مظلوم بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی

 مظلوم بہن ڈاکٹر عافیہ صدیقی
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
کبھی کبھی لکھنے کے لئے حروف کا جوڑنا مشکل ہوجاتا ہے،اورالفاظ کا ذخیرہ کم پڑجاتا ہے ، بسااوقات صورتحال کی صحیح عکاسی کے لئے محاورے مل نہیں پاتےاورلکھنے والے بھی انسان ہی تو ہوتے ہیں بعض اوقات ان پر قارئین سے بھی زیادہ اچھا اور برا اثر مرتب ہوتا ہے اسی لئے لکھنے والوں کا دماغ تو ٹھیک رہتا ہے مگر دل ساتھ چھوڑجاتا ہے۔ 2003 سے اب تک جب عافیہ بہن پر کیے جانے والے ظلم کا سوچتے ہیں تو دل میں ایک ہوک اٹھتی ہے ،اور جس بے انصافی سے انصاف کیا گیا ہے اس پر دل میں ایک طوفان اٹھتا ہے جو اپنی بے بسی حکمرانوں کی بے حسی کی دیواروں سے سر ٹکرا کر رہ جاتا ہے قارئین اس دکھ کو قلم بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتا جب تصور کی آنکھ سے ایک بے بس مجبور بہن اور مظلوم بیٹی جس کے وطن کے حکمرانوں نے ہی اسے بیچ دیا عافیہ کے جسم کو سگریٹ سے داغا جاتا ہو گا ۔ٹھوکریں ماری جاتیں ہوں گی ،ہوس کا نشانہ بنایا جاتا ہو گا ،اس ہم مذہب ،ہم وطن آرام سے اس وقت سوتے رہے ،عوام نے کوئی تحریک نہ چلائی ،حکمرا ن کرسی بچاتے رہے ،اور اپوزیشن حکومت پرحکومت گراتی رہی ۔پاکستان کی قوم عوام و حکمران تک اس کی چیخیں نہ پہنچ سکیں ۔قوم کی بیٹی آج جس حال میں ہے وہ غیرت مندوں کی نیندیں اڑانے کے لیے کافی ہے ،لیکن ہم ذلت کی اس پستی میں پہنچ چکے ہیں جہاں ایسی چیخیں ہم کو بیدار کرنے کے لیے کافی نہیں ہیں۔اور بہن عافیہ صدیقی کا معاملہ اس لئے مختلف ہے کیونکہ اس کو مشرف جیسے ظالم شخص نے امریکیوں کے حوالے صرف اس لئے کیا تھاکہ وہ ’’اسلام پسند ‘‘تعلیم یافتہ خاتون تھی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو ان حالات سے دوچار کرنے والاکوئی پرایا نہیں تھا ،بلکہ اپنا ہی حکمران تھا،جو خود کو بڑے فخر کے ساتھ ’’سید‘‘ بھی کہتا ہے۔چند ٹکوں کی خاطر ڈاکٹر عافیہ اور افغانستان کے سفیر ملا عبدالسلام ضعیف سمیت سینکڑوں کلمہ گوافرادکا امریکہ کے ہاتھ سوادا کرنے والے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو تاریخ کبھی معاف نہیں کرے گی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا تعلق ایک ایسے گھرانے سے ہے جو انتہائی پڑھا لکھاہے۔ان کے والد محمد صدیقی ڈاکٹر تھے ۔عافیہ نے قرآن حفظ کیا۔عافیہ نے اپنی تعلیم کا بڑا حصہ یونیورسٹی آف ٹیکساس سے مکمل کیا ۔جہاں انہوں نے MIT کے تحت بائیالوجی میں گریجویشن کی ۔اس کے بعد امریکہ میں ہی علم الاعصاب (دماغی علوم ) پر تحقیق کر کے PHD کی اس دوران ان کے کچھ تحقیقی مضامین بھی مختلف جرائد میں شائع ہوئے ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے دوران تعلیم سماجی سرگرمیوں میں بالخصوص بوسنیا کی جنگ میں بے گھر ہونے والے افراد کے لیے فنڈ جمع کرنے میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی تین بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہے،چھوٹا بچہ ہمیشہ لاڈلاہواکرتا ہے،لہذٰا عافیہ بھی گھر والوں کے لئے لاڈلی رہیں۔عافیہ ابتدا ہی سے نہایت خوش مزاج و ملنسار تھیں،پڑھائی میں ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ امتیازی نمبروں سے پاس ہوئیں اور دوسروں کی مدد کرنا انہیں بہت پسند تھا۔ وہ ہر چیز کی تہہ تک جانا پسند کرتیں اور اس لئے انہوںنے مختلف مذاہب کا مطالعہ بھی کیا ۔عید کے موقعوں پر وہ غریب اور نادار لوگوں کی مدد کیا کرتی تھیں ۔انہیں پالتو جانوروں سے بھی رغبت تھی۔اپنی سخاوت اور خوش اخلاقی کے سبب وہ نہ صرف اپنے اسکول میں بلکہ ہر جگہ مرکزِ نگاہ بن جایا کرتی تھیں،ڈاکٹر عافیہ صدیقی انسانیت کا درد اپنے دل میں رکھتی تھیں ۔دوران طالب علمی میں پاکستان کے اندر بھی اور امریکہ میں بھی دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش رہتی تھیں ۔وہ پاکستان کو تعلیم کے میدان میں کئی گناآگے پہنچانا چاہتی تھیں اگر یہ کہاجائے کہ وہ پاکستان میں تعلیمی انقلاب برپا کرنا چاہتی تھیں تو زیادہ مناسب ہوگا۔انہوں نے امریکہ میں تعلیم حاصل کی اور ہر موقع پر نمایاں کارکردگی دکھائی۔اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر ڈاکٹرعا فیہ بہن کو متعدد بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔وہ اپنی تعلیم مکمل کر کے پاکستان میں نظام تعلیم کو بنیادی تبدیلیوں کے ذریعے اس نہج پر پہنچانا چاہتی تھیں کہ بیرونِ ملک حصول ِ تعلیم کے لئے پھرکوئی باہر نہ جاتا بلکہ دیگر ممالک سے طلبہ اعلیٰ تعلیم کیلئے پاکستان کا رخ کرتے۔
اس وقت جنرل پرویز مشرف کاآمرانہ دور دورا تھا اور دنیا جانتی ہے کہ وقت کے اس آمر نے کتنے پاکستانیوں کو امریکیوں کے ہاتھوں بیچا۔خود جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب اور متعدد انٹریوز میں بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ایسے پاکستانیوں کو جنکی امریکہ حکومت نے (Head Money ) سر کی قیمت رکھی ہوئی تھیں انہیں پکڑ کر امریکہ کے حوالے کرتا اور انکے سر کی قیمت وصول کرتا ۔اوراس سے پہلے ایک مشہورومعرو ف حکمران نے جب ایمل کانسی کو امریکہ کے حوالے کیا تھا اس پر ایک امریکی وکیل نے کہا تھا ” پاکستانی ڈالروں کے لیے اپنی ماں کوبھی بیچ دیتے ہیں” تو اس نے اس پراس وقت پاکستان کی غیرت کے علمداروں کو بہت غصہ آیا تھا،پھر وقت کے ساتھ ہماری غیرت مر گئی اس بات کو بھول گئے ۔ہم پاکستانی ایسے کام ہی کیوں کرتے ہیں جن کی وجہ سے ہم کو ایسا کہا جاتا ہے ۔ان بے حسی کے کاموں میں سے ایک کام خود پاکستانی حکمران اورقوم کااپنی بیٹی عافیہ کو اس کی رہائی کے لیے جہدو جہد نہ کرنا بھی شامل ہے ۔
ایک خاتون اپنے تین معصوم بچوں سات سالہ محمد احمد، پانچ سالہ مریم اور ایک سالہ سلیمان کے ہمراہ اُٹھا لی گئی۔ وہ اس وقت آغاخان ہسپتال میں کام کررہی تھی اور کراچی میں اپنے کمسن بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔کہاجاتا ہے مشرف کے حکم کے مطابق انٹر سروسز انٹیلی جنس نے عافیہ کو اغوا کیا اور امریکہ کے حوالے کیا ، بعد میں یہ بات ثابت ہو گئی ، اگلے دن کے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے اِس کی تصدیق کردی لیکن دو دن بعد حکومت ِپاکستان اور ایف بی آئی امریکہ بیک زبان ہوکر بولے کہ ہمیں عافیہ کے بارے میں کچھ علم نہیں۔اوراس کے چند دن بعدرپھر اس قوم پربے حسی کی خاموشی چھا گئی۔ نہ کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپکے، نہ دل سے آہ نکلی کہ ان تین معصوم بچوں کا کیا قصور ہے جن کے پیاروں کو ان کاکچھ اتہ پتہ معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو پانچ سال جب خفیہ حراست میں رکھا گیا تو ان کے بیٹے احمد ( پیدائش1996 )مریم (پیدائش1998 )دونوں کو اس سے الگ قید رکھا گیا ،اور اس کے سب سے چھوٹے بیٹے سلیمان کو ان کے ساتھ ہی رکھا گیا جو کہ قید کی سختی کو برداشت نہ کرتے ہوئے انتقال کر گیا ۔