نوجوان نسل کی دین سے دوری

نوجوان نسل کی دین سے دوری
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
جوانی ایک انمول نعمت ہے، ایک قیمتی امانت ہے ، جوانی ایک حسین تناسب ہے بادل کی کڑک اور بجلی کی چمک کا ، برسات کے پانی اور دریا کی روانی کا ، پہاڑوں کے جلال اور گلستانوں کے جمال کا ، نخلستانوں کی ہوا اور صبا کی ادا کا ، شبنم کی وارفتگی اور کہکشاں کی دلکشی کا ۔ سوسائٹی اور معاشرہ کو اگر جسم قرار دیا جائے تو نوجوان اس سماج کی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب بزم سجاتے ہیں تو ملی عظمتوں کی بنیادیں استوار ہو جاتی ہیں۔ قومی تعمیر و ترقی کے چشمے پھوٹنے لگتے ہیں ، عظمت رفتہ پر رنگ نو آجاتا ہے۔ ملکوں کی قسمت جاگ اٹھتی ہے اور اندھیروں کی کوکھ سے تجلی جلوہ گر ہوتی ہے لیکن جس طرح جوانی اپنی ساری لطافتوں کے باوجود ہرجائی ہے اسی طرح نوجوانوں کے بارے میں کسی دانشور نے کہا ہے کہ’’آدمی برسوں میں جوان ہوتا ہے ، لیکن اگر اپنے اوقاتِ کارکو عمدہ طریقے پر صرف نہ کرے تو گھنٹوں میں بوڑھا ہوجاتا ہے اور جس طرح مالدار کو اس کی کنجوسی ، حاکم کو اس کی لالچ برباد کرتی ہے ، اسی طرح نوجوان کو ا س کی سستی اور کاہلی لے ڈوبتی ہے۔‘‘کیونکہ ہر انسان اور نوجوان فطری طور پر اپنے مذہب کا شیدا ، اپنے دھرم پر جان نثاری کرنے والااور مرمٹنے والاہوتا ہے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ اپنے مذہب کا کامل پیرو اور مکمل پابند نہیں ہوتا، سستی ، کاہلی ، غفلت اور لاپرواہی کا شکار ہے۔ سستی و کاہلی انسان کی وہ بنیادی کمزوری ہے جوانسان کو ہر قسم کے عروج و ترقی سے مانع ہوتی ہے۔ ہر قسم کی عروج و ترقی کے پس پردہ محنت و محنت و استقلال کو جواہمیت حاصل ہے اس سے کوئی عقلمند انکار نہیں کرسکتا۔
موجودہ دور میں نوجوانوں کی بے راہ روی پر سب سیخ پا ہیں۔نوجوان نسل آوارہ ،بدچلن، چور، ڈاکو، قاتل، زانی، نشئی ہر طرح کے جرم اور گناہ میں مصروف ہے۔اہلِ خانہ ان کی اس بے راہ روی کا ذمہ دار معاشرے کو ٹھہراتے ہیں۔مگر سوچنے کی بات ہے معاشرہ بذات خود کچھ بھی نہیں ہے۔ہم سب مل کر معاشرہ بناتے ہیں اور سب ہی اس میں کسی نہ کسی طرح بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔مان لیتے ہیں آج کل کے نوجوان بے راہ رو ہیںجرائم میں ملوث ہیں ۔ساتویں کلاس کے بچے گرل فرینڈ کے لئے گھروں سے چوری کر رہے ہیں۔سکولوں کی لڑکیاں گھر جھوٹ بولنے سے لیکر گھر سے بھاگنے کے منصوبے بنانے میں مصروف ہیں۔دسویں کلاس کے بچے عشق میں اپنی استانی کو گولیوں سے بھون رہے ہیں۔یہ نوجوان بغیر کسی ڈر خوف گلی محلوں میں سگریٹ اور نشہ آور اشیاء بھی استعمال کرتے ہیں ۔آج کے دور میں سات آٹھ سال کے بچے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے ہیں۔گھر سے بھاگ جانے یا خود کشی کرنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ یہ سب صورتحال بہت تشویش ناک ہے۔ نوجوان نسل کو صحیح راہ دکھانا ،ان کی تربیت کرنا، صحیح غلط کا فرق سمجھانا صرف اور صرف ماں باپ کا فرض ہے۔ماں کی گود اولاد کی پہلی درس گاہ ہے۔اور اس درس گاہ میں اب ملاوٹ آ گئی ہے۔دورِ حاضر میں والدین کا کردار نہ ہونے کے برابر ہے۔یا یوں کہہ لیں کہ بچے پیدا کر کے ان کو وقت پر روٹی ،کپڑا ،سکول بھیجنا صرف یہی ماں باپ کی ذمہ داری رہ گئی ہے ۔اس کے علاوہ تمام ذمہ داری ماں باپ معاشرے سے پیسے کے زور پر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔والدین کی عدم توجہی اور پھر نت نئی ایجادات اور انکا بے جا استعمال بگاڑ کی اصل وجہ ہے۔
بچے کی تربیت ماں کے پیٹ سے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ مگر آجکل کی عورتیں موبائل ،ٹی وی ڈرامہ، گانے بجانے میں بہت مصروف ہیں۔سٹار پلس پر ساس بہو کے ڈرامے دیکھنے میں مصروف خواتین بچوں سے بالکل بے خبر ہیں ۔ بچے کو پیدا ہونے کے بعد بھی مختلف میوزک لگا کر بہلانے کی کوشش کرتی ہیں۔ بچوں کو ناچ گانے پر لگا کر انکی ویڈیو بنا کر فخر محسوس کرتی ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ بچہ روتا تھا یا چوٹ لگتی تھی تو مائیں تڑپ اٹھتی تھیں خون کے آنسو روتی تھیں ۔اور ایک آج کا دور ہے کہ بچہ اگر کسی مخصوص انداز میں روتا ہے یا اس کو چوٹ لگتی ہے تو سب سے پہلے ویڈیو یا تصویر بنا کر سٹیٹس لگا دیا جاتا ہے۔ باپ اولاد کو دنیا جہاں کی سہولتیں فراہم کرنے کے لئے دن رات محنت کرتا ہے۔مگر جس اولاد کےلئے اتنی محنت کرتا ہے اسے اولاد کے پاس بیٹھ کر ان کے مسائل سننے ان سے بات کرنے کی فرصت ہی نہیں۔آج کے والدین نے بچوں کو سننا اور سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔دو سال کا بچہ سکول داخل کروانے کے لئے عورتیں بے تاب ہیں۔صرف اس لئے تا کہ جتنا وقت بچے باہر رہے گاوہ سکون سے اپنے کام کر لیں یا سوشل میڈیا انجوائے کر لیں۔اس ساری صورت حال میں ماں باپ کا کردار صرف یہ ہے کہ صبح جگانا ،روٹی دینا، سکول بھیجنا، ٹیوشن بھیجنا اور جب مستقبل میں بچے پڑھ لکھ جائے نوکری کرنے لگے تو انکی شادی کر دینا۔ماں باپ دونوں کے پاس ہی اولاد کو صحیح غلط بتانے ان کے مسائل سننے اور حل کرنے کا وقت ہی نہیں۔لہذا ماں باپ اور بچے ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔
آج اپنے ہی گھروں میں بچے اور بچیاں اپنے کزنز چچا یا ماموں کے ہاتھوں بھی جنسی درندگی کا نشانہ بن رہے ہیں۔سکول، کالج ،مدرسے یا کسی بھی طرح مسلسل کئی کئی ماہ جنسی درندگی اور تشدد سہتے ہیں ۔کچھ عرصہ پہلےمعروف ایک گلوکارہ کے بھائی کا معاملہ سامنے آیا جو گھر ہی میں اپنی بھانجیوں کو جنسی درندگی کا نشانہ بنا رہا تھا وقت کی کمی ،بچوں سے دوری بچوں پر بے اعتمادی ہی وجہ تھی کہ ایک ماں سمجھ نہ سکی کہ اس کے بچے کس اذیت میں ہیں۔بچہ سکول، کالج ،مدرسے ،اکیڈمی کے کسی معاملے کی شکایت کرتا ہے تو والدین توجہ نہیں دیتے ۔اسی وجہ سے اکثربچے جنسی تشدد کا نشانہ بنتے ہیں یا جسمانی تشدد کا۔انسان نمادرندے ہمارے معصوم بچوں کو نشہ دے کر غلط راستے پر ڈال کر اور جنسی درندگی کا نشانہ بنا کر کچل رہے ہیں اور ماں بچوں کی روٹی ،کپڑا ،تعلیم میں مصروف ہے اور والد ان ضروریات کے لئے پیسہ کمانے میں۔اور جس اولاد کے لئے والدین دن رات محنت کر رہے ہیں وہ زمانے کی گردش میں زندگی اور عزت ہارتے جا رہے ہیں۔
دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ آج ہم ابتدائی دینی تعلیمات سے بھی کورے ہوگئے ہیں، جبکہ عالم اسلام چاروں طرف سے کفار کی سازشوں میں جکڑا ہوا ہے،تمام اہلِ اسلام پر بے حسی کی ایک گھٹا چھائی ہوئی ہےہماری نوجوان نسل تباہ و برباد ہو چکی ہے اور ہمارا مستقبل ہم سب کے لئے سوالیہ نشان بن چکا ہے اولاد ہی تو سب سے قیمتی سرمایہ ہے جو ہمارے سامنے لٹ رہا ہے برباد ہو رہا ہے اور ہم سب بے بسی کا نشان بنے ہوئے ہیں روزانہ اخبارات اور سوشل میڈیا پر نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی کی خبریں سامنے آرہی ہیں کوئی دن نہیں کہ اس طرح کی بھیانک خبریں پڑھنے کو نہ ملیں جس میں نوجوان نسل کی اخلاقی بے راہ روی کی داستانیں ہیں پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں خوف آتا ہے کہ ہم کدھر جا رہے ہیں شاید وطن عزیز میں سزا و جزاء کا ایسا ناقص نظام ہے کہ جس کی بدولت برائیاں بڑھتی جا رہی ہیں قصور کی معصوم زینب سے لے کر دیگر معصوم بچیوں اور ابھی دو ہفتے قبل موٹر وے پرایک خاتون کو ھوس کا نشانہ بنانے ایسےرونما ہونےوالےواقعات ہیں ۔ہماری پوری ریاست کے ہر علاقے میں نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی کی صورت حال تقریباً یہی ہے، حکومت کے مختلف محکمہ جات بالخصوص محکمہ پولیس ایسے گندے عناصر کی سرکوبی کے لئے فعال کردار ادا کریں بغیر مصلحت کے ایسے آوارہ نوجوانوں کے خلاف قانون حرکت میں آئے۔ان معاشرتی برائیوں کا حل راقم کے نزدیک یہ ہے کہ تمام والدین اپنے بچوں اور بچیوں پر نظر رکھیں ان کی شرعی طریقے سے تربیت کریں دنیاوی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم دیں اولاد کی سرگرمیوں پر نظر رکھی جائے بچے پیسے کہاں سے لاتے ہیں؟موٹر سائیکل کہاں سے لیا؟ موبائل کہاں سے لیا ؟سکول کالج سے کب گھر لوٹتا ہے؟رات کو کہاں جاتا ہے ،دن کو کیا کرتا ہے؟ کیا نماز بھی پڑھتا ہے کہ نہیں؟ والدین بچوں کی نگہداشت کا فرض پورا کریں نماز پر لگائیں گھریلو کام پر لگائیں اگرکوئی بچہ بیروزگار آوارہ گھومتا ہے تو کام پر لگائیں اس طرح کی تربیت نہ ہونے سے آج ہمارے بچے والدین کے نافرمان ہیں اور والدین پریشان حال ہیں ۔
ایسے حالات میں والدین کی اولین ذمہ داری ہے کہ جہاں اپنی اولاد کا مستقبل بہتر بنانے کی فکر میں ان کی پڑھائی کے سلسلے میں کسی قسم کا سمجھوتا نہیں کرتے،اس سے کہیں زیادہ ان کی دینی اور اخلاقی تربیت کے لیے کوشاں رہیں۔ اخلاقی تر بیت اور اخلاقی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی ، عبادت ، محبت ، خلوص ، ایثار، خدمتِ خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔ اسی لئے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کو دور ِ جدید کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی ودینی تعلیم کابھی ضروربندوبست کریں۔
