عید میلاد اور ہمارا معاشرہ

عید میلاد اور ہمارا معاشرہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
تمام تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے رسول کودین حق اورہدایت کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کوتمام ادیان پرغالب کرے گرچہ کافراسے ناپسندکریں.اوردرودوسلام ہواللہ کے بندے ورسول ہمارے نبی محمدﷺپرجوشرک وگمراہی کومٹانے والے اور حق کو ظاہرکرنے والے اوراسکی طرف دعوت دینے والےتھےاللہ کا درود وسلام نازل ہوان پراورانکے آل واصحاب پر سب سے بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اوربہترطریقہ نبی پاک ﷺ کا طریقہ ہے اورسب سے بری چیزنئی چیزوں کا ایجاد کرنا ہے اورہرنئی چیز بدعت ہے اورہربدعت گمراہی ہے اورہرگمراہی آگ میں لے جانے والی ہے.
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ رسولِ اکرمﷺ سے سچی قلبی محبت جزوِایمان ہے اور وہ بندہ ایمان سے تہی دامن ہے جس کا دل رسولِ اکرمﷺ کی محبت سے خالی ہے۔ جیسا کہ جناب ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شخص بھی اس وقت تک ایماندار نہیں ہوگا جب تک کہ میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔(بخاری: کتاب الایمان: باب حب رسول من الایمان14)
لیکن اس محبت کا معیار اور تقاضا کیا ہے؟ کیا محض زبان سے محبت کا دعویٰ کردینا ہی کافی ہے یا اس کے لئے کوئی عملی ثبوت بھی مہیا کرنا ہوگا؟ صاف ظاہر ہے کہ محض زبانی دعویٰ کوئی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس کے ساتھ عملی ثبوت بھی ضروری ہے جس کا طریقہ یہ ہے کہ ایسے شخص کے جسم و جان پر اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات و فرمودات کی حاکمیت ہو، اس کا ہر کام شریعت نبوی کے مطابق ہو، اس کا ہر قول حدیث ِنبوی ﷺکی روشنی میں صادر ہوتا ہو۔ اس کی ساری زندگی اللہ کے رسولﷺ کے اُسوئہ حسنہ کے مطابق مرتب ہو۔ اللہ کے رسولﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری ہی کو وہ معیارِ نجات سمجھتا ہو اور آپﷺ کی نافرمانی کو موجب ِعذاب خیال کرتا ہو۔لیکن اگر اس کے برعکس کوئی شخص ہر آن اللہ کے رسولﷺ کی حکم عدولی کرتا ہو اور آپﷺ کی سنت و ہدایت کے مقابلہ میں بدعات و رسومات کو ترجیح دیتا ہو تو ایسا شخص ‘عشق رسول ﷺاور حُبّ ِرسولﷺ کا لاکھ دعویٰ کرے یہ کبھی اپنے دعویٰ میں سچا قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ اپنے تئیں سچا سمجھتا ہے تو سمجھتا رہے مگر اللہ کے رسولﷺ ایسے نافرمان اور سنت کے تارک سے بری ہیں کیونکہ آپﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”فمن رغب عن سنتي فلیس مني” (بخاری؛۵۰۶۳) جس نے میری سنت سے روگردانی کی، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔
12ربیع الاول کے حوالہ سے عوام کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت کا دن ہے حالانکہ 12 ربیع الاول کے یوم ولادت ہونے پر مؤرخین کا ہرگز اتفاق نہیں۔البتہ اس بات پر تقریباً تمام مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اتفاق ہے کہ12؍ ربیع الاول کو رسولِ اکرمﷺ کی وفات ہوئی۔
یومِ ولادت کی تاریخ !تمام مؤرخین اور اصحاب ِسیر کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی ولادت باسعادت سوموار کے دن ہوئی ۔جیسا کہ صحیح مسلم وغیرہ کی درج ذیل روایت سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جب اللہ کے رسولﷺ سے سوموار کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ذاک یوم ولدت فیہ ویوم بعثت أو أنزل علی فیہیہی وہ دن ہے جس میں میں پیدا ہوا اور جس میں مجھے منصب ِرسالت سے سرفراز کیا گیا۔(مسلم: کتاب الصیام: باب استحباب صیام ثلاثۃ ایام ؛1162)البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ رسولِ اکرمﷺ کی تاریخ ولادت کیا ہے ؟ ۔ حافظ ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ :اس بات پر اتفاق ہے کہ رسولِ اکرمﷺ عام الفیل (یعنی جس سال ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر سے بیت اللہ شریف پر حملہ کیا) میں پیدا ہوئے۔ نیز فرماتے ہیں کہ اس میں بھی اختلاف نہیں کہ آپﷺ سوموار کے روز پیدا ہوئے۔ نیز لکھتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک یہ ہے کہ آپﷺ ماہ ربیع الاول میں پیدا ہوئے لیکن یہ کہ آپﷺ اس ماہ کے اول، آخر یا درمیان یا کس تاریخ کو پیدا ہوئے؟ اس میں مؤرخین اور سیرت نگاروں کے متعدد اقوال ہیں۔(تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو البدایۃ والنھایۃ: ص259تا 662؍ ج۲)ماہر فلکیات اور مشہورہیئت دان محمود پاشا فلکی نے اپنی کتاب ‘التقویم العربی قبل الاسلام میں ریاضی کے اصول و قواعد کی روشنی میں متعدد جدول بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ:عام الفیل ماہ ربیع الاول میں بروز سوموار کی صحت کو پیش نظر اور فرزند ِرسول ’’ جناب ابراہیم رضی اللہ عنہ‘‘ کے یومِ وفات پرسورج گرہن لگنے کے حساب کو مدنظر رکھا جائے تو رسولِ اکرمﷺ کی ولادت کی صحیح تاریخ ۹ ربیع الاول ہی قرار پاتی ہے اور شمسی عیسوی تقویم کے حساب سے یومِ ولادت کا وقت 20 ؍اپریل 571ء بروز پیر کی صبح قرار پاتا ہے۔ (بحوالہ محاضراتِ تاریخ الامم الاسلامیہ از خضری بک :ص62 ج۱/ حدائق الانوار:ص29؍ج۱)
12 ربیع الاول یوم وفات ہے :جمہور مؤرخین اور سیرت نگاروں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ 12؍ ربیع الاول رسولِ اکرمﷺ کا یوم وفات ہے۔بطورِ مثال چند ایک حوالہ جات سپردِ قلم کئے جاتے ہیں:٭… ابن سعد، جناب عائشہؓ اور جناب عبداللہ بن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ ربیع الاول کی بارہ تاریخ کو فوت ہوئے۔