شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی زندگی کے درخشاں پہلو

شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کی زندگی کے درخشاں پہلو
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
شیخ الاسلام حضرت مدنیؒپاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور برما وغیرہ کی علمی، دینی، سیاسی، تحریکی اور فکری جدوجہد کاایک عظیم نام ہے۔ جن کے ذکر خیر کے بغیر اس خطہ کے کسی ملی شعبہ کی تاریخ مکمل نہیں ہوتی، اور خاص طور پر دینی و سیاسی تحریکات کا کوئی بھی راہ نما یا کارکن خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا طبقہ سے ہو ان سے راہ نمائی لیے بغیر آزادی کی عظیم جدوجہد کے خد و خال سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتا۔شیخ الاسلام حضرت مدنی کی ذات ستودہ صفات میں جناب باری تعالیٰ نے وہ تمام خصوصیات اور کمالات جمع فرمائے تھے جن سے ایک ذات قدسی صفات کو آراستہ ہونا چاہیے ۔آپ کی جامع کمالات شخصیت کو دنیا مختلف پہلوؤں سے پہچانتی ہے ،چوں کہ آپ کی ذات علم و عمل، شریعت و طریقت کا مجمع البحرین تھی ،آپ کا قلب حامل شریعت اور آپ کا عمل تفسیر شریعت تھا ۔آپ کے فضائل علمیہ اور کمالات باطنیہ کی صحیح اطلاع یا تو خداوند قدوس ہی کو ہو سکتی ہے یا اُن اولیائے کرام اور علمائے ربانیین کو ہوسکتی ہے جن کو مبدأفیض نے چشم بصیرت عطا فرمائی ہے ،ہم جیسے کور چشم آپ کی ذات قدسی صفات کو کیا پہچان سکتے ہیں ؟اورحضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے شاگرد رشید اور جنگ آزادی وطن کے بطل جلیل حضرت مدنی رحمہ اللہ کی خدمات جلیلہ سے ایک دنیا واقف ہے اور جمیعۃ علماءہندکے اسٹیج سے آپ نے قوم وملت کے لیے جو قربانیاں دی ہیں. تاریخ انھیں کبھی فراموش نہیں کرسکتی. آپ کی سیاسی بصیرت اور اصابت رائے کے سامنے گاندھی ونہرو کو بھی گھٹنے ٹیکتے دیکھا گیا ہے اور شیخ الہند کے اس تراشیدہ ہیرے کو وقت کے تمام شیوخ واکابر نے نسبت باطنیہ کانیرتاباں کہا ہے۔اورحضرت مدنیؒ کا شمار ایسے زندہ و جاوید لوگوں میں ہوتا تھا،جو مایوسی میں امید کی کرن،ظلم کے مقابلے میں حق کی مضبوط آواز اور پیکر خلوص ووفا تھے،وہ نظام ہستی میں ایسے چراغ کی طرح روشن ہوئے کہ آسمان کے ستاروں نے ان کی روشنی سے اپنی راہیں تلاش کیں اور مجبور و مقہور انسان نے انہی سے سبق حریت سیکھا اور اپنا حق لینے کے عزم اورجرأت اظہار کیاشیخ الاسلام حضرت مدنی اتباع سنت،اخلاق حسنہ،سیرت صحابہ اور اسوہ مشائخ کا سرچشمہ ،ملک و ملت کی حریت کا استعارہ تھے،ان کی زندگی کا ہر پہلومسلمانان ہند کی درخشندہ و تابندہ تاریخ ہے۔