عافیہ کی گمشدگی کا کسی کو علم نہیں تھا کہ اسے زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا، افغانستان میں طالبان کی قید میں ان کے اخلاق سے متاثر ہوکر اسلام لانے والی برطانوی صحافی خاتون ایوان ریڈلی نے اس خاتون کا پتہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ کون ہے؟ اس پر یہ ظلم کیوں ڈھایا جارہا ہے؟اورکسی طرح تمام شواہد اکٹھے کرنے کے بعد یہ نومسلم برطانوی صحافی سراپا احتجاج بن گئی اور فوراً پاکستان آگئی ۔7 جولائی 2008 کو برطانوی صحافی ریڈلی نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس میںیہ انکشاف کیا کہ قیدی 650 عافیہ صدیقی بگرام جیل میں قید ہے اور اس کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہو رہا ہے۔ اس خوابیدہ قوم کی غیرت پر سوال کئے وہ اپنی کتاب بگرام کی جیل میں ایک قید ایک خاتون کا ذکر کیا جسے “گرے لیڈی آف بگرام” کے نام سے پکارا جاتا تھا ۔انٹیلی جنس کی زبان میں بلیک اس کو کہتے ہیں جس پر جرم ثابت ہو، وائٹ اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی جرم ثابت نہ ہو، لیکن گرے مشکوک کو کہتے ہیں۔ اور اس نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ میں تو ایک نو مسلم ہوں ،مجھے اسلام کی حقانیت کا علم ہے ،میں تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ کوئی مسلمان اپنی بہن کو غیر مسلموں کے حوالے کر دے کہ وہ اسے جسمانی،ذہنی،اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائیں، اور اس پر مظالم کی وہ داستانیں سنائیں کہ روح کانپ اُٹھے۔ اسے بدترین جسمانی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔21کروڑ لوگوں کی بے حسی پر ایک نومسلم کا یہ تھپڑ ہے ۔ دوسرا تھپڑجب عافیہ پر مقدمہ چلا اس کو سزا سنائی گئی تو ان کی وکیل اور ترجمان ٹینا فوسٹر کا یہ کہنا کہ عافیہ کو سزا صرف اور صرف پاکستانی حکومت کی بے حسی ،لاپرواہی ،اور بے اعتنائی کی وجہ سے ہوئی۔
5 اگست 2008 کو نیویارک کی عدالت میں پیش کیا ،ان پر جو الزام لگایا گیا مکمل جھوٹ کا پلندہ تھا کہ عافیہ کو 17 جولائی کو گورنر غزنی کے دفتر کے باہر سے گرفتار کیا گیا ہے اس کے پاس ایسی دستاویزات تھیں وغیرہ وغیرہ عافیہ پر امریکیوں کے لگائے گئے الزامات قطعی بے بنیاداور غلط ہیں ۔ امریکی عدالت خود اس بات کو فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ عافیہ پر دہشت گردی کا یا عافیہ کا کسی بھی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔لہٰذا جتنے بھی امریکی میڈیا نے عافیہ پر الزامات لگائے وہ یکسر غلط اور بے بنیاد ہیں ۔جو الزام عدالت میں ان پر لگایا گیا وہ اقدام ِ قتل کا ہے تا ہم اس کا بھی وہ ثبوت پیش نہیں کر سکے۔اسکے باوجود اانہیں تعصب کی بناءپر 86 سال کی بھیانک سزا محض پاکستانی مسلمان ہونے کی بنیاد پر دی گئی۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2003 سےاب 2020 تک امریکی قید میں ہے اس دوران ایسے بہت سے مواقع آئے جب اس کا امریکہ سے مطالبہ کیا جا سکتا تھا مگر ہماری حکومت نے ایسا نہیں کیا سب سے اچھا موقع ریمنڈ ڈیوس کا تھا ۔