پانی کا بحران اورسندھ طاس معاہدہ

پانی کا بحران اورسندھ طاس معاہدہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
پانی ایک عظیم نعمت ہے۔ کائنات کی ہر چیز جاندار و بے جان کا انحصار و مدار پانی پر ہے۔ ہوا اور پانی اللہ کی بہت ہی قدیم نعمتیں ہیں۔ اللہ جل شانہ کے سوا جب کسی چیز کا کوئی وجود نہ تھا پانی اس وقت بھی موجود تھا،یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن ہی نہیں ہے۔ انسانی جسم کا دو تہائی حصہ پانی پر مشتمل ہے۔انسانی زندگی کے قیام کے لئے پانی انتہائی ضروری ہیں، نہ صرف پینے کے لیے بلکہ معیشت خوراک کی حفاظت سماجی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی ۔پاکستان زراعت پر مبنی ملک ہے لہذا پانی اس میں ایندھن کا کام سر انجام دیتا ہے۔ اسی طرح اقتصادی اور سماجی ترقی کے لئے پانی کی اہمیت بھی وہی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ پاکستان موجودہ وقت میں شدید پانی کی قلت کا سامنا کررہا ہے ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث اس نعمت کی افادیت میں کمی کے ساتھ ساتھ اس میں قلت بھی ہوتی جارہی ہےایک رپوٹ کے مطابق پانی کی سخت قلت کا سامنا کرنے والے ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کا نمبر تیسرا ہے۔وطن عزیز پانی اور بجلی کے جن سنگین بحرانوں سے دو چار ہے اس سے ہماری صرف زرعی اور صنعتی معیشت ہی بری طرح متاثر نہیں ہو رہی بلکہ قوم کا ایک ایک فرد اور پورا معاشرہ اس عذاب سے دو چار ہے۔
ان بحرانوں کی سنگینی میں سندھ طاس معاہدہ کا بھی کافی حصہ ہےوطن عزیز کا آبی نظام دریائے سندھ پر منحصر ہے۔ وطن عزیز کو بنے ہوئے ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ 4 مئی 1948کو معاہدہ طے پایا جس کے تحت پانی کی فراہمی کے عوض پاکستان بھارت کو سالانہ ادائیگی کرنے پر مجبور ہوگیا۔سندھ طاس معاہدہ19 ستمبر1960ءمیں کراچی میں صدر پاکستان جنرل محمد ایوب خان اور وزیر اعظم انڈیا جواہر لعل نہرو کے دستخطوں سے معرض وجود میں آیا ، اس معاہدے میں جو سہولتیں بھارت کو دی گئیں، وہ پاکستان کے لیے مخصوص نہ کروائی گئیں،اس معاہدے میں ہم نے اپنے تین دریا بھارت کے سپرد کرکے دو دریا اپنے پاس رکھے تھے۔ ورلڈ بینک کے علاوہ بھارت سے لیے جانے والے سرمائے کے بل پر منگلا اور تربیلا دو ڈیم تیار کئے تھے۔دریائے بیاس تو پاکستانی علاقے میں داخل ہونے سے پہلے ہی بھارت ’’استعمال کرکے خرچ‘‘ کرچکا تھا۔ یعنی ڈیم بناکر نہریں تیار کرکے راجستھان کو دے چکا تھا۔ اصولاًکالاباغ ڈیم بھی اسی ہلے گلے میں بن جانا چاہیے تھا۔ لیکن ایوب خان نے ہزارہ کو ترقی دینے کےچکر میں تربیلا شروع کروا دیا۔ ورنہ شاید اُس وقت سابق صوبہ سرحد یا سندھ کالاباغ ڈیم کے اتنے مخالف نہ تھے۔ہم نے زرعی پانی دریائےستلج، راوی، بیاس کا ضرور دیا تھا، مگر دریائی پانی کے اور استعمال بھی ہوتے ہیں جس کی تشریح اس معاہدے میں موجود ہےجس میں کہا گیا ہے کہ جہلم اور چناب دونوں دریا جب تک بھارتی علاقے میں بہتے ہیں بھارت اُن میں سے پینے کا پانی، گھریلو استعمال کا پانی، آبی حیات یعنی مچھلیوں کا پانی، ماحولیاتی یعنی سبزے اور پودوں کا پانی کے علاوہ، پن بجلی کا پانی اور صنعتی ضروریات کا پانی استعمال کرسکتا ہے، لیکن اس وقت کے معاہدہ سازوںنے یہی شرط دریائےستلج اور راوی کے پانیوں میں نہیں لگائی اور نہ تشریح کرکے بھارت سے دستخط کروائے، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارت دریائےراوی اور ستلج دونوں دریائوں کے زرعی پانی کے علاوہ باقی پانچوں استعمال کا پانی بھی روک رہا ہے، پانی کی ایک بوند بھی دریائےستلج اور راوی میں بہنے نہیں دیتا ۔