آپ کااسم گرامی حسین احمد بن سید حبیب اللہ بن سیدپیرعلی صاحب،آپ حسب ونسب کے اعتبار سے آپ حسینی الاصل ہیں ،سلسلہ نسب حضرت علی زین العابدین کے واسطہ سے حضرت حسین بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جاملتاہے،تقریبًاانیس پشت پہلے آپ کا خاندان ہندوستان ہجرت کرکے آیاتھا ۔(تاریخ دارالعلوم دیوبند ۸۳/۲)شیخ الاسلام حضرت سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ 19شوال 1296؁ھ بمطابق 1879؁ء بمقام بانگڑمیو ضلع اناؤں سید حبیب اﷲ کے گھر پیدا ہوئے،آپ کا نام چراغ محمدرکھا گیا، آپ کے چار بھائی اور تین بہنیں تھیں،والد محترم قصبہ صفی پور ضلع اناؤں میں ہیڈ ماسٹر تھے،آٹھ برس کی عمر ناظرہ قرآن پاک،آمد نامہ،دستور الصبیان،گلستان کا کچھ حصہ گھر پر پڑھااور اسکول میں درجہ دوم تک پڑھائی مکمل کی،1309؁ ھ جب آپ کی عمر تیرہ برس تھی ،آپ کے والد محترم نے دوسرے دونوں بھائیوں سید احمداور مولانا سیدمحمد صدیق جو کہ دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے کے پاس دیوبند بھیج دیا،آپ کا دارلعلوم میں قیام حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے مکان کے قریب دونوں بھائیوں کے ساتھ رہائشگاہ میں تھا جب کہ آپ کے بڑے بھائی مولانا محمد صدیقؒ نے حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ سے درخواست کی کہ میزان اور گلستان تبرکاً حسین احمد کو شروع کروا دیں،حضرت شیخ الہندکے حکم پر مولانا خلیل احمدؒ نے ابتدائی سبق پڑھائے۔آپ کوصفر 1309؁ھ سے شعبان 1316؁ ھ تک دارلعلوم دیوبند میں مشاہیر اساتذہ و اکابرین سے استفادہ کا موقع ملا ،جن میں شیخ الھندمولانامحمود حسن ؒ،مولانا ذوالفقار علیؒ،مولانا عبدالعلیؒ،مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ،مولانا حکیم محمد حسنؒ، مولانا مفتی عزیز الرحمن ،مولانا غلام رسول بفویؒ،مولانا الحاج حافظ محمد احمدؒ،مولانا حبیب الرحمن اور مولانا سید محمد صدیق رحمہم اللہ شامل ہیں۔(نقش حیات) اپنے استاذ محترم کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں دس ماہ کے عرصہ میں جمادی الاولی تا ربیع الاول حفظ قرآن مجید مکمل فرمالیا،اگلے رمضان میں حضر ت شیخ الہند کؒو تراویح میں قرآن سنایا۔حضرت مدنی ؒ نے حضرت شیخ الہندکے مطیع وفادار اورخدمت گزارشاگردرشید تھے ، ہراعتبار سے آپ کی خدمت کیاکرتے تھے،حضرت شیخ الہند کو جب حجاز سے گرفتارکیا گیا،آپ بھی حضرت شیخ الہند کے ہمراہ محض آپ کی خدمت کے لئے گرفتاہوئے ، مالٹا میں جب حضرت شیخ الہند اورآپ کے رفقاءکرام محصور تھے ،دن رات جی بھر استاذ محترم کی خدمت کی ،مالٹا کی شدیدسردی میں ہروقت گرم پانی کا تیارکرنا ،تین وقت کھانااورچائے بنانا ، ملاقاتیوں کے لئے چائے بنانااورراحت پہنچانے کی دیگرخدمات کو اپنا فرض منصبی سمجھتے ہوئے انجام دیتے تھے، کوئی ساتھی ان امور میںشریک ہوناچاہتا،تو صاف فرمادیاکرتے کہ یہ میرافرض منصبی ہے ۔ (سوانح حضرت شیخ الاسلام مدنی : ۴۵)ایسے مخلص ،سفروحضرکے خدمت گزارشاگردکے لئے استاذ محترم نے کیاکیادعائیں کی ہوں گی ،جن کی برکتیں آپ کو حاصل ہوئی ہوں گی۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل فرماکرگھرتشریف لے آئےتوآپ کے والد محترم مولانا فضل الرحمن ؒگنج مراد آبادی سے بیعت تھے ،1316؁ھ میں ان کا انتقال ہوا تو اپنے شیخ کی جدائی کااس قدر صدمہ ہوا کہ ہندوستان میں زندگی کے دن مشکل معلوم ہونے لگے اور ہجرت مدنیہ کا عزم مصمم کرلیا۔ خاندان کے 12افراد پر مشتمل قافلہ شعبان میں حجازکی طرف عازم سفر ہوااور پرمشقت سفر کے بعد 24یا25ذیقعدہ کومکہ پہنچا،یہیں پر آپ کی ملاقات قطب عالم حاجی امداد اﷲ مہاجر مکی ؒ سے شرف ملاقات ہوئی۔والد محترم نے مدینہ منورہ میں مستقل سکونت اختیار کرکے تجارت کا پیشہ اپنا لیا،آپ نے مدینہ منورہ میں اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ مولانا الشیخ آفندی عبدالجلیل برواہؒ سے ادب کی کچھ کتابیں پڑھیں اور کتابت علی الاجرت بھی شروع کی،مگر استاد محترم کی آخری نصیحت دل و دماغ میں گھر کئے ہوئے تھی،چنانچہ آپ نے گوشہ گمنامی میں دو دو چار چار طالب علموں کو مختلف فنون کی کتب 1318؁ھ تک پڑھاتے رہے،حضرت گنگوہی ؒ کے حکم پر اسی سال ذیقعدہ میں گنگوہ شریف کا سفر کیا،یہ سفر روحانی اعتبار سے بہت مفید ثابت ہوا،ایک روز گنگوہ شریف میں عشاء کے بعد دیگر خدام کے ساتھ آپ بھی حضرت گنگوہی ؒ کے پاوںدبا رہے تھے کہ آنکھ لگ گئی ،ایک شخص اس عالم میں کہتا ہے کہ چالیس دن گزرنے کے بعد مقصود حاصل ہوگا، اس تاریخ کے چالیس دن گزرنے کے بعد حضرت گنگوہیؒ نے آپ کے بھائی مولانا صدیق ؒ کو عصر کے بعدفرمایا اپنے اپنے عمامے لے آؤ،حضرت ؒ نے دونوں کے سر پر دستار خلافت باندھنے کے ساتھ فرمایا کہ میری طرف سے دونوں کو اجازت ہے۔ ،۱۳۱۹؁ھ میں حضرت گنگوہی ؒ نے آپ کو اپنی خدمت میں طلب فرمایا ،دوماہ چاردن حضرت گنگوہی ؒ کی خدمت میں رہے ،اجازت اورخلافت سے سرفراز فرمایا اورآپ کے سرپر دستارخلافت باندھی ،۱۳۲۰؁ھ میں دوبارہ مدینہ منورہ حاضرہوگئے اورمدینہ منورہ میں تدریسی خدمات کا آغاز فرمایا ۔( نقش حیات)
حج کے موسم میں حجاز مقدس واپسی فرمائی اور حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرتے ہوئے محرم1320؁ مدینہ منورہ واپس پہنچ کر شمسیہ باغ معروف بہ توطیہ کے مدرسہ میں تدریس شروع کی،اس زمانے میں حرم محترم مسجد نبوی علی صاحبہ السلام میں اکثر علماء اعزازی طریقہ پر درس دیتے تھے ،چناں چہ عرب اور ہندوستانی طلباء کی پیہم خواہش پر آپ نے مسجد نبوی علی صاحبہ الصلوٰۃُ والسلام میں درس کا سلسلہ شروع فرمایا اور شوال1320ھ تک آپ کا حلقہ درس ابتدائی پیمانہ پر رہا۔اس کے بعد حلقہ درس بہت وسیع ہو گیا اور طلبہ کا ایک جم غفیر آپ کے گرد جمع ہوگیا۔اہل علم میں عموما اور علمائے حجاز میں خصوصا معاصرانہ چشمک کا مادہ زیادہ ہوتا ہے،اس لیے جب کوئی عالم آتا ہے تو اس کی طرف آنکھیں بہت اٹھتی ہیں،علمائے ہند چوں کہ عربی بولنے کے عادی نہیں ہوتے ،اس لیے بسا اوقات شکست کھا جاتے ہیں اور ان کے لیے میدان امتحان وامتیاز میں پیش قدمی کرنا ممکن نہیں ہوتا،چناں چہ جب علوم میں جدوجہد کرنے والے مشرقِ وسطیٰ،افریقہ ، چین،الجزائر،شرق الہند،کے تشنگان علوم کا اس قدر ہجوم ہوا اور حلقہ ہائے درس میں اس کی مثال نہیں ملتی تھی اور آپ کے زیر درس درسیات ہند کے علاوہ مدینہ منورہ، مصر، استنبول، کے نصاب کی کتابیں مثلا اجرومیہ، دھلان،کفرادی، الفیہ، ابن عقیل، شرح الفیہ، ابن ہشام، شرح عقود الجمان، رسالہ اِستعارات، رسالہ وضعیہ للقاضی عضد، ابن حجر ملتقی الابحر، دُرَر، شرح مجمع الجوامع للسبکی، شرح مستصفی الاصول، ورقات، شرح منتہی الاصول، مسامرہ، شرح مسامرہ، شرح طوالع الانوار، جوہرہ الفیہ(اصول حدیث)بیقونیہ ودیگر رسائل اصول حدیث وغیرہ یہ کتابیں تھیں۔