چھوڑ تو اسے ویسے ہی دینا تھا پاکستان نے اس کے بدلے میں اس وقت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا مطالبہ کیا جا سکتا تھا۔دوسرا موقع شکیل آفریدی کا تھاامریکہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو اپنا ہیرو سمجھتا ہے ۔کیونکہ اس نے اسامہ بن لادن جس کو امریکہ اپنا نمبر ایک دشمن خیال کرتا تھا اس کے گرفتار کروانے ڈھونڈنے میں امریکہ کی مدد کی تھی ۔اسی طرح ریمنڈ ڈیوس امریکی جاسوس تھا اس کی رہائی کے لیے امریکی صدر نے فون کیا تھا اورہماری اس وقت کی حکومت نے اسے رہا کر دیا حالانکہ وہ تین افراد کا قاتل تھا ۔اس کے بدلے میں ہم عافیہ کو حاصل کر سکتے تھے ۔اور شکیل آفریدی کے تبادلے میں بھی ہم عافیہ کو حاصل کر سکتے تھے۔اسی طرح ائر پورٹ لاہور اور کراچی سے بھی کئی امریکی جاسوس گرفتار ہوئے ہیں ان کے تبادلے میں عافیہ کی رہائی ممکن تھی۔سندھ ہائی کورٹ 13 جولائی 2013 کو ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی پیٹیشن پر فیصلہ دے چکی ہے کہ جس میں اس نے حکومت پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ قیدی کے تبادلہ کے قانوں پر عمل کرتے ہوئے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔ اگر حکومت پاکستان امریکہ سے درخواست کرے کہ ہم عافیہ کو پاکستان میں قید رکھیں گے تب بھی بین الاقوامی قانون کے تحت اسے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔اگر پاکستانی وزیر اعظم امریکہ سے عافیہ کی رہائی کا کہےتو بھی ممکن ہے ۔ حکومت اور غفلت شعار قوم کے ضمیر کو جھنجوڑنے کے لیے عافیہ موومنٹ کی جانب سے ڈاکٹرعافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے کوششیں جاری وساری ہیں بحثیت قوم سب ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی آواز بننا چاہیے میڈیا اور قلم کار تو پہلے بھی اس آواز کو مضبوطی سے اٹھائے ہوئے تھے اور آج بھی عافیہ صدیقی کی آواز بنے ہوئے ہیں مختصر یہ حکمرانوں کو عافیہ صدیقی کے لیے صدق دل سے کام کرناچاہیے یہ قومی فریضہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلامی فریضہ بھی ہے۔
اب سوال یہ نہیں ہے کہ امریکہ نے کب کیا کیا ؟اس لیے کہ وہ ’’طاقتور اور پاگل‘‘ دہشت گرد ملک ہے جس کے ہاں’’ قوانین احترام و حرمتِ جان‘‘ صرف اپنے گوروں کے لیے ہوتے ہیں کسی اور کے لیے نہیں۔ یہاں سوال پیدا یہ ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی کیا کرتے ہیں جن کی سرزمین پر عافیہ صدیقی نے جنم لیا ہے ؟وہ حکمران کیا کرتے ہیں جن کے دن رات ’’اسلامی جمہوری پاکستان‘‘کے نعروں میں گزر جاتے ہیں ،وہ عمران خان کیا کرتا ہے جس کو شہرت ہی اسی مسئلے کو پیش کرنے کے نتیجے میں ملی تھی اور پھر معنی خیز چپ سادھ لی ؟ وہ مذہبی جماعتیں کیا کرتی ہیں جو کشمیر اور فلسطین کی آزادی کے نام پرملین مارچوں کا انعقاد کر کے بظاہر ایک ہی رات میں ان خطوں کو آزاد کرنے کے خواب دکھاتی اوردیکھتی ہیں ؟وہ دور کی بہنوں پر تلملااٹھنے کے تماشے کرنے کے بجائے اپنی اس بہن کی رہائی کے لیے کوئی بندوبست کیوں نہیں کرتے ہیں جس کی دردناک داستان پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ باب کا اضافہ کر چکی ہے۔جس قوم کے حکمران ڈر پوک ہوں ، لیڈرامریکی پناہ اور ڈالروں پر جینے کے عادی ہوں اور علماء امریکی سفارتکاروں کی ملاقات اور شاباشی کو’’ معراج حیات‘‘سمجھتے ہوں وہ ملک کس طرح اپنی آزادی برقرار رکھ سکتا ہے۔