والدین کے بعدا ساتذہ کا معاشرے کودرست سمت چلانے میں اہم کردار ہوتاہے اور استاد کیلئے لازم ہے کہ وہ ہر بچے کو اپنا بچہ سمجھ کر تعلیم وتربیت کرے ،موجودہ دور میں نسل نو دین سے دور ی کے باعث تباہی کے دھانے پر ہے،منشیات کااستعمال ،نماز و ں میں سستی،قرآن سے دوری ، غیبت ،چوری ، زنا، رشوت خوری سمیت دیگرروحانی خرابیاں معاشرے کو دیمک کی طرح کھوکھلا کررہی ہیں ،معاشرے میں پھیلی برائیوں کے خاتمہ کیلئے اساتذہ کو اہم کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے،بہرحال اس تمام تر صورتِ حال کادوش جسے بھی دیا جائے،لیکن اس کی اصل ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔کیونکہ اگر یہ اولاد پڑھائی کے معاملہ میں سستی دکھائے تو والدین انہیں کوسنے،ملامت کرنے سے کبھی نہیں چوکتے ،حتی کہ بسااوقات جوان اولادپر ہاتھ تک اٹھالیتے ہیں،لیکن انہیں کبھی اس بات کا درد یا احساس تک نہیں ہوا کہ میرا بچہ یا بچی دین سے کتنے دور نکل گئے ہیں۔ہمارے نوجوانوں کو فلمی اداکاروں کے نام اور ان کا بایو ڈیٹا تو اَزبر ہے مگراپنے پیارے نبی ﷺکے سب سے پہلے جانشین کا نام تک معلوم نہیں!کیونکہ پیدائش کے وقت ان کے والدین نے انہیں اسلام کا اعزاز دینے کے لیے رسمی طور پران کے کانوں میں اذان کے کلمات تو کہلوادیے تھے ،لیکن اس کے بعد بچپن سے لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی تک ان کے کانوں آنکھوں اور ذہنوں نے ،ٹی وی،کیبل ،ڈش،موبائیل انٹرنیٹ اورتفریح، کے سو ا کچھ نہ سنا نہ دیکھاپھر جوانی سے فکرِ معاش میں سرگرداں اس نوجوان کو دین کا علم حاصل کرنے کے کے لیے فرصت ہی کہاں ہے!بڑھاپے میں ریٹائرمنٹ کے بعد اگر فضل الٰہی سے اس مسلمان کو دین کی رغبت ہو بھی گئی تو اب زبان اپنے قابو میں نہ رہی کہ کلمہ طیبہ کے الفاظ تک صحیح طور پر زبان سے ادا نہیں ہو پاتے!اس لئے پرائمری سے یونیورسٹی تک کے اساتذہ طلباء و طالبات کی اخلاقی تربیت کریں پریڈ سےپانچ، دس، منٹ نکال کر اخلاقی تربیت کریں علماء کرام مسجد و منبر سے سے اصلاح معاشرہ پر ہر نماز جمعہ خطبہ میں اس کو اپنا موضوع بنائیں صاحب علم و دانش اپنی تحریروں اور تقریروں میں نوجوانوں کی اخلاقی بے راہ روی کی نشاندہی کریں، معاشرے کا ہر فرد ایسے گندے لوگوں کے خلاف آواز بلند کرے برے کو برا کہا جائے اس کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جائے ہر فرد بیدار مغز شہری کا کردار ادا کرے ہر علاقے میں گاؤں محلے اورمرکزی کی سطح پر اصلاح کمیٹیاں قائم کی جائیں تاکہ یہ برائیاں ختم ہو سکیں اور نوجوان نسل بچ جائے۔
ہم سب لوگوں کو معاشرے پر الزامات لگانے سے پہلے اپنی اصلاح کرنے کی ضرورت ہے۔والدین کو مکمل طور پر بچوں کے ہر معاملے پر نہ صرف نظر رکھنی ہے بلکہ دوستانہ ماحول فراہم کرنا چاہئے تاکہ مسائل کو بہتر طریقے سے حل کر سکیں۔اس معاشرے کے نشیب و فراز مسائل سے آگاہی اور اس کے اثرات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بچوں کی تربیت بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنا ایک لازمی جزو ہے جو کہ والدین کے بڑھاپے کا بھی بہترین سہارا ہے اور ملک و قوم کی ترقی کا ضامن بھی ہے۔