آپ کا علمی حلقہ ترقی کرتا گیا اور افاضہ و استفاضہ کا حلقہ وسیع ترہوتا رہا ،تو لامحالہ دیگر علماء میں رَشک و رقابت پیدا ہوئی۔ آپ کے حلقہ درس پر لوگوں کی نظریں اٹھتیں اور تنقیدات کا ارادہ کیا گیا، مگر ان لوگوں کو اس میں کام یابی نہ ہوئی، چوں کہ آپ کی تعلیم جید اور ماہر فن اساتذہ کے ذریعہ ہوئی اور پھر قدرت نے آپ کو دماغ و ذکاوت اور حفظ کا وہ اعلیٰ درجہ عطا فرمایا تھا کہ جس کی نظیر خود آپ ہی تھے،نیز آپ کوئی سبق بغیر مطالعہ کے نہ پڑھاتے تھے اور دن ورات کے چوبیس گھنٹوں میں سے صرف تین گھنٹے آپ آرام فرماتے تھے اور بقیہ وقت درس و مطالعہ میں گزرتا ۔اِدھر آپ کی عربی تقریر صاف، شستہ اور برجستہ تھی ،استعداد کامل ،مزید برآں محنت شاقہ فرماتے، نیز آپ نے درس میں ”علمائے خیر آباد“کا طریقہ اختیار فرمایا اور دوران درس اپنے سامنے کبھی کتاب نہ رکھتے ،بلکہ طالب علم کی قراء ت کے بعد مسائل پر تقریر فرماتے تھے، حالاں کہ علمائے مدینہ نہ صرف کتابوں کو دوران درس سامنے رکھتے تھے، بلکہ اس کی شرح بھی ہاتھ میں لے کر پڑھاتے تھے اور تقریر کے وقت عبارت شرح یا حاشیہ کی سُنادیتے تھے ۔چناں چہ آپ نے اسی طرح روزانہ چودہ اَسباق کا درس دیا، جن میں کتب عالیہ حدیث و تفسیر،عقائدواُصول بھی شامل تھیں اور1326ھ تک مسلسل اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی شان کے ساتھ قائم رہا۔ان و جوہ کی بناپر آپ کی دَھاک بیٹھ گئی اور سب آپ کی علمی قابلیت کے معترف ہوگئے اور سب کو آپ کی مہارت تامہ کا قائل ہونا پڑا۔اس شان دار ترقی میں جہاں ان مادی اسباب کو دخل ہے،وہاں اصلی وحقیقی سبب پر بھی آپ نے عمل فرمایا، یعنی توجہ الی اللہ چناں چہ آپ مواجہ شریف نبویہ علیٰ صاحبہاالصلوٰۃ والتسلیم میں حاضر ہوکر بہت روئے اور ان علوم دینیہ کے حاصل ہونے کی درخواست پیش کی اور آپ نے اپنی بے بضاعتی کا شکوہ کیا،دیر تک اسی حالتِ گریہ میں رہے اور واپس ہوئے،چند ہی قدم چلے تھے کہ قلب میں واقع ہوا،لاتقنطوامن رحمۃاللہ!چناں چہ حق تعالیٰ نے آپ کو حجاز میں عزت وجاہ وہ عطا فرمائی جو ہندی علماء کو کیا بلکہ یمنی،شامی،مدنی علماء کو حاصل نہیں تھی،آپ کی شہرت عرب سے تجاوز کر کے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی اور آپ کو24سال کی عمر میں’شیخ الحرم ‘ اور’شیخ العرب والعجم‘ کے معزز القاب کے ساتھ سرفراز کیا گیا اور ان اَطراف میں آپ ان القاب کے ساتھ مشہورومعروف ہو گئے۔
1322؁ ھ میں والدہ محترمہ کے جدائی کا صدمہ سہنا پڑا،ان کے وصال کے بعد والد محترم کو خدمات ضروریہ میں سخت مشکلات پیش آئیں تو والدہ محترمہ کی خالہ زاد بہن جو کافی عرصہ سے لاولد بیوہ تھیں ، 1324؁ھ میں ان سے عقد نکاح کروایا گیا مگر کچھ دنوں بعد ان کا بھی انتقال ہوگیا،جب کہ 1326؁ میں آپ کی اہلیہ محترمہ تپ دق کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پا گئیں اور ایک چار سالہ بچی کو پیچھے چھوڑا۔ان کی وفات کے بعد مدینہ میں چند وجوہات کی بنا پر رشتہ مشکل تھا خاندان میں شادی کے لیے والد صاحب نے حاجی شیخ احمد علی کی معیت میں ہندوستان روانہ فرما دیا ،یوں آپ کی دلی خواہش کہ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی صحبت حاصل ہو نےکی صورت نکل آئی،کیونکہ حضرت گنگوہیؒکا وصال 1323؁ھ میں ہو چکا تھا۔ہندوستان پہنچ کراکابرین کے حکم پر 1327؁ ھ دارلعلوم میں تدریس شروع کی،اس موقع پر یہ قراردادپاس کی گئی کہ مولانا حسین احمد مدنی جب بھی مدینہ سے ہند واپس آئیں،بغیر تجدید اجازت مجلس شوریٰ مدرس ہوں گے،یہاں آپ علمی ترقی کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کی قربت اور مجلس سے خوب مستفیض ہوتے رہے۔اسی سال 16.17.18اپریل1910؁ء کو دارلعلوم کے پہلے جلسہ دستار فضیلت کا انعقاد کیا گیا ،جس میں سب سے پہلے محدث کبیر علامہ انور شاہ کشمیریؒ اور پھر آپ کی حضرت شیخ الھندؒ نے اپنے دست اقدس سے دستار فضیلت باندھی ،اس موقع پر حضرت گنگوہیؒ کے جانشین مولانا حکیم مسعود احمدؒ اور حکیم مولانا احمد ؒ نے الگ الگ آپ کو دستار فضیلت عطا کی۔
شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاصاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ مندرجہ ذیل الفاظ میں حضرت مدنی کے علم وفضل کی شہادت دیتے ہیں :میرے نزدیک ابوحنیفہ ءزمانہ ،بخاری اوانہ ،جنید وشبلی عصر،حضرت شیخ العرب والعجم مولاناحسین احمد مدنی کی مدح میں کچھ لکھنے والا”مادح ِخورشیدمداح خود است “ کا مصداق ہے ، میراخیال ہے :حضرت کے فضل وکرم ،تبحرفی العلم والسلوک سے شاید ہی کسی اہل بصیرت کو اختلاف ہو ۔(ہندوستان اورعلم ہندوستان : ۵۵۲)
حضرت مدنی ؒ درس حدیث کا بہت اہتمام فرماتے تھے، آپ نہایت مشغول شخص تھے ؛لیکن دیوبند کے قیام کے دوران کبھی درس کا ناغہ نہیں ہوتا ،روزانہ ظہر سے (چوتھے گھنٹہ ) میں سبق ہوتا اوربعدنماز عشادیررات تک سبق جاری رہتا،سال کے اواخرمیں بعدنمازعصر بھی سبق ہواکرتاتھا ،آپ درس حدیث کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت ومعیت تصورکرتے تھے ، درس حدیث کو روحانی ترقی کاذریعہ سمجھتے تھے اورفرمایاکرتے تھے کہ درس حدیث فیوض باطنیہ کے حصول کا بہت بڑاذریعہ ہے ،اس کا اثر طلبہ کے ذہن ومزاج پربھی خود بخود پڑھتاتھا،حضرت جب بھی سفرسے واپس تشریف لے آتے ،ایک آواز پر طلبہ پروانہ واراپنے کمروں اوربستروں سے نکل کر دارالحدیث میں جمع ہوجاتے تھے،جتنی دیردرس ہوتاکوئی اٹھنے کانام نہیں لیتا تھا۔(ہندوستان اورعلم حدیث، مقالہ مولانا عبداللہ معروفی صاحب : ۵۵۹)
حکیم ضیاءالدین صاحب بیان فرماتے ہیں: حضرت مدنی کی اہلیہ کی وفات ہوگئی، تدفین سے فراغت کے کچھ دیربعد دارالحدیث حاضرہوکر بخاری شریف کا د رس شروع فرمادیا ،حضرت مولانا شبیراحمد عثمانیؒنے درس موقوف کرنے کی درخواست کی اورسمجھانے کی کوشش کی ،تو فرمایا : اللہ کے ذکرسے بڑھ کر اطمینان قلب کس چیز سے حاصل ہوسکتاہے ۔( شیخ الاسلام نمبر:۷۸)
کشادہ ذہنی، قوی حافظہ،ذکی فہم ، تدرسی عرصہ میں مختلف البلاد ،مختلف المسالک طلبہ کو مختلف علوم وفنون کی تدریس ،مدینہ پاک کے کتب خانوں اوروہاں کے علماءسے اختلاط واستفادہ ، اسارت مالٹا میں دنیا بھر کے عالی دماغ سیاسی افراد سے ملاقات وتبادلہءخیال ، اپنے خاص استاذ کی رفاقت ،علمی وسیاسی امور میں معاونت،سیاسی شعور وحساسیت اورآزدای وطن کے لئے بے پنا ہ قربانیوں کی وجہ سے آپ کی شخصیت میں وہ تمام صلاحتیں جمع ہوگئیں تھیں جو ایک وسیع النظر متبحر عالم دین میں ہونی چاہئیں۔
دارالعلوم دیو بند میں آپ سے درس بخاری وترمذی میں شرکت کرنے والے تلامذہ کی تعداد تقریبا (۴۴۸۳) ہے ، جو ایشیا،افریقہ ،یورپ اورامریکہ میں پھیلے ہوئے تھے ۔(ہندوستان اورعلم حدیث: ۵۵۱) درس وتدریس کے علاوہ طریقت وتصوف،ملی اور سیاسی خدمات کے ساتھ تصنیف وتالیف کے میدان میں بھی آپ کی نمایاں خدمات ہیں۔
ان کی زندگی کا بیشتر حصہ یا تو ہندوستان کی آزادی کی تحریک کی سرگرمیوں میں گزرا یا دارالعلوم دیوبند کی مسندِتدریس سے تشنگانِ علومِ نبوت کو سیراب کرنے میں یا پھر اپنے منتسبین ومعتقدین کی روحانی واخلاقی تربیت میں؛ یہی وجہ ہے کہ بے پناہ صلاحیتوں کے باوصف ان کی تصنیفی خدمات بہت کم ہیں، ان کے قلم کو خاطر خواہ جولانیوں کا موقع ہی کب میسر آیا؟ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ان کے قلم سے جو بھی تحریریں معرضِ وجود میں آئیں، وہ نہ صرف علمی وتاریخی نکتہ طرازیوں کا اعلیٰ نمونہ ہیں؛ بلکہ وہ ادبی ولسانی خوبیوں کے حسین شہ پارے بھی ہیں۔حضرت شیخ الاسلام کے رشحاتِ قلم میں خود نوشت سوانح ”نقشِ حیات“ کے علاوہ ”اسیرِ مالٹا“، ”متحدہ قومیت اوراسلام“، ”مکتوباتِ شیخ الاسلام“، ”مودودی دستور وعقائد کی حقیقت“مکتوبِ ہدایت،ایمان وعمل مع اعتراضات وجوابات، الشہابُ الثاقب علی المسترق الکاذب،کشفِ حقیقت اور ”سلاسلِ طیبہ“ ہیں؛ جب کہ جمعیت علمائے ہند کے مختلف اجلاس میں پیش کیے گئے صدارتی خطبات کا مجموعہ ”خطباتِ صدارت“وغیرہم۔
غرض علم وعمل، اخلاق وکردار، وضع داری اور خدمتِ خلق میں یہ ایک بے مثال شخصیت تھی جس کو کھوکر ہم نے بہت کچھ کھودیا ہے۔حضرت مدنی رحمۃ الله عليہ نے ۲۸/محرم الحرام ۱۳۷۷ھ مطابق ۲۵/اگست ۱۹۵۷/ کو بخاری شریف جلد اوّل کاآخری سبق پڑھایا اور ۱۳/جمادی الاولیٰ ۱۳۷۷ھ مطابق ۵/دسمبر۱۹۵۷/ کو علم وعمل، زہد و تقویٰ اور رُشد وہدایت کا یہ آفتاب عالم تاب غروب ہوگیا۔ تحتانی دارالحدیث میں حضرت کا جنازہ رکھاہوا تھا۔ لوگ لائن بناکر چلے آرہے تھے اور اس نورانی صورت کا دیدار کرتے تھے جس نے زندگی بھر احیاء سنت نبوی میں اپنی عمر کھپادی۔ آنے والوں کا تانتا ٹوٹتا نہیں تھا، چہرے پر وہی وقار، وہی نورانیت اور وہی کشش جس نے میری زندگی کا دھارا بدل دیا تھا۔ جانا سب کو ہے مگر کچھ لوگ جاتے ہیں تو ہزاروں کو یتیم کرجاتے ہیں۔ قبرستان قاسمی میں حضرت شیخ الہند رحمۃ الله عليہ کے برابر میں دفن کیاگیا۔ رحمۃ اللّٰہ علیہ ورحمۃً واسعۃ .