(طبقات ابن سعد : ص272ج2)٭… حافظ ذہبی نے بھی اسے نقل کیا ہے ۔(دیکھئے تاریخ اسلام از ذہبی: ص569)٭… حافظ ابن کثیر ابن اسحق کے حوالہ سے رقم طراز ہیں کہ اللہ کے رسولﷺ 12؍ ربیع الاول کو فوت ہوئے۔(البدایۃ والنھایۃ: 255؍5)٭… مؤرخ ابن اثیرؒ رقم طراز ہیں کہ نبی اکرمﷺ 12؍ ربیع الاول بروز سوموار فوت ہوئے۔ (اسدالغابۃ: 41؍1/الکامل:219؍4)٭… حافظ ابن حجرؒ نے بھی اسے ہی جمہور کا موقف قرار دیا۔(فتح الباری 261؍16)٭… محدث ابن حبان کے بقول بھی تاریخ وفات 12 ربیع الاول ہے۔ (السیرۃ النبویۃ لابن حبان: ص404)٭… امام نوویؒ نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ (شرح مسلم :15؍100)٭… ٭… مؤرخ و مفسر ابن جریر طبریؒ نے بھی 12؍ ربیع الاول کو تاریخ وفات قرار دیا ہے۔ (تاریخ طبری:207؍3)٭… امام بیہقی کی بھی یہی رائے ہے۔(دلائل النبوۃ:225؍7)٭… ملا علی قاریؒ کا بھی یہی فیصلہ ہے ۔(مرقاۃ شرح مشکوٰۃ:104؍11)٭… سیرت نگار مولانا شبلی نعمانیؒ کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ (سیرت النبیﷺ: ص183؍ج2)٭… . قاضی سلیمان منصور پوری کی بھی یہی رائے ہے۔ (رحمۃ للعالمین:ص251 ج1)٭… صفی الرحمن مبارکپوری کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ (الرحیق: ص752)٭… ابوالحسن علی ندوی کی بھی یہی رائے ہے۔ (السیرۃ النبویۃ: ص404)٭… مولانا احمد رضا خان بریلوی کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ اللہ کے رسولﷺ 12 ربیع الاوّل کو فوت ہوئے۔ (ملفوظات)
اوپر ذکر کردہ حوالہ جات سے معلوم ہواکہ12؍ ربیع الاول یومِ ولادت نہیں بلکہ یوم وفات النبیﷺ ہے اور برصغیر میں عرصۂ دراز تک اسے12 وفات کے نام ہی سے پکارا جاتا رہا ہے۔قصہ مختصر کہ اس روز جشن اور خوشیاں منانے والوں کو یہ بات مدنظر رکھنی چاہئے کہ وہ جس تاریخ کو خوشیاں مناتے ہیں، وہ نبی اکرم ﷺ کا یومِ پیدائش نہیں بلکہ یوم وفات ہے!اگر بالفرض یہ تسلیم کرلیا جائے کہ12؍ ربیع الاول ہی رسولِ اکرم ﷺ کا یومِ ولادت ہے تو تب بھی اس تاریخ کو جشن عید اور خوشیاں منانا اور اسے کارِ ثواب سمجھنا از روئے شریعت درست نہیں کیونکہ جب خود رسولِ اکرمﷺ نے اپنی ولادت کا ‘جشن نہیں منایا، کبھی ‘عیدمیلادکا انتظام یا حکم نہیں فرمایا، نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کبھی یہ خود ساختہ ‘عیدمیلادمنائی اور نہ تابعین ، تبع تابعین، مفسرین ، محدثین اور ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ) سے اس کا کوئی ثبوت فراہم ہوتا ہے تو لامحالہ یہ دین میں اضافہ ہے جسے آپ بدعت کہیں یا کچھ اور… بہرصورت اگر اسے کارِ ثواب ہی قرار دینا ہے تو پھر اس ہٹ دھرمی سے پہلے اعلان کردیجئے کہ رسولِ اکرمﷺ سمیت تمام صحابہ رضی اللہ عنہم، تابعین، تبع تابعین رحمۃ اللہ علیہم وغیرہ اس ثواب سے محروم رہے اور ہم گنہگار (نعوذ باللہ) ان عظیم لوگوں سے سبقت لے گئے ہیں!
قرآن مجید رسولِ اکرمﷺ پر نازل ہوا اور آپﷺ ہی حکم خداوندی سے اس کی قولی و عملی تفسیر و تشریح فرمایا کرتے تھے۔ آپﷺ کی رسالت وبعثت کے بعد 23 مرتبہ یہ دن آیا مگر آپﷺ نے ایک مرتبہ بھی اس کی قولی و عملی تفسیر فرماتے ہوئے عید میلاد نہیں منائی اور نہ ہی صحابہ کرامؒ، تابعین عظام اور تبع تابعین، مفسرین و محدثین وغیرہ کو اس آیت میں عید میلاد نظر آئی مگر داد ہے ان نکتہ دانوں کے لئے جنہیں چودہ سو سال بعد خیال آیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے عیدمیلاد النبیﷺ منانے کا حکم دیا ہے اور ان پاکباز ہستیوں کو یہ نکتہ رسی نہ سوجھی کہ جنہیں نزولِ قرآن کے وقت براہِ راست یہ حکم دیا گیا۔
رسولِ اکرمﷺ اگرچہ اللہ تعالیٰ کی نعمت ِعظمیٰ ہیں مگر سب سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس نعمت ِعظمیٰ کی کس طرح قدر کی؟ کیا وہ رسولِ اکرمﷺ کا عید میلاد مناکر اور جلوس نکال کر رسولِ اکرمﷺ کی قدرومنزلت کا خیال کیا کرتے تھے یا آپﷺ کے اقوال و فرمودات پر عمل پیرا ہوکر اس نعمت کا اظہار کیا کرتے تھے؟ جس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کیا کرتے تھے، من و عن اسی طرح ہمیں بھی کرنا چاہئے۔اگر وہ جلوس نکالاکرتے تھے تو ہمیں بھی ان کی اقتدا کرنی چاہئے اگر ان سے رسولِ اکرمﷺ کی زندگی یا بعد از وفات ایک مرتبہ بھی جشن و جلوس منانا ثابت نہیں تو پھر کم از کم ہمیں بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہئے۔
میلا دنہ منانے والوں کے بارے میں بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں رسولِ اکرمﷺ کی تشریف آوری اور رسالت پر شاید خوشی ہی نہیں ہے۔ ایسی بات ہرگز نہیں کیونکہ جسے اللہ کے رسولﷺ سے محبت ہی نہیں یا آپ ﷺ کی رسالت و بعثت پر خوشی ہی نہیں، وہ فی الواقع مسلمان ہی نہیں۔ البتہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اس خوشی کے اظہار کا شرعی طریقہ کیا ہونا چاہئے۔ اگر کہا جائے کہ جشن، جلوس، میلاد اور ہر من چاہا طریقہ ہی جائز و مشروع ہے تو پھر پہلی بات تو یہ ہے کہ قرآن و سنت میں اس کی کوئی دلیل نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسولِ اکرمﷺ سے محبت مشکوک ٹھہرتی ہے، اس لئے کہ انہوں نے اظہارِ محبت کے لئے کبھی جشن میلاد نہیں منایا جبکہ آپﷺ کے فرمان پر وہ جان دینے سے بھی نہیں گھبرایا کرتے تھے!حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے خوشی اور غمی کی حدود و قیود متعین کردی ہیں جن سے تجاوز ہرگز مستحسن نہیں۔ اس لئے شیعہ حضرات کا شہداے کربلا کے رنج و غم پر نوحہ و ماتم کرنا، تعزیے نکالنا، سینہ کوبی اور زنجیر زنی کرنا جس طرح دینی تعلیمات کے منافی اور رنج و غم کی حدود سے اِضافی ہے اسی طرح بعض سنّیوں کا12؍ربیع الاول کو یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا، بھنگڑے ڈالنا، قوالیاں کرنا، رات کو بلا ضرورت قمقمے جلانا، چراغاں کرنا اور بے جا اِسراف کرنا بھی دینی تعلیمات کے سراسر منافی ہے۔ اس کے باوجود اگر کسی کے نزدیک جشن میلاد ‘برحق ہے تو پھر اسے چاہئے کہ دل پر ہاتھ رکھ کر شیعہ کے نوحہ و ماتم کو بھی برحق کہہ دے !
بعض بھولے بسرے یہ اعتراض بھی اٹھاتے ہیں کہ اگر یوم اقبال، یوم قائداعظم اور یوم سالگرہ منانا درست ہے تو پھر یومِ میلاد مناناکیوں بدعت ہے؟ یہ اعتراض تب درست ہوسکتا تھا کہ جب یوم اقبال، یومِ قائد اور سالگرہ وغیرہ منانا دینی اعتبار سے مشروع و جائز ہوتا مگر جب یہ چیزیں بذاتِ خود غیر مشروع ہیں تو انہیں بنیاد بنا کر نئی چیز کیسے مشروع (جائز) ہوجائے گی؟ اسلام میں ایام پرستی کا کوئی تصور نہیں۔ اگر ایام پرستی کا اسلام نے لحاظ رکھا ہوتا تو ہر روز کسی نہ کسی نبی، ولی اور عظیم واقعہ کی یاد میں ایک نہیں، سینکڑوں جشن منانا پڑتے اور اُمت مسلمہ کو سال بھر ایام پرستی ہی سے فرصت نہ مل پاتی۔
علاوہ ازیں یوم اقبال اور یوم قائد وغیرہ منانے والے کیا اسلامی شریعت میں ایسا امتیازی مقام رکھتے ہیں کہ ان کی وجہ سے اس فعل کو دین و حجت قرا ر دے دیا جائے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا نہیں ہے تو پھر اسے بنیاد بنا کر عید ِمیلاد کا جواز کشید کرنا بھی درست نہیں بلکہ یہ تو ‘بناء فاسد علیٰ الفاسدہے! اسی طرح بچوں کی سالگرہ منانا غیرمسلموں کی نقالی ہے۔ اسلام میں اس کی بھی کوئی اصل نہیں۔ اور ویسے بھی یہ غیر معقول رسم ہے کہ ایک طرف کل عمر سے ایک سال کم ہورہا ہے اور دوسری طرف اس پر خوشی منائی جارہی ہے۔ علاوہ ازیں غیر مسلموں کی تہذیب و تمدن اور خاص شعار پر مبنی کسی چیز میں نقالی کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ”من تشبّہ بقوم فھو منھم…” (ابوداؤد:۴۰۳۱) جس نے کسی (غیر مسلم) قوم کی نقالی کی وہ انہی میں شمار ہوگا۔
جشن عیدمیلاد کے نقصانات !
٭… دین اسلام میں ایک نئی چیز یعنی بدعت جاری کی گئی۔٭… نبیﷺ کے یوم وفات کو یوم ولادت سمجھ کر جشن منانے کی رسم شروع کی گئی۔٭… جشن میلاد نہ منانے والوں پر کفر کے فتوے لگائے گئے۔٭… جشن میلاد پرہر سال لاکھوں کروڑوں روپے ضائع کئے جاتے ہیں۔٭… خانۂ کعبہ اور روضۂ نبویﷺ کے ماڈل بنا کر ان کے طواف کئے جاتے ہیں۔٭… گلی، کوچوں میں پہاڑیاں بنا کر میلے لگائے جاتے ہیں۔٭… میلا دکے جلوس میں بھنگڑے ، لڈیاں اور ناچ گانے جیسے بیہودہ کام کئے جاتے ہیں۔٭… بینڈ باجوں اور اخلاق سوز گانوں کے ساتھ رسولِ اکرمﷺ کا یومِ ولادت منایا جاتاہے۔٭… فلمی گانوں کی دھن و طرز پر نعتیں اور شرکیہ قوالیاں گائی جاتی ہیں۔٭… ملحد و بے دین فنکاروں اور اداکاروں کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں۔٭… جشن میلاد کے نام پر جہالت اور فحاشی کوبھی عروج دیا جاتا ہے۔ ٭… میلاد کی رات قمقمے روشن کرکے بلا ضرورت لائٹنگ کی جاتی ہے۔
عیدمیلاد منانے والوں سے چند سوالات :
