حضرت عیسٰی علیہ السلام اور کرسمس کی حقیقت

حضرت عیسٰی علیہ السلام اور کرسمس کی حقیقت
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
ہم مسلمان ہونے کی حیثیت سے اس عقیدہ پر دل و جان سے یقین رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے جو بنی اسرائیل کی طرف مبعوث کیے گئے اور ان پر “انجیل “ نازل کی گئی جس میں بعد میں تحریف کردی گئی۔اس کے ساتھ ساتھ ہم اس بات پر بھی یقین کامل رکھتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہودیوں نے سولی پر لٹکانے کی ناکام کوشش کی اور اپنی انبیاء دشمنی کا ثبوت دیا لیکن اللہ رب العزت نے انھیں با حفاظت آسمان پر اٹھالیا اور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام قرب قیامت کے وقت دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے ۔ قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام، ان کی والدہ اور نانی حضرت عمران کی بیوی کا ذکر بھی کیا ہے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دیگر انبیاء کی نسبت ایک ممتاز تعلق تھا، انبیاء علیہم السلام میں سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام وہ واحد نبی ہیں جن کو زندہ اٹھایاگیا اور جن کو دوبارہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں آخری زمانے میں زمین پر بھیجا جائے گا اور آپ حضرت مہدی کے ساتھ مل کر اسلام کو دنیا بھر میں پھیلانے کا فریضہ سرانجام دیں گے۔ اس اعتبار سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کی امت سے گہرا تعلق ہے، قرآن مجید میں جابجا نہایت خوبصورت انداز میں سیدنا عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر آتا ہے حتی کہ آپ کی والدہ ماجدہ حضرت مریم کے نام پر پوری سورہ مبارکہ ہے۔حضرت مریم علیہا السلام کے عہد میں وہ اللہ کی طرف سے سب سے منتخب خاتون تھیں ، بہ حیثیت مجموعی خواتین عالم میں پانچ خواتین کی خصوصی فضیلت احادیث میں منقول ہے ، دوکا تعلق پہلی اُمتوں سے ہے ، ایک حضرت مریم علیہا السلام ، دوسری فرعون کی بیوی حضرت آسیہ ، اور تین کا تعلق اس اُمت سے ہے ، حضرت فاطمہ ؓ ، حضرت خدیجہ ؓ اور حضرت عائشہ ؓ ، ان پانچوں میں سب سے افضل کون ہیں ؟ اس سلسلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے ؛ لیکن بہ حیثیت مجموعی یہ پانچوں خواتین تمام عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں۔
حضرت عیسٰی علیہ السلام کی ولادت :وہ وقت یاد کیجیے جب فرشتوں نے کہا : اے مریم ! اللہ آپ کو اپنی طرف سے ایک فرمان( یعنی اللہ کے خصوصی حکم سے بیٹے ) کی خوشخبری دے رہے ہیں ، جس کا نام ’مسیح عیسیٰ بن مریم ‘ ہوگا، وہ دنیا میں بھی معزز ہوگا اورآخرت میں بھی اور مقرب بندوں میں سے ہوگاوہ لوگوں سے جھولے میں بھی گفتگو کرے گا اور ادھیڑ عمر میں بھی ، اور صالح لوگوں میں ہوگا۔ یہ سن کر مریمؑ بولی، “پروردگار! میرے ہاں بچہ کہاں سے ہوگا، مجھے تو کسی شخص نے ہاتھ تک نہیں لگایا” جواب ملا، “ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جب کسی کام کے کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو بس کہتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتا ہے” (فرشتوں نے پھر سلسلئہ کلام میں کہا) “اور اللہ اُسے کتاب اور حکمت کی تعلیم دے گا، تورات اور انجیل کا علم سکھائے گا۔ (آل عمران)
حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنی قدرت کا شاہکار بناکر اور معجزانہ انداز میں آپ کو دنیا میں بھیجا، آپ کی زندگی شروع ہی سے غیر معمولی رہی، اللہ تبارک و تعالی نے معجزانہ طور پر بغیر باپ کے پیدا فرمایا اور پھر زندہ ہی آسمان پر اٹھالیا، دوبارہ قرب ِقیامت آپ دنیا میں تشریف لائیں گے. حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی نہایت سبق آموز اور عبرت انگیز ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں مختلف مقامات پر الگ الگ اسلوب و اندازمیں آپ کی شخصیت کا ذکر فرمایا۔ لیکن آپ کے ماننے والوں نے آپ علیہ السلام کے ساتھ بہت ہی ناروا سلوک کیا اور آپ کی جانب اور آپ کی ماں حضرت مریم علیہا السلام کی جانب بہت سی غیر ضروری اور لایعنی و مشرکانہ باتوں کو جوڑدیا، عقائد ونظریات کو منسوب کردیا، اور آپ کی پیدائش کے نام پر جو تہذیب و شرافت کے خلاف اور حقائق سے ناواقف ہوکر رسوم ورواج کو انجام دینے کا ایک سلسلہ شروع کردیا۔
ارشاد باری ہے:اے اہل کتاب! اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ کی طرف حق کے سوا کوئی بات منسوب نہ کرو مسیح عیسیٰ ابن مریم اس کے سوا کچھ نہ تھے کہ اللہ کے ایک رسول تھے اور ایک فرمان تھے جو اللہ نے مریم کی طرف بھیجا اور ایک روح تھی اللہ کی طرف سے (جس نے مریم کے رحم میں بچہ کی شکل اختیار کی) پس تم اللہ اور اُ س کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور نہ کہو کہ “تین” ہیں باز آ جاؤ، یہ تمہارے ہی لیے بہتر ہے اللہ تو بس ایک ہی خدا ہے وہ بالا تر ہے اس سے کہ کوئی اس کا بیٹا ہو زمین اور آسمانوں کی ساری چیزیں اس کی مِلک ہیں، اور ان کی کفالت و خبر گیری کے لیے بس وہی کافی ہے۔ (النساء)
دسمبر شمسی سال کا بارہواں مہینہ ہے اس مہینے کی25 تاریخ کو عیسائی حضرات اپنا سب سے بڑا تہوار”کرسمس”مناتے ہیں یہ تہوار در اصل یوم ولادت مسیح کے طور پر مناتے ہیں،جسکو ” عید میلاد المسیح”کہتے ہیں اور دنیا کے مختلف خطوں میں اس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے۔ اسے “یول ڈے نیٹوئی” اور “نوائل “جیسے ناموں سے بھی منایا جاتا ہے نیز ’’بڑا دن‘‘ بھی کرسمس کا مروجہ نام ہے ، جس تاریخ کے بارے میں ان کاخیال ہے کہ اسی تاریخ کو حضرت عیسٰی علیہ السّلام کی ولادت ہوئی ہے ، اسی خوشی میں وہ اس دن کو عید کی طرح مناتے ہیں ، خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں ، جشن ومسرت سے سرشار ہوکر خود حضرت عیسی علیہ السّلام کی تعلیمات کے خلاف کام انجام دیتے ہیں ۔
کرسمس دو الفاظ کرائسٹ او ر ماس کا مرکب ہے کرائسٹ مسیح کو کہتے ہیں اور ماس کا مطلب اجتماع، اکٹھا ہونا ہے یعنی مسیح کے لیے اکٹھا ہونا گویا کرسمس سے مراد حضرت عیسیٰ ؑ کا یوم ولادت منانا ہے ۔ یہ لفظ تقریباً چوتھی صدی کے قریب قریب پایا گیا ، اس سے پہلے اس لفظ کا استعمال کہیں نہیں ملتا ۔ دنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا اور منایا جاتا ہے ۔۔۔ مسیح علیہ السّلام کی تاریخ پیدائش بلکہ سن پیدائش کے حوالے سے بھی مسیحی علماء میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے ۔اوردنیا کے مختلف خطوں میں کرسمس کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا ہےاور عالم عیسائیت میں بڑے بڑے مسیحی فرقے اس دن کو کرسمس کے نام سے ایک مقدس مذہبی تہوارکے طور پر بڑی دھوم دھام سے مناتے ہیں اور اس میں مختلف بدعات و خرافات کی جاتی ہیں ایک مسلمان کا کسی مسیحی کو اس موقع پر مبارکباد دینا یا ان تہواروں میں شرکت کرنا شرعی اعتبار سے قطعاً جائز نہیں ہے۔