ایوب خان کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی اس مسئلے پر کوئی توجہ نہ دی۔ نتیجہ آج ظاہر ہورہا ہے کہ منگلا سے نکلنے والی لنک کینالوں سے ہماری ضروریات پوری نہیں ہوتیں، جنہیں پہلے دریائے جہلم میں ڈالاجاتا ہے اور پھر دریائےچناب، راوی، ستلج میں ڈالا جاتا ہے۔مجموعی طور پر یہ پانی کم ہے۔بھارت نے آبی دہشت گردی کرتے ہوئے 1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزی کرکے دریائے چناب کا پانی مقبوضہ کشمیر میں بگلیہارڈیم پر روک لیا جس کی وجہ سے پانی کم سے کم رہ گیا اور پانی کمی کی وجہ سے سیالکوٹ ، نارووال اور گوجرانوالہ ،سرگودھا،منڈی بہاالدین ودیگر اضلاع میں لاکھوں ایکٹر زرعی اراضی پرکاشت شدہ فصلوں کو نقصان پہنچ گیااور کسان وکاشتکار فصلوں کو ٹیوب ویلوں کے پانی سے سیراب کرنے پر مجبور ہوگئے ،سابق صدر جنرل ایوب خان کے دور اقتدار1960ء میں ہونے والے سندھ طاس معاہدہ کے تحت بھارت دریائے چناب میں 55ہزار کیوسک پانی چھوڑنے کا پابند ہے لیکن بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں دریائے چناب پر بگلیہارڈیم تعمیر کرکے پانی روک لیا جس سے پاکستان کو نقصان پہنچا۔ بھارت نے دریائے چناب کا پانی روک کر بھارت نے غیر قانونی طور پر بگلیہارڈیم تعمیر کیااور اب کئی سالوں سے دریائے چناب کا پانی روک رکھا ہے اور مزید ڈیمز بھی مقبوضہ کشمیر میں تعمیر کئے جارہے ہیں اسی طرح بھارت اپنے زیرِ قبضہ کشمیر کے علاقے میں دھڑادھڑ بند بناکر جہلم اور چناب کو بھی تیزی سے خشک کرنے کی حکمت عملی پر کاربند ہے، جس کے بعد اہلِ پاکستان پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے اور یہاں زندگی اس قدر مشکل ہوجائے گی جس کا تصور بھی آج محال ہے۔
بہر حال یہ وفاق کی ذمہ داری تھی کہ مشرقی دریاوں کی بحالی اور دیگر زرعی ضروریات کا خیال رکھتا مگر افسوس وفاقی حکومت نے اس معاملے میں مجرمانہ غفلت کی بلاشبہ سندھ طاس معاہدہ مثالی معاہدہ نہ تھا اس سے پاکستان مغربی دریاوں تک محدود ہو گیا اور تین دریا انڈیا کو بیچ دئیے گئے مگر اسکے بعد بھی بہتر منصوبہ بندی سے آبی مسائل پہ قابو پایا جا سکتا تھا،آبی ماہرین نے پاکستان کی شادابی اور معیشت کو برقرار رکھنے کےلیے کوئی منصوبہ بندی نہ کر کے مجرمانہ غفلت کا ارتکاب کیا جسے آنے والی نسلیں بھگتیں گی آبی حیات کا مکمل خاتمہ ہو گیا ہے آبی ذخائر کی تعمیر کو اولین ترجیحات میں شامل کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے،دنیا میں بڑی موسمیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ پاکستان میں اس کے اثرات بہت زیادہ ہیں۔ ہماری حکومت کو فوری طور پر ماحولیات کی بہتری کےلئے ڈیموں کی تعمیر پر سوچنا نہیں بلکہ کام کرنا ہوگا تا کہ آبی بحران سے نبٹا جا سکےاور پاکستان میں پانی کے ذخائر قائم کرنے کے ساتھ ساتھ پانی کو ضائع ہونے سے روکنے کی ضرورت بھی ہے ،اور ہمیں بھی چاہئے کہ پانی کے بے دریغ استعمال سے گریز کریں،ان آبی طوفانوں سے نمٹنے کا وقت بہت کم ہے،اب تساہل نہیں عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