہ کرتے ہیں اللہ ان کو بھی جانتا ہے ، اور جو کام اور باتیں بندے چُھپ کر کرتے ہیں ان کو بھی اللہ جانتا ہے، بندہ جو بات زبان سے ظاہر کرتا ہے اللہ اس کو بھی جانتے ہیں اور جو بات دل میں چھپا رکھا ہے اس کو بھی جانتے ہیں۔
جو باتیں پیش آچکی ہیں اللہ ان کو بھی جانتے ہیں، اور جو باتیں پیش آنے والی ہیں اللہ کو ان کا بھی علم ہے، بندوں کے اعمال، بندوں کا سعادت یا شقاوت پر مرنا، ان کے حشر و نشر کے احوال، جنتیوں اور جہنمیوں کی تفصیل اور ابد الآباد تک کے معاملات سب اللہ کے علم کا حصہ ہیں۔قیامت کب واقع ہوگی، بیج بونے کے بعد کھیتی کیسے ہوگی، درخت سے پھل کیسے نکلیں گے، رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین شقی ہے یا سعید ہے، اور جنین زندہ پیدا ہوگا اور کب پیدا ہوگا یہ سب اللہ ہی جانتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سب کے احوال اور ان کے معاملات کے علم کا احاطہ رکھتے ہیں، اللہ کا علم سب کو محیط ہے، کوئی نہیں ہے جو اللہ کے علم کا احاطہ کر سکے، مخلوقات اور کوئی بھی بندہ اللہ کے علم سے صرف وہی معلوم کر سکتا ہے جو اللہ اسے بتلانا چاہیں، اللہ تعالیٰ جو نہ بتلانا چاہیں کوئی بندہ ، ولی نبی اس کو معلوم نہیں کر سکتے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
علمِ غیب کی صفت صرف اللہ کےلئے استعمال ہوتی ہے، اور عالم الغیب کا نام صرف اللہ کے لئے استعمال ہوتا ہے۔تشریح
عقیدہ:
اللہ کے علاوہ دوسروں کو غیب کی باتوں کا علم صرف اللہ سے ہو سکتا ہے۔تشریح
کیا اللہ کے علاوہ کسی کو غیب کی باتوں کا علم ہوتا ہے؟ جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے کہ: غیبی امور کا ایک حصہ وہ جن کو سوائے اللہ کے کوئی نہیں جانتا، دوسرے وہ امور ہیں جن کا علم اللہ نے کسی کو دیا ہے اور کسی کو نہیں دیا ہے۔مثلاً ’’فرشتے‘‘ عام انسانوں کے لئے عالَم غیب کا حصہ ہیں، جن پر ایمان لانا عام مؤمن کےلئے غیب پر ایمان لانا ہے، لیکن انہیں ’’فرشتوں‘‘ میں بعض انبیاء کے لئے عالَم غیب کا حصہ نہیں ہیں، مثلاً حضرت جبرئیل علیہ السلام وغیرہ ، بلکہ وہ انبیاء کے لئے مشہود تھے، اللہ تعالیٰ انہیں پیغام دے کر انبیاء و رسولوں کے پاس بھیجتے تھے، گویا انبیاء کو غیب کے اس حصہ کا علم دیا گیا تھا، ایسا ہی حال چند اور مغیبات کا ہے، جن کا علم اللہ نے اپنے بعض بندوں کو دیا ہے، کسی کو کم کسی کو زیادہ، لیکن اس کے باوجود مغیبات میں سے کسی کو کتنا ہی بڑا حصہ بتلایا گیاہو، اس کے بعد بھی علم کا ایک درجہ وہ ہے جو صرف اللہ کے پاس ہے، اس لحاظ سے مغیبات میں سے تعداد اور مقدار میں کتنی ہی باتیں کوئی جانتا ہو اس کا علم ’’جزئی‘‘ ہے، اور اس کے مقابلہ میں مغیبات کا اللہ کا علم ’’کلی‘‘ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ ہر طرح کا علم اللہ کا ہی عطا کردہ ہوتا ہے، کوئی خود سے غیب پر اللہ کی رضا و مشیت کے بغیر مطلع نہیں ہو سکتا، اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نبیوں اور فرشتوں میں سے جتنا چاہتا ہے غیب پر مطلع کرتا ہے، لیکن کسی کو کتنا ہی علم دے دیا جائے وہ اللہ کے علم کا احاطہ نہیں کر سکتا، اس کا علم بہر حال اللہ کے علم کے مقابلہ میں محدود ہی ہوگا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مخلوقات میں غیبیات کا سب سے زیادہ علم صرف سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا ہے،اس کے باوجود آپ ﷺ کو عالم الغیب نہیں کہا جا سکتا، عالم الغیب صرف اللہ کا نام ہے۔تشریح
مخلوقات میں مغیبات کا سب سے زیادہ علم سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کو دیا گیا ہے۔ جس طرح انبیاء میں سب سے افضل نبی اور تمام رسولوں کے سردار ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ ہیں اسی طرح اللہ کی جانب سے آپ ہی کو مغیبات کا سب سے زیادہ علم دیا گیا ہے، آپ نے خود فرمایا : مجھ کو اولین و آخرین کا علم دیا گیا ہے۔
آپ ﷺکو وقتاً فوقتاً آپ کے زمانہ میں پیش آنے والے واقعات بتلادئیے گئے، مثلاً بنی ہاشم سے مقاطعہ کا مکہ والوں کا معاہدہ جس کے بارے میں آپ ﷺ نے پیش گوئی فرمائی کہ اس کی عبارت کو دیمک نے کھالیا ہے، اور صرف اللہ کا نام باقی رہ گیا ہے، آپ کی یہ بات بالکل صحیح ثابت ہوئی، یہ مغیبات کا حصہ تھا۔
آپ کو آسمانوں کی سیر کرائی گئی، اور اہل سموت کا آپ نے مشاہدہ کیا، آپ کو جنت و جہنم کا مشاہدہ کرایا گیا، آپ سدرۃ المنتہی سے آگے تشریف لے گئے ، جس کے آگے کے امور حضرت جبرئیل علیہ السلام کےلئے مغیبات میں سے ہیں ان امور کو آپ کےلئے مشہود بنایا گیا، جن تک آپ کے علاوہ کسی اور نبی و رسول کی بھی رسائی نہیں ہوئی۔
ہجرت سے قبل ہی آپ کو قیصر روم کی ایران کے مقابلہ میں فتح کی خبر دی گئی اور اس خبر میں مضمر فتح مکہ کا علم آپ کو دے دیا گیا ، خندق کی کھدائی کے موقع پر ایران اور روم کے علاقوں کا اسلام و مسلمانوں کے زیر نگین آنا آپ کو بتلادیا گیا، جس کی آپ نے پیشین گوئی کی اور وہ صحیح ثابت ہوئیں، یہ آپ کی پیش گوئی کے وقت مغیبات کا حصہ تھا۔
آپ ﷺ نے اپنے وصال کے بعد فتنوں کے رو نما ہونے کی پیش گوئی کی، وہ ایسے ہی برحق ثابت ہوئی یہ پیش گوئی کے وقت مغیبات کا حصہ تھا۔ آپ نے حضرت عمر و حضرت عثمان کی شہادت کی پیش گوئی کی اور وہ صحیح ثابت ہوئی، پیش گوئی کے وقت یہ باتیں مغیبات کا حصہ تھیں۔
قیامت تک پیش آنے والے کتنے ہی واقعات کی آپ نے پیشین گوئی فرمائی ہے، جن میں سے کئی پیش آچکے ہیں، آپ کی پیش گوئی کے وقت وہ واقعات مغیبات کا حصہ تھے، اور کتنے ہی ہیں جنہیں ابھی پیش آنا ہے، وہ ابھی بھی ہمارے لئے مغیبات میں سے ہیں لیکن آپ ﷺ کو ان کا علم پہلے ہی دے دیا گیا تھا۔
قیامت کے احوال ، ما بعد الموت احوال، حشر و نشر کے ہولناک احوال میں سے بہت ساری باتوں کا آپ کو علم دیا گیا تھا، آپ نے فرمایا کہ اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور اکثر روتے رہتے، یہ سب عالم غیب کے امور کا علم تھا جو آپ کے لئے غیب نہیں رہا تھا، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کا علم دے دیا تھا۔
مغیبات کے ا س علم میں آپ تمام مخلوقات میں سب سے ممتاز ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو تمام مخلوقات، انبیاء و رسول سب سے لائق اور فائق تر ہیں۔
کیا آپ ﷺ پر عالم الغیب کا اطلاق درست ہے؟ قرآن و حدیث میں عالم الغیب کا طلاق صرف اللہ کےلئے ہوا ہے، باوجود یہ کہ رسول اللہ ﷺ کو مغیبات میں سے ایک بہت بڑے حصہ کا علم دیا گیا ہے لیکن عالم الغیب کا نام آپ ﷺ کو نہیں دیا گیا ہے، کیونکہ یہ نام اس ہستی کے لئے ہے جس سے کچھ بھی چھپا ہوا اور پوشیدہ نہیں ہےیعنی اللہ تبارک و تعالیٰ، باوجود یہ کہ آپ ﷺکو مخلوقات میں مغیبات پر سب سے زیادہ مطلع کیا گیا تھا لیکن علم الہیٰ کے مقابلہ میں آپ کا علمِ مغیبات جزئی اور عطائی ہی ہے، جبکہ اللہ رب العزت کا علم مغیبات کلی اور ذاتی ہے، جن میں سے ہر جزئیہ رسول اللہ ﷺ کے علم میں نہیں تھا اور نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن میں آپ سے علم غیب کی نفی کی گئی ہے، جیسا اوپر آیت مبارکہ گذری کہ آپ نے فرمایا: ۔ اسی طرح خود آپ کا ارشاد ہے کہ:۔ حشر کے میدان میں شفاعت کبری کے موقع پر جب آپ اللہ کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوں گے، اللہ تعالیٰ آپ کے قلب مبارک پر اپنے ایسے ناموں کا القاء فرمائے گا کہ اس سے پہلے آپ ان کو نہ جانتے ہوں، آپ ان کے ذریعہ اللہ سے دعاء مانگیں گے اور اللہ آپ کی شفاعت کو قبو ل فرمائیں گے۔اس لحاظ سے آپ ﷺ کےلئے ’’عالم الغیب‘‘ نام کا استعمال درست نہیں ہے۔
کیا آپ ﷺ کو عالم الغیب کہنا شرک ہے؟
اگرکوئی آپ ﷺ کے علم کو عطائی، اور اللہ کے علم کے مقابلہ میں محدود مانتا ہے، لیکن ساتھ ہی مغیبات کے عطائی علم کی بنیاد پر عالم الغیب کہتا ہے تو اس کا آپ کو عالم الغیب کہنا درست نہیں ہے (کیونکہ عالم الغیب کی اصطلاح صرف اللہ کےلئے روا ہے)لیکن یہ شرک بھی نہیں ہے، کیونکہ وہ آپ کے علم کو اللہ کا عطائی اور اللہ کے علم کے مقابلہ میں محدود مانتا ہے۔
اور اگر کوئی آپ کو عالم الغیب اس معنی کر مانتا ہے کہ آپ کا علم عطائی تو ہے لیکن محدود نہیں ہے، اور کہتا ہے کہ آپ کا علم ہر جزئیہ کو اس طرح شامل ہے جس طرح اللہ کا علم ہے تو اس معنی کر آپ کو عالم الغیب کہنا بلا شبہ شرک ہے، کیونکہ علم کے لا محدود ہونے کی یہ صفت صرف اللہ کی ہے، اس کی نسبت اللہ کے علاوہ کسی اور کی جانب کرنا یقیناً شرک ہے، جس سے خود آپ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عقیدہ : اللہ تعالیٰ صفتِ کلام سے متصف ہیں۔تشریح
کلام کے معنیٰ ہیں: بولنا اور باتیں کرنا، یعنی اللہ تعالیٰ متکلم ہیں، کلام کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے جب تک حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام نہیں کیا، اس وقت بھی اللہ تعالیٰ متکلم تھے، قرآن کریم سارے کا سارا اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، اصل کلام وہ ہوتا ہے جو دل میں ہو، اس کو کلام نفسی کہا جاتا ہے، جب اس کو الفاظ کے قالب میں ڈھالتے ہیں تو وہ کلام لفظی بن جاتا ہے، کلام کے لئے حروف اور کلمات ضروری نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ قرآن کریم کو حروف اور کلمات کے ساتھ آراستہ کرکے نازل کیا ہے تاکہ بندے اس کو پڑھ سکیں اور سن سکیں، اللہ تعالیٰ کلام کے لئے زبان کے محتاج نہیں ہیں اور نہ ہی ان کی مخلوق جیسی زبان ہے، وہ زبان سے پاک ذات ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عالم ارواح میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے کلام فرمایا ہے۔ تشریح
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کی صلب سے ان کی تمام ذریت کو ارواح کی شکل میں نکال کر ان سے کلام فرمایا، اور دنیا میں ان وک بھیجنے سے قبل ان سے اپنی ربوبیت کا عہد لیا، جہاں تمام بنی نوع آدم نے اللہ کی ربویت کا اقرار کیاہے، کل کو قیامت کے دن بندے اگر شرک میں مبتلا ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اس عہد کی بنیاد پر بھی ان سے مؤاخذہ فرمائیں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
آسمان والوں سے اللہ تعالیٰ کلام فرماتے ہیں۔تشریح
جب اللہ تعالیٰ جب وحی کا ارادہ فرماتے ہیں تو وحی کے ذریعہ کلام فرماتے ہیں ، اور جب اللہ تعالیٰ کلام فرماتے ہیں تب تمام آسمانوں پر خوف سے ایک لرزہ طاری ہو جاتا ہے، اور وہ کانپنے لگتے ہیں، اورآسمان والے جب اس وحی کو سنتے ہیں تو ان پر اس کی گرج کی وجہ سے غشی طاری ہو جاتی ہے، اور وہ سب سجدہ میں گر پڑتے ہیں، اس کے اثر سے باہر نکلنے والے سب سے پہلے حضرت جبرئیل ہوتے ہیں، وہ اپنا سر اٹھاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان سے جو چاہتا ہے کلام فرماتا ہے، حضرت جبرئیل سے اس وحی کو لے کر جب کسی آسمان سے گذرتے ہیں وہ پوچھتے ہیں کہ اللہ نے کیا فرمایا ہے؟ حضرت حبرئیل جواب میں فرماتے ہیں: قال الحق وهو العلي الكبير، اللہ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ حق ہے، اور وہ بہت بلند و برتر ہے، جواب میں آسمان والے بھی وہی کہتے ہیں جو حضرت جبرئیل نے فرمایا ہے، اور حضرت جبرئیل اللہ کی وحی وہاں پہنچاتے ہیں جس کا انہیں حکم ہوا ہے۔

امر و نہیِ الہٰی۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو امر و نہی کرتا ہے، اور انہیں موعظت کرتا ہے، انہیں اچھائی ، امانتوں کی ادائیگی اور عدل و احسان کا حکم دیتا ، اور فواحش اور منکرات سے روکتا ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اوامر و نواہی اور موعظت اپنے کلام /اور وحی کے ذریعہ سے کرتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
روز محشر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے کلام فرمائیں گے۔تشریح
قیامت کے دن حشر کے میدان میں اللہ پاک اپنے بندوں سے کلام فرمائیں گے، انبیا٫ و رسولوں سے خطاب فرمائیں گے، فرشتوں سے خطاب فرمائیں گے، بعض بندے وہ بھی ہوں گے جن کے برے کرتوتوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نہ ان کی جانب نظر رحمت فرمائیں گے اور نہ ہی ان سے کلام فرمائیں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ اہل جنت سے کلام فرمائیں گے۔تشریح
اہل جنت جب جنت میں داخل ہوجائیں گے اور انہیں وہاں ہر طرح کا عیش و آرام اور جنت کی نعمتیں میسر ہوں گی، اللہ تعالیٰ جنتیوں سے خطاب کریں گے، اہل جنت لبیک و سعدیک و الخیر فی یدیک کہہ کر اللہ کے خطاب کی جانب متوجہ ہوں گے، جو کچھ تمہیں ملا ہے، اللہ تعالیٰ ان سے پوچھے گا : جو کچھ تمہیں ملا ہے کیا تم اس سے راضی اور خوش ہو، جنتی کہیں گے : ائے اللہ !ہم کیوں خوش نہیں ہوں گے، ہمیں تو وہ نعمتیں ملی ہیں جو کسی مخلوق کو نہیں ملیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے میں اس سے بھی زیادہ بڑی نعمت اور افضل شے تمہیں دوں گا۔ جنتی کہیں گے : ائے اللہ ! اس سے زیادہ افضل شے اور کیا ہوگی؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: میں تمہیں اپنی ایسی رضا سے نواز رہا ہوں کہ اس کے بعد میں کبھی تم سے ناراض نہیں ہوں گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ جہنم سے خطاب فرمائیں گے۔ جہنمی بھی اللہ تعالیٰ سے فریادیں کریں گے، لیکن انہیں دھتکار دیا جائے گا۔تشریح
جہنمیوں کو جہنم میں داخل کرایا جائے گا، جب بھی کوئی نئی قوم اس میں داخل ہوگی، اور جب بھی جہنم میں کوئی نیا گروہ داخل ہوگا وہ پہلے والوں کے بارے میں اللہ سے خطاب کرکے کہے گا، ائے ہمارے رب! انہوں نے ہی ہمیں گمراہ کیا تھا انہیں دوہرا عذاب دیجئے، اللہ تعالیٰ جواب میں فرمائیں گے: ہر ایک لئے دوگنا عذاب ہے۔
اور جب سب جہنمی جہنم میں چلیں جائیں گے ، اللہ تعالیٰ جہنم سے خطاب کرکے کہیں گے: کیا تو بھر گئی، جہنم جواب میں کہیں گی، اور لاؤ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی صفاتِ ذاتیہ کی طرح صفاتِ فعلیہ بھی ہیں، یہ صفات اللہ کے کاموں کو ظاہر کرتی ہیںتشریح
و ہ اسماء و صفات جو باری تعالی کے افعال پر دلالت کریں، یہ صفات بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت و علم اور اس کی مشیت و ارادہ متعلق ہیں ، یعنی اللہ کی وہ صفات جو اللہ کے کاموں کو ظاہر کرتی ہیں۔مثلاً: پیدا کرنا(الخالق)،رزق دینا(الرازق)، زندگی دینا(المحیی)، مارنا(الممیت) ، نفع پہنچانا(النافع )،کسی مصلحت سے نقصان پہنچانا، عزت دینا،کمزورکرنا، بلند مرتبہ کرنا، انحطاط دینا ہر طرح کی تدبیر و تصرف کرنا، تقدیر بنانا اور فیصلے کرنا وغیرہ، ان تمام صفات کے معانی کو شامل ایک عمومی صفت ’’الرب‘‘ (یعنی پرورش کرنا) ہے۔
اللہ تعالیٰ کا اسم اور صفت ’’الرب‘‘ دیگر تمام اسماء و صفات میں ایک خاص اہمیت کا حامل ہے، اضافت کے ساتھ یہ صفت اسم ذات کی جگہ بھی استعمال ہوتی ہے، جبکہ دوسری صفات قرآن مجید میں اس طرح استعمال نہیں ہوئی ہیں مثلاً :۔ قرآن مجید میں صفت رب اسم ذات یعنی اللہ کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہونے والی صفت ہے ،اور اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کرنے کےلئے اسم ذات کے علاوہ اسی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔
بندوں کی ضروریات کی تکمیل کے جتنے پہلو ہیں سب ربوبیت کا حصہ ہیں، اس کائنات کو پیدا کرنا، اور زندگی اور اس کی بقاء کے کل اسباب کو یہاں مہیا کرنا، سورج چاند سیاروں کی پیدائش، زمین کو ذی حیات مخلوقات کےلئے موزوں بنانا، فضاء میں سورج کی تمازت سے حفاظت کا خول بنانا، چاند کو موسموں میں تبدیلی کا ذریعہ بنانا، زمین میں خشکی سمندر، ندیاں پہاڑ، جنگل و صحراء بنانا، دن و رات کا نظام بنانا ، بارش برسانا، موسموں کی تبدیلی رکھنا، کھیتیاں اور باغات بنانا، فضاؤوں کو بنانا اور ہواؤں کو چلانا، سرد ی و گرمی کےذریعہ کھیتیوں اور باغات کو پکانا، طرح طرح کے اناج اگانا، انواع و اقسام کے پھل پھول پیدا کرنا، جانوروں اور چرند و پرند کو پیدا کرنا، زندگی دینا، موت دینا، صحت دینا، کسی مصلحت سے بیماری دینا، رزق دینا ،اپنی مصلحتوں سے رزق میں کشادگی دینا یا تنگی کرنا، اولاد دینا، نرینہ یا غیر نرینہ اولاد دینا ، ، سورج سے روشنی دینا، معاش کا نظام چلانا، رات سے تاریکی لانا، آرام کا نظم بنانا، نیند کو تھکن ختم کرنے کا ذریعہ بنانا، مخلوقات کو جوڑوں کی شکل میں بنانا، کنبے بنانا، شوہر اور بیوی سے ایک دوسرے کو سکون دینا، اولاد سے خوشیاں دینا، ماں باپ کی شفت و محبت دینا ، جانوروں کو انسانوں کےتابع بنانا اور فائدہ اٹھانے کا اور غذا کا ذریعہ بنانا، ، یہ سب امور اسی صفت ربوبیت کا ظہور ہیں۔
صفت ربوبیت میں جس طرح مادی اور جسمانی ضروریات کی تکمیل شامل ہیں اسی طرح مخلوقات کی باطنی اور روحانی ضروریات کی تکمیل بھی اللہ کی اسی صفت سے جڑی ہے، چنانچہ ہدایت دینا، انبیاء و رسل کو بھیجنا، کتابوں کو ناز ل کرنا، نفس لوامہ کو ہر ایک ساتھ لگانا، عقل و فہم کی صلاحیتیں دینا ، اور توفیق اعمال دینایہ سب بھی اللہ کی ربوبیت میں ہی شامل ہے۔پروردگار عالم نے ہی فواحش ،اثم اور بغی کو حرام قرار دیا ہے، کیونکہ پروردگار ہی ہے جو اپنے پروَردَوں کو ان کو نقصان پہنچانے والی چیزوں سے باز رکھنا چاہتا ہے، اور اسی نے انصاف، فرماں برداری اور اخلاق کی تعلیم دی ہے کیونکہ پرورش کرنے والا ہی اپنے پروَردَوں کو ان کو فائدہ پہنچانے والی چیزوں کی تعلیم دیتا ہے، یعنی اللہ بندو ں کی ظاہری و باطنی جسمانی و روحانی ہر اعتبار سے پرورش کررہا ہے، اور بڑے ناز و نعم میں پال رہا ہے۔
ربوبیت الہٰی ،افعال باری تعالیٰ اور صفات فعلیہ بہت ہی وسیع موضوع ہے، صفت ربوبیت یک گونہ توحید فی الاسماء و الصفات کا حصہ بھی ہے اور ساتھ ہی عقائد کا مستقل عنوان بھی ہے، اس لئے ربوبیت کو مستقل ’’توحید فی الربوبیۃ‘‘ کے عنوان سے بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی صفات ذاتیہ اور صفات فعلیہ ہمیشہ سے اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔تشریح
امہاتُ الصفات اور صفاتِ فعلی کا حکم۔ امہات الصفات اور صفات فعلی دونوں ہی صفات اللہ تعالیٰ کے ساتھ ازل سے متعلق ہیں، اور ہمیشہ ہمیشہ متعلق رہیں گی، اللہ کی کوئی صفت ایسی نہیں ہےجو پہلے نہ تھی اور اب ہوگئی ہو، اللہ تعالیٰ کی ہر صفت ازلی و ابدی ہے، ہاں صفات فعلیہ کا ظہور اپنے وقت پر یعنی فعل کے موقع پر ہوتا ہے، لیکن وہ صفت اللہ کے ساتھ ازل سے ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات فعلیہ ہیں، جن میں سے چند کوآگے عقائد میں ملاحظہ فرما سکتے ہیں بند
عقیدہ:
تدبیر امور اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے، ہر چیز کی تدبیر اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں، جس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔تشریح
تدبیر ِکائنات ۔ کائنات کو جس طرح اللہ نے پیدا کیا ہے اسی کے ساتھ یہاں کے سارے نظام کی تدبیر اللہ تعالیٰ ہی فرما رہے ہیں، ہر چیز اللہ کی ملکیت ہے اور اللہ تعالیٰ ہی پورے نظام کو اللہ تھامے ہوئے ہے، وہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرکے الگ ہو کر نہیں بیٹھ گیا ہے بلکہ آسمانوں اور زمین پر اسی کی باداشاہت ہے ، اس کی کرسی آسمانوں اور زمین کو چھائی ہوئی ہے، کوئی شے اس کی اختیار اور قدرت سے باہر نہیں ہے، آسمانوں اور زمین میں سای کی قدرت چلتی ہے،ہر چیز اس کےسامنے ہے، اور ہر چیز اس کے علم میں ہے، وہ مستقل اور مسلسل اپنے بندوں کی نگہبانی کررہا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ہر چیز اللہ کی تدبیر سے اپنے دائرہ و حد میں ہے، کوئی شے خواہ کتنی ہی بڑی ہو اللہ کی تدبیر سے خارج نہیں ہے۔تشریح
عقیدہ:
تمام مظاہر فطرت اللہ کی تدبیر کامل کی مظہر ہیں۔تشریح
مظاہر فطرت اللہ کی تدبیر کا اظہار ہیں۔ مخلوقات کو زندگی دینے کے بعد وہی ان کی پرورش کا سامان کررہا ہے، سمندروں سے پانی وہی اٹھاتا ہے، بادل وہی لاتا ہے، بارش وہی برساتا ہے، وہی پانی کو زمین میں محفوظ کرتا ہے، وہی دانے کو پھاڑتا ہے ، اور وہی درخت اور کھیتیاں اگاتا ہے، مخلوقات کی ضرورت کے لحاظ سے اسی نے اناج اور پھل پھول پیدا کرنے کا یہ سارا تدبیری نظام جاری کیا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تمام مخلوقات اللہ کی تدبیر سے ہی انسانوں کےلئے مسخر کی گئی ہیں۔تشریح
انسانوں کےلئے مخلوقات کا مسخر ہونا اللہ کی تدبیر کا حصہ ہے۔ اللہ کی ہی تدبیر و انتظام کا حصہ ہے کہ اس نے خشکی اور سمندر اور فضاء کو اپنی مخلوقات کے لئے مسخر کیا ہے، زمین میں چلنے پھرنے کے راستے اسی نے بنائے ہیں، وہی ہے جو ستاروں کے ذریعہ راستوں کی رہنمائی کرتا ہے، وہی ہے جس نے سمندر کو سفر کےلئے مسخر کیا ہے، اور سمندر میں کسی طوفان سے بچانے کی قوت اسی کے ہاتھ ہے، وہی ہے جو فضاء میں پرندوں کو تھامے ہوئے ہے، اس نے یہ سارا نظام اپنی مخلوقات کے فائدہ اور ان کی زندگی کی بقاء کے لئے جاری کیا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
زمین میں انسانی تخلیق و پرورش اللہ کی تدبیر کی محتاج ہے۔تشریح
تخلیق انسانی میں اللہ کی تدبیر۔ سب سے پہلے انسان کو مٹی سے اسی نے پیدا کیا ہے، اس کے بعد ان کی زندگی کا سلسلہ اسی کے انتظام و تدبیر سے جاری ہے، اسی نے انسانوں کو جوڑوں کی شکل میں بنایا، اور ان سے ان کی نسل کو جاری کیا، ایک انسان سے دوسرا اور پھر ان سے ان کی نسل اسی کی تدبیر سے جاری ہے، اسی نے گندے پانی کے نطفہ میں یہ صلاحیت رکھی کہ وہ جنین بن سکے، وہی نطفہ کو علقہ اور پھر مضغہ بناتا ہے، پھر وہی اس کو ہڈیوں میں بدلتا ہے، اور وہی ان ہڈیوں پر گوشت چڑھاتا ہے، اور وہی مرد و عورت بناتا ، اور وہی ان کی تصویر کشی کرتا ہے، اور وہی ان کو سننے دیکھنے والا اور صاحب عقل بنا کر دنیا میں لاتا ہے، بچپنا جوانی اور بڑھاپا سب اسی کی تدبیر کا حصہ ہے، زندگی اور موت کا سلسلہ اسی کا جاری کیا ہوا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تدبیر امور کا اختیار کلی یا جزوی طور پر اللہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا ہے،ہر طرح کی تدبیر امور صرف اللہ کے ہاتھ ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ نے تدبیر یا تصرف کا کوئی اختیار کسی کے حوالہ نہیں کیا ہے ۔ تدبیر کا سارا نظام اللہ سے متعلق ہے، اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جو مخلوقات کی تدبیر کرتا ہو، یا تدبیر کے کسی شعبہ میں کوئی عمل دخل رکھتا ہو، اللہ نے کوئی تدبیر اور کوئی تصرف کا اختیار کسی کے حوالہ نہیں کیا ہے، اسی کے حکم سے اس کے فرشتے جو اللہ چاہتا ہے بس وہی کرتے ہیں، اپنے اختیار سے وہ کچھ نہیں کر سکتے، سب اللہ کے محتاج ہیں اور اللہ سب سے بے نیاز ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بندوں کو ہدایت دینا اللہ کی صفاتِ فعلیہ میں سے ہے، اور الھادی اللہ کا صفاتی نام ہے۔تشریح
ہدایت۔ ہدایت دینا اللہ کی صفت اور الھادی اللہ کا نام ہے، جس طرح اللہ مخلوقات کی ظاہری نعمتوں کو پورا کرتا ہے اسی طرح وہی مخلوقات کی باطنی نعمتوں کو بھی پورا کرتا ہے، باطنی نعمتوں میں سب سے اہم ہدایت ہے، مخلوقات میں سبھی کو اللہ نے ان کے کاموں کی ہدایت دی ہے، انسان جو اللہ کی مخلوقات میں سب اشرف اور کرامت والی مخلوق ہے اس کی ہدایت کا اللہ نے بہت ہی خاص اہتمام کیا ہے۔انسانوں میں اللہ کی اس صفت ہدایت کا ظہور کئی طرح سے ہوا ہے، انسان میں سلیم فطرت کو ودیعت کرکے انہیں تقوی اور فجور کا الہام کردینا یہ اللہ کی صفت ہدایت کا آغاز ہے، نفس لوّامہ کو ودیعت کرنا یہ بھی اللہ کی صفت ہدایت کا ظہور ہے، نیک اعمال کی توفیق ملتے رہنا یہ بھی اللہ کی صفت ہدایت کا ظہور ہے، ان کے علاوہ رسولوں کو مبعوث فرمانا، او رکتابوں کو نازل کرنا ، اور رسولوں کے پیروکاروں میں حق و انصاف کی تبلیغ کرنے والے نیکوکاروں کو ہر دور میں پیدا کرنا بھی اللہ کی اسی صفت ہدایت کا ظہور ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے زندگی کے بے شمار مرحلوں پر بندوں کی ہدایت کے لئے اجتماعی و انفردای مواقع رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بندوں کےلئے اصلاً ہدایت کو جاری کیا ہے، کوئی شخص ہدایت سے منہ موڑ کر گمراہی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زبردستی کسی کو ہدایت کے راستہ پر نہیں لگاتا۔تشریح
اللہ تعالیٰ کے ہدایت دینے یا ضلالت دینے کا مطلب۔
اللہ کے اختیار اور قدرت میں ہے کہ جس کو چاہے ہدایت دیں اور جس کو چاہیں گمراہ کردیں ، لیکن اللہ کی رحمت ہے کہ اس نے اپنے بندوں پر حق و باطل دونوں کو واضح کردیا ہے، اور بتلا دیا کہ حق کو اختیار کرنے والے کامیاب اور نا حق کو اختیار کرنے والے نا کام ہیں، پھر جو اپنے اختیار سے جس راستہ کو اپنا تا ہے اللہ تعالیٰ اس میں اپنے جبر کو شامل نہیں کرتے، ہاں جو حق کی راہ اختیار کرتا ہے اللہ اس کو ہدایت میں بڑھاوا دیتے ہیں، اور جو ناحق کو اختیار کرلیتا ہے اللہ اس کےلئے اسی کو آسان کردیتے ہیں، اللہ ظلم ، کفر اور فسق کا راستہ اختیار کرنے والوں کو جبر سے ہدایت نہیں دیتے ۔
جو شخص اپنے اختیار سے کسی راستہ کو اختیار کرلیتا ہے اللہ کے علاوہ کوئی بندہ اس کو اس راستہ سے ہٹا نہیں سکتا، جب کسی کے اپنے اختیار کردہ طریقہ سے ہدایت مقرر ہوگئی تو اس کو کوئی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جب کسی کے اپنے اختیار کردہ طریقہ سے اس کےلئے گمراہی مقدر ہو گئی تو کوئی اس کو ہدایت یاب نہیں کر سکتا، کوئی بندہ خواہ وہ کسی درجہ کا ہو کسی اور بندہ کو ہدایت نہیں دے سکتا ، ہدایت دینا صرف اللہ کی صفت اور اختیار ہے، ہاں بندے ذریعہ کی حد تک کام آ سکتے ہیں جس کی تفصیل ’’ایمان بالرسالۃ‘‘ کے عنوان کے تحت آئے گی۔
مکلفین کی ہدایت ان کی پیدائش سے جاری ہے، جب جب انسان کو اللہ کی ہدایت کی ضرورت رہی ہے اللہ نے انہیں ہدایت دی ہے، اور انہیں کفر و ضلالت کی گمراہیوں سے نکال کر ایمان و ہدایت کے نور تک لایا ہے، اور اس کے راستے اور اسباب بنائے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ غصہ بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی، مگر وہ مخلوق کی طرح تأثر سے پاک ہیں۔تشریح
اللہ تعالیٰ غصہ بھی ہوتے ہیں اور خوش بھی، مگر وہ مخلوق کی طرح تأثر سے پاک ہیں اور ان کا غضبناک ہونا بلا کیف ہے، مخلوق کے راضی اور خوش ہونے کی طرح نہیں، اس کی کوئی صفت مخلوق کی صفات کی طرح نہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ہر قسم کی نعمتیں اور ہر قسم کی تکلیفیں اسی کی طرف سے ہیں۔ دلائل
عقیدہ:
عدل اللہ کی صفت ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے تمام فیصلے اور کام بھلائی اور حکمت پر مبنی ہیں، اس کے کسی بھی فیصلہ میں ذرّہ برابر بھی ظلم یا ناانصافی نہیں ہوتیتشریح
عدل اللہ کی صفت ہے، اور العدل اللہ کا صفاتی نام ہے، یعنی انصاف کرنا اور جانبداری نہ کرنا، اللہ سے بڑھ کر انصاف کرنے والا کوئی نہیں۔
عدل یعنی انصاف کرنا اور جانب داری نہ کرنا، اللہ تعالیٰ بندوں کے حساب کتاب میں عادل اور انصاف کرنے والے ہیں، اگر کسی بندہ کو اللہ گمراہ کرتے ہیں، یا آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں تو وہ خود اس کے گمراہی کو اختیار کرنے والی وجہ سے ہوتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے راستوں کو سب کےلئے کھول دیا ہے، اللہ تعالیٰ کا کسی کو گمراہ کرنا یا آزمائش میں مبتلا کرنا یہ اللہ تعالیٰ کا عین عدل ہے سب اس کی ملکیت ہیں، اور اگر اللہ تعالیٰ کسی کو ہدایت دیتے ہیں اور اس کو عافیت میں رکھتے ہیں اور عفو سے کام لیتے ہیں تو یہ اللہ تعالیٰ کا اس کے ساتھ فضل کا معاملہ ہے۔
اللہ کے امر ،حکم ،اور قضاء ، سب اللہ کی صفات فعلیہ ہیں، یہ سب صفات قریب المعنی ہیں، اللہ تعالیٰ اپنے ان سب افعال میں بھی عدل سے کام لیتے ہیں، ان صفات میں سے صفت حکم سے اللہ کے اسماء الحکم، الحاکم اور احکم الحاکمین بھی ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مکلف بندوں کو اللہ تعالیٰ جو احکام دئیے ہیں اس میں اللہ نے پورے عدل سے کام لیا ہے، ان کی وسعت سے زیادہ کا انہیں مکلف نہیں بنایا۔تشریح
احکام کا مکلف بنانے میں عدل۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو کسی بات کا حکم دینے ، ان کےلئے کسی قانون کو بنانے، کسی چیز کو حلال یا حرام کرنے اور دنیا میں کسی بھی قسم کی عطاء میں عدل کرنے والے ہیں، اور اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو بھی اپنے فیصلوں میں عدل و قسط کا تاکیدی حکم فرمایا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اعمال کی جزاء و سزاء میں بھی اللہ تعالیٰ پورے عدل سے کام لیتے ہیں، اور کل قیامت کے دن بھی پورا پورا انصاف فرمائیں گے۔تشریح
کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا، کسی کا بوجھ کسی پر نہیں ڈالا جائے گا، مسلمین اور مجرمین ایک ہی زمرہ میں نہیں کھڑے کئے جائیں گے۔
اعمال کی جزا٫ و سزا٫ میں عدل۔
اسی طرح بندوں کے اعمال میں ان کو جزاء و سزاء دینے میں بھی اللہ عدل کرنے والے ہیں، قیامت حشر و نشر، حساب، میزان، جنت و جہنم سب اللہ کے صفت عدل کا ہی ظہور ہے ، جن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندو ں کے ساتھ پورا عدل و انصاف فرمائیں گے، برائی پر سزاء بندوں کی جانب سے برائی کے ارتکاب پر ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والے نہیں ہیں۔ اور نہ ہی کسی کا بوجھ کسی اور پر ڈالنے والے ہیں، اسی طرح مسلمین و مجرمین کو ایک ہی زمرہ میں نہیں کھڑا کیا جائے گا، اصحاب الیمین الگ ہوں گے اور اصحاب الشمال الگ ہوں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بندوں کے ساتھ پورا عدل کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو پورا حق ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہے فضل کا معاملہ کرے۔تشریح
عدل و فضل۔ عدل اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، صفت عدل کے ساتھ فضل کا معاملہ کرنا بھی اللہ کی ایک اور صفت ہے، اللہ نے جس کو جو کچھ دیا ہے وہ اللہ کی عدل ہے، کسی کو کچھ زیادہ دیا ہے تو وہ عدل کے خلاف نہیں بلکہ جس کو زائد دیا اس کے ساتھ اللہ کا فضل ہے۔ اسی طرح جب بندہ کوئی اچھا عمل کرتا ہے تو اچھا عمل کرنا اس کا فرض ہے کیونکہ یہ اس کے مالک کا حکم ہے، اگر اللہ اس کے فرض کی ادائیگی پر اس کو اچھا بدلہ دیتا ہے تو یہ اس کا فضل ہے، اللہ اس فضل کا پابند نہیں ہے، چاہے تو دے چاہے تو نہ دے چونکہ اس نے اپنی رحمت کو غالب رکھا ہے ، اس لئے وہ فضل کا ہی معاملہ کرتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بندہ برا عمل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ اس کو اس کی برائی کی سزاء دے، لیکن اگر وہ اپنے فضل کا معاملہ کرکے یہ چھوٹ دیتا ہے کہ برائی کے ارتکاب کے بعد کوئی توبہ کرلے تو وہ اس کو معاف کردے گا، اللہ تعالیٰ کی یہ چھوٹ اس کا فضل ہے، اور اللہ کو اس کا اختیار ہے، اللہ تعالیٰ کسی کو سزاء دینے کا پابند نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کی صفت عدل میں کسی کو شریک کرنا جائز نہیں ہے۔تشریح
اللہ کی صفات عدل و فضل میں کفر و شرک۔ اللہ کی صفات عدل و فضل کا انکار کفر ہے، اور ان صفات کو جن معنی میں یہ اللہ کے لئے استعمال ہوتی کسی او رکی جانب بالذات منسوب کرنا شرک ہے۔ بالذات منسوب کرنے کا مطلب یہ ہے کہ: اگر کوئی اللہ کے حکم کے تابع فرمان مان کر نبی علیہ السلام کو عادل مانے تو یہ شرک نہیں ہے، چنانچہ ایک موقعہ پر ایک شخص نے نبی ﷺ سے کہا کہ ائے محمد آپ عدل کا معاملہ فرمائیے، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں عدل نہ کرو ں تو پھر اور کون عدل کا معاملہ کرے گا۔ اسی طرح اولوا الامر میں سے کسی کو اس کی دین پسندی اور انصاف مزاجی کی وجہ سے عادل مانے تو یہ شرک نہیں ہے، کیونکہ یہ اس معنی میں نہیں ہوگا جس معنی میں ہم اللہ کی صفت عدل مانتے ہیں۔ اللہ کے علاوہ ہر کوئی محدودیت کی صفت سے متصف ہے، کامل عدل صرف اللہ کی صفت ہے، مثلاً کسی قاتل کو دنیا میں قتل میں قصاص کرنا یہ عدل کا تقاضہ ہے، نبی یا اولوا الامر اس تقاضہ کو حکم الہیٰ کے مطابق دنیا میں پورا کرسکتے ہیں، لیکن مثلاً اگر کوئی شخص ایک سے زائد جیسے تین یا تین سو یا تین ہزار قتل کا مرتکب ہوا ہو، تو اس ایک سے زائد قتل کی سزا٫ بھی اللہ کے علاوہ دوسرے صرف ایک ہی قصاص کی شکل میں دے سکتے ہیں، تین یا تین سو یا تین ہزار قصاص ایک ہی شخص سے نہیں لے سکتے، لیکن اللہ کامل عدل کرنے والا ہے، اور کل قیامت کے دن ہر ایسے شخص کے ساتھ کامل عدل کیا جائے گا، اور اس کے کئے کی مکمل جزا٫ و سزا٫ اللہ سے پائے گا، اس معنی میں اللہ تعالیٰ میں صفت عدل اس درجہ کامل و مکمل ہے، اور اس معنی میں صفت عدل غیر اللہ میں ماننا شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو پیدا کرتے ہیں اور وجود میں لاتے ہیں۔تشریح
اللہ تعالیٰ صفتِ خلق اور صفتِ تکوین کے ساتھ بھی موصوف ہیں، خلق کے معنیٰ پیدا کرنا اور تکوین کے معنیٰ وجود میں لانا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہر چیز کو پیدا کرتے ہیں اور وجود میں لاتے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ ہی نے بندوں کو بغیر کسی کی شرکت کے پیدا کیا ہے اور وہی ان کی پرورش کررہا ہے۔تشریح
توحیدِ رُبوبیت توحیدِ اُلوہیت کی بنیاد ہے۔ مخلوقات کو جتنے بھی منافع پہنچتے ہیں سب اللہ کے ذریعہ پہنچتے ہیں اور اللہ کے علاوہ کوئی اور نفع و نقصان کا مالک نہیں ہے، تخلیق، تدبیر، احیا٫ و اماتت ، رزق و عطا٫، غرض ربوبیت کے جملہ امور اللہ کے ہاتھ ہیں، اور یہی ربوبیت میں توحید اللہ کی الوہیت میں توحید کی بنیاد ہے، کہ جو رب ہے وہی الہ ہے، جو نفع و نقصان کا مالک ہے وہی معبود بنائے جانے اور صرف اسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کا وہ مستحق ہے۔ جس کے ہاتھ نفع و نقصان کا کوئی حصہ نہیں ہے اس کو الہ نہیں بنایا جا سکتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ بلا شرکتِ غیرے ہر چیز کا خالق و مالک ہے۔ دلائل
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر شے اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے۔تشریح
ہر چیز اللہ کی مخلوق ہے۔آسمان اور زمین، چاند و سورج، اور سیارے، دن اور رات، روشنی اور تاریکی، زندگی اور موت، فرشتے اور انسان ، جنات و حیوانات ، اور آسمانوں اور زمین اور ان کے درمیان میں موجود ہر چیز اللہ کی مخلوق ہیں، ان میں سے ہر چیز معدوم تھی اللہ کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہے۔
مادہ اللہ کی تخلیق ہےوہ ہمیشہ سے نہیں ہے، اللہ ہی نے مادّہ کو پیدا کیا ہے۔
یہ سوچنا کہ اللہ پیدا کئے بغیر بھی کوئی چیز پہلے سے تھی جیسا کہ مادہ کے بارے میں ہندوستانی اور یونانی فلاسفہ کی قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ بھی قدیم ہے یہ کفر یہ عقیدہ ہے، اسلامی عقیدہ یہ ہے کہ کوئی چیز نہیں تھی، ہر چیز اللہ کے پیدا کرنے سے وجود میں آئی ہے۔

خلق/الخالق۔ خلق (یعنی پیدا کرنا) اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، اور الخالق اللہ کا اسم ہے، صفت خلق ہی سے اللہ کا ایک اور اسم الخلّاق بھی ہے، اللہ کی صفت خلق (یعنی پیدا کرنے )میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ ہر شے اللہ کی مخلوق (پیدا کی ہوئی )اور اللہ ان کا خالق (پیدا کرنے والا)ہے، اللہ تعالیٰ جو چاہتے ہیں پیدا کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے تنہاء تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے، مخلوقات کی تخلیق اللہ تعالیٰ کو نہ تھکاتی ہے اور نہ ہی عاجز کر سکتی ہے۔
یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ عاجز بھی ہو سکتا ہے یا مخلوقات کی تخلیق سے تھک جاتا ہے اور اس کو آرام کی ضرورت ہے یہ سب کفریہ عقائد ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ جس طرح بندوں کے خالق ہیں اسی طرح ان کے افعال کے بھی خالق ہیں۔تشریح
اللہ تعالیٰ جس طرح بندوں کے خالق ہیں اسی طرح ان کے افعال کے بھی خالق ہیں، ان کی عادات، اخلاق اور صفات وغیرہ کے بھی اللہ تعالیٰ ہی خالق ہیں، بندوں کے افعالِ خیر (اچھے کاموں) اور افعالِ شر کے خالق ہونے کی نسبت کرنے سے اس کی ذات میں کوئی نقص یا عیب پیدا نہیں ہوتا، اس لئے کہ خلق بہر حال محمود ہی ہے خواہ خیر کا ہو یا شر کا، البتہ کسبِ خیر محمود ہے اور کسبِ شر مذموم ہے، اتنا ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ عملِ خیر اور کسبِ خیر سے راضی ہوتے ہیں اور عملِ شر اور کسبِ شر سے ناراض ہوتے ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بندوں کے افعال کے خالق بھی اللہ ہیں، ہاں بندے اپنے افعال کے کاسب ہیں۔تشریح
بندوں کے افعال کے خالق بھی اللہ ہی ہیں۔ بندوں کے اعمال و افعال بھی اللہ کے پیدا کردہ ہیں، مثلاًاطاعت (فرماں برداری)اللہ کی مخلوق ہے، اور معصیت (نافرمانی)بھی اللہ کی مخلوق ہے، اللہ کے پیدا کئے بغیر کوئی شے وجود میں نہیں آسکتی، ظلم کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے اور انصاف کو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے۔
افعال و اعمال کو پیدا کرکے اللہ تعالیٰ نے امتحان کی غرض سے بندوں کو قدرت دی کہ جس کو چاہے اختیار کریں، بندے کسی بھی صورت اور پہلو کو اختیار کرنے میں آزاد ہیں، لیکن حکم اطاعت ،اچھائی اور انصاف کواختیار کرنے کا دیا، اب بندے جس کو اختیار کریں گے اس کی بنیاد پر ان کو بدلہ ملے گا۔یعنی:
پہلا مرحلہ: تخلیق ہے، اللہ نے اطاعت اور نافرمانی دونوں کو پیدا کیا۔
دوسرا مرحلہ: بندوں کو امتحان کی غرض سے دونوں پر قدرت دے دی، کہ وہ جس کو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں۔
لیکن امتحان اس بات کا ہے کہ اچھائی کو اختیار کریں اور برائی سے بچیں۔
تیسرا مرحلہ: بندے کے اختیار اور کمائی کا ہے، کہ وہ جس کو اپنے اختیار سے کمائے گا، یعنی اچھائی یا برائی اس کی بنیاد پر اس کو بدلہ ملے گا۔
یہ خیال کہ افعال عباد کے خالق اللہ نہیں بلکہ خود بندے ہیں ، یعنی یہ ماننا ہے کہ اللہ کے ساتھ صفت خلق میں بندے بھی شریک ہیں خواہ اپنے افعال کی حد تک ہی کیوں نہ ہوں یہ شرکیہ عقیدہ ہے۔ بند
عقیدہ:
آسمان و زمین سے پہلے بھی اللہ نے بعض مخلوقات کو پیدا کیا ہے مثلاً قلم و لوح ۔تشریح
آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے کی مخلوقات۔ آسمان و زمین کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ نے دیگر مخلوقات کو بھی پیدا کیا ہے، جن میں عرش اور پانی شامل ہیں، اور سب سے پہلے اللہ نے قلم کو پیدا کیا، اور اس کو حکم دیا کہ جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کو لکھ دے، اور اللہ کے حکم اور ہدایت پر قلم نے سب کچھ لکھا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت کی مظہر ہیں، ہر مخلوق کو اللہ تعالیٰ نے ان کے مقصد تخلیق کے لحاظ سے ہر طرح باکمال پیدا کیا ہے۔ تشریح
تخلیق میں اللہ کا کمال۔ اللہ تعالیٰ اپنی ہر صفت و فعل میں باکمال ہے،اللہ تعالیٰ کی تمام مخلوقات اللہ کے علم و حکمت کی نشانیاں ہیں، مخلوقات کی تخلیق میں کہیں کوئی کمزوری اور نقص نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اوران میں گھوم رہے سیاروں کو بغیر کسی ستون کے قائم کیا ہے، تمام مخلوقات میں انسان جتنا غور و فکر کرے گا اس کے آگے اللہ کی صفت تخلیق میں کمال و عظمت ثابت ہوتی جائے گی ، اللہ کی مخلوقات میں کہیں کوئی رخنہ اور عیب نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوقات میں سب سے افضل مخلوق انسان کو بنایا ہے۔تشریح
تخلیقاتِ الہٰیہ میں بنی آدم کی فضیلت ۔ اس کائنات میں عظیم الشان اور محترم دونوں طرح کی مخلوقات ہیں لیکن ان سب میں سب سےقابل اکرام اور فضیلت والی مخلوق اللہ تعالیٰ نے انسان کو بنایا ہے۔ اور اسی طرح انسان کو اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم میں پیدا کیا ہے، اس سے زیادہ اچھی تقویم کسی اور مخلوق کی نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
تمام مخلوقات با مقصد پیدا کی گئی ہیں، اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی مہمل نہیں پیدا کیا ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ کی تخلیق بامقصد ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مخلوقات کو بامقصد پیدا کیا ہے، یہ عظیم الشان کائنات اور یہاں کی ایک ایک چیز ایک مقصد سے پیدا کی گئی ہے، یہ کوئی کھیل نہیں ہے، اس کی ایک ابتداء ہے اور ایک انتہاء ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کی ایک مدت متعین کی ہوئی ہے، اس مدت میں اس کائنات کا مقصد انسان کا اس سے فائدہ اٹھانا ہے، چنانچہ کائنات کی ہر چیز بندوں کےلئے مسخر کر دی گئی ہے، جو صرف انہیں کے مفادات کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے، اپنے وقت مقررہ پر اس کا مقصد پورا ہوجائے گا، اور اللہ تعالیٰ اس کائنات کی بساط کو لپیٹ دے گا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
انسانوں کی تخلیق بھی با مقصد ہے، اگر انسان اپنے مقصد تخلیق کو اللہ کے حکم کے مطابق پورا نہیں کرتے ہیں تو ان سے سوال ہوگا۔تشریح
انسانی تخلیق کا مقصد۔ پوری کائنات کو اللہ تعالیٰ نے انسانوں اور جنوں کےلئے پیدا کیا ہے، اور خود انسانوں اور جنوں کو اس لئے پیدا کیا تاکہ ان کی آزمائش ہو کہ ان میں کون اچھے اعمال کرنے والا ہے۔ یعنی انسانوں اور جنوں کو اللہ نے اس لئے پیدا کیا تاکہ وہ اللہ کی عبادت کریں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جس طرح اللہ نے پہلی بار مخلوقات کو پیدا کیا ہے وہ ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی پوری طرح قادر ہے۔تشریح
تخلیقات کا اعادہ۔
جس طرح اللہ نے مخلوقات کو پہلی بار پیدا کیا ہے ویسے ہی اللہ تعالیٰ مخلوقات کو موت دینے کے بعد ان کو دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہیں، کوئی چیز اللہ کو عاجز نہیں کر سکتی، اللہ تعالیٰ جن مخلوقات کو چاہیں گے دوبارہ پیدا کریں گے ۔
یہ خیال کرنا کہ اللہ تعالیٰ مخلوقات کو مارنے کے بعد دوبارہ کیسے پیدا کرسکتے ہیں اور اس میں شک کرنا کفریہ عقیدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً اس بات پر قادر ہیں کہ مخلوقات کو مارنے کے بعد دوبارہ پیدا کریں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق میں کوئی شریک نہیں ہے۔تشریح
صفتِ خلق میں شرک۔ صفت خلق اللہ کی خاص صفت ہے، جس میں اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے، اللہ نے اپنے بندوں کی ہر ضرورت کو تخلیق کیا ہے، نہ صرف یہ کہ غیر اللہ کی کوئی تخلیق نہیں ہے، بلکہ اللہ کے علاوہ کوئی خالق نہیں ہے پھر کیا خالق اور مخلوق دونوں برابر ہو سکتے ہیں، وہی خالق اس لائق ہے کہ اسی کی عبادت ہو، اللہ کی اس صفت میں کسی کو شریک کرنا بدترین جرم ہے، اور یہ جرم ناقابل معافی ہے جس کی سزاء ہمیشہ ہمیش کی جہنم ہے۔
صفت خلق سے ملتے جلتے معنی میں ہی اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات و اسماء مثلاً: الباری، المصور، البدیع، الفاطر بھی ہیں۔
صفت خلق سے ملتی جلتی چند اور صفات ۔ خلق کے معنی سے ملتی جلتی اللہ تعالیٰ کی چند اور صفات بھی ہیں، مثلاً الباری، المصور، بدیع السموت و الارض، اور فاطر السموت و الارض وغیرہ، یہ صفات باہم قریب قریب معنی بھی ہیں اور ان میں آپس میں فرق بھی ہے، مثلاً : بدیع السموت والارض کسی چیز کو عدم سے وجود بخشنے کے معنی میں آتا ہے، ابداع اس کو کہتے ہیں کہ ایک چیز نہیں تھی اللہ تعالیٰ نے اپنے حکم ’’کن‘‘ سے اس کو وجود بخشا، فاطر السموت و الارض بھی اسی معنی میں آتا ہے، البتہ فاطر خاص ایسی ہستی کو کہتے ہیں جس نے بغیر مثال کے کسی چیز کو پیدا کیا، جبکہ ایک چیز موجود ہے اور اس کی مثال میں ایک دوسری چیز پیدا کی جائے اس کو فاطر نہیں کہتے، اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو عدم سے وجود بھی بخشا ہے اور بغیر مثال کے بھی پیدا کیا ہے۔ پھر کسی مخلوق کے قالب کو پیدا کرنا اس کو ظاہر کرنے والا اللہ کا نام الباریٔ ہے، اور ان میں تصویر کشی کرنے کی اللہ کی صفت کو ظاہر کرنے والا اللہ کا نام المصور ہے، اورالخالق کے معنی یہ بھی ہیں کہ: چند مادوں کو آپس میں خلط ملط کرکے ان سے ایک اور مخلوق پیدا کرنا، یعنی مثلاً اللہ نے پانی اور مٹی کو اپنے حکم کن سے پیدا کیا یہ اس کی صفت ابداع ہے، پھر ان کو ملا کر انسان کو پیدا کیا یہ اس کی صفت تخلیق ہے، پھر انسان کو پیدا کرنے میں اس کا ایک قالب ڈھالا یہ اس کی صفت إبراء /الباری ہے، اور اس قالب میں تصویر کشی کی یہ اس کی صفت المصور ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ بہت سی مخلوقات کو حکم کن سے بیک لمحہ پیدا کیا اور بہت سی مخلوقات کی تخلیق میں اپنی مصلحتوں سے تدریج کو ملحوظ رکھا ہے۔تشریح
تخلیق میں تدریج ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحتوں سے بعض مخلوقات کو محض اپنے حکم ’’کن‘‘ سے پیدا کیا ہے، یعنی ایک وقت تھا کہ وہ نہیں تھے اور حکم خدا وندی پر اچانک وجود وجود میں آگئے(جس کی تفصیل آگے آرہی ہے)اور بعض مخلوقات کو اللہ نے تدریجاً مراحل میں پیدا کیا ہے، مثلاً اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن یعنی چھ مراحل اور ادوارمیں پیدا کیا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ صفت معیت کے ساتھ بھی متصف ہے۔تشریح
اللہ تعالیٰ صفت معیت کے ساتھ بھی متصف ہے، معیتِ الہٰی کے معنیٰ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے علم، سمع، بصر اور احاطہ کے اعتبار سے اپنی مخلوق اور بندوں کے ساتھ ہے، اس کو معیت عامہ کہا جاتا ہے، دوسری معیتِ خاصہ ہے، جو خاص مؤمنین کے لئےہے اور اس معیت کے معنیٰ بندوں کی نصرت، تائید اور حفاظت ہے، اس کی معیت اور قرب مخلوق کی معیت اور قرب کی طرح نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے رزق کا ذمہ لیا ہے، ہر شخص اپنا رزق خود کماتا ہے، البتہ رزق جیسے حلال ہوتا ہے حرام بھی رزق ہوتا ہے، آدمی اسباب کے ذریعہ حلال یا حرام کا طریقہ اختیار کرتا ہے۔ دلائل
عقیدہ:
رزق دینا صرف اللہ کی صفت ہے، اس صفت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔تشریح
رزق دینا/الرازق۔ رزق یعنی روزی اور انسان کی ہر ضرورت کو پورا کرنا ربوبیت الہٰی کا حصہ ہے، اور یک گونہ تدبیر کائنات میں شامل ہے، البتہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کو مستقل ذکر کیا جاتا ہے۔ ’’الرزاق، اور الرازق‘‘ دونوں اللہ کے نام اور صفت ہیں، اور رزق دینا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، رزق کے اسباب پیدا کرنے والا اور آسمان سے رزق کے خزانے اتارنے والا صرف اللہ ہے،آسمانوں اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں،اور ہر طرح کی عطاء اسی کی جانب سے جاری ہے، جس طرح ہر انسان کا رزق اللہ مہیا کرتا ہے اسی طرح ہر جاندار کا رزق اللہ مہیا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے اور ان کےلئے پاکیزہ رزق مہیا کرتا ہے، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ ہر کسی کا رزق اس کے مقدر کے لحاظ سے مناسب وقت میں پیدا کرکے اس تک پہنچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتے ہیں رزق میں کشادگی دیتے ہیں اور جس کےلئے چاہتے ہیں رزق میں تنگی کردیتے ہیں، ہر دو میں اللہ کی مصلحت ہوتی ہے۔ تشریح
تقسیم ِرزق کا نظام۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ سب کو رزق حوالہ نہیں کردیا ہے کہ سب اپنے اپنے رزق کو اٹھائے اٹھائے پھرتے ہوں بلکہ وہ ہر ایک کے مستقل اور عارضی ٹھکانوں سے واقف ہے اور وہیں ہر ایک کا رزق مہیا کیا جاتا ہے، اور سب کا رزق ایک ساتھ پیدا بھی نہیں کردیا جاتا کہ لوگ اس کو حاصل کرکے پھر بغاوت کریں اور فساد مچاتے پھریں بلکہ بقدر ضرورت اللہ رزق اتارتا رہتا ہے۔
آسمان سے با برکت پانی وہی اتارتا ہے، جن سے باغات اور اناج کے طرح طرح کے دانے اگاتا ہے، ایک دوسرے میں گتھے ہوئے کھجور کے خوشوں کو پروان چڑھاتا ہے، یہ سب اس نے بندوں کےلئے رزق کے طور پر پیدا کیا ہے۔انسان جو کچھ اناج غذا کے طور پر کھاتا ہے اس پر پانی اللہ نے برسایا ہے، اور پھرپودے کو زمین سے پھاڑ کر بھی اللہ ہی نکالتا ہے، اور اس میں سے پھر اناج کے دانے ، انگور، قضب، زیتون، کھجور اور دیگر پھلوں سے لدے ہوئے باغات اور کھیتیاں انسانوں کےلئے ،اور جانوروں کےلئے چارہ اللہ نے ہی پیدا کیا ہے، اور پاک جانوروں کو بھی بطور غذا کے اللہ نے ہی پیدا کیا ہے۔
رزق کی طرح ہر عطاء اللہ کی جانب سے ہے، رحمت کے خزانے صرف اسی کے ہیں، وہی وہاب ہے، اولاد کا دینا نہ دینا اسی کے ہاتھ میں ہے، اور جسے چاہے نرینہ اولاد دے اور جسے چاہے بیٹیاں دے سب اس کا اختیار ہے۔
رزق کے معاملہ میں اللہ نے کسی کو کسی پر فضیلت بھی دی ہے، اللہ جس کو چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے، جس کو وسعت دی ہے وہ اللہ کا فضل ہے، اور جس کو تنگی کی ہے اس کے ساتھ کوئی اہانت کا معاملہ نہیں کیا ہے بلکہ ضرورت کے بقدر سبھی کےلئے مہیا کیا ہے اور یہ اس کا عدل ہے۔
رزق کے دروازہ جس کے لئے چاہے کھولنا اور جس کےلئے چاہے تنگ کر دینایہ صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ کے علاوہ کوئی رزق کا مالک نہیں ہے رزق کےلئے اللہ کے علاوہ جس کسی کے بھی آگے ہاتھ پھیلایا جاتا ہے وہ خود محتاج ہے، اگر اللہ رزق روک لے تو کوئی اس کو مہیا کرنے والا نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مخلوقات کو رزق دینے میں کوئی اللہ کے ساتھ شریک نہیں ہے، اور کوئی بھی اللہ کے رزق یا عطاء سے بے نیاز نہیں ہے۔ ہر کوئی اللہ کے رزق و عطاء کا محتاج ہے۔تشریح
اللہ کی صفت رزق میں شرک۔ رزق اور کسی عطا٫ میں غیر اللہ کو مؤثر ماننا شرک ہے، مثلاً یہ ماننا کہ کوئی پیر ولی یا نبی و رسول کے اختیار میں ہے کہ وہ بندوں کےلئے رزق کے دروازے کھول سکتے ہیں،ایسا ماننا اللہ کی صفات میں شرک کرنا ہے، اور ایسا مان کر اُن پیر و ولی کو یا نبی و رسول سے سوال کرنا یہ ایک اور دوسرا الوہیت میں شرک کرنا ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔ رزق اور روزی کا مہیا کرنا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے، اولاد کا دینا نہ دینا صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے ان کی نسبت کسی غیر اللہ کی جانب کرنا یہ شرک فی الصفات میں سے ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ ہر طرح کے عیوب و نقائص سے پاک ہے ۔تشریح
اللہ تعالیٰ ہر قسم کے نقص و عیب، کمزوری و محتاجی اور تمام لوازمات و عاداتِ بشریہ مثلاً پیدا ہونا، بیماری، صحت، بچپن، جوانی، بوڑھاپا، نیند، اونگھ، تھکاوٹ اور نسیان وغیرہ سے پاک ہے۔
اللہ تعالیٰ کی تنزیہی صفات۔ وہ اسماء و صفات جو باری تعالی سے نقص و عیب کی نفی پر دلالت کرتے ہیں ۔ قرآن سنت میں باری تعالیٰ کی تنزیہ کا بیان دو طرح سے ہوا ہے، ایک اللہ تعالیٰ کے چند اسماء ایسے ہیں جو اس کی تنزیہ و تقدیس پر دلالت کرتے ہیں مثلاً : العلی، القدوس، السلام وغیرہ، اور دوسرا طریقہ تنزیہ کے بیان میں نفی کا ہے، مثلاً وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا ( البقرۃ:۲۵۵) وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ (سورہ ق:۳۸) ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ میں صفت عجز نہیں ہے اور وہ تھکتا نہیں ہے، یہ نفی کا بیان ہے۔
اللہ کی تنزیہ و تقدیس بیان کرنے میں جس طرح قرآن و سنت میں اسماء و صفات الہٰی میں تفصیل بیان کی گئی ہے اور نقائص و عیوب کی نفی کے بیان میں اجمال کا طرز اختیار کیا گیا ہے بندے بھی اسی طریقہ کو اختیار کریں۔
نفی میں اجمال اور اثبات میں تفصیل۔ اللہ تعالیٰ کے تعارف کے بارے میں قرآن و سنت کا طرز ”اثبات میں تفصیل اور نفی میں اجمال” کا ہے، یعنی اﷲ کیا ہے؟ اس کا ذکر تفصیلی ہے اور اﷲ کیا نہیں ہے اس کا ذکر اجمالاً ہے، اور یہی تعظیم و توقیر اور ادب کا تقاضہ بھی ہے، مثلاً ہم کسی کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں : فلاں شخص بڑا عالم ہے، ذہین ہے، بہادر ہے، منصف ہے، وغیرہ وغیرہ ، یہ نہیں کہتے: فلاں ظالم نہیں ہے، چور نہیں ہے، بدمعاش نہیں ہے۔ پہلا طریقہ اثبات کہلاتا ہے ، یعنی اس بات کا بیان کہ وہ کیا ہے؟ اور دوسرا نفی کہلاتا ہے یعنی اس کا بیان کہ وہ کیا نہیں ہے،نفی میں تفصیل اور اثبات میں اجمال بجائے تعریف کہ توہین کرنا شمار ہوتا ہے، جیسا کہ اوپر کے منفی جملہ پڑھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے ، کسی کا تعارف اگر اس طرح نفیاً کیا جائے تو وہ اس کی تعریف کے بجائے اس کی تحقیر اور توہین ہوتی ہے۔
تعریف تو یہ ہے کہ محاسن اور خوبیاں معروضی اور ایجابی انداز میں بیان کی جائیں ، اس لئے آسمانی کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے تعارف کے بیان میں اثبات میں تفصیل اور نفی میں اجمال ہے۔ باری تعالی کی صفات کے بیان میں ”نفی میں اجمال”کی مثال میں ہم پورے قرآن میں صرف چند جملے بیان کر سکتے ہیں مثلاً: لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ ……وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا (البقرۃ:۲۵۵) وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ (ق:۳۸)، أَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ (آل عمران :۱۸۲)وغیرہ۔جبکہ اس طرح کے چند جملوں کے علاوہ کل تعارف تفصیلی اثبات کے طرز پر ہے، مثلاً: اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ……لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ……وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرۃ:۲۵۵)، وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (البقرۃ:۱۶۳)، اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲۶) تُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَتُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَتُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَتُخْرِجُ الْمَيِّتَ مِنَ الْحَيِّ وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ (آل عمران: ۲۷)۔اسی طرح هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ هُوَ الرَّحْمَنُ الرَّحِيمُ (۲۲) هُوَ اللّٰهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ (۲۳) هُوَ اللَّهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى يُسَبِّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الحشر:۲۴) اسی طرح سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (۱) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ يُحْيِي وَيُمِيتُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (۲) هُوَ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (۳) هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يَعْلَمُ مَا يَلِجُ فِي الْأَرْضِ وَمَا يَخْرُجُ مِنْهَا وَمَا يَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ وَمَا يَعْرُجُ فِيهَا وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنْتُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ (۴) لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ (۵) يُولِجُ اللَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارَ فِي اللَّيْلِ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ (۶) (سورۃ الحدید) وغیرہ، قرآن مجید میں عام طور پر تعارف اِلٰہ اسی خوبصورت انداز میں ہے، جس میں باری تعالیٰ کی عظمت و جلالت شان کا صحیح تعارف حاصل ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ میں اور نقص و عیب سے پاک ہونے کی صفات مثلاً قرآن میں یہ بیان کی گئی ہیں کہ:
اللہ تعالیٰ پر اس کی کمال حیات اور کمال قیومیت کی وجہ سے کبھی اس پر اونگھ او ر نیند طاری نہیں ہوتی۔
لا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا نَوْمٌ( البقرۃ:۲۵۵)
اور اس کی کمال قوت و قدرت کی وجہ سے اس پر کبھی کوئی تھکن طاری نہیں ہوتی۔
وَلَا يَئُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ ( البقرۃ:۲۵۵) وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَمَا مَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ (سورہ ق:۳۸)
اور اس کے کمال علم کی وجہ سے کوئی شے اس کے احاطہ علم سے باہر نہیں ہے۔
لَا يَعْزُبُ عَنْهُ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ (سورۃ سبأ:۳)
اور اس کے کمال عدل کی وجہ سے وہ کسی پر ظلم نہیں کرتا۔
وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا (سورۃ الکہف:۴۹)
اس کے جلال و عظمت اور کبریائی کا کمال ہے کہ نگاہیں اس کا ادراک نہیں کر سکتیں۔
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (سورۃ الأنعام:۱۰۳)
یہ سب اللہ تعالیٰ کی تنزیہی صفات ہیں، ان صفات کو جو شخص اللہ کے علاوہ کسی اور میں مانے اس نے شرک کیا، اور جو شخص اللہ کےلئے ان صفات کا انکار کرے اس نے کفر کیا ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کو بدأ نہیں ہوتاتشریح
اللہ تعالیٰ کو بدأ نہیں ہوتا، بدأ کے معنیٰ ہیں: ظاہر ہونا، جو بات پہلے سے معلوم نہ ہو اس کا علم ہونا، اللہ تعالیٰ اس سے منزہ اور پاک ہیں، کیونکہ اس سے لازم آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معاذ اللہ پہلے جاہل تھے پھر علم حاصل ہوا، بعض شیعوں کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بدأ ہوتا ہے
بدأت کی تین قسمیں ہیں:(۱) بدأ فی العلم: جو کچھ پہلے معلوم تھا اس کے برخلاف حقیقت منکشف ہوئی۔ (۲)بدأ فی الارادۃ: جو پہلے ارادہ کیا تھا وہ غلط معلوم ہوا۔ (۳) بدأ فی الامر: جو حکم پہلے دیا تھا وہ غلط ثابت ہوا۔
بدأ کے عقیدہ کے نتیجہ میں اللہ کا جاہل ہونا، غلط علم رکھنے والا ہونا، غلط ارادہ کرنے والا ہونا اور غلط حکم دینے والا ہونا ثابت ہوتا ہے، لہٰذا یہ عقیدہ اس قابل نہیں کہ کوئی اس کا قائل ہو۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی جن صفات کو محدود معنی میں بندوں کےلئے استعمال کیا گیا ہے اس میں ویسی ہی احتیاط برتنا ضروری ہے۔تشریح
بندوں اور اللہ کے لئے استعمال ہونے والی مشترک صفات اور دونوں میں فرق۔ اللہ تعالیٰ کے لئے خاص اسماء و صفات کو بندوں کے لئے استعمال کرنا جائز نہیں ہے، مثلاً الرحمن ، اللہ کا نام ہے، اب اس اسم پر کسی انسان کا نام رحمن نہیں رکھا جا سکتا، لیکن اللہ تعالیٰ کی وہ اسماء و صفات جو اللہ تعالیٰ کےلئے خاص نہیں ہیں ، اور خود قرآن و حدیث نے انہیں اللہ کے علاوہ دوسروں کےلئے استعمال کیا ہے ان کو دوسروں کےلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات جن کو بندوں کےلئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، مثلاً : حَيّ، عَلِيم، قَدِير، رءوف، رَحِيم، عَزِيز، سَمِيع، بَصِير، مَلِك، مُؤْمِن، جَبَّار، مُتَكَبِّر وغیرہ ، مثلاً ایک جگہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ، اس میں غیر اللہ کے لئے الْحَيّ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا: فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ، اس میں غیر اللہ کے لئے حَلِيم کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ایک اور جگہ فرمایا:وَبَشَّرُوهُ بِغُلَامٍ عَلِيمٍ، اس میں غیر اللہ کے لئے عَلِيم کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ایک اور جگہ فرمایا: بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ، اس میں نبی ﷺ کے لئے رَءُوفٌ رَحِيمٌ صفات استعمال ہوئی ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا:فَجَعَلْنَاهُ سَمِيْعًا بَصِيرًا، اس میں غیر اللہ کے لئے سمیع وبصیرصفاتاستعمال ہوئی ہیں۔ ایک اور جگہ فرمایا:قَالَتِ امْرَأَةُ الْعَزِيزِ، اس میں غیر اللہ کے لئے الْعَزِيز کا لفظ استعمال ہوا ہے ۔ایک اور جگہ فرمایا:وَكَانَ وَرَاءَهُمْ مَلِكٌ، اس میں غیر اللہ کے لئے مَلِك کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا:أَفَمَنْ كَانَ مُؤْمِنًا، اس میں غیر اللہ کے لئے مؤمن کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا:كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى كُلِّ قَلْبِ مُتَكَبِّرٍ جَبَّارٍ۔ اس میں غیر اللہ کے لئے مُتَكَبِّر وجَبَّار صفاتاستعمال ہوئی ہیں ۔
لیکن بندوں کےلئے ان صفات میں یہ فرق ملحوظ رہے کہ: بندوں میں صفت حیّ اللہ الحیّ کے مثل نہیں ہے، اور بندوں میں صفت عزیز اللہ العزیز کے مثل نہیں ہے، اسی طرح بندوں میں صفت علیم اللہ العلیم جیسی نہیں ہے، اور ایسے ہی ان تمام اسما٫ کا حال ہے جن کو بندوں کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مثلاً اللہ العلیم ہے، تو اس کے علم کی صفت ان آیات میں بیان کی گئی ہیں،باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِنْ عِلْمِهِ، ایک او رجگہ ارشاد ہےأَنْزَلَهُ بِعِلْمِهِ، ایک اور جگہ ارشاد ہےوَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنْثَى وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ۔
اللہ کے علم کے مقابلہ میں بندوں کا گویا کوئی علم ہی نہیں ہے، مثلاً حدیث مبارکہ میں اس بات کو اس طرح بیان کیا گیا ہے، حضرت جابر ؓسے منقول ہے کہ اللہ کے رسول ﷺٰ ہمیں ہر معاملہ میں استخارہ کی تعلیم دیتے تھے ایسے جیسے آپ ہمیں قرآن کی تعلیم دیتے تھے، آپ فرماتے جب تم میں سے کوئی کسی معاملہ کا ارادہ کرے تو دو رکعات نفل ادا کرے، اور پھر یہ دعا٫ پڑھے، اور اس میں اپنی حاجت کا ذکر کرے : اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَخِيرُكَ بِعِلْمِكَ، وَأَسْتَقْدِرُكَ بِقُدْرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ الْعَظِيمِ، فَإِنَّكَ تَقْدِرُ وَلَا أَقْدِرُ، وَتَعْلَمُ وَلَا أَعْلَمُ، وَأَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ، اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ خَيْرٌ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي – أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ – فَاقْدُرْهُ لِي، وَيَسِّرْهُ لِي، ثُمَّ بَارِكْ لِي فِيهِ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنَّ هَذَا الْأَمْرَ شَرٌّ لِي فِي دِينِي وَمَعَاشِي وَعَاقِبَةِ أَمْرِي – أَوْ قَالَ: عَاجِلِ أَمْرِي وَآجِلِهِ – فَاصْرِفْهُ عَنِّي، وَاصْرِفْنِي عَنْهُ، وَاقْدُرْ لِيَ الْخَيْرَ حَيْثُ كَانَ، ثُمَّ رَضِّنِي بِهِ.(صحیح بخاری) ۔
اسی طرح حضرت عمار بن یاسر سے ایک اور حدیث میں یہ دعا٫ منقول ہے: اللَّهُمَّ بِعِلْمِكَ الْغَيْبَ وَقُدْرَتِكَ عَلَى الْخَلْقِ، أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، وَأَسْأَلُكَ كَلِمَةَ الْحَقِّ فِي الْغَضَبِ وَالرِّضَا، وَأَسْأَلُكَ الْقَصْدَ فِي الْغِنَى وَالْفَقْرِ، وَأَسْأَلُكَ نَعِيمًا لَا يَنْفَدُ، وَقُرَّةَ عَيْنٍ لَا تَنْقَطِعُ، وَأَسْأَلُكَ الرِّضَا بَعْدَ الْقَضَاءِ، وَأَسْأَلُكَ بَرْدَ الْعَيْشِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَأَسْأَلُكَ لَذَّةَ النَّظَرِ إِلَى وَجْهِكَ الْكَرِيمِ، وَالشَّوْقَ إِلَى لِقَائِكَ، فِي غَيْرِ ضَرَّاءَ مُضِرَّةٍ، وَلَا فِتْنَةٍ مُضِلَّةٍ، اللَّهُمَّ زَيِّنَّا بِزِينَةِ الْإِيمَانِ، وَاجْعَلْنَا هُدَاةً مُهْتَدِينَ۔
اسی طرح ایک اور جگہ باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ثُمَّ جَعَلَ مِنْ بَعْدِ ضَعْفٍ قُوَّةًاور ایک دوسری جگہ فرمایا: وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ۔ ظاہر ہے یہاں علم اور قوت سے مراد اللہ کے علم و قوت کے مثل علم اور قوت نہیں ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفت الحیی ہے، اس کی صفت حیات بندہ کی صفت حیات سے کیسے کیسے ممتاز ہے بہت تفصیل طلب ہے لیکن چند بنیادی امتیازات میں مثلاً بندہ کی حیات کو موت لاحق ہے، لیکن اللہ کی حیات کو موت لاحق نہیں ہے، باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَتَوَكَّلْ عَلَى الْحَيِّ الَّذِي لَا يَمُوتُ۔
یہی مثال دوسری صفات کی بھی ہے، اس بارے میں اصول یہ ہے کہ بندوں کی صفات عطائی، حادث، اور محدود ہیں، جبکہ اللہ کی یہ صفات بھی بندوں کی صفات سے اس طرح ممتاز ہیں کہ وہ ذاتی، قدیم اور لا محدود ہیں۔ بند
عقیدہ:
صفات متشابہات کے علم کو اللہ کے حوالہ کرنا ضروری ہے کہ اللہ ہی ان کی کیفیت بہتر جانتے ہیں۔تشریح
اللہ تعالیٰ کی بعض صفات ایسی بیان کی گئی ہیں جن کی کیفیت ہمیں نہیں معلوم ، ان کو ویسے ہی ماننا لازم ہے جیسے بیان کیا گیا ہے، ان صفات کو صفت متشابہات کہتے ہیں۔
صفاتِ متشابہات ۔ متشابہ اسماء و صفات ثابت ہیں۔ قرآن و سنت میں یہ ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ کا چہرہ، ہاتھ،پنڈلی، انگلیاں، آنکھیں اور پیر ہیں، اللہ ہنستے ہیں، اللہ عرش پر مستوی ہیں، اللہ تعالیٰ سب سے اوپر ہیں، اللہ الظاہر ہیں، اللہ الباطن ہیں، اللہ تعالیٰ ہر رات آسمان دنیا پر نزول اجلال فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ حشر کے میدان میں فرشتوں کی صفوں کے جھرمٹ میں جلوہ افروز ہوں گے۔ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سامنے جب یہ صفات قرآن و حدیث میں آئیں تھیں تو انہوں نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو بعینہ قبول کرلیا ، وہ اس پر ایمان لائے، اور ان کو یہ سب ماننے میں کوئی شبہ پیش نہیں آیا ، ہم بھی انہیں کی پیروی میں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کو بعینہ مانتے ہیں کہ یہ سب اللہ تعالیٰ کی بر حق صفات ہیں۔
صفاتِ متشابہات کی کیفیت کے بیان سے گریز کرنا ضروری ہے۔ صفاتِ متشابہات کے تعین میں پڑ کر شرک و کفر لازم آسکتا ہے۔
اسماء متشابہات کا مفہوم۔ بعد کے ادوار میں فلسفیانہ مذاہب میں جب اسلام پھیلا تو ان کی فلسفیانہ موشگافیوں سے اور کچھ یہودیوں کی سازش سے اعتقادی فتنے عام کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں میں سے ایک یہ بحث بھی ہے، ان کی جانب سے اس بحث میں جو فتنہ پردازی کی گئی وہ یہ شبہ ہے کہ: ایسی صفات کے حاملین میں سے ہم جن کو جانتے ہیں ، وہ سب ذی جسم ہوتے ہیں، اور ’’ذی جسم حادث ہوتا ہے قدیم نہیں ہوتا ‘‘اسی طری ’’ذی جسم جہات میں محدود ہوتا ہے ‘‘وغیرہ، جبکہ حادث ہونا اور جہات میں محدود ہونا عیوب اور نقائص ہیں، اور اللہ تعالیٰ نقائص اور عیوب سے منزہ ہے، ان نقائص و عیوب سےاللہ کی تنزیہ لازمی ہے۔
اسماء متشابہات میں سلف پوری طرح کیفیت کے بیان سے گریز کرتے تھے اور اس کے علم کو اللہ کے حوالہ کرتے تھے۔
اسماء متشابہات میں سلف کا طرز عمل۔ سلف کے علماء متقدمین نےاس شبہ کا جو بے تکلف مضبوط جواب دیا وہ یہ ہے کہ: یہ صفات ثابت ہیں ، ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کی صفات ہیں، باقی رہی یہ بات کہ ان کی کیفیت کیا ہے وہ ہمیں نہیں بتائی گئی، اس لئے انہیں ہمیں ایسے ہی ماننا ہے، کیفیات کی بحث میں نہیں جانا ہے، ذی جسم ہونا نہ ہونا اور جہات میں محدود ہونا نہ ہونا، اس کا تعلق کیفیت سے ہے، ہمارے محدود علم میں یہ صفات ذی جسم کی اور محدود ہوتی ہیں، ممکن ہے اللہ کے علم میں اس کی اور بھی کیفیت ہو، جن کا ہماری عقل ناقص ادراک نہیں کرسکتی، اسی لئے اس کو قرآن و سنت نےمبہم رکھا ہے، ہمیں اس کو ایسے ہی ماننا ہے جیسے بیان کیا گیا ہے، کہ : وہ ہیں۔بند
عقیدہ:
اسماء متشابہات کی کیفیت کی تحقیق بدعت ہے۔تشریح
رہی بات ان کی کیفیات کے بارے میں سوال جواب کہ وہ صفات کیسی ہیں؟ اللہ کا چہرہ کیسا ہے؟ ہاتھ کیسا ہے؟ آنکھیں کیسی ہیں ؟ وغیرہ یہ تمام سوالات اس طبقہ میں نہیں اٹھے تھے جن پر اسلام نازل ہوا، یعنی صحابہ کا طبقہ، بلکہ اُن کے سامنے اِن صفات کو جیسے ذکر کیا گیا وہ ان پر ویسے ایمان لے آئے، اور وہی دور قابل اتباع ہے، ان کی کیفیات کے بارے میں سوال بعد کی اختراع اور بدعت ہے، جس سے اجتناب لازمی ہے۔ یہی متقدمین کی اس عبارت الاستواء معلوم، و الکیف مجھول، و السوال عنہ بدعۃ کا مفہوم ہے۔
اس میں الاستواء معلوم، و الکیف مجھول عبارت کا جزء حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے موقوفا اور مرفوعاً بھی ثابت ہے۔ اور و السوال عنہ بدعۃ کا جزء کہ کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے امام مالک اور دیگر ائمہ اسلام سے منقول ہے۔
اور یہ معاملہ صرف استواء کا نہیں ہے، بلکہ ایسی ہر صفت جس کا ظاہر متشابہات ہو اس کا یہی حکم ہے۔
مثلاً : الوجہ معلوم/ أو ثابت ،و الکیف مجھول ،و السوال عنہ بدعۃ۔ الید معلوم/ أو ثابت ،و الکیف مجھول ،و السوال عنہ بدعۃ۔الأعین معلوم/ أو ثابت ،و الکیف مجھول ،و السوال عنہ بدعۃ۔العلو و الفوقیۃ معلوم/ أو ثابت ،و الکیف مجھول ،و السوال عنہ بدعۃ۔النزول معلوم/ أو ثابت ،و الکیف مجھول ،و السوال عنہ بدعۃ۔المجیٔ معلوم/ أو ثابت و الکیف مجھول و السوال عنہ بدعۃ۔ وغیرہبند
عقیدہ:
اسماء متشابہات کی توجیہ کا راستہ بھی غیر محفوظ ہے۔ تشریح
اسما٫ متشابہات کی توجیہ ۔
بعض علماء نے اسماء متشابہات کے حل کےلئے ان کی افہام و تفہیم کےلئے مناسب توجیہ کی کوشش کی ہے، جیسے اشعری علماء نے یہ طریقہ اختیار کیا، اور انہوں نے مثلاًکہا کہ: وجہ سے مراد اللہ کی عظمت ہے۔ ید سے مراد اللہ کی قدرت ہے۔ اعین سے مراد اللہ کا علم ہے۔ استواء سے مراد استیلاءاور انتظام ہے۔ اور نزول سے مراد توجہ ہے۔ وغیرہ وغیرہ لیکن بہت سے محققین اسلام نے ان توجیہات کی کوشش کو پسند نہیں کیا، اور کہا کہ یہ اللہ کے کلام کو اس کے ظاہر سے ہٹانے کی کوشش ہے، اور بعضوں نے ان توجیہات کی کوشش کو بہت شدت سے رد کیا ہے، حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات اپنے ظاہر پر محمول ہیں ، کہ ہاں واقعی اللہ میں وجہ ید اور اعین وغیرہ ہیں، ان کا استواء نزول اور قیامت کے دن فرشتوں کی صف کے درمیان ان کی آمد یقینی ہے، البتہ ان کی کیفیات ہمارے لئے متشابہات میں سے ہے، اس لئے ان کی کیفیات کی تفتیش سے گریز کرنا چاہئے، باقی رہی یہ صفات تو مسلم امر ہے کہ اللہ کےلئے وہ سب کچھ ہے جو خود اللہ نے اپنے تعارف میں بیان کیا ہے، کیسے ہے وہ اللہ ہی جانتا ہے، اس نے ان کی کیفیات کوہمیں بیان نہیں کیا ہے، اور اس کی صفات و اسماء میں ہماری خود سے دخل اندازی کو اور بغیر علم کے ظن و تخمینہ سے تبیین و تشریح کو منع کیا ہے اور اس کو الحاد قرار دیا ہے اس لئے اس سے گریز لازمی ہے۔
(شرح العقیدۃ الطحاویۃ لإبن أبی العز:۱/۱۸۷)

بند

عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی صفات میں زمانہ کے اعتبار سے کوئی ترتیب نہیں ہے کہ ایک صفت پہلے ہو اور دوسری بعد میں؛ بلکہ تمام صفات ازل سے اس کے لئے ثابت ہیں۔

و قال القاضی (ابوبکر الباقلّانی رحمہ اللہ): الکفر ھو الجحد باللہ و ربما یفسر الجحد بالجھل۔ (شرح المقاصد:۳؍۴۵۹) بند
عقیدہ:
ضروریاتِ دین میں سے کسی بھی امر ضروری کا انکار کرناکفر ہے ۔تشریح
ایمان و اسلام کی ضد کفر ہے، کفر کے لغوی معنیٰ ہیں چھپانا ،ناشکری کرنا، اس کے اصطلاحی معنیٰ ہیں ضروریات دین میں سے کسی بھی امر ضروری کا انکار کرنا۔
ضروریاتِ دین کی تعریف:
۱۲۔ جو چیز قرآن کریم یا احادیثِ متواترہ سے ثابت ہو یا اجماعِ امت سے ،اور دلالت بھی قطعی ہو تو وہ سب ضروریاتِ دین میں داخل ہیں، ضروریاتِ دین کے معنیٰ یہ ہیں کہ ان کا دین اسلام سے ہونا بالکل بدیہی ہو، خواص سے گذر کر عوام تک اس کا علم پہنچ گیا ہو، یہ نہیں کہ ہر عامی کو اس کا علم ہو؛ کیونکہ بسا اوقات تعلیمِ دین نہ ہونے سے بعض ضروریاتِ دین کا علم عوام کو نہیں ہوتا، لیکن تعلیم کے بعد اور جان لینے کے بعد اس پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے، علماء نے تصریح فرمادی ہے کہ بعض متواترات شرعیہ کے جہل سے تو کفر نہیں لازم آتا، لیکن معلوم ہونے کے بعد جحود و انکار سے آدمی کافر ہوجاتا ہے۔ (جواہر التوحید کی شرح:۵۱۔ حاشیہ الموفقات للشاطبی:۳؍۱۵۶۔ اکفار الملحدین:۲)
چندضروریاتِ دین کی فہرست:
(۱)اثباتِ علمِ الہٰی (۲)قدرتِ محیط (۳)ارادۂ کاملہ (۴)صفتِ کلام (۵)قرآن مجید (۶)قِدَم قرآن (۷)قِدَم صفات باری (۸)حدوثِ عالم (۹)حشرِ اجساد (۱۰)عذابِ قبر (۱۱)جزاء و سزاء (۱۲)رؤیتِ باری قیامت میں (۱۳)شفاعتِ کبریٰ (۱۴)حوض کوثر (۱۵)وجودِ ملائکہ (۱۶)وجودِ کراماً کاتبین (۱۷)ختمِ نبوت (۱۸)نبوت کا وہبی ہونا (۱۹)مہاجرین و انصار کی اہانت کا عدمِ جواز (۲۰)اہلِ بیت کی محبت (۲۱)خلافتِ شیخین (۲۲)پانچ نماز فرض (۲۳)رکعات کی تعداد (۲۴)تعدادِ سجدات (۲۵)رمضان کے روزے (۲۶)زکوٰۃ (۲۷)مقادیرِ زکوٰۃ (۲۹)وقوفِ عرفات (۳۰)تعدادِ طواف (۳۱)جہاد (۳۲)نماز میں استقبالِ کعبہ (۳۳) جمعہ (۳۴)جماعت (۳۵) اذان (۳۶)عیدین (۳۷)جوازِ مسح خفین (۳۸)عدمِ جواز سبِّ رسولؐ (۳۹)عدمِ جواز سبِّ شیخینؓ (۴۰)انکارِ جسم (۴۱)انکارِ حلول اللہ (۴۲)عدمِ استحلال محرمات (۴۳)رجمِ زانی (۴۴)محض حرمتِ لبسِ حریر (ریشم پہننا) (۴۵)جوازِ بیع (۴۶)غسلِ جنابت (۴۷) تحریمِ نکاحِ امہات (۴۸)تحریمِ نکاحِ بنات (۴۹)تحریمِ نکاحِ ذوی المحارم (۵۰)حرمتِ خمر (۵۱) حرمتِ قمار۔(عقیدۂ نزول مسیح از مولانا یوسف بنوریؒ)بند
عقیدہ:
اگر کوئی ضروریات دین کی نہ دل سے تصدیق کرے او رنہ ہی زبان سے اقرار کرے تو ایسا شخص کافر ہے،او راس کفر کو کفر انکار کہاجاتا ہے،جیسے عام کفار۔ دلائل
وَالَّذِينَ كَفَرُوا عَمَّا أُنْذِرُوْا مُعْرِضُونَ۔ (الاحقاف:۳) امّا الکفر الانکار فھو ان یکفر بقلبہ و لسانہ و لا یعتقد بالحق ولا بقربہ۔ (فیض الباری:۱؍۷۱) الایمان: التصدیق۔ التھذیب: و امان الایمان فھو مصدر آمن یؤمن ایماناً فھو مؤمن۔ و اتفق اھل العلم من اللغو و غیرھم ان الایمان معناہ التصدیق۔ (لسان العرب:۱۳/۲۷) یقول ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالیٰ ان الایمان تصدیق السامع للمخاطب و اثقا بامانتہ معتمداً علی دیانتہ۔ (فیض الباری:۱/۴۶) و اما فی الشرع فھو التصدیق بما علم مجئ النبی صلی اللہ علیہ وسلم بہ ضرورۃ تفصیلا فیما علم تفصیلا و اجمالاً فیما علم اجمالاً۔ (روح المعانی:۱/۱۱۰) بند
عقیدہ:
جو شخص دل سے ضروریاتِ دین کو حق اور سچ سمجھتا ہے؛ لیکن دل سے قبول نہیں کرتا اور نہ ہی زبان سے اقرار کرتا ہے، تو ایسا شخص کافر ہے اور اس کو کفر جحود کہاجاتا ہے، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہودیوں کا کفر اور شیطان کا کفر۔ دلائل
وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبٰى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ۔ (البقرۃ:۳۴) و اما کفر الجحود فھو ان یعرف الحق بلقبہ ولایقر بلسانہ ککفر ابلیس۔ (فیض الباری:۱؍۷۱) بند
عقیدہ:
دل سے ضروریاتِ دین کو قبول کرکے زبان سے اقرار بھی کرتا ہے، لیکن دوسرے باطل ادیان سے اعلانِ براءت نہیں کرتا، یہ شخص بھی کافر ہے، جیسے کوئی شخص تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ عیسائیوں یا یہودیوں کو بھی صحیح مذہب پر سمجھے تو یہ شخص کافر ہے،اور اس کفر کو کفر عناد کہاجاتاہے۔ دلائل
أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ۔ (البقرۃ:۸۵) و اما کفر المعاندۃ فھو ان یعرف بقلبہ و یقرّ بلسانہ و لا یقل ولا یتدین بہ، ککفر ابی طالب۔ (فیض الباری:۱؍۷۱) بند
عقیدہ:
دل سے ضروریاتِ دین کا انکار کرتا ہے لیکن کسی مصلحت یا دنیوی منفعت کی خاطر زبان سے اقرار کرتا ہے، ایسے شخص کو منافق کہا جاتا ہے، منافق کافر سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ دلائل
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ۔ (المنافقون:۱) و اما کفر النفاق بسلانہ و یکفر بقلبہ۔ (فیض الباری:۱؍۷۱) بند
عقیدہ:
بظاہر تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کرتا ہے اور بظاہر مسلمان معلوم ہوتا ہے، لیکن کسی امر ضروری کی ایسی تشریح کرتا ہے جو امور مسلمہ فی الدین کے یا قطعیات کے خلاف ہے، جیسے لاہوری، قادیانی وغیرہ بہت سے امورِ ضروریہ کی غلط تشریح کرتے ہیں جو قطعیات کے خلاف ہوتی ہے، اس بناء پر یہ زندیق کافر کہلاتے ہیں۔ دلائل
وان اعترف بہ ظاھراً أو باطناً لکنہ یفسر بعض ما ثبت بالدین ضرورۃ بخلاف ما فسرہ الصحابۃ و التابعون و أجمعت علیہ الامۃ فھو (الزندیق) ….. کما اذا اعترف بان القرآن حق، و ما فیہ من ذکر الجنۃ والنار حق لکن المراد بالجنۃ الابتھاج الذی یحصل بسبب الملکات المحمودۃ، و المراد بالنار ھی الندامۃ التی تحصل بسبب الملکات المذمومۃ و لیس فی الخارج جنۃ و لا نار۔ (فیض الباری:۱؍۷۱) بند
عقیدہ:
اہلِ قبلہ اور مؤل کو کافر نہیں کہنا چاہئے۔تشریح
اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو معاشرہ میں مسلمان سمجھا جاتا ہو اُسے مسلمان ہی سمجھا جائے گا، جب تک کہ وہ ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار نہ کرے، اگر کسی ایک امرِ ضروری کا انکار کردے تو وہ اہل قبلہ یعنی مسلمانوں میں شامل نہ ہوگا، اسی طرح مؤل سے مراد وہ شخص ہے جو غلط بات کو غلط دلیل سے ثابت کرتا ہو، لیکن یہ شرط ہے کہ اس کی تاویل سے قطعیات، امورِ مسلّمہ فی الدین یا ضروریاتِ دین پر زد نہ پڑتی ہو اس طرح کے مؤل کو کافر نہیں کہنا چاہئے، لیکن اگر مؤل تاویل کرتے ہوئے قطعیات کا انکار کردے یا ضروریاتِ دین کا انکار کردے تو ایسا مؤل امرِ ضروری کے انکار کی بناء پر کافر ہوجائے گا اور ایسی تاویل اس کو کفر سے نہیں بچاسکے گی۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
فقہاء نے کہا ہے کہ اگر ایک شخص کے کلام میں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک احتمال ایمان کا ہو تو اُسے کافر نہیں کہنا چاہئے۔تشریح
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس نے ایسا مبہم کلام کیا جس میں کفر کا احتمال تھا لیکن اس نے اس احتمالِ کفر کے مطلب سے انکار کیا یا اس کی وضاحت سے پہلے پہلے فوت ہوگیا تو اس کو کافر نہیں کہا جائے گا، اور اگر اس کو وضاحت کرنے کا موقع ملا اور اس نے ایسی وضاحت کی جس سے ضروریاتِ دین کا انکار لازم آتا ہو تو یقیناً ایسا شخص کافر ہے۔
اسی طرح فقہاء کا یہ قول اس شخص کے بارے میں ہے جس کے کسی جملہ سے کفر کا احتمال نکلتا ہو لیکن اس کی پوری زندگی صحیح عقائد اور کتاب و سنت کے مطابق ہو اور اس کے اس مبہم کلام کے علاوہ اور قرائن کفر کی تائید میں یا امورِ ضروریہ کے انکار کے بارے میں موجود نہ ہوں، لیکن اگر اس شخص کا کوئی اور کلام یا قرائن کفر کی تائید میں یا امورِ ضروریہ کے انکار میں موجود ہوں تو ایسا شخص بلاشبہ کافر ہے
دلائل
.بند
عقیدہ:
جو شخص غیر شرعی قوانین کو اسلامی قانون سے افضل سمجھتا ہے وہ دائرۂ اسلام سے خارج ہے، اسی طرح جو شخص اسلامی قوانین کے برخلاف قانون کا قائل ہے وہ بھی کافر ہے، مثلاً جو یہ کہتا ہے کہ چور کی سزاء صرف ایک ماہ قید ہے یا زانی کی سزاء صرف دس کوڑے ہے، یہ شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ دلائل
وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ۔ (المائدۃ:۴۴) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ۔ (اٰل عمران:۸۵) و من تمنّی ان لا یکون اللہ حرم الزنا او القتل بغیر حق أو الظلم أو أکل مالایکون حلالا فی وقت من الاوقات یکفر ….. و فی الجواھر: من انکر حرمۃ الحرام المجمع علی حرمتہ او شک فیھا: ای یستوی الامر فیھا کالخمر و الزناء و اللواطۃ و الرباء أو زعم أن الصغائر و الکبائر حلال، کفر۔ (شرح فقہ اکبر:۱۸۷۔۱۸۸) بند
عقیدہ:
اسلامی ا حکام کا بسبب اسلامی احکام مذاق اُڑانا یا استہزاء کرنا کفر ہے، اگر ایسا کرنے سے کسی شخص کا استہزاء مقصود ہو، اسلامی احکام کا استہزاء مقصودنہ ہو تو کفر نہیں۔ دلائل
قُلْ أَبِاللَّهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ۔ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ۔ (التوبۃ:۶۵۔۶۶) والاستھزاء بحکم من احکام الشرع کفر۔ (شرح فقہ اکبر:۱۷۶) من سمع قراءۃ القرآن فقال استھزاء بھا: صوت طرفۃ کفر: ای نغمۃ عجیبۃ و انما یکفر اذا قصد الاستھزاء بالقراءۃ نفسھا، بخلاف ما اذا استھزاء بقارئھا من حیثیۃ قبح صورتہ فیھا و غرابۃ تأدیۃ لھا۔ (شرح فقہ اکبر:۱۶۷) و الاستھزاء علی الشریعۃ کفر لان ذٰلک من أمارات التکذیب و علی ھذہ الاصول أی کفر المستحل و المستحلین و المستھزئ۔ (نبراس:۳۳۹) بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی صفات کا انکار کرنا کفر ہے، اور گویا اللہ کی ذات کو معطل کردینا ہے۔تشریح
صفات کے بغیر تعارف ممکن نہیں ہے۔اور کسی بھی ہستی /یا چیز کا ادراک اور اس کا تعارف اس کی صفات سے ہوتا ہے، کسی بھی ہستی کی مجرد ذات کو اس کی صفت سے علیحدہ کرکے نہ سمجھا جا سکتا ہے نہ سمجھایا جا سکتاہے، مثلاً دودھ کو سمجھنا یا بیان کرنا ہے، تو اس کا واحد طریقہ یہ ہے کہ آپ اس کی صفت بیان کریں، کہ جیسے: ایک سیال ، جو سفید رنگ کا ہوتا ہے، اور اس کو غذ ا کے طور پر پیا جاتا ہے اس کو دودھ کہتے ہیں۔ یہ تینوں ہی باتیں دودھ کی صفت ہیں، یعنی سیال ہونا، سفید ہونا، اور غذا کے طور پر پیا جانا ، ان صفات کے علاوہ مزید سمجھانے کےلئے یا دودھ کو دوسرے سفید سیالوں سے ممتاز کرنے کےلئے اور بھی صفات کو بڑھایا جا سکتا ہے، لیکن وہ سب باتیں دودھ کی صفات ہی شمار ہوں گی، مگر دودھ کو بغیر صفات بیان کئے ہوئے مجرد سمجھا / یا سمجھایا نہیں جا سکتا، ایسے ہی دوسری کسی بھی چیز کو سمجھانا ہے تو صفات کا بیان ضروری ہے۔
صفات سے مجرد ذات کا اثبات خارج میں ممکن نہیں ہوتا: صفات سے مجرد ذات کا اثبات خارج میں ممکن نہیں ہے، بلکہ صفات سے مجرد ذات کے اثبات کے نتیجہ میں ہی عقیدہ حلول پیدا ہوتا ہے جو نصاری کے شرک سے بھی بدتر اور صریح کفر ہے۔
تعطیل :
قرآن مجید میں صفات باری تعالیٰ کا اثبات آخرت کے اثبات سے بھی زیادہ بیان کیا گیا ہے۔ اور قرآن نے جو کچھ محکم طور پر بیان کیا ہے اس کو ماننا لاز م اور ضروری ہے۔
اللہ کی صفات کے انکار کرنے کو تعطیل کہتے ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ کو صفات سے مجرد قرار دینا، یا اللہ کی صفات میں سے کسی صفت کو کم کردینا یہ تعطیل ہے اور کفر ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں اور قرآن ان کے بیان سے بھرا ہوا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہدایت کا کوئی سلسلہ جاری نہیں کیا ہے صریح کفر ہے۔تشریح
اللہ کی صفت ہدایت کا کفر۔ اللہ کی صفت ہدایت کا انکار کرنا کہ اللہ نے کوئی ہدایت کا سلسلہ جاری نہیں کیا ہے، یا یہ کہنا کہ انسان کی ہدایت کےلئے ان کے رب کی جانب سے کوئی سلسلہ نہیں تھا ، اور کہنا کہ پہلے انسان تاریکی میں تھا اور بتدریج ہدایت یاب ہوا ہے، اور کسی بھی راستہ کو اختیار کرنا درست ہے سبھی راستے حق کے ہیں یہ سب کفریہ کلمات ہیں۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مشیت و تقدیر کو اعمالِ سیئہ کےلئے ڈھال بنانا کفر ہے۔تشریح
اس سے یہ واضح ہوگیا کہ شر کی تکوین اللہ نے امتحان اور آزمائش کی غرض سے کی ہے، اگر خیر کے ساتھ شر کی تخلیق ہی نہیں ہوتی تو امتحان کیسے ہوتا ؟اس لحاظ سے شر کی تخلیق اور اس کا تکوینی ارادہ غلط نہیں ہے، ہاں شر کو اختیار کرنا اور اس کا ارتکاب کرنا غلط ہے، یعنی بندہ اللہ کی پیدا کردہ خیر اور شر کی اقسام میں سے کسی ایک قسم کو اپنے اختیار سے کرتا ہے، اگر وہ شر کو اختیار کرتا ہے تو اس کا شر کو اختیار کرنا غلط ہے، اگر وہ شر کو اختیار کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا کردیتا ہے، اس کو زبردستی روکتا نہیں ہے، تاکہ امتحان پورا ہو۔
اس اعتبار سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ شر کو اختیار کرررہا ہے تو یہ اللہ کا ارادہ ہے، کیونکہ یہ اللہ کا ارادہ شرعی نہیں بلکہ تکوینی ہے، یعنی اس کے علم میں گناہ ہور ہا ہے تو وہ اس کو پورا ہونے دے رہا ہے، زبردستی روک نہیں رہا ہے، کیونکہ اس کو امتحان پورا کرانا ہے، باقی بندہ جو کچھ کررہا ہے اپنے اختیار سے کررہا ہے، اس لئے معاصی اور ذنوب کےلئے مشیت الہٰی کو آڑ بنانا درست نہیں ہے، اور اپنے اختیار سے کرنے والے سیئات /گناہوں کے بارے میں یہ کہنا کہ اللہ نے چاہا ہے اس لئے وہ گناہ کا ارتکاب کررہا ہے ایسا کہنا کفر ہے، کیونکہ اللہ کا ارادہ تکوینی کسی کےلئے جبر کی راہ نہیں کھولتا، جبکہ اس کا ارادہ شرعی اس کو گناہ سے باز رہنے کو بھی کہہ رہا ہے۔ ہاں غیر اختیاری حالات اور مصائب کی نسبت اللہ کی مشیت طرف ہی کی جائے گی، کہ وہ اللہ کی طرف سے ہیں، اور یہی ایمان کا تقاضہ ہے۔
احکام شرعیہ میں اللہ کا ارادہ:
بندوں کو دیئے جانے والے احکام میں بھی اللہ کا ارادہ کارفرما ہوتا ہے، جو اللہ چاہے حکم دے سکتا ہے، اور دیتا ہے، کوئی بندہ اللہ کے حکم کے مقابلہ میں اپنا ارادہ اور اپنی خواہش کو لانے کا حق دار نہیں ہے، ہاں اللہ بندوں کو ہر طرح کے احکام میں تخفیف ہی کا ارادہ کرتا ہے، وہ ان کی طاقت سے زیادہ احکام کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ، وہ ان کے حق میں یسر ہی چاہتا ہے، عسر نہیں چاہتا۔

شرک کی تعریف : کفر کی ایک قسم شرک بھی ہے، شرک کہتے ہیں: اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات یا اس کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرنا۔
شرک توحید کی ضد ہے، شرک خدا کے انکار کا نام نہیں ہے، بلکہ خدا کو ماننا لیکن اس کے ساتھ کسی کو شریک کردینا یہ شرک ہے۔ کئی خدا ماننا یا خدا کے ساتھ خاص اسما٫ صفات اور خدا کے لئے خاص حقوق میں دوسروں کو بھی شریک کرلینا یہ شرک ہے۔
شرک میں بنیادی طور پر یہ ہوتا ہے کہ مخلوقات میں سے کسی کو اٹھا کر خدا کے مقام ارفع کے برابر کردیا جاتا ہے ، اور اسی میں لازمی طور پر یہ بھی ہو جاتا ہے کہ خدا کو اس کے مقام ارفع سے گرا کر بندوں کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اس اعتبار سے شرک کی ہر صورت بدترین اور عظیم ظلم ہے،اور ناقابل معافی جرم ہے۔ ذات میں شرک کا مطلب:
ذات میں شرک کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً انسان ایک ذات ہے، تو انسان کا باپ بھی انسان ہے اور انسان کا بیٹا /یا بیٹی بھی انسان ہے، اور انسان کی بیوی بھی انسان ہے۔ یا مثلاً : کوئی جانور جیسے گھوڑا ایک ذات ہے، تو گھوڑے کی اولاد بھی گھوڑا ہے، اس کی مادہ بھی گھوڑا ہے، اور اصول یعنی اس کے ماں باپ بھی گھوڑا ہیں۔
اللہ کی ذات میں ترکیب و تقسیم نہیں ہے:
اسی طرح ذات میں وحدانیت کا مطلب یہ بھی ہے کہ :اللہ رب العزت کی ذات اقدس کسی کا مرکب نہیں ہے، اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی ذات کی تقسیم ہوتی ہے، اسی طرح اللہ کی ذات کسی میں حلول نہیں کرتی، جیسا کہ ہندو فلاسفہ مانتے ہیں کہ کائنات کا ذرہ ذرہ خدا ہے، اور خداہر ایک میں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ مخلوقات میں سے کسی شخص میں حلول کرتے ہیں، جیسے ہندو اوتاروں کا عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا انسان کی صورت میں حلول کرکے آگیا، یہ سب باری تعالیٰ کی ترکیب و تقسیم کرنا ہے، اور اللہ تعالیٰ کو مرکب یا منقسم ماننا اس کی ذات میں وحدانیت کو ماننے کے خلاف ہے، جب وہ حلول کرگیا تو وہ ایک کہا ں رہا، جتنوں میں حلو ل کرگیا اتنی کثرت میں تقسیم ہوگیا، اور اگر یہ حقیقت ہوتی تو نعوذ باللہ وہ ان سب سے مرکب ہے۔
اللہ کو کسی کی اولاد ماننا یہ بھی ترکیب ماننا ہے، کہ ماں باپ کے اجزا٫ سے مرکب ہوکر وہ بنا ہے، اور اللہ تعالیٰ سے اولاد کو ماننا یہ تقسیم کو ماننا ہےکہ وہ اولاد اس کا جز٫ ہے نعوذ باللہ ۔
شرک فی الذات : شرک فی الذات کے معنیٰ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی خدائی میں کسی کو شریک کرنا، جیسے عیسائی تین خدا مانتے ہیں، آتش پرست دو خدا مانتے ہیں، ہندو اور بتوں کو پوجنے والے بہت سارے خدا مانتے ہیں، سب شرک فی الذات ہے۔
ذات میں شرک کے نتائج:
ذات میں شرک کی یہی نزاکت ہوتی ہے کہ جب کسی ذات کا کفو یا اصول و فروع مانے جاتے ہیں تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ ان سب کفو اصول اور فروع کی ذات ایک ہی ہے، نعوذ باللہ اگر اللہ کا بیٹا مانیں گے تو دوسری ذاتوں کی طرح وہ بیٹا بھی اللہ ہوگا، بیٹی مانیں گے تو وہ بیٹی بھی اللہ ہوگی، اور اگر بیوی مانیں گے تو وہ بھی اللہ ہوگی۔ معاذ اللہ
اسی طرح اگر اللہ کا کسی میں حلول کرجانا مانا جائے تو نعوذ باللہ اس کو اللہ ماننا ہوگا، یا کائنات کے ذرہ ذرہ میں اللہ کا حلول کر جانا مانا جائے تو اس کے نتیجہ میں تو کائنات کا ذرہ ذرہ اللہ ہو جائے گا، او رپھر مشرکین کو مشرک کہنا بھی درست نہیں ہے، ان کا ہر شجر و حجر کی پرستش کرنا درست ماننا ہوگا، نمرود اور فرعون کو ربوبیت کے دعوی میں جھوٹا ماننا خود غلط ہوجائے گا، اور یہ ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ انبیا٫ اپنے دعوے میں جھوٹے تھے، اور نعوذ باللہ بت پرست مشرکین حق پر ہیں معاذ اللہ ۔ اس لئے حلول اور اتارواد کے عقیدے سب شرک ہیں ۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک فی الصفات ہے۔تشریح
شرک فی الصفات : شرک فی الصفات کے معنیٰ ہیں کہ غیر اللہ کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور خدائی میں تو شریک نہ ٹھہرایا جائے، البتہ اللہ تعالیٰ کی صفات خاصہ جو صرف اسی کے لئے ثابت ہیں ان میں دوسروں کو شریک کیا جائے، اس شرک کی چند موٹی موٹی اقسام ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں۔ بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی عبادت میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک فی العبادت ہے۔تشریح
شرک فی العبادات : شرک فی العبادات:جو کام اللہ تعالیٰ نے اپنی تعظیم اور بڑائی کی خاطر اور اپنے بندوں کے لئے جاری فرمائے ہیں ان کاموں کو عبادات کہا جاتا ہے، مثلاً نماز پڑھنا، رکوع کرنا، سجدہ کرنا، اس کے گھر کا طواف کرنا، روزہ رکھنا وغیرہ، جو ایسے کاموں میں غیر اللہ کو اللہ کے ساتھ شریک کرتا ہے وہ شرک فی العبادات کا مرتکب ہوتا ہے، مثلاً غیر اللہ کو سجدہ کرنا، رکوع کرنا یا اس کے لئے نماز کی طرح قیام کرنا یا کسی قبر کو سجدہ کرنا یا کسی نبی، ولی، پیر یا امام کے نام کا روزہ رکھنا، غیر اللہ کے نام کی قربانی کرنا، کسی کے نام کی منت ماننا، کسی کے گھر یا قبر کا بیت اللہ کی طرح طواف کرنا، کسی سے اللہ کی طرح حاجتیں مانگنا، غیر اللہ کو اللہ کی طرح پکارنا وغیرہ سب شرک فی العبادات ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
علم غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے،اس صفت میں کسی دوسرے کو شریک کرنا شرک فی العلم ہے۔تشریح
شرک فی العلم: علم غیب اللہ تعالیٰ کی خاص صفت ہے، علم غیب اس علم کو کہتے ہیں جو کلی اور ذاتی ہو،جو علم جزئی یا عطائی ہو وہ علم غیب نہیں ہوتا، جو شخص اللہ تعالیٰ کی اس صفت میں غیر اللہ کو شریک کرے وہ شرک فی العلم کا مرتکب ہے، مثلاً یہ سمجھے کہ فلاں نبی یا فلاں ولی علم غیب جانتے تھے، یعنی انہیں کائنات کے ذرّے ذرّے کا علم ہے یا وہ اپنی زندگی میں یا مرنے کے بعد ہمارے تمام حالات سے باخبر ہیں یا انہیں دور نزدیک کی تمام چیزوں کی خبر ہے، یہ شرک فی العلم ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کے علم کو ذاتی، یا لا محدود ماننا شرک ہے۔تشریح
اللہ کی صفت علم میں شرک۔ اللہ کے علاوہ سب میں علم : عطائی ، محدود اور حادث ہے، اللہ کےلئے صفت علم مذکورہ بالا جن معانی استعمال ہوا ہے اس کو غیر اللہ کےلئے ماننا اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، مثلاً غیر اللہ میں سے کسی کےلئے یہ ماننا کہ : اس کا علم ذاتی ہے یہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، یا غیر اللہ کےلئے یہ ماننا کہ : اس کا علم لا محدود ہے یہ بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ یا غیر اللہ کےلئے یہ ماننا کہ اس کا علم قدیم ہے حادث نہیں ہے یہ بھی اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، یا یہ ماننا کہ غیر اللہ میں کسی کا علم کلیات و جزئیات سبھی کو شامل ہے یہ اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے۔ یا غیر اللہ میں سے کسی کےلئے یہ ماننا کہ اس کا علم ماضی و مستقل سبھی کو محیط ہے یہ اللہ کے ساتھ اس کو شریک کرنا ہے۔ اور شرک ناقابل معافی جرم ہے ، جس کی سزاء ابد الآباد یعنی ہمیشہ ہمیش کی جہنم ہے۔
غیر اللہ کےلئے صفت علم کو اس طرح ماننا شرک نہیں ہے۔