کینن فیرر نے بھی اپنی کتاب لائف آف کرائسٹ میں اس بات کا اعتراف کیا کہ مسیح علیہ السلام کے یوم ولادت کا کہیں پتہ نہیں چلتا، یہ ہے کرسمس ڈے کی حقیقت جسے دنیا میں حضرت عیسی کا یوم پیدائش سمجھ کر دھوم دھام کے ساتھ منایا جاتا ہے ،تاریخی حقیقت سے سب ناواقف ہوکر اور صحیح ترین روایتوں کے فقدان کے سبب خود اپنے پوپ و پادریوں کی من گھڑت بیان کردہ تاریخ کے مطابق پوری عیسائی دنیا اندھیرے میں پڑی ہوئی ہے ،اور اس پرمستزاد یہ ہے کہ اسے اپنے نبی کی ولادت سے منسوب کرتے ہیں اور خود نبی کی تعلیمات اور شرافت و پاکیزگی والی ہدایات کو فراموش کرکے طوفان بد تمیزی قائم کرتے ہیں ،شراب و شباب کے نشے میں دھت ہوکر انسانی اور اخلاقی حدوں کوپامال کرتے ہیں، کرسمس کا آغاز ہوا تھا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں میں مذہبی رجحان پیدا کیا جائے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ابتداء میں یہ ایک ایسی بدعت تھی جس کی واحد فضو ل خرچی ”موم بتیاں” تھیں لیکن پھر ”کرسمس ٹری” آیا ،پھر موسیقی ،پھر ڈانس اور آخر میں شراب بھی اس تہوار میں شامل ہوگئی۔شراب داخل ہونے کی دیر تھی کہ یہ تہوار عیاشی کی شکل اختیا ر کیا گیا صرف برطانیہ کا یہ حال ہے کہ ہر سال کرسمس پر 7ارب30کروڑ پاؤنڈ کی شراب پی جاتی ہے ۔25دسمبر 2005ء میں برطانیہ میں جھگڑوں ،لڑائی ،مار کٹائی کے دس لاکھ واقعات سامنے آئے ،شراب نوشی کی بناپر25دسمبر 2002میںآبروریزی اور زیادتی کے 19ہزار کیس درج ہوئے ۔( کرسمس کی حقیقت تاریخ کے آئینہ میں :۱۱)اس طرح یہ لوگ خود ساختہ مذہبی دن کی دھجیاں اڑاتے ہیں ،اور اپنے پیغمبر کے نام پر تما م ناروا چیزوں کو اختیار کرتے ہیں ۔
حالانکہحضرت عیسی علیہ السلام کی شخصیت نہایت ہی قابل احترام ہے ،اور ان کی سیرت و زندگی کے مختلف پہلوؤں کو اللہ تعالی نے قرآن کریم میں بیان کیا،ان کی پاک و صاف زندگی اور ان کی ماں حضرت مریم کے پاکیزہ کردار کی شہادت قرآن کریم نے دی ہے ،جتنی سچائیوں کو قرآن نے بیان کیا ان کی تحریف کردہ کتابوں میں بھی وہ نہیں ہیں ۔لیکن ان لوگوں نے خود ان مبارک ناموں پر اپنی عیش و مستیوں کو پورا کیا اور اس بے حیا ئی کے طوفان میں پوری دنیا کو لے جا نا چاہتے ہیں ،دیہاتوں ،قریوں کے مسلمانوں پر ان کے ایمان لیوا حملے ،دین سے دور مسلمانوں کو عیسائیت کے جال میں پھانسنے کی تدبیریں دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہیں ،حقائق کو بھلاکر کفر وشرک کے دلدل میں انسانوں کو پھنسانے کی کوشش میں مال و دولت کے انبار لٹارہے ہیں ۔ایسے میں مسلمانوں کو ان حقائق سے باخبر رہنا ضروری ہے ،ان تمام رسموں اور رواجوں اور غیر وں کے تہواروں سے اپنے آپ کو بچانا ضروری ہے ۔بالخصوص عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم پانے والے مسلمان بچوں کو ان تما م چیزوں محفوظ رکھنا ضروری ہے ۔چوں کہ وہ اپنے اسکولوں میں اپنے مذہب کی تبلیغ کا کام بہت ہی خاموش انداز میں انجام دیتے چلے جاتے ہیں اور ہم معیاری تعلیم کے خوابوں میں کہیں اپنی اولاد کودین وایمان سے دور نہ کردیں(کرسمس ڈے : حقیقت کے آئینہ میں، مفتی محمد صادق حسین قاسمی )
اور مسلمانوں کو کرسمس ڈے کی رسومات میں شرکت کرنا مبارکباد دینا ، وغیرہ کسی طرح بھی جائز نہیں ہے اور بعض صورتوں میں کفر ہے ۔جس نے کافروں کے دن کی تعظیم کیلے کوئی کام کیا مثلا کوئی چیز خریدی اس پر حکم کفر ہے یہی حکم کرسمس‎‏ منانے کا ہے اور اس دن لوگ کافروں کو مبارکباد دیتے ہیں اور بہت جگہ تو مختلف برادریوں کی طرف سے بینرز لگے ہوتے ہیں جن پر کافروں کے نام کرسمس پر مبارک بادیاں تحریر ہوتی ہے ایسے تمام لوگوں پر جو کرسمس ڈے کو قابل تعظیم سمجھ کر یