ہو زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا

از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے. یعنی تمام مخلوقات سے افضل اور اعلی مخلوق۔ انسان تمام مخلوقات سے اس لیے افضل ہے کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کے کام آتا ہے۔ اس کے دل میں ایثار و قربانی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ اپنے لیے جینا کوئی مشکل نہیں۔علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں،خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں میںبنے پھرتے ہیں مارے مارے،میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا مدد یا ہمدردی کرنے سے اللہ بھی راضی ہو گا اور معاشرہ بھی خوشحال ہو گا۔ انسان ایک دوسرے کے کام آئے، خوشی اور غم میں شریک ہو تو یہ ایک کامیاب ریاست کا بھرپور تصور ہے۔اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے ، اسلام صرف چند عبادات کے مجموعہ کانام نہیں، بلکہ زندگی گزارنے کے ہر پہلو کے بارے میں واضع ہدایات دیتا ہے ۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔ خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا ،یکجہتی اور بھائی چارہ نہیںرہا،اخوت ،محبت، رواداری،اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا۔ہم اپنی جڑیں اپنے ہاتھوں سے کاٹ رہے ہیں۔اپنی ملت کو ڈبو رہے ہیں ۔ ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے ، ہم سب اس اجتمائی برائی میں برابر کے شریک ہیں۔دکھی انسانیت کی خدمت سب سے بڑی عبادت ہے ، سب لوگوں کو اپنی بساط کے مطابق اس معاشرے کو سدھارنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا –۔ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ ”ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے ، اور سب سے زیادہ اللہ کا محبوب بندہ وہ ہے جو اللہ کے کنبے کو نفع پہنچائے “۔
ایک دوسرے کے کام آنا ایک اچھے معاشرہ کی تشکیل کا بنیادی نقطہ ٔ آغازہے د نیا کے ہر مذہب۔۔ہر نبی اور درددل رکھنے والے نے انسانیت کی بلا امیتاز خدمت کی تلقین کی ہے دین اسلام تو ہے ہی سراسر انسانیت کی فلاح کا مذہب ہے۔جنگِ یرموک میں ایک زخمی صحابی رضی اللہ عنہ کو جب پانی پلایا جانے لگا تو اس نے دوسرے زخمی کی طرف اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے۔جب دوسرے زخمی کو پانی پلانا چاہا تو اس نے تیسرے زخمی کی جانب اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلایا جائے۔ پانی پلانے والے شخص جب زخمی کے قریب آئے تو دیکھا کہ زخمی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئےتو وہ دوسرے زخمی کے پاس دوڑے دوڑے پہنچےلیکن وہ بھی شہید ہو چکے تھے۔ پانی پلانے والے صحابی جب پہلے شخص کے پاس آئےتو وہ بھی جامِ شہادت نوش کر چکے تھے۔ یہ ہے اسلام کی تعلیم کہ زخموں سے چور ہوتے ہوئے بھی دوسرے بھائی کے لیے قربانی کا جذبہ عروج پہ رہا۔ موت کے خوف سے ان کے قدم ڈگمگائے نہیں بلکہ حوصلہ بلند رہا اور ایثار کا جذبہ سر چڑھ کہ بولاکہ میں نہیں میرے دوسرے بھائی کو پانی دے دیا جائے۔تاریخِ اسلام کی ورق گردانی کی جائے تو اسلام ایسی مثالوں سے جگمگا رہا ہے۔ فتحِ مکہ کے موقع پر انصار نے مہاجرین کا جس طرح خیر مقدم کیا، تاریخ میں ایسی مثال نہ کبھی تھی نہ آگے مل پائے گی۔ انصار نے مہاجرین کو صرف بھائی تسلیم نہیں کیا بلکہ بھائی کے تمام فرائض بھی سر انجام دیے۔ اپنے گھر، کاروبار تک ان کو دے دیے۔ مسلمان مادیت کے ایسے دلدل میں گر چکا ہے کہ اپنے اصل کو بھول بیٹھا ہے۔ اب وقت آن پہنچا ہے کہ کائنات میں انسان اپنی تخلیق کے محرک کا ادراک کرے اور خود کو اشرف المخلوقات ثابت کرے۔
آج کے پرآشوب دور میں ہر شخص کسی نہ کسی مسئلے یا پریشانی سے دوچار ہے۔ بہار زندگی میں کہیں نہ کہیں گرم ہوا کے جھونکے اور خزاں کے لمحے بھی آجاتے ہیں۔ ایسے میں لائق تحسین اور قابل تقلید ہیں وہ لوگ جو لوگوں کے دکھ درد سمیٹنے اور ان میں آسانیاں بانٹنے کیلئے سرگرم عمل رہتے ہیں دفاتر اور مختلف اداروں میں کام کرنے والے ذہنی دباوکا شکار رہتے ہیں اور مصروفیات کی وجہ سے لوگوں کے پاس واک اور ورزش کا وقت بھی نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں نت نئی بیماریوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں عوام الناس کو آرام پہنچانے کے لئے جو بھی ادارے کام کر رہے ہیں وہ قابل تحسین ہیں۔ ہم نے اسلام کی تعلیمات کو چھوڑ دیا ۔ خاص کر حقوق العباد کو تو ہم عبادت ہی خیال نہیں کرتے ۔اسی وجہ سے ہم میں اتحاد و اتفاق نہیں رہا .یکجہتی اور بھائی چارہ نہیں رہا،اخوت ،محبت، رواداری،اور ایک دوسرے کا احساس نہیں رہا۔ہم اتنے خود غرض ہو چکے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات کے سوا کچھ نظر نہیں آ رہا ۔ یہ جو دنیا میں انسانیت سسک رہی ہے۔بہترین انسان دوسرے انسانوں کی بوقتِ ضرورت بڑھ چڑھ کر مدد کرتا ہے۔ اللہ اپنے بندوں سے 70 ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے. پھر بھلا وہ کیسے اپنے بندے کو مشکل میں تنہا چھوڑ سکتا ہےکسی کی مدد یا ہمدردی کرنے سے اللہ بھی راضی ہو گا اور معاشرہ بھی خوشحال ہو گا۔چناں چہ پاکستان کو ایک فلاحی مملکت کے سانچے میں ڈھالنا از حد ضروری ہے۔پاکستان میں فلاحی مملکت کا تصور وہی ہے جو مذہبِ اسلام میں امن و آشتی کا مظہر ہے۔ افراد کی اپنی مدد آپ کے تحت کے علاوہ فلاحی کاموں کو انجام دینے کے لیے باقاعدہ ادارے قائم کیےجائیں۔امام غزالی ؒ فرماتے ہیں اﷲ تبارک تعالیٰ کو عا جز لوگ بہت پسندہیں لیکن دولت مند عاجز انتہائی پسند ہیں جو لوگ مرنے کے بعد زندہ رہنا چاہتے ہیں انہیں چاہیے کہ صالح اعمال کریں کیونکہ درخت اپنے پھل اور انسان اپنے عمل سے پہچانا جاتاہے۔ہماری کوشش اور خواہش ہ بس یہی ہونی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ سفید پوش ،غریب ،مستحقین ، نادار لوگ جو کم وسائل رکھتے ہیں کی خدمت کریں تا کہ اﷲ اور اس کا رسول ﷺ راضی ہو سکے یہی ایک مسلمان کا مقصود و حاصل ہے اﷲ ہماری عاجزی کو قبول کرے (آمین)