ان معانی سے ہٹ کر صفت علم کو غیر اللہ کےلئے ایسے استعمال کرنا جیسے اللہ اور اس کے رسول نے استعمال کیا ہے شرک نہیں ہے، مثلاً یہ ماننا کہ : بندہ کا علم اللہ کا عطائی ہے، محدود ہے، اور حادث ہے یہ ماننا شرک نہیں ہے۔
بندوں میں معلومات کی سطح الگ الگ ہوتی ہیں، کسی کی کم کسی کی زیادہ، عام آدمی کے مقابلہ میں علماء کا علم زیادہ ہوتا ہے، خیر القرون کا علم بعد والوں کے مقابلہ میں زیادہ راسخ تھا، اور ان میں صحابہ کا علم غیر صحابہ سے زیادہ گہرا اور زیادہ مستحکم تھا، صحابہ سے زیادہ علم انبیاء و رسل کا علم ہے، اور انبیاء و رسل میں سب سے زیادہ علم محمد رسول اللہ ﷺ کا علم ہے، مخلوقات میں کسی کا علم آپ کے علم جیسا نہیں ہے، آپ ﷺکا علم سب سے فائق تر ہے، اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو علم اولین و علم آخرین سے نوازا ہے، ………………جو شخص نبی ﷺ کے علم کی صفت میں یہ مانتا ہو کہ آپ کا علم اللہ کا عطاء کردہ ہے، اللہ کے علم کے مقابلہ میں آپ ﷺ کا علم محدود اور حادث ہے تو وہ اللہ کی صفت علم میں شرک کا مرتکب نہیں ہوتا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
غیر اللہ کی جانب سے علم غیب کا دعوی شرک ہے، اور کسی غیر اللہ کے ایسے کسی دعوی کی تصدیق بھی شرک ہے۔تشریح
دعوی علم غیب کا حکم۔ جو بھی شخص غیب کا دعوی کرے وہ شرک او رکفر ہے، اور مدعی علم غیب کی تصدیق بھی شرک اور کفر ہے، جو شخص مال مسروقہ کےعلم کا دعوی کرے علما٫ نے اس کو بھی اسی حکم میں رکھا ہے، اور جو شخص اس کی تصدیق کرے اس کو بھی شرک اور کفر قرار دیا ہے۔او رجو شخص اس بات کا دعوی کرے کہ اس کے پاس جن ہے جو غیب کی باتیں جانتا ہے اور جو کچھ پیش آنے والا ہے وہ اس کی خبر دیتا ہے یہ بھی شرک ہے اور ایسا ماننے والے کی تصدیق کرنا بھی شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کی صفتِ قدرت کسی دوسرے کے لئے ثابت کرنا شرک فی القدرۃ ہے۔تشریح
اللہ کی صفتِ قدرت میں شرک۔ اللہ کی صفت قدرت میں کوئی شریک نہیں ہے، کسی کو اللہ کی صفت قدرت میں مذکور بالا معانی میں ماننا شرک ہے، کسی غیر اللہ کے بارے میں یہ ماننا کہ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے شرک ہے، مثلاً یہ عقیدہ رکھنا کہ پیر بھی بیٹا یا بیٹی دے سکتے ہیں اور اسی وجہ سے بیٹے کا نام ’’پیراں دتہ‘‘ رکھنا یا یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی نبی یا ولی بارش برسا سکتے ہیں، یا مرادیں پوری کرسکتے ہیں یا مقدمہ میں کامیاب کراسکتےہیں یاروزی دے سکتے ہیں، یا روزی میں فراخی پیدا کرسکتے ہیں، یا زندگی موت ان کے قبضہ میں ہے یا کسی کو نفع نقصان پہنچاسکتے ہیں یہ سب شرک فی القدرۃ ہے۔
یہ ماننا کہ ہر چیز غیر اللہ کے تابع فرمان ہے یہ بھی شرک ہے، یہ ماننا کہ خود اللہ نے کسی میں ہر چیز کی قدرت دی ہے یہ کفر ہے، کسی غیر اللہ کے بارے میں یہ ماننا کہ کوئی اس کو عاجز نہیں کر سکتا، یا کوئی اس پر غالب نہیں آسکتا یہ بھی شرک ہے، یا یہ ماننا کہ وہ اللہ کے آگے عاجز مقہور اور مغلوب نہیں ہے یہ بھی شرک ہے، اور افعال عباد کو اللہ کی قدرت سے خارج ماننا کفر و شرک ہے، اور شرک نا قابل معافی جرم ہے جس کی سزاء ابد الآباد یعنی ہمیشہ ہمیش کی جہنم ہے۔
اسی طرح یہ کہنا کہ بندوں کی اپنی کوئی مشیت ہے ہی نہیں ، مشیت تو صرف اللہ کی ہے، اور بندہ اپنے ارادہ اور اختیار کے بغیر حرکت کرتا ہے جیسا کہ کوئی مشین حرکت کررہی ہو، جس کا اختیار کسی اور کے ہاتھ میں ہےیہ اللہ کے’’ارادہ شرعی‘‘ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے عدل کی نفی کرنا ہے، کہ اللہ ظالم ہے اور بندوں پر جبر کرتا ہے ایسا ماننا کفر ہے۔ تاریخ اسلامی میں ایسا ماننے والے جبریہ کہلائے۔
اسی طرح احکام الہٰی میں اپنے ارادہ کو دخل دینا اور سمجھنا کہ ہم بھی آزاد ہیں اپنے ارادہ کو احکام کے مقابلہ میں رکھ سکتے ہیں یہ بھی شرک ہے، کوئی اللہ کے ارادہ کے نفاذ میں مانع نہیں ہو سکتا، غیر اللہ میں کسی کو خواہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو اللہ کے ارادہ سے آزاد ماننا شرک ہے۔
کسی غیر اللہ میں ارادہ اور مشیت کی صفت کو ان معانی میں ماننا جن معانی میں اللہ اور اس کے رسول نے مانا ہے یہ شرک نہیں ہے، کسی کے بارے میں یہ ماننا کہ: اس کی صفت ارادہ کی عطاء ہے، محدود ہے اور حادث ہے شرک نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کے علاوہ کسی اور کے بارے میں یہ ماننا کہ وہ ہر بات سن رہے ہیں اور ہر چیز دیکھ رہے ہیں، یا یہ ماننا کہ وہ جو چاہیں سن سکتے ہیں اور جو چاہیں دیکھ سکتے ہیں ،شرک ہے۔تشریح
شرک فی السمع و البصر: اللہ تعالیٰ کے لئے سماعت و بصارت ثابت ہے، نصوص ان کے ذکر سے بھری ہوئی ہیں، ان کا انکار کرنا کفر ہے(جیسا کہ معطلہ نے کیا ہے)، اللہ تعالیٰ اپنی صفات کےلئے اعضا٫ و اسباب کا محتاج نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی سماعت و بصارت بندوں کی طرح سے نہیں ہے، یعنی ان میں اللہ کو اعضا٫ و جوراح کا محتاج ماننا بھی کفر ہے(جیسا کہ مشبہ نے کہا ہے)، وہ کسی کا محتاج نہیں ہے، وہ لا محدود ہے، اور ہمیشہ سے ان صفات سے متصف ہے، اللہ تعالیٰ کےلئے جن معانی میں صفات سماعت و بصارت استعمال ہوتی ہیں ان کو غیر اللہ میں ماننا شرک ہے، اللہ کی صفت سماعت اور بصارت ذاتی ، لا محدود، اور قدیم ہیں، غیر اللہ میں سماعت و بصارت عطائی (یعنی اللہ کی عطاء کردہ)، محدود اور حادث ہیں، غیر اللہ میں سماعت و بصارت کی صفات ذاتی ، لا محدود، اور غیر حادث ماننا شرک ہے۔ شرک نا قابل معافی جرم ہے، جس کی سزاء ہمیشہ ہمیش کی جہنم ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالی کی طرح کسی کو ہر جگہ حاضر و ناظر اور ہر جگہ موجودسمجھنا شرک ہے۔تشریح
ہر جگہ حاضر و ناظر اور ہر جگہ موجود صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے، اللہ تعالیٰ کے سواء کسی نبی یا کسی ولی کے لئے یہ صفت ماننا بھی شرک فی الصفات ہے، اسی طرح اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات جن کا بیان توحید کے باب میں آیاہے ان میں سے کسی ایک صفت میں غیر اللہ کو شریک کرنا شرک فی الصفات کہلاتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کفر و شرک ایسا بدترین جرم ہے کہ کافر و مشرک کی کبھی معافی نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کی بخشش ہوگی، یہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ دلائل
إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ۔ (النساء:۴۸و۱۱۶) إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ۔ (المائدۃ:۷۲) إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ فِي نَارِ جَهَنَّمَ خَالِدِينَ فِيهَا۔ (البینۃ:۶) بند
عقیدہ:
دنیا کے بارے میں کافر و مشرک کی دعاء قبول ہوسکتی ہے، لیکن آخرت کے بارے میں کسی کافر و مشرک کی کوئی دعاء قبول نہیں ہوتی۔ دلائل
فَإِذَا رَكِبُوا فِي الْفُلْكِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ إِذَا هُمْ يُشْرِكُونَ۔ (العنکبوت:۶۵) بَلْ إِيَّاهُ تَدْعُونَ فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُونَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ وَتَنْسَوْنَ مَا تُشْرِكُونَ۔ (الانعام:۴۱) وَلَوْ تَرَى إِذْ وُقِفُوا عَلَى النَّارِ فَقَالُوا يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ۔ بَلْ بَدَا لَهُمْ مَا كَانُوا يُخْفُونَ مِنْ قَبْلُ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ۔ (الانعام:۲۷۔۲۸) بند
عقیدہ:
وحدۃ الوجود کا یہ تصور کہ کائنات کا ہر ذرہ اللہ کی ذات کا جزء ہے عینِ شرک ہے۔تشریح
اوتار واد/ یا حلو ل کو ماننا شرک ہے۔ کسی میں اللہ کی ذات حلول کر گئی ہے ماننا اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے، کسی کو اللہ کا اوتار ماننا یہ بھی اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے،یہ ماننا کہ کائنات کے ذرّہ ذرّہ میں اللہ ہے یہ بھی اللہ کی ذات میں شرک کرنا ہے۔
وحدۃ الوجود:
وحدۃ الوجود کی اصطلاح دو معنوں میں استعمال ہوتی ہے:
(۱) ایک یہی کہ ہر شے میں خدا ہے، کائنات، سورج چاند زمین تارے غرض ذرہ ذرہ میں خدا ہے، جیسا کہ ہندو مانتے ہیں اور ہر شجر و حجر کو وہ اسی لئے پوجتے ہیں کہ اس کو خدا کی ذات کا جز٫ مانتے ہیں، اس معنی میں وحدۃ الوجود صریح شرک فی الذات ہے، اور اس معنی میں یہ اصطلاح مسلمانوں کی اصطلاح نہیں ہے۔
(۲) وحدۃ الوجود ایک دوسرے معنی یہ ہیں کہ حقیقۃً وجود تو صرف ایک ہی ہے اور وہ اللہ رب العزت کا وجود ہے، کیونکہ اس کا وجود ذاتی ہے، ازلی و ابدی ہے، باقی سب کے وجود اللہ کی عطا ٫ سے ہیں ، حادث ہیں، اور ان کو فنا ہے، اور جب تک ہیں اللہ کی قیومیت سے ہیں، جہاں اللہ نے ان کے فنا کا ارادہ کیا سب فنا ہوجائیں گے اس اعتبار سے حقیقی وجود تو ایک ہی ہوا تو اس معنی میں وحدۃ الوجود شرک نہیں ہے، بلکہ باری تعالیٰ کی تقدیس و تعظیم کا ایک بیان ہے، اور محض اصطلاح اور الفاظ میں وحدت سے ایسا ماننے والوں پر شرک کا حکم نہیں لگایا جائے گا، الفاظ و اصطلاح میں یہ اتفاقی ہے، اس میں اصل معیار معنی کا ہے، جیسا کہ ہم نے ’’مبادیات عقائد ‘‘میں و ضاحت کی ہے۔
ایک عالمی حقیقت: دنیا کی مختلف قوموں میں یہ تو ہوا کہ ذات باری تعالیٰ کی جانب اولاد کی نسبت کے ذریعہ یا حلول اور اوتار واد کے نظریہ کے ذریعہ شرک فی الذات تو ہوا ہے ، لیکن ذات باری تعالیٰ کے بالکل مد مقابل ایک ایسی ذات پر ایمان جو واجب الوجود سے علیحدہ ایک مستقل وجود رکھتا ہو او راس میں وہ تمام صفات کمال موجود ہوں جو ذات باری تعالیٰ میں مانے جاتے ہیں ایسا کسی قوم میں نہیں پایا گیا ہے، سب نے ایک ہی واجب الوجود ذات باری تعالیٰ میں ہی ترکیب و تقسیم کی ایسی صورتیں مانی ہیں جو انہیں اس کی ذات میں شرک تک لے گئیں ہیں۔
البتہ یہ بیٹا یا بیٹی مان کر یا حلول اور اوتار واد کے ذریعہ مانا جانےو الا شرک بھی بدترین شرک ہے، جس کی معافی نہیں ہے۔ بند
عقیدہ:
اللہ کے علاوہ کسی کے بارے میں یہ ماننا کہ وہ ہمیشہ سے ہے ، یا یہ ماننا کہ اس کی حیات ذات ہے شرک ہے۔تشریح
عقیدہ:
کسی کے ارادہ و مشیت کو اللہ کے ارادہ و مشیت کے برابر کردینا شرک ہے۔
عقیدہ:
کسی کے ارادہ و مشیت کو اللہ کی مشیت کے تابع نہ ماننا بھی شرک ہے۔
عقیدہ:
یہ ماننا کہ بندے اپنے اعمال کے خود خالق ہیں، ان کے پورا ہونے کےلئے اللہ کے ارادہ کونی کی ضرورت نہیں ہے یہ بھی شرک و کفر ہے۔تشریح
صفت ارادہ و مشیت میں شرک۔ مذکورہ بالا معانی میں اللہ کی صفت ارادہ و مشیت کسی میں ماننا شرک ہے، کسی کے ارادہ و مشیت کے بارے میں ماننا کہ وہ اللہ کی طرح نافذ ہوتی ہے اللہ کے ساتھ شرک کرنا ہے، اسی طرح یہ ماننا کہ کسی کے ارادہ یا مشیت کا نفاذ اللہ کی اجازت کے تابع نہیں ہے یہ بھی شرک ہے۔
یہ ماننا کہ بندوں کے افعال کے پورا ہونے کےلئے اللہ کی مشیت کی ضرورت نہیں ہے، اللہ کی صفت اردہ میں کمال اور ’’ارادہ تکوینی ‘‘کی نفی کرنا ہے، اور یہ نفی کرنا یہ ماننا ہے کہ اللہ کی مملکت میں کوئی اس کے اردہ کے بغیر بھی اپنا ارادہ چلا سکتا ہے، ایسا ماننا شرک ہے۔ تاریخ اسلامی میں ایسا ماننے والے قدریہ کہلائے۔ بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی اور ہدایت نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو ہدایت دینے والا سمجھنا شرک ہے۔تشریح
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو الہ ماننا یا اس کے الوہیت کے حقوق کسی اور کو دینا شرک اور ناقابل معافی جرم ہے۔تشریح
عقیدہ:
اللہ کے علاوہ کسی کے ہاتھ میں کوئی اختیار نہیں ہے، الوہیت میں شرک مشرکین کی حماقت ہے۔تشریح
مشرکین کی جانب سے اللہ کے علاوہ جن الہٰوں کو پوجا جاتا ہے، ان کے ہاتھ کچھ نہیں ہے، سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے، اللہ تعالیٰ نے ربوبیت کا کوئی ادنی سے ادنی اختیار بھی کسی کو نہیں دیا ہے، نہ دنیا میں نہ آخرت میں ہر جگہ ہر کوئی اللہ کا محتاج ہے، اور جس طرح عوام اللہ کے محتاج ہیں، ویسے ہی خواص بھی اللہ ہی کی محتاج ہیں، وہ اپنا ہی کوئی کام اللہ کی مشیت کے بغیر انجام نہیں دے سکتے، اور دوسروں کے کام اللہ نے ان کے حوالہ نہیں کئے ہیں کہ وہ جو چاہیں تصرف کریں، بلکہ سارے کام اللہ کی مشیت اور امرکے محتاج ہوتے ہیں، اللہ کا کوئی ولی اللہ کی کمزوری کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے تقوی کی وجہ سے ہے، اور وہ اللہ کی بادشاہت میں کوئی اختیار نہیں رکھتا، یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ نے نفع و ضرر پہنچانے کی طاقت کسی کو تفویض کی ہے یہ بھی شرک کا ایک شعبہ ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کے ساتھ جن کو شریک کیا جاتا ہے کل قیامت کے دن وہ خود مشرکین کی مخالفت کریں گے، اور ان کے عمل سے اپنی برأت کا اعلان کریں گے کہ اس عمل سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا۔تشریح
شرکاء قیامت کے دن وہ خود مشرکین کی مخالفت کریں گے۔ اللہ کے علاوہ جسکو بھی الہ بنایا جاتا ہے عام طور پر یہ خود مشرکین کی حرکت ہے ورنہ جن کو اللہ کے ساتھ شریک کیا جاتا ہے خود ان کی مرضی اس میں شامل نہیں ہوتی، بلکہ ان کو اس کی خبر بھی نہیں ہے، کل قیامت کے دن وہ سب مشرکین کے شرک سے برأت کا اظہار کردیں گے، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکین اور ان کے شریک کئے ہوئے خداؤں کو جمع کریں گے اور ان شرکاء سے پوچھیں گےکہ کیا تم نے انہیں خود کو میرے ساتھ شریک کرنے کا حکم دیا تھا وہ اس پر صاف انکار کردیں گے کہ اس بد ترین حرکت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، انبیاء، فرشتے، جن، اولیاء و صالحین سب کھلے طور پر کہہ دیں گے کہ یہ خود ان مشرکین کی اپنی برائی ہے ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے ،ہم نے انہیں اس کا حکم نہیں دیا تھا، یہ سب وہاں اللہ کے حضور اللہ کے بندے اور اللہ کے محتاج بن کر حاضر ہوں گے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بتوں اور معبودان باطلہ کی تصویروں کا احترام اور ان کی پرستش اور ان پر اعتماد کرکے ان کے آگے سجدہ ریز ہونا شرک اکبر ہے۔تشریح
بتوں اور تصویروں کی پرستش۔ بتوں اور تصویروں سے احترام اور عقیدت رکھنا اور ان میں کسی قسم کے تصرف کے اختیار کو ماننا، اور اس لئے ان کے سامنے مراسم عبودیت ادا کرنا، مثلاًسجدہ کرنا، جھکنا، ان سے مانگنا، ان کو پکارنا اور یہ عقیدت رکھنا کہ وہ سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں یہ سب شرک اکبر ہے اور شرک فی الالوہیت ہے۔
مشرکین مثلاً ہندو جن بتوں کو پوجتے ہیں وہ اسی شرک میں شامل ہے، ان کے علاوہ مسلمانوں کا بزرگان دین کی تصاویر کے ساتھ یہی معاملات کرنا، یا خاندان کے بزرگوں کے ساتھ یہ معاملات کرنا، ان کو صاحب تصرف و اختیار ماننا،ان کو پکارنا، اپنی ضروریات و حاجات کو ان سے مانگنا ،اور ان عقیدوں کے ساتھ ان کی تصویروں کے آگے چراغاں کرنا یہ بھی بعینہ اسی جیسا شرک اکبر ہے، جو ایک مسلمان کو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے۔
تصویر اور مجسمہ سازی شروع سے شرک کےلئے استعمال ہوئی ہے، شیطان نے شرک کا آغاز اسی طریقے سے کرایا ہے۔
تصویر کی حرمت۔ تصویر اور بت سازی کی حرمت اسلام میں اسی لئے ہے کہ وہ ہمیشہ سے شرک کا بڑا ذریعہ رہا ہے، اس میں ہر جاندار کی تصویر کی حرمت تو ہے ہی ساتھ ہی علما٫ و اولیا٫ اور صالحین کی تصاویر کی حرمت خاص طور سے ہے جن کے بارے میں غالب گمان ہوتا ہے کہ ان کی تصاویر کی عقیدت و احترام میں غلو ہوگا اور بتدریج کھلا اور شرک اکبر شروع ہوجائے گا، اس لئے تصویر سازی اور بت سازی بھی حرام مطلق ہے۔ جیسا کہ قوم نوح کے بزرگوں کے ساتھ ہوا جن کے نام قرآن نے ’’ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر‘‘ ذکر کئے ہیں۔ یہ اس قوم کے بت /اصنام تھے، احادیث میں آیا ہے کہ یہ قوم نوح کے بزرگان تھے جن کی تصاویر بنائی گئیں، پھر ان سے احترام رکھا گیا، پھر غلو شروع ہوا اور پھر کھلے شرک کا آغاز ہوا۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
دعا٫ ، استعانت اور استغاثہ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے کہ اس سے دعاء کی جائے، غیر اللہ کو اختیار و تصرف والا مان کر اس کے آگے ہاتھ پھیلانا شرک ہے۔تشریح
دعا٫ ، استعانت اور استغاثہ صرف اللہ کا حق ہے، اور اللہ کی عبادت کا لازمی جزء ہے کہ بندہ صرف اللہ سے مانگے، اللہ کے علاوہ کسی اور سے دعاء نہ کرے، اللہ کے علاوہ کسی اور سے استعانت اور استغاثہ ، اور دعا٫کرنا شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اصحاب ِقبور سے مانگنا اور قبروں پر منتیں ماننا شرک ہے۔تشریح
قبروں کی تعظیم اور مدفون اولیا٫سے مانگنا۔ اولیا٫ اور صالحین کی قبروں پر جا کر ان سے اپنی ضرورتیں اور مرادیں مانگنا ، اور ان سے منتیں ماننا سب مراسم شرک ہیں، نبی ﷺ مرض الوفات میں اس سے بچنے کی خاص وصیت فرماتے رہے، اور قبروں کو سجدہ گا بنانے سے سختی سے منع فرمایا، اور ہر ایسے طریقہ کو ختم فرمایا جس سے قبروں کے معاملہ میں غلو ہو سکے، مثلاً ان کو روغن کرنا، قبریں پختہ اور اونچی بنانا، وغیرہ، صحابہ کرام کو مأمور فرمایا کہ جہاں کہیں ایسا دیکھو ان کو زمین کے برابر کردو، اور آپ خود دعا٫ فرماتے کہ : اللہم لا تجعل قبری وثناً یعبد(رواہ مالک و احمد)۔
قبروں کے پاس مشروع عمل یہ ہے کہ اصحاب قبور (خواہ وہ کسی رتبہ کے ہوں) خود ان کی مغفرت کےلئے اللہ تعالیٰ سے دعاء مانگی جائے، اور یہ کہ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔
قبروں کے ساتھ مشروع عمل۔ احادیث میں زیارت قبور کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ موت یاد آئے اور آخرت کی تیاری کی طرف توجہ ہو، اور ساتھ ہی صاحبِ قبر کےلئے دعا٫ِ استغفار اور دعا٫ِ رحم سکھلائی گئی ہے، یہ نہیں کہ صاحب قبر سے کچھ مانگا جائے جبکہ ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
درختوں یا پتھروں کو صاحب تصرف و اختیار والا مان کر ان سے دعاء کرنا یا ان سے امید رکھ کر ان پر دھاگہ باندھنا بھی شرک ہے۔تشریح
درختوں او پتھروں سے تبرک حاصل کرنا ۔ درختوں اور پتھروں سے عقیدت رکھنا جیسا کہ مشرکین اور ہندوں کا طرز ہے، اور ان درختوں یا پتھروں کے پاس جانا، ان پر منتوں کے دھاگے باندھنا اور یہ گمان رکھنا کہ اس سے ان کے کام نکل جائیں گے حرام اور شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
جادو جبکہ اس میں جن وشیاطین سے استمداد ہو شرک ہے، اور اگر اس میں استمداد بغیر اللہ نہ ہو تب بھی وہ کفر ہے۔تشریح
سحریعنی جادو۔
وہ عمل جس میں نتائج کے اسباب عام نظروں سے پوشیدہ ہوں، اور جن میں غیر اللہ سے استمداد لی جاتی ہے، مثلاً جن و شیاطین سےاستمداد وغیرہ ، ساحر جن و شیاطین کو خوش کرکے ان کی صلاحیتوں اور طاقتوں کو حاصل کرتا ہے اور اپنے مقصد کےلئے استعمال کرتا ہے اور دلوں اور اجسام پر اثر انداز ہوتا ہے، یا مسحور کو مرض میں مبتلا کرتا ہے یا دیگر اور نقصان پہنچاتا ہے، ان اعمال میں استمداد بغیر اللہ ہوتا ہے جو شرک اکبر ہے ، جس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج ہوجاتا ہے۔ اور اگر استمداد بغیر اللہ نہ بھی ہو تب بھی یہ کفر ہے کیونکہ اس سے منع کیا گیا ہے اور اس کو قرآن نے کفر سے تعبیر کیا ہے، اور حدیث میں اس کو سات ہلاک کردینے والی چیزوں میں شمار کیا گیا ہے۔
سحر (جادو)طاغوت ہے، جس کی نفی کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور جس سے اللہ اور رسول نے منع کیا ہے، سحر میں استمداد بغیر اللہ ہوتا ہے، جیسے جنوں اور شیاطین سے مدد لی جاتی ہے، اور استمداد بغیر اللہ شرک ہے، اس لئے سحر کفر و شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کےلئے نذر و نیاز ماننا شرک ہے۔تشریح
غیر اللہ کےلئے نذر و نیاز شرک ہے۔ نذر و نیاز اور منت ماننا کہ ائے اللہ میرا فلاں کام کردیجئے، یا صحت دے دیجئے، میں آپ کےلئے اتنا مال صدقہ کروں گا، یا اتنے لوگوں کو کھلاؤں گا، یا کنواں کھدواؤں گا، یا دواخانہ بناؤں گا وغیرہ یہ نذور صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے، غیر اللہ کےلئے منت ماننا جیسے پیران پیر یا کسی اور کی منت ماننا شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کےلئے قربانی دینا اور جانور ذبح کرنا شرک ہے۔تشریح
غیر اللہ کےلئے قربانی شرک ہے۔ قربانی صرف اللہ کا حق ہے، غیر اللہ کےلئے قربانی دینا ، یا غیر اللہ کےلئے جانور ذبح کرنا خواہ اس پر اللہ ہی کا نام پڑھا جائے ، مثلاً پیران پیر کےلئے جانور ذبح کرنا ، اور کسی صاحب قبر کےلئے جانور ذبح کرنا شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
کاہن سے غیب کی باتیں معلوم کرنا شرک ہے۔تشریح
کہانت۔ کہانت طاغوت ہے، کاہن جن و شیاطین سے غیب کی باتیں معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان سے جو معلومات حاصل ہوتی ہیں ان میں بڑھا چڑھا کر ان سے رجوع کرنے والوں سے ذکر کرتے ہیں، ان غیب کی باتیں بتا نے کا دعوی کرنے والوں پر یقین رکھنا، اور نفع کے حصول اور نقصان سے بچنے کےلئے ان کی تدبیروں کو ماننا شرک ہے، اس کا تعلق صفات باری تعالیٰ سے بھی اور حقوق باری تعالیٰ سے بھی ہے، اللہ کے علاوہ کسی اور کو غیب کی باتیں بتانے والا مان کر اس کے کہے کہ مطابق کرنا ، اور سمجھناکہ اس کے کہے ہوئے طریقہ سے اس کا مستقبل سنورے گا یا روزی ملے گی، یا کچھ اور حاصل ہوگا، یا نقصان سے بچے گا یہ سب ماننا شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
عراف جو غیب کی باتوں کو جاننے کا دعویدار ہوتا ہے اس کی تصدیق بھی کاہن کے پاس جانے کی طرح ہے، یہ بھی شرک ہے۔تشریح
عراف کو ماننا۔ یہ کہانت کی ہی ایک قسم ہے، اور غیب کی بات کا دعوی کرنا ہے، مثلاً کھوئی ہوئی چیز کا پتہ دینا، یا ہاتھ دیکھ کر مستقبل بتانا وغیرہ اس طرح کا دعوی کرنا باری تعالیٰ کی صفت’’علم‘‘ میں شرک کرنا ہے ،اور ایسے دعوی کرنے والی کی تصدیق کرنا اور اس پر بھروسہ کرنا الوہیت میں شرک کرنا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
بد فالی لینا اور چیزوں میں نحوست سمجھنا شرک ہے۔تشریح
تطیر۔ بد فالی لینا، اور چیزوں میں نحوست سمجھنا شرک ہے، اور پرندوں ، یا کسی اور طریقہ سے کسی کام کو کرنے میں خیر و شر ہونے کو معلوم کرنا یہ بھی شرک ہے اور حرام ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ستاروں کو نحوست و سعادت میں مؤثر ماننا ، اسی طرح ستاروں میں اختیار و تصرف ماننا بھی شرک ہے۔تشریح
تنجیم /استسقاء بالأنواء۔ ستاروں کو مؤثر ماننا اور نجومیوں کے کہے پر عمل کرنا بھی شرک ہے، ستارے اللہ کی مخلوق ہیں ، اور اللہ کے آگے مقہور ہیں، انہیں نحوست و سعادت میں مؤثر ہونے کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے، ستاروں میں اختیار و تصرف کو ماننا اور بارش کے ہونے نہ ہونے میں ان کے مؤثر ہونے کا عقیدہ رکھنا شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
امید اور خوف بھی عبادت کی شکلیں ہیں، یہ صرف اللہ کے حقوق ہیں ان میں کسی کو شریک کرنا جائز نہیں ہے۔تشریح
عقیدہ:
توکل بھی عبادت کی صورت ہے جو صرف اللہ کا حق ہے، غیر اللہ پر توکل کرنا شرک ہے۔تشریح
توکّل۔ ہر طرح کی قدرت صرف اللہ کو حاصل ہے، کہ اللہ ہی ہر چیز کےلئے کافی ہیں، اس لئے صرف اللہ پر توکل اور بھروسہ کرنا یہ اللہ کا حق ہے، مؤمن صرف اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، غیر اللہ پر توکل اور بھروسہ رکھنا کہ وہ بھی کچھ کر سکتے ہیں یہ عقیدہ حرام اور شرک ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
گھروں میں، جانوروں اور سورایوں پر دھاگے اور چنریاں باندھنا اور ان کو نافع و ضار ماننا شرک ہے۔تشریح
گھروں میں ،سواریوں اور جانوروں پر پلیتےاور چُنَرٍیاں باندھنا شرکیہ عمل ہے۔
نظر بد سے بچانے کے لئے گھروں میں پلیتے باندھنا، اور گاڑیوں اور جانوروں پر چُنَرٍیاں(رنگ برنگ کپڑا) لٹکانا اگر ان کو بالذات نفع و نقصان پہنچانے والا سمجھے تو یہ شرک اکبر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے، اور اگر ان کو اسباب شمار کرے تو وہ شرک اصغر ہے کیونکہ اللہ نے انہیں دفع مضرت اور نفع کے حصول کےلئے سبب نہیں بنایا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
دفع بلاء کےلئے ہاتھوں پر یا گلے میں دھاگے باندھنا اور ان کو نافع و ضار سمجھنا شرک ہے۔تشریح
دفعِ بلاء کےلئے دھاگے باندھنا۔
دفع بلاء کےلئے دھاگے باندھنا اگر ان کو بالذات نفع پہنچانے والا یا نقصان سے بچانے والا سمجھے تو صریح شرک اکبر ہے،اور اگر ان کو سبب سمجھے تو گو یہ عمل ملت اسلامیہ سے خارج کرنے والا نہیں ہے لیکن یہ بھی شرک اصغر ہے، اللہ اور اس کے رسول نے اس سے روکا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
آیات قرآنیہ کو با برکت سمجھ کر ان سے تبرک حاصل کرنا شر ک نہیں ہے بلکہ مشروع عمل ہے۔تشریح
قرآنی آیات میں سے کسی آیت سے بلاؤں کا دفعیہ یا برکت حاصل کرنا۔
بلاؤں کو دفع کرنے یا کسی نفع کو حاصل کرنے کےلئے اصل اور افضل دعا٫ ہے، البتہ کسی آیت سے تبرک حاصل کرنا یا اس کو کسی مصیبت کو ٹالنے میں ذریعہ و سبب سمجھنا اگر اس کی اصل موجود ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، مثلاً سورہ فاتحہ ، معوذتین ،اور آیت الکرسی ہے۔ لیکن اصل چیز دعا٫ ہی ہے، اور آیات با برکات سے ہٹ کر ایسے تعویذ گنڈے جن میں شرکیہ الفاظ و اعمال ہوتے ہوں ان کو اختیار کرنا شرک اور حرام ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
اللہ کے علاوہ کسی اور کی قسم کھانا شرک کی ایک قسم ہے۔تشریح
حلف بغیر اللہ۔ اللہ کے علاوہ دوسروں کے نام پر حلف اٹھانا یہ شرک اصغر ہے، جو کسی مسلمان کو ملت اسلامیہ سے خارج تو نہیں کرتا لیکن شرک اکبر تک پہنچا سکتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
ہر چیز میں صرف اللہ کی مشیت چلتی ہے، غیر اللہ کی مشیت ماننا شرک ہے۔تشریح
’’جو اللہ اور اس کا رسول چاہے ‘‘کہنا۔ یہ بھی شرک اصغر ہے، اس کا مرتکب ملت اسلامیہ سے خارج تو نہیں ہوتا، لیکن اس طرح کی لاپرواہی شرک اکبر تک پہنچا سکتی ہے، جو کچھ ہوتا ہے صرف اللہ کی مشیت سے ہوتا ہے، اس لئےزبان سے صرف اسی کے حق کا اقرار ضروری ہے، نبی ﷺ کے سامنے ایک شخص نے کہا: ما شاء الله وشئت . آپ نے فرمایا: أجعلتني للّه ندّا ؟! کیا تم نے مجھے اللہ کا مد مقابل بنادیا؟ قل : ما شاء اللّه وحده تم صرف اتنا کہو : کہ جو اللہ چاہے صرف وہی ہوتا ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
خواہشات نفس کو اللہ کے احکام کے مقابل لا کھڑا کیا جائے تو وہ بھی شرک ہے۔تشریح
ہوا٫ نفس کو الہ بنانا۔ خواہشات کی پیروی نفس کا ایک رذیلہ ہے، لیکن اس میں بہتے ہوئے انسان ایک وقت خواہشات نفس کو اپنا معبود بنا لیتا ہے، نفس جو کہتا وہ کرتا ہے، اور جو سجھاتا ہے اسی کی پیروی کرتا ہے، جب یہ کیفیت اللہ کے حکم کے مقابلہ میں راسخ ہوجائے تو اگر نفس کو بالذات مطاع سمجھا جانے لگے کہ میرا نفس بھی ہے جس کی پیروی ہونی چاہئے تو یہ یقیناً شرک اکبر ہے جو ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے، لیکن یہ صرف اہمال اور لا پرواہی کے درجہ میں ہوتب بھی شرک اصغر ہے جس سے بچنا لازمی ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
غیر اللہ کو دکھانےکیلئے کوئی عمل صالح کرنا بھی شرک ہی کی ایک قسم ہے۔تشریح
ریاء۔ ارادہ اور نیت میں پوشیدہ شرک ہے، اس شرک کا مرتکب گو ملت اسلامیہ سے خارج نہیں ہوتا، لیکن جب یہ شرک اعمال کے ساتھ ملتا ہے تو ان کو برباد کردیتا ہے، مثلاً نماز جو اللہ کے لئے پڑھی جاتی ہے اگر لوگوں کو دکھلانے کےلئے پڑھی جائے تو اس کا کوئی ثواب نہیں بلکہ پکڑ کا باعث ہے۔ دلائل
.بند
عقیدہ:
مال و دولت کو خدا مان کر اس کی پرستش کرنا تو بلاشبہ شرک ہے، البتہ مال و دولت کی پرستش نہ ہو ہاں پورا توکل اسی پر ہو تو وہ بھی شرک کی ایک قسم ہے۔تشریح
مادہ پرستی۔ ظاہر اور اسباب پر انحصار کی ایک کیفیت اس درجہ کو پہنچ جاتی ہے کہ ظاہری اسباب اورمال و دولت کو انسان الہٰ بنا لیتا ہے، اور اپنا پورا بھروسہ مال سے جوڑدیتا ہے، اسی سے محبت کرتا ہے اور اسی پر توکل کرتا ہے، بالعموم یہ بالذات نہیں ہوتا اگر مادہ کو بالذات نفع و نقصان کا مالک سمجھے اور بالذات مال و دولت کی پرستش ہو جیسے ہندوں کے یہاں دولت کی دیوی ’’لکشمی‘‘ کی پوجا کی جاتی ہے تو یہ ملت اسلامیہ سے خارج کردینے والا شرک اکبر ہے، اور اگر ایسا نہ ہولیکن مال و دولت ہی زندگی کا محور بن جائیں اور اسی کو سب کام بنانے والا سمجھا جانے لگے تب بھی وہ شرک اصغر ہے، جس سے بچنا ضروری ہے۔

نفاق کی اقسام:نفاق دو طرح کا ہے نفاق اعتقادی اور نفاق عملی۔
نفاقِ اعتقادی:کوئی شخص جو اسلام کو محض ظاہر ی طور پر قبول کرلے لیکن دل سے اسلام کا منکر ہو مثلاً مدینہ کے منافق جنہوں نے مدینہ میں نبی ﷺ اور صحابہ کے بڑھتے ہوئے زور کو دیکھ کر بظاہر دین اسلام کو قبول کرلیا تھا ، لیکن دل سے کافر تھے، اس طرح کا نفاق نفاق اعتقادی ہے، اور انجام کار آخر ت کے اعتبار سے یہ کافر ہی ہیں۔ اس طرح کا نفاق حقیقت میں ملت اسلامیہ سے خارج کردیتا ہے، اور اس کے مرتکب کو ہمیشہ ہمیش کی جہنم کا مستحق بناتا ہے جس میں وہ سب سے نچلے حصہ میں رہیں گے۔
ان کے اوصاف قرآن میں عام کفار سے زیادہ بدتر شمار کرائے گئے ہیں، مثلاً حقیقت میں ایمان نہ لانا اور کفر کا مرتکب ہونا، جھوٹ کہنا، دین اور دینداروں کا مذاق اڑانا، اور ان کے ساتھ تمسخر کرنا، اور پوری طرح سے دشمنان دین کی طرف میلان رکھنا اور ان کے ساتھ مل کر دین اور اہل دین کے خلاف سازشیں رچنا وغیرہ۔
اس طرح کے منافقین ہر زمانہ میں ہوتے ہیں خاص طور سے اس وقت یا اس جگہ جہاں اسلام قوت حاصل کرلیتا ہے، اور ظاہر میں یہ کفار اسلام سے مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں تو بظاہر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ کسی بھی معاشرہ کا سب سے بدترین گروہ ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ کے آغاز میں انسانی معاشرہ کے تین گروہ گنوائے ہیں: مؤمنین، کافرین، اور منافقین ۔ جس میں مؤمنین کا بیان صرف ۴ آیات میں ہے، اور کافرین کا بیان ۲آیتوں میں ہے، جبکہ وہاں منافقین کے بیان کےلئے ۱۳ آیتیں ہیں۔
نفاقِ اعتقادی کی شکلیں:
(۱) نفاق اعتقادی میں دل میں نبی ﷺ کو کلی طور پر جھٹلانا۔
(۲)یا نبی ﷺ کی کسی ایک بات کو دل میں جھٹلانا، اور ظاہر میں اس کا اظہار نہ کرنا۔
(۳)یا دل میں نبی ﷺﷺ سے کلی طور پر بغض رکھنا۔
(۴) یا دل میں نبی ﷺ کی بعض تعلیمات سے بغض رکھنا۔
(۵) دین اسلام کے بظاہر کہیں کمزور پڑنے سے خوش ہونا۔
(۶) دین اسلام کی ترقی کو نا پسند کرنا۔
یہ سب نفاق اعتقادی کی مختلف شکلیں ہیں۔ جو شخص نفاق سے بچنا چاہتا ہےاس کو ان شکلوں پر غور کرنا چاہئے کہ کہیں وہ بھی اس مرض کا شکار تو نہیں ہو گیا ہے، اور پھر اپنے اعتقاد کی تصحیح کی فکر کرے۔
نفاق ِعملی:
کوئی شخص دل سے تو مؤمن ہے لیکن اس کے کچھ اعمال ایسے ہیں جو حقیقی ایمان والے کے اعمال نہیں ہوتے، ایسے اعمال کا ارتکاب نفاق عملی کہلاتا ہے، مثلاً جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنااور عہد توڑ دینا، جھگڑے کے وقت گالم گلوچ کرنا، ایسا شخص اعتقادی منافق تو نہیں ہے ، اور یہ اعمال اس کو ملت اسلامیہ سے خارج تو نہیں کرتےلیکن اس کے یہ اعمال نفاق عملی میں شمار ہوتے ہیں۔ البتہ نفاق عملی کے ان اعمال کی کثرت سے نفاق اعتقادی کے قریب ہونے کا اندیشہ رہتا ہے۔
منافق اعتقادی اب بھی پائے جاتے ہیں جو کسی مصلحت کے پیش نظر اپنے کفر کا اظہار نہیں کر پاتے، تاہم وحی کا سلسلہ منقطع ہونے کی وجہ سے ان پر کفر یا منافق اعتقادی کا حکم لگانا دشوار ہے۔ اگر منافق اپنے کفریہ عقائد کا اظہار زبان سے کر دے تو وہ زندیق شمار ہوتا ہے ۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق
(۱)جب اس کو امین بنایا جائے تو وہ خیانت کرے(۲)جب بات کرے تو جھوٹ بولے(۳)جب پیمان باندھے تو عہد شکنی کرے(۴)اورجب جھگڑا کرے تو بدزبانی کرے(گالیاں بکے یاحد سے تجاوز کرے)۔ منافقین کی علامتیں: (۶)ان کے ملاقات کرنے کا طریقہ سلام دعا کے بجائے لعنت ملامت کرنا ہے(۷)ان کی غذا خوراک ،لوٹ مار اور ظلم وجور کی آمدنی ہے(۸) ان کا مالِ غنیمت ،خیانت اور چوری کا مال ہے(۹)مسجدوں کا احترام کرنے کے بجائے وہاں ٹھٹھا اور دل لگی کرتے ہوئے آتے ہیں (۱۰) جماعت میں دیر سے آکر قصداً پیچھے شریک ہوتے ہیں(۶)ایسے غاٹے اورمتکبر ہوتے ہیں کہ نہ خود کسی سے الفت وانسیت رکھتے ہیں نہ دوسروں کو ان سے کوئی الفت ہوتی ہے(۱۱)راتوں کو خشک لکڑی کی طرح پڑے سوئے رہتے ہیں اور دنوں میں ہنگامے کرتے پھرتے رہتے ہیں۔دلائل
علامتِ منافق:
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے بھی بغض رکھنا ۔تشریح
اہل حق کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کسی کی تحقیر و تنقیص جائز نہیں، بلکہ تمام صحابہ کو عظمت و محبت سے یاد کرنا لازم ہے، کیونکہ یہی اکابر، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور امت کے درمیان واسطہ ہیں، امام اعظم اپنے رسالہ “فقہ اکبر” میں فرماتے ہیں:“ولا نذکر الصحابة (وفی نسخة ولا نذکر احمد من اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم) الا بخیر۔” (شرح فقہ اکبر: ملا علی قاری ص:۸۵، طبع مجتبائی ۱۳۴۸ھ)
ترجمہ:…”اور ہم، صحابہ کرام کو (اور ایک نسخہ میں ہے کہ ہم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی کو) خیر کے سوا یاد نہیں کرتے۔”امام طحاوی اپنے عقیدہ میں فرماتے ہیں:“ونحب اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم ولا نفرط فی حب احد منھم، ولا نتبرأ من احد منھم، ونبغض من یبغضھم وبغیر الحق یذکرھم، ولا نذکرھم الا بالخیر، وحبھم دین وایمان واحسان، وبغضھم کفر ونفاق وطغیان۔” (عقیدة الطحاوی ص:۶۶، طبع ادارہ نشر و اشاعت مدرسہ نصرة العلوم گجرانوالہ)ترجمہ:…”اور ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے محبت رکھتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی محبت میں افراط و تفریط نہیں کرتے۔ اور نہ کسی سے برأت کا اظہار کرتے ہیں، اور ہم ایسے شخص سے بغض رکھتے ہیں جو ان میں سے کسی سے بغض رکھے یا ان کو نارَوا الفاظ سے یاد کرے۔ ان سے محبت رکھنا دین و ایمان اور احسان ہے، اور ان سے بغض رکھنا کفر و نفاق اور طغیان ہے۔”امام ابوزرعہ عبیداللہ بن عبدالکریم الرازی (المتوفی ۲۶۴ھ) کا یہ ارشاد بہت سے اکابر نے نقل کیا ہے کہ:“اذا رأیت الرجل ینقص احدا من اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، فاعلم انہ زندیق، لان الرسول صلی الله علیہ وسلم عندنا حق، والقراٰن حق، وانما ادی الینا ھذا القراٰن والسنن اصحاب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، وانما یریدون ان یجرحوا شھودنا لیبطلوا الکتاب والسنة۔ والجرح بھم اولیٰ وھم زنادقة۔” (مقدمہ العواصم من القواصم ص:۳۴)ترجمہ:…”جب تم کسی شخص کو دیکھو کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے نزدیک حق ہیں، اور قرآن کریم حق ہے، اور قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ہمیں صحابہ کرام ہی نے پہنچائے ہیں، یہ لوگ صحابہ کرام پر جرح کرکے ہمارے دین کے گواہوں کو مجروح کرنا چاہتے ہیں، تاکہ کتاب و سنت کو باطل کردیں، حالانکہ یہ لوگ خود جرح کے مستحق ہیں، کیونکہ وہ خود زندیق ہیں۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے بھی بغض رکھنا ۔تشریح
قرآن و حدیث میں اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بے شمار فضائل و مناقب بیان کئے گئے ہیں، ان میں سے چند یہاں ذکر کئے جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو دنیا بھر کی تمام عورتوں سے افضل قرار دیا اور انہیں ہر قسم کی ظاہری و باطنی گندگی سے پاک قرار دیا۔
اللہ تعالیٰ نے ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کو طیبات یعنی پاکیزہ عورتیں قرار دیا اور ان پر الزام تراشی کرنے والوں کو دنیا و آخرت میں لعنت اور عذاب عظیم کا مستحق قرار دیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اہل بیت سے محبت کا حکم دیا، فرمایا: تم مجھ سے محبت کی بناء پر میرے اہلِ بیت سے محبت کرو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل بیت کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے مثل قرار دیا کہ جو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی پر سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جو کشتیٔ نوح پر سوار نہ ہوا وہ ہلاک ہوگیا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن مجید اور اہل بیت کے متعلق ارشاد فرمایا: میں تم میں دو بھاری و قیمتی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں، پہلی چیز کتاب اللہ ہے، جس میں ہدایت اور نور ہے، اس کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنا، پھر فرمایا: (دوسری چیز) میرے اہل بیت ہیں، میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ سے ڈراتا ہوں کہ تم میرے اہلِ بیت کے حقوق کا خیال رکھنا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کے دل میں اس وقت تک ایمان داخل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اہلِ بیت سے محبت نہ کرے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا: جس نے میرے چچا (حضرت عباسؓ) کو ایذاء دی اس نے مجھے ایذاء دی، کیونکہ آدمی کا چچا اس کے والد کے برابر ہوتا ہے، مزید فرمایا: عباسؓ مجھ سے ہیں اور میں عباسؓ سے ہوں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جنتی عورتوں کی سردار قرار دیا اور فرمایا: فاطمہؓ میرے جسم کا ٹکڑا ہے، جس نے فاطمہؓ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔حضرت حسن رضی اللہ عنہ کے متعلق ارشاد فرمایا: میرا یہ بیٹا سردار ہوگا اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائیں گے۔حضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم کے متعلق ارشاد فرمایا: جو ان سے جنگ کرے گا میری اس سے جنگ ہوگی اور جو ان سے صلح کرے گا میری اس سے صلح ہوگی۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
عشاء اور فجر کی جماعت منافقین کے لئے انتہائی دشوار ہے۔تشریح
منافقین نماز پڑھنا ہی نہیں چاہتے،صرف اپنے کفر کو چھپانے کی مجبوری سےنمازوں میں حاضر ہوجایا کرتے ہیں،جو مسلمان،مسلمان ہوکر بھی ان نمازوں میں غفلت ولاپرواہی برتتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ وہ بھی بڑامحروم ہے کہ اس پر نفاق کا اطلاق کیا گیا ہے ۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
نماز میں سستی کرنا،نماز کو بوجھ سمجھنا،نماز باجماعت سے پیچھے رہنا، نماز جلدی جلدی پڑھنا، دکھلاوے کی خاطر عبادت کرنا ۔دلائل
علامتِ منافق:
بغیر عذر کے تین جمعے چھوڑنے والا منافقین میں لکھ دیا جاتا ہے۔تشریح
مسلمان کی تربیت وتزکیہ،اسلامی احکامات کی یاددہانی،شریعت کی معلومات اور وعظ و نصیحت کے لئے اللہ تعالی نے جمعہ مسلمانوں پر فرض کیا ہے ،نبی رحمتﷺ نے جمع المبارک کی بہت فضیلت بیان فرمائی ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے:اے ایمان والو جمعہ کے دن جب نماز کی اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف چلے آؤ اور خرید وفروخت چھوڑدو یہ تمہارے حق میں بہت ہی بہتر ہے اگر تم جانتے ہو(سورۃ جمعہ)مسلمان اس کی پابندی کرتا ہے اور وہ اجر حاصل کرنے اور نفاق سے بچنے کے لئے ا سکا اہتمام کرتا ہے۔ اور جو شخص تین جمعے سستی سے چھوڑدیتا ہے وہ منافقین میں لکھ دیاجاتا ہے اور اللہ تعالی اس کے دل پر مہر لگادیتے ہیں نبی رحمتﷺ فرماتے ہیں :لوگ اپنے جمعہ چھوڑنے سے ضرور باز آجائیں ورنہ اللہ ان کے دلوں پر مہر لگادےگا پھر وہ اللہ کی قسم غافلین سے ہوجائیں گے۔اور نبی رحمتﷺ نے فرمایا جس نے تین جمعے بغیر عذر کے چھوڑدئیے تو وہ منافقین میں لکھ دیاجاتا ہے۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
دینی کام کرنے والے نیک لوگوں پر طعنہ زنی کرنا ۔تشریح
غزوۂ تبوک کے وقت مسلمانوں کو مالی تعاون کی سخت ضرورت تھی نبی اکرمﷺ نے اعلان کیا تو اس موقع پر حضرت ابوبکرؓ گھر کا سارا مال لے آئے حضرت عمرؓ گھر کا آدھا مال لے آئے ،حضرت عثمانؓ نے کئی سو اونٹ مال سے لدے ہوئے اللہ کی راہ میں وقف کردئے، اسی موقع پر رسول اللہﷺ نےفرمایا اگر عثمان آج کے بعد کوئی عمل نہ کرے تو اس کا یہی عمل کافی ہے ،بعض صحابہ ایسے بھی تھے جنہو ں نے مزدوری کرکے مزدوری کی رقم اللہ کی راہ میں دی ،لیکن منافقین اس موقع پر خرچ کرنے کی بجائے مسلمانوں کا مذاق کرنے لگے،اللہ تعالی نے ان سے متعلق قرآن میں فرمایا: منافق لوگ دل کھول کر خیرات کرنے والے مسلمانوں پر طعنہ زنی کرتے ہیں اوران لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں اللہ بھی ان سے مذاق کرےگا ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
قرآن وسنت کا مذاق اڑانا ۔تشریح
منافق میں جوں جوں نفاق کی بیماری بڑھتی ہے تو وہ اسلامی تعلیمات کو خیر باد کہنا شروع کردیتا ہے، اور اسے احکام شریعت خاص طور پر بوجھ محسوس ہونے لگتے ہیں، جن میں کچھ نہ کچھ مشقت کا پہلو ہوتا ہے نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ ایسے احکام اور اسلامی آداب کا مذاق اڑانا شروع کردیتا ہے پھر اسے نہ قرآن کی پرواہ رہتی ہے نہ سنت رسولﷺ کی ،نہ نیک لوگوں کی او رنہ آخرت کےعذاب کی ،وہ طرح طرح کی باتیں کرکے اپنا نفاق وکفر ظاہر کرتا ہے۔ نبی اکرمﷺ کےدور کے منافقین نے جب ایک بُری بات کی تو اللہ تعالی نے اس کی اس حرکت کو کفر سے تعبیر کیا، اللہ تعالی کا فرمان ہے: اگر آپ ان سے پوچھیں تو صاف کہدیں گے کہ ہم تو یونہی آپس میں گپ شپ اور کھیل رہے تھے کہہ دیجئے کہ اللہ اور ا س کی آیات اور ا سکے رسول کے ساتھ ہی تم ہنسی مذاق کرتے ہو۔تم بہانے نہ بناؤ یقیناً تم اپنے ایمان کے بعد کافر ہوگئے ہو، اگر ہم تم میں سے کچھ لوگوں سے درگزر بھی کرلیں تو کچھ لوگوں کو سزا دیں گے کیونکہ وہ مجرم ہیں۔
دین کے کسی کام کا مذاق اڑانا مثلاً پردہ کا مذاق اڑانا، داڑھی کا مذاق اڑانا ،جہاد کا مذاق اڑانا، ٹخنوں سے اونچی شلوار کا مذاق اڑانا، یہ سب نفاق کی نشانیاں ہیں اور ایسا آدمی کافر ہے۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
مسلمان کی عزت پامال کرنا ۔تشریح
منافق ہر وقت مسلمانوں کی عزت کو پامال کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ان کی غیبتیں اور ان پر زبان درازی کرتے ہیں حالانکہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں ،نبی کریمﷺ نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں(بخاری) نبی اکرمﷺ نے فرمایا:سود کے تہتر دروازے ہیں،اس کا سب سے کم تر دروازہ اپنی ماں سے زنا کرنا ہے اور سب سے بڑا دروازہ مسلمان شخص کی عزت کو پامال کرنا ہے۔(مسلم)
غزوۂ تبوک کے موقع پر ایک منافق نےکہا:میں نے اپنے ان قراء (یعنی قرآن کےحافظوں) کی طرح پیٹ کی زیادہ فکر کرنے والے زبانوں کے زیادہ جھوٹے،جنگ کرنے سے زیادہ بزدل کس او رکونہیں دیکھا۔اسی طرح ایک جنگ میں عبداللہ بن ابی سلول رئیس المنافقین نے اپنے ساتھیوں کو کہا ،جو لوگ رسول اللہﷺ کے پاس ہیں ان پر تم خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ نبیﷺ سے الگ ہوجائیں،اس نے یہ بھی کہا کہ مدینہ میں جاکر ہم عزت والے لوگ ذلیل لوگوں کو شہر سے ضرور باہر نکال دیں گے، زیاد بن ارقم نے یہ بات اپنے چچا کو او رانہوں نے نبی اکرمﷺ کو بتائی ،منافقین سے پوچھاگیا تو انہوں نے انکار کردیا ، پھر اللہ تعالی نے ان کی اس حرکت کو سورہ منافقون میں واضح فرمایا:یہی وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ کے پاس ہیں ان پر خرچ نہ کرو یہاں تک کہ وہ آپ سے الگ ہوجائیں اور آسمان وزمین کے خزانے اللہ تعالی کے ہیں؛ لیکن یہ منافق لوگ سمجھتے نہیں،یہ کہتے ہیں کہ اگر ہم اب لوٹ کر مدینہ جائیں گے تو عزت والے وہاں سے ذلیل لوگوں کو ضرور نکال دیں گے (سنو)عزت تو صرف اللہ تعالی کے لئے ہےاور اس کے رسولﷺ کے لئےاورایمان داروں کیلئے ہے لیکن منافق جانتے نہیں ہیں۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
برائی کا حکم دینا اورنیکی سے روکنا ۔تشریح
اللہ تعالی نے مؤمنین کی صفات میں یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، اور جو لوگ نیکی کا حکم نہیں دیتے اور برائیوں سے نہیں روکتے ایسے لوگوں سے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں سنائی گئی ہیں، اورمنافقین کا ذکر کرتےہوئے فرمایا کہ منافق مرد اور عورتیں آپس میں ایک ہی ہیں یہ برائی کا حکم دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو بند رکھتے ہیں یہ اللہ کو بھول گئے اللہ نے انہیں بھلادیا بیشک منافق ہی فاسق ہیں۔(توبہ:۶۷) دلائل
.بند
علامتِ منافق:
بے حیائی پھیلانا،بیہودہ اور فحش کلامی کرنا،گانے وغیرہ سننا اورلڑکیوں کو چھیڑنا ۔تشریح
جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے یا عام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ فحاشی عام ہوجائے،یہ سارے کے سارے منافق لوگ ہیں ،ان کے لئے دردناک عذاب ہے اللہ تعالی نے سورۂ نور میں منافقین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا:جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانے کے آرزو مند رہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اللہ سب کچھ جانتا ہے اورتم کچھ بھی نہیں جانتے۔(نور:۱۹)اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ گانے بجانے والے آلات بیچنا، مختلف محفلوں میں گانا بجانا، ساز کو عام کرنا، ویڈیو فلمیں ،سی ڈیز او رگانے وغیرہ کی کیسیٹس بیچنا ،ٹیلی ویژن عام کرنا تاکہ ہر گھر کے اندر کنجر اور کنجریاں داخل ہوں یا ایسی کوئی بھی کوشش جس کے ذیعہ بے حیائی کو فروغ ملے یہ سب نفاق والے کام ہیں اور عذاب الہی کا باعث ہیں اس میں حکمران یا عوام کوئی بھی حصہ ڈالے گا وہ دردناک عذاب میں گرفتار ہوگا۔اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو لغو(یعنی گانے بجانے کی)چیزوں کی خرید وفروخت کرتے ہیں تاکہ بے علمی کے ساتھ لوگوں کو اللہ کی راہ سے گمراہ کریں او راسے ہنسی بنائیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے رسوا کرنے والا عذاب ہے(لقمان:۶)لھوالحدیث کے بارے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قسم کھاکر فرمایا اللہ کی قسم لھوالحدیث سے مراد گانے بجانے کے آلات ہیں۔(تفسیر ابن کثیر)۔
راستے میں آنے جانے والی عورتوں اور لڑکیوں کو تنگ کرنا ان کے ساتھ چھیڑ خانی کرنا منافقین کا کام ہے ،بعض لوگ چوراہوں اور راستوں پر کھڑے ہو جاتے اور عورتوں کو تنگ کرتے تھے،اللہ تعالی نے پردہ کا حکم اتار کر فرمایا مسلمان عورتو! پردہ کرو تاکہ انہیں کوئی بہانہ نہ ملے، کیونکہ جب انہیں کہا جاتا کہ تم نے فلاں فلاں عورت کو کیوں تنگ کیا ہے تو وہ کہتے کہ ہمیں علم نہیں تھا کہ یہ لونڈی تھی یا آزاد عورت، اللہ تعالی نے مسلمانوں عورتوں کو حکم دیا کہ تم پردہ کرو اللہ کا فرمان ہے :اے نبی اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں او رمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکالیا کریں اس سے بہت جلد ان ی شناخت ہوجایا کرےگی پھر نہ ستائی جائیں گی اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے(احزاب:۵۹)ساتھ ہی اللہ تعالی نے منافقین کو وارننگ دی کہ تم باز آجاؤ ورنہ تمہارے خلاف لڑائی کی جائے گی ،اللہ تعالی کا فرمان ہے اگر (اب بھی) یہ منافق او روہ جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ لوگ جومدینہ میں غلط افواہیں اڑانے والے ہیں باز نہ آئے تو ہم آپ ﷺ کو ان کی (تباہی) پر مسلط کردیں گے پھر وہ چند دن ہی آپﷺ کے ساتھ اس (شہر) میں رہ سکیں گے۔(احزْاب:۶۰)رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی اپنی لونڈیوں کو پیسہ کمانے کے لئے مجبور کرتا تھا اللہ تعالی نے اس کی اس قبیح حرکت کو واضح کیا اور لوگوں کو اس برے فعل سے منع بھی کردیا:تمہاری جو لونڈیاں پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدے کی غرض سے بدکاری پر مجبور نہ کرو۔()اسی سے معلو ہوا کہ مسلم معاشرے میں بے حیائی کا فروغ منافق چاہتے ہیں حقیقی مسلمان تو پاکیزگی والا ماحول پسند کرتے ہیں،اس دور میں کتنے لوگ ایسے ہیں جنہوں نے اپنے مذہب میں زنا کرنے کے لئے بےشمار حیلے بنائے ہوئے ہیں تاکہ جنسی شہوت پوری ہوسکے انہیں سوچ لینا چاہئے کہ ان کاطرز عمل منافقین جیسا ہے۔
گانے اورموسیقی نفاق کو جنم دیتے ہیں،حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں گانوں سے محبت دل میں ایسا نفاق اگاتی ہے جس طرح گھاس پانی میں اگتا ہے۔ ( الغِنَاءُ يُنْبِتُ النِّفَاقَ في الْقَلْبِ كَمَا يُنْبِتُ الماءُ الزَّرْعَ) (السنن الکبری للبیہقی: باب الرجل يغنى فيتخذ الغناء)
حیاء ا ورکم بولنا ایمان کی شاخیں ہیں اور بے ہودے باتیں اور فحش کلامی نفاق کی شاخیں ہیں۔آج اس دور میں کتنے لوگ اپنے گھروں میں بےغیرتی پھیلائے ہوئے ہیں ڈش،ٹی وی،کیبل،وی سی آر،فحش سی ڈیز وغیرہ یہ سب کچھ بےغیرتی ہے شادی بیاہ کےموقع پر بے پردہ عورتوں کا فیشن کرکے گھومنا پھرنا اور ان کی مووی بنوانا اعلی درجہ کی بے غیرتی ہے اور جو ا سکا اہتمام کرتے اور کرواتے ہیں سب بے غیرت اورمنافقانہ خصلت والے ہیں۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
جوشخص اس حال میں مرگیا کہ اس نے زندگی میں نہ کبھی جہاد کیا اور نہ ہی کبھی اسکی تمنا ہوئی،خواہ دل ہی دل میں سہی، وہ شخص نفاق کے ایک شعبہ پر مرا۔تشریح
یعنی ضرورت پڑنے پر اللہ کے راستے میں جان دینے کی تمنا تو ہر مسلمان کے دل میں ہوتی ہے ،برخلاف ا سکے منافق چوں کے اپنے کفر سے واقف ہے اسے نہ اپنی کامیابی کا یقین ہے نہ اجر کی امید ،تو وہ کیسے جہاد وقتال کے لئے تیار ہوسکتا ہے،اس لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہ لوگ حتی المقدور جہاد سے بچنے کی کوشش کرتے تھے ،کبھی جانا بھی پڑتا تو جی چراتے ہوئے زبردستی نکلتے تھے،اس لئے اس کو علامات نفاق میں شمار کیاگیا ،امام نوی فرماتے ہیں جو شخص ایسا کرے یعنی راہ خدا میں جہاد سے جی چرائے اوراس کے تصور سے گھبرائے تو اس صفت میں وہ منافقین کے مشابہ ہوگیا ا س لئے کہ ترک جہاد نفاق کا ایک شعبہ ہے۔ دلائل
.بند
علامتِ منافق:
منافق آبِ زمزم وفورِ عقیدت سے سیر ہوکر نہیں پیتا۔تشریح
امام حاکم نے اپنی مستدرک میں اس تفصیل کے ساتھ اس حدیث کو روایت کیا ہے: ایک شخص حضرت عبداللہ بن عباس کی خدمت میں حاضر ہواتو انہوں نے دریافت فرمایا کہاں سے آرہے ہو؟اس نے عرض کیا مکہ مکرمہ سے آپ نے پوچھا آب زمزم نوش کیا تھا ؟اس نے عرض کیا جی ہاں !آ پ نے پوچھا اس کے ادب اور حق کے مطابق پیا تھا اس نے عرض کیا وہ کیا صورت ہے مجھے نہیں معلوم تو آپ نے فرمایا جب آب زمزم پینا ہوتو قبلہ روہوکر بسم اللہ پڑھ کر تین سانس میں پینا چاہئیے اور خوب سیر ہوکر پینا چاہئیے اوراس کے بعد الحمد للہ پڑھنا چاہئیے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے ہم مسلمانوں اورمنافقوں کے درمیان مابہ الامتیاز زمزم کو سیر ہوکر پینا ہے کہ (ہم لوگ تو وفور شوق سے جی بھر پیتے ہیں مگر )منافق ایسا نہیں کرتا۔ دلائل
.بند
منافق کی مثال:
منافق کی مثال اس مادہ بکری کی طرح ہے جو نر کی تلاش میں ادھر ادھر بکریوں کےگلوں میں ماری پھرتی رہتی ہے۔تشریح
منافق کی مثال اس بکری سے بڑھ کر نہیں ہوسکتی جو نر کی تلاش میں بکھری بکھری پھرتی ہے یہ مادہ صفت(نسوانی مزاج) بزدل لوگ بھی کبھی اپنے نفع کی خاطر مسلمانوں میں اور کبھی کافروں میں مارے مارے پھرتے ہیں، ان کا سارا نقطۂ نظر صرف دنیا کا مال اورجان کی حفاظت ہوتا ہے ،مردوں کی طرح مقابلہ کی ہمت نہیں رکھتے ،بلکہ عورتوں کی طرح دوسروں کی آغوش میں عافیت کے متلاشی رہتے ہیں ،واقعی نفاق کےمرض سے نفرت پیدا کرنے کے لئے اس سے زیادہ مؤثر تشبیہ کیا ہوسکتی ہے۔بند

نفاق دور کیسے ہوتا ہے
(۱)ان تمام بری عادتوں سے دوری اختیار کرنا جو منافقین کی علامات وعادات کے ضمن میں قرآن وحدیث کے حوالہ سے بیان ہوچکی ہیں ،کیوں کہ اللہ تعالی او راس کے رسولﷺ کا ان باتوں سے مطلع فرمانا اسی لئے ہے کہ اہل ایمان ان سے دور رہتے ہوئے اپنے ایمان کی حفاظت کا سامان کرسکیں۔
(۲)بالخصوص (۱)برے لوگوں کی صحبت(۲)بری باتوں کی مجلسوں میں شرکت(۳) گناہوں پر اصرار ومداومت اور(۴) گانا باجا سننے اور گانے کی عادت سے سختی سے پرہیز کرنا جیسا کہ صحابہ کرام او رسلف صالحین ان امور سے اپنے کو حتی المقدور دور رکھتے تھے۔
(۳)نماز باجماعت تکبیر اولی کے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے کی عادت ڈال لینا،کیوں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا :جو شخص اللہ تعالی کی رضا کے لئے(اخلاص کے ساتھ) چالیس دن تک اس طرح نماز باجماعت کا اہتمام کرے کے تکبیر اولی فوت نہ ہوتو اس کے لئے دو برأتیں لکھ دی جاتی ہیں :ایک دوزخ کی آگ سے اور دوسرے نفاق سے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى لِلَّهِ أَرْبَعِينَ يَوْمًا فِي جَمَاعَةٍ يُدْرِكُ التَّكْبِيرَةَ الْأُولَى كُتِبَتْ لَهُ بَرَاءَتَانِ بَرَاءَةٌ مِنْ النَّارِ وَبَرَاءَةٌ مِنْ النِّفَاقِ۔(ترمذی: بَاب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى)
مطلب یہ نہیں ہے کہ صرف چالیس دن کرے بلکہ عادت ڈال لینا مراد ہے چالیس دن کی پابندی فطری طور پر آدمی کی حالت کےبدلنے اور عادت کےپڑنے میں مفید مؤثر ہوتی ہے۔
(۴)درج ذیل دعاؤں کا اہتمام کرنا ،معانی ومفہوم کے استحضار اورلجاجت وعاجزی کے اظہار کے ساتھ:
اللهم طهر قلبي من النفاق ، وعملي من الرياء ، وعيني من الخيانة ، ولساني من الكذب ، فإنك تعلم خائنة الأعين وما تخفي الصدور »(الجامع الکبیرللسیوطی:حرف الھمزہ)
ترجمہ:اے اللہ میرے دل کو نفاق سے میرے اعمال کو ریا سے میری زبان کو جھوٹ سے اورمیری آنکھوں کو خیانت وبدنگاہی سے پاک کردیجئیے ،آپ تو آنکھوں کی خیانت اور دل کے چھپے رازوں کو اچھی طرح جانتے ہیں۔
اللَّهُمَّ اجْعَلْ سَرِيرَتِي خَيْرًا مِنْ عَلَانِيَتِي وَاجْعَلْ عَلَانِيَتِي صَالِحَةً۔(ترمذی: بَاب فِي دُعَاءِ يَوْمِ عَرَفَةَ)۔
اے اللہ میرے باطن کو میرے ظاہر سے عمدہ بنادیجئے اور میرا ظاہر بھی اچھا بنادیجئے۔
اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الشِّقَاقِ وَالنِّفَاقِ وَسُوءِ الْأَخْلَاقِ۔(نسائی:باب الاستعاذہ)
اے اللہ میں نفاق سے شقاق سے اور برے اخلاق سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں۔
پہلی دعا میں آپ ﷺ نے نفاق ،ریا،جھوٹ اور خیانت سے دل کی پاکیزگی کو طلب کیا ہے،نفاق اصل بیماری اور روگ ہے اور ریاء جھوٹ اور خیانت اس کے لازمی نتائج ہیں، دوسری دعا میں نفاق سے پناہ کی دعا بھی ہوگئی اور ایمان خالص کی حقیقت بھی سمجھ میں آگئی کہ آدمی کو اپنی تمام حرکات وسکنات اور اقوال واعمال میں پابند شریعت اور متبع سنت ہونا چاہئیے ،لیکن یہ پابندی اسی وقت قابل اعتبار اورلائق قبولیت ہوسکتی ہے،جب کہ اس کا باطن بھی ظاہر کے موافق بلکہ اس سے بہتر ہو،یعنی ایمان واخلاص کےساتھ ہو ورنہ سب ریاکاری ودکھاوا ہے ،تیسری دعا سے معلوم ہوا کہ بداخلاقی نفاق کا پھل ہے،جس طرح خوش خلقی ایمان کا ثمرہ ہے جیسے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے حیاء اور کم سخنی ایمان کے شعبے ہیں بدزبانی اور زور آوری نفاق کے شعبے ہیں۔