٭… عید میلاد فرض (واجب) ہے، سنت ہے یا مستحب؟٭… جو جشن میلاد نہیں مناتا، اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟٭… اللہ کے رسولﷺ، صحابہ کرامؓ، تابعین عظامؒ، ائمہ کرام نے یہ جشن کیوں نہ منایا؟ (ضرورت نہ سمجھی یا کوئی رکاوٹ تھی یاسستی اور لاپرواہی کی یا خلافِ شرع سمجھا یا علم نہ تھا یا ترغیب نہیں دی گئی، یا دل حب ِرسول سے خالی تھا ؟ نعوذ باللہ)٭… گذشتہ چودہ صدیوں میں صحابہ و تابعین سمیت جن مسلمانوں نے یہ جشن نہیں منایا، ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟٭… بارہ ربیع الاول یوم وفات بھی ہے جہاں پیدائش اور وفات (یعنی خوشی اور غم) جمع ہوجائیں، وہاں خوشی کو ترجیح دی جاتی ہے یا غم کو؟٭… یومِ ولادت کی خوشی منانا ضروری ہے تو یومِ وفات کا رنج و غم منانا کیوں ضروری نہیں؟ جبکہ بقولِ دونوں کی تاریخ بھی ایک ہی ہے؟٭… اگر رسولِ اکرمﷺ کے یومِ ولادت کی خوشی میں جلوس نکالنا جائز ہے تو شیعوں کا اہل بیت کے رنج و غم میں ماتم نکالنا کیوں جائز نہیں؟٭… اللہ کے رسولﷺ نے دو عیدیں مقرر فرمائی تھیں مگر یہ تیسری ‘عید کہاں سے آئی؟٭… اگر یہ عید ہے تو اس دن اللہ کے رسولﷺ روزہ کیوں رکھتے تھے؟ عید کے روز تو روزہ رکھنا حرام ہے؟٭… اگر یہ عید ہے تو باقی دو عیدوں کی طرح اس روز نمازِ عید کا اہتمام کیوں نہیں کیاجاتا؟
بدعت کی شرعی تعریف:دین میں ایجاد کردہ ایساطریقہ جوشریعت کے مشابہ ہو، اور یہ سنت کے بالمقابل اوراسکے ضد ہے.( یعنی یہ سنت کی ضد ہے جسکے ذریعہ دین میں ایسا عمل ایجاد کیا جاتا ہے جسکا وجود نہ ہی قرآن و حدیث سے ثابت ہو اور نہ ہی آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمیعن سے، اسکے ساتھ ساتھ اسمیں مندرجہ ذیل امور کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے: اسکا تعلق دنیاوی ایجادات سے نہ ہو بلکہ دینی امور سے ہو،دینی امور میں اسکا تعلق معاملات سے نہ ہو بلکہ عبادات سے ہو،اسے ثواب سمجھ کر کیا جائے )۔
بدعات کی ہولناکیاں اور خطرات !
بدعتی کا عمل اسی پرلوٹا دیا جاتا ہے۔٭… جب تک وہ بدعت پرمصررہتا ہے اسکی توبہ قبول نہیں ہوتی۔٭… نبی صلﷺکے حوض پرآنے سےروک دیا جائیگا.٭… قیامت تک اسکی بدعت پرعمل کرنے والوں کے گنا ہوں کا اس پرگنا ہ ہوگا.٭… بدعتی شخص ملعون ہوتا ہے.بدعتی شخص اللہ سے صرف دوری حاصل کرتا ہے.٭… بدعت سنت کومردہ کردیتی ہے.٭… بدعت ہلاکت کا سبب ہے.٭… بدعت کفرکی ڈاک ہے.٭… بدعت اختلاف کے ایسے دروازے کوکھول دیتی ہے جوبغیرکسی دلیل کے صرف ہوائے نفس پرقائم ہوتی ہے.٭… بدعت کو کمترسمجھنا فسوق ونافرمانی تک پہنچادیتی ہے.سب سے بہترین طریقہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا طریقہ ہے۔ سب سے بری چیز (دین میں) نئی چیز پیدا کرنا ہے اور ہر نئی چیز بدعت ہے ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی جہنم میں لے جائے گی‘‘۔( سنن نسائی:جلد اول:حدیث نمبر 1581)اللہ تعالیٰ بدعات سے ہماری حفاظت فرمائے اورنبی کریمﷺ کے طریقہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے !آمین یارب العٰلمین۔