حفظِ قرآن، حفاظتِ قرآن کا ذریعہ

حفظِ قرآن، حفاظتِ قرآن کا ذریعہ

زیر نظر تصویر میں کئی درجن بچے اور بچیوں نےاللہ سبحانہ وتعالیٰ کی لاریب کتاب قرآن کریم کواپنے سینوں میں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کی ہےاللہ تعالیٰ ان سب کواس دولت عظیمہ کی حفاظت اور عمل کی توفیق نصیب فرمائیں۔ جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک اتنا قرآن کریم حفظ کرنا جس سے نماز ادا ہوجائے، ہر مسلمان عاقل بالغ پر فرض ہے اور مکمل قرآن کریم حفظ کرنا فرضِ کفایہ اور باعثِ اجر وثواب ہے۔ اگر کوئی بھی مسلمان حافظِ قرآن نہ رہے تو تمام عالم کے مسلمان گناہ گار ہوں گے۔اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود قرآن کریم حفظ کیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو اس کی ترغیب دی، بلکہ جو شخص ایمان لاتا اول آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو قرآن کریم سکھاتے اور پھر وہ قرآن سیکھنے کے بعد اوروں کو سکھاتا اور حفظ کراتا، جس کی بنا پر ہزاروں صحابہ کرام قرآن کریم کے حافظ بنے۔ ایک غزوہ میں ستر قاری شہید ہوئے اور جنگِ یمامہ میں سات سو قرآن کریم کے حافظ شہید ہوئے، جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ: ’’قرآن کریم کو کتابی صورت میں بھی محفوظ کرائیے، اس طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو کہیں قرآن کریم ہی نہ اُٹھ جائے۔‘‘ جس کے بعد قرآن کریم کو حفظ کے ساتھ ساتھ کتابی صورت میں بھی جمع کیا گیا اور کیا جاتارہا۔’’اُمت اور اہلِ سنت کے ائمہ کے درمیان اس بات میں کوئی اختلاف نہیں کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے اس کلام کا نام ہے جسے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بطور معجزہ لائے ہیں اور وہ سینوں میں محفوظ ہے، زبانوں سے پڑھاجاتا ہے اور مصاحف میں لکھا ہوا ہے۔‘‘
بعض لبرل ،ماڈرن قسم کے دانشور وں کےنزدیک قرآن کریم حفظ کرنا فضول، اس کے الفاظ رٹنا، حماقت، دماغ سوزی اور تضییعِ اوقات ہے۔ نعوذ باللّٰہ من ذٰلک۔ دنیا جانتی ہے کہ آج بھی حفاظتِ قرآن کا محفوظ ذریعہ حفظِ قرآن ہی ہے۔اور یہ باتیں وہی آدمی کرسکتا ہے جو خوفِ خدا، فکرِآخرت، اسلامی معاشرہ اور روحِ اسلام سے ناواقف ہو یا اسلام سے آزادی کا خواہاں اور اتباعِ نفس کا مریض ہو، ورنہ ایک سمجھ بوجھ رکھنے والامسلمان آدمی اس طرح کی باتیں نہیں کرسکتا۔
قرآن کریم کے حفظ کا ثبوت ‘ قرآن کریم ، صحیح احادیث اور چودہ صدیوں سے اُمتِ مسلمہ کے عملی تواتر سے ثابت ہے۔ ’’ ہم آپ کو پڑھائیں گے، آپ بھول نہیں پائیں گے۔‘‘ (الاعلیٰ:۶)اس آیت سے معلوم ہوا کہ قرآن کریم کے نزول کے مقاصد میں سے اُسے حفظ کرنا اور یاد کرنا بھی ہے۔
قرآن کریم کی حفاظت سے مراد اس کے الفاظ اور معانی دونوں کی حفاظت ہے۔ اور حفاظتِ کاملہ وہی ہے جو لفظ اور معنی دونوں کو شامل ہو۔ اُمت میں تاقیامت ایسے حفاظِ قرآن پیدا ہوتے رہیں گے جو اس کے ہر حرف اور معنی کی حفاظت کرتے رہیں گے۔ خلیفہ مامون الرشید نے ایک نومسلم سے پوچھا کہ تم نے اسلام کیسے قبول کیا؟ اس شخص نے جواب دیا میں نے چاہا کہ میں مختلف مذاہب پر تحقیق کروں۔ کیونکہ میرا خط اچھا ہے، اس مقصد کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ میں نے نہایت عمدہ خط میں تورات کے تین نسخے لکھے اور اس میں کہیں کہیں کمی زیادتی کردی۔ وہ نسخے میں نے کنیسہ میں پیش کیے تو انہوںنے مجھ سے خرید لیے، پھر میں نے بڑی خوش خط کتابت کے ساتھ انجیل کے تین نسخے تیار کیے اور ان میں کمی زیادتی کردی، وہ میں نے عیسائیوں کے سامنے پیش کیے، تو انہوں نے بھی مجھ سے خرید لیے۔ پھر میں نے قرآن کو بھی بہت اچھے خط میں تحریر کیا اور حسبِ معمول تین نسخے تیار کرکے ان میں بھی تحریف کردی، پھر جب میں نے ان نسخوں کو مسلمان کتب فروشوں کی خدمت میں پیش کیا تو انہوں نے ان کی تحقیق کی، جب انہیں معلوم ہوا کہ ان نسخوں میں کمی زیادتی ہوئی ہے تو انہوںنے لینے سے انکار کردیا۔ پھر یہ شخص کہنے لگا کہ جب میںنے یہ صورت حال دیکھی تو مجھے اس بات پر یقین آگیا کہ قرآن پاک ہی ایک واحد کتاب ہے جو ہر قسم کی تحریف سے پاک ہے اور یہی اس کی صداقت کی دلیل ہے۔ اس پر میں نے اسلام قبول کرلیا۔