پاکستانی سرزمین پر آکرسابق امریکی ایڈوکیٹ جرنل یہاں تک کہدے کہ اگر عافیہ کے مسئلے کو پاکستان کے حکمران سنجیدگی سے حل کرنے کی کوشش کریں تو وہ صرف چوبیس گھنٹے میں رہا ہو سکتی ہے تو آخر کون سے رکاوٹ ہے جو عافیہ کے معاملے میں آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دیتی ہے سوائے اس کے کہ اگر عافیہ رہا ہو گئی توہمارے حکمرانوں،بیروکریٹوں اور سیاست دانوں کے چہروں پر پڑا شرافت کا شیطانی نقاب الٹ سکتا ہے لہذا بہتر یہ ہے کہ عافیہ کو موت کے منہ میں ہی چھوڑدو وہ مر جائے گی تو خلاصی۔اگر کسی سیاستدان کی اپنی بیٹی اسطرح کی سلوک سے گزرتی تو شاید اُن کا رد عمل مختلف ہوتا لیکن عافیہ کس کی بیٹی ہے ؟کیا وہ پاکستان کی بیٹی نہیں ہے ؟کیا اس کا یہی قصور ہے کہ وہ ایک مسلمان گھرانے میں پیداہوئی ہے، کوئی بھی اُسے واپس لانے کے لئے کوشش نہیں کرتا۔کاش عافیہ صدیقی ، سابق چیف جسٹس ہوتی جسکی بحالی کے لئے سارے وکلاء اور عوام سڑکوں پر نکل آتے ۔حکمران تو ویسے ہی کچھ نہیں کر رہے ہیں لیکن ہم عوام نے بھی اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ۔عافیہ بہن کے گنہگار ہم سب ہیں کیونکہ ہم میں سے بھی کوئی ایسا نہیں جو کم از کم اپنی حیثیت کے مطابق ہی تگ ودوکرےاور اُسے واپس لانے کے لئے جدوجہداورکوشش کرے ۔عوام کو چاہیے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے قید سے چھڑانے کے لئے ہر ممکن اور جائز کوشش کرے تاکہ حکمران مجبور ہو کر عافیہ کیس دوبارہ شروع کرائیں اور اُسے انصاف دلائیں۔سابقہ حکومت نے اگر عافیہ کو ایک بار بیچا تو بعد کی حکومتوں اورموجودہ حکومت نے اسےبار بار بیچا ۔ آج تک کسی حکومت نے عافیہ کی رہائی کے حوالے سے کوئی کردار ادانہیں کیا ۔
خاتم النبیین ﷺ نے فرما گئے ہیںجس نے ایک آزاد مسلمان کو کسی غیر کے ہاتھ بیچا، میں قیامت کے دن خود اس کے خلاف مدعی ہوں گا (بخاری 2280) رحمت اللعالمین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان پاکستانی قوم حکمرانوں کے لیے ہے۔ پاکستانی قوم (حکمران اور عوام )نے اپنی مسلمان بیٹی ڈالروں کے لیے، امریکہ کی خوشنودی کے لیے بیچ دی۔ جب ایسے ظلم پر بے حسی، خاموشی، لاتعلقی کا رویہ عوام میں ہو تو عوام اس جرم سے خود کو بری الذمہ کیسے قرار دے سکتے ہیں۔ جب ایسے بے حس حکمرانوں کو عوام منتخب کرتی ہے۔ اس لیے ہم نے لفظ قوم لکھا ہے جس میں عوام اور حکمران دونوں شامل ہیں۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشادِ پاک ہے قیدی کوچھڑاؤ ،عافیہ صدیقی صاحبہ کی آزادی کے لیے ہر فریق کو آواز بلندکرنی چاہیے اورمیڈیا بالخصوص پرنٹ میڈیا اس ذمہ داری کو بخوبی احسن طریقے سے سرانجام دیا ہے مگر حاصل جمع کچھ نہیں ہوا عافیہ تب بھی قید تھی آج بھی قید ہے
وہ وقت امت مسلمہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی تھا جب مسلمہ امہ کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے بھری عدالت میں جج کو مخاطب کرکے کہا کہ میں پاگل نہیں ہوں میں ایک مسلمان عورت ہوں مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن شریف ڈالاجاتا ہے اور یہ سب کچھ جج کے حکم پر کیا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ میں اسی دن مر چکی تھی جب مجھے پہلی بار برہنہ کرکے میری وڈیو بنائی گئی اور مجھے بتایا گیا کہ یہ وڈیو انٹر نیٹ پر جاری کردی گئی ہے انہوں نے کہا کہ میں دنیا میں امن و آشتی پھیلانا چاہتی ہوں میں امریکہ سمیت کسی ملک کے خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی میں عیسائیوں اور یہودیوں کے خلاف ہوں بلکہ مجھے یہودیوں کے ایک مختصر گروہ صیہونیوں نے سازش کا نشانہ بنایا ہے عدالت میں موجود مسلم خواتین ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مظلومیت پر اشکبار تھیں اور انہیں حوصلہ دے رہی تھیں کہ پاکستانی قوم اور دنیا بھر کے مسلمان آپ کے ساتھ ہیں ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس کی بے گناہی ثابت ہونے پر86برس کی سزاسنادی گئی بین الاقومی حقوق کی تنظیمی خاموش تماشائی بنی رہیں انسانی حقوق کا علمبردار انتہاپسندی اور قتل وغارت کا چمپئن امریکہ کے لیے یہ دن سیاہ دن تھا جب امریکی عدالت ناانصافی کی تمام حدیں عبور کرچکی تھی انتہاپسندی اورتعصب میں اعلیٰ عدلیہ کی آنکھیں اندھی ہوچکی تھیں ،انصاف کا قتل ہوا مگر کسی عالمی تنظیم کواس پر لب کشائی کرنے کی زحمت گوار نہ ہوئی کیوں ہوتی کیوں کہ یہ فیصلہ بے ضمیرے مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ تھا جو صہیونیوں کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کرچکے ہیں آج صورتحال یہ ہے کہ قوم کی بیٹی ایک امریکی قیدخانے میں مقید ہے اور اس کے مسئلے پر اپنی سیاست چمکانے والوں کاکردار صم بکم عمی کا مصداق ہوچکا ہے اور اب انہیں اس مسئلے کے حل سے کوئی پروا نہیں عافیہ صدیقی کی پاکستان واپسی کا معاملہ ہماری قومی حمیت کی ابتری کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔پھر بھی ہم یہ سوال کرتے ہیں، ہم پر عذاب کیوں نازل ہوتے ہیں، ہماری حالت کیوں نہیں بدلتی، ہم دربدر اور رسوا کیوں ہیں؟ جن قوموں میں ایسے مجرم حکمران دندناتے پھریں، اس طرح کے ظلم پر بے حسی اور خاموشی طاری رہے، ظلم کرنے والوں کے وکیل گلی گلی، محلے محلے موجود ہوں اور چاہنے والوں کے گروہ در گروہ بھی، ان کے نقش قدم پرچلنے والوں کو اپنے ووٹوں سے جس ملک کی اکثریت اپنی محبتوں سے اقتدار پر سرفراز کرے، وہاں سے رحمتیں روٹھ جاتیں ہیں اور غیض و غضب کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔
یہ پاکستان کی تاریخ میں بہت بڑا سانحہ ہے جس کا احساس ہمارےحکمرانوں کو نہیں ہورہامگریادرکھیں یہ عافیہ امت مسلمہ کی بیٹی ہے اور بیٹی غیرت کی علامت ہوتی ہے اور جو قوم کے رہنماءاپنی معصوم بیٹی کو رہا نہیں کرا سکتے وہ اپنی قوم کو ٹینشن میں اور خود اپنے ہی پناہ گاہوں میں ذلیل و خوار ہوتے ہیں ۔یاد رہے کہ غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ دو میں۔ جس نے بیچا جس کو اس ظلم کا علم تھا اور مجرمانہ خاموشی کا شکار رہا، سب اپنی اپنی فردِ جرم پر کیا جواب دیں گے،ایک اور بھی عدالت ہے وہ ہے رب ذوالجلال کی عدالت وہاں حلف اُٹھا کر جھوٹ نہیں بولا جاسکتا۔ اُس عدالت کا دستور ہی نرالا ہے۔ ہم زبان گنگ کردیں گے اور تمہارے ہاتھ اور پاوں تمہارے خلاف گواہی دیں گے۔لہٰذا میری حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ وہ عوام کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے جمہوریت کی خاطر جلد از جلد عافیہ کی رہائی کیلئے امریکی حکومت سے رابطہ کرے تاکہ عافیہ کو با عزت رہائی مل سکے۔