چونکہ قرآن کریم آخری کتاب ہے اور ہمیشہ کے لیے ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ خود لیا اور ایسی حفاظت فرمائی کہ آج تک شرق وغرب میں اس کے لاکھوں حافظ موجود ہیں اور وہ تواتر کے ساتھ روئے زمین کے مسلمانوں کی زبانوں پر یکساں محفوظ ہے۔ ایک لفظ یا زبرزیر کا فرق نہیں۔ بفرضِ محال اگر قرآن کریم کے تمام مکتوبی اور مطبوعی نسخے روئے زمین سے معدوم ہوجائیں تب بھی قرآن کریم کا ایک جملہ اور ایک کلمہ بھی نہ ضائع ہوسکتا ہے اور نہ بدلاجاسکتا ہے۔امام رازیؒ فرماتے ہیں کہ: دنیا کی کوئی کتاب ایسی محفوظ نہیں، جیسا کہ یہ قرآن کریم محفوظ ہے، سوائے قرآن کریم کے کوئی کتاب دنیا میں ایسی نہیں جس میں تغیر وتبدل اور تصحیف وتحریف واقع نہ ہوئی ہو۔ (تفسیر کبیر، ج:۵،ص:۲۶۵)
علماء کرام نے لکھا ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت کے ذرائع صرف دو ہی ہوسکتے ہیں: ایک کتابت اور دوسرا اُسے حفظ کرنا، قربِ قیامت میں قرآن کریم کے الفاظ اُٹھا لیے جائیں گے، لیکن ’’حفظِ قرآن‘‘ کی صورت میں حفاظت کا ذریعہ باقی رہے گا اور یہ آخرت بلکہ جنت تک ساتھ جائے گا، اس پر کئی احادیث وارد ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ بے شک جنت کے درجات قرآن کی آیات کی تعدادکے برابر ہیں، پس حفاظِ قرآن میں سے جو جنت میں داخل ہوگا اور پورا قرآن پڑھے گا اس سے اوپر کوئی نہیں ہوگا۔‘‘(بیہقی)
قرآن وسنت کامطالعہ پوری طرح واضح کرتا ہے کہ قرآن مجید کے قیامت تک کے لیے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کو آخری دن تک اصل صورت میں محفوظ رکھنے کا حکم فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے اصل متن کو انسانی تحریف سے محفوظ رکھنے کے لیے اس کے تحفظ کی ذمہ داری خود لی ہے۔
قرآن کریم حفظ کرنا رسم نہیں، بلکہ فرضِ کفایہ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا طریقہ ہے، جو باعثِ اجروثواب اور اس کی حفاظت کا ایک ذریعہ ہے ۔ ’’ حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس اُمت کو حفظ عطا کیا گیا ہے اور ان سے پہلے وہ اپنی کتابیں صرف دیکھ کر ہی پڑھا کرتے تھے، جب یاد کرنا چاہتے تو صرف انبیاءعلیہم السلام ہی حفظ کرسکتے تھے، اور یہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ اور ایمان والے ہیں جو قرآن مجید کو یاد بھی کرتے ہیں اور پڑھتے بھی ہیں اور ان کو علم سے بھی متصف کیا ہے۔‘‘
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: بہت برا ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیاہوں، ایسا نہیں بلکہ وہ بھلادیا گیا ہے، قرآن مجید کو یاد کرو، کیونکہ وہ منہ کی بنسبت لوگوں کے سینوں سے زیادہ جلدی نکلنے والا ہے۔‘‘(مشکوۃ:۱۹)
اس حدیث سے جہاں یہ ثابت ہورہا ہے کہ قرآن کریم کا محفوظ رہنا بار بار دہرائی اور دور سے ہوتا ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہورہا کہ بھلانے پر وعید بھی ہے، بلکہ فرمایا کہ: کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ بھول گیا، بلکہ بھلادیا گیا ہے۔
یہ تمام مراحل قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہیں تو حفظ کے بعد ان کا مرحلہ آتا ہے اور الحمد للہ! اکثریت حفاظ کی یہ مراحل بھی عبور کرلیتی ہے۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ صرف حفظ کرکے رک جاؤ، بلکہ علمائے کرام تو ترغیب دیتے ہیں کہ حافظ بننے کے ساتھ ساتھ عالم بھی بنو، اگلے مراحل بھی طے کرو۔ ہاں! بعض لوگ حفظ کے بعد معروضی حالات کی بناپر یا تو یہیں تک رک جاتے ہیں یا دوسری دنیوی راہ اختیار کرلیتے ہیں تو اتنا تو ان میں بھی فضیلت اور شرف موجود ہے کہ وہ قرآن کریم کے الفاظ کے حاملین ہیں، پھر اللہ تعالیٰ آگے ان سے بھی کم از کم اتنا تو کام لے لیتا ہے کہ وہ اس کلام اور پیام کے الفاظ کا ابلاغ اگلی نسلوں تک کرلیتے ہیں۔
اور جوحضرات یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم حفظ کرنا فضول، اس کے الفاظ رٹنا، حماقت ہےاور دین اسلام، قرآن کریم اور مسلمانوں کی تو کوئی خدمت کر نہیں رہے، بلکہ قرآن کریم کی حفاظت، اس کی عظمت، اس کے تقدس واحترام اور مسلمانوں کے قرآنی نظام کو ختم کرنے کے درپے ہیں اور ان کی اس سوچ، فکر اور تدبیر سے کفار کا مقصداور ان کی خواہش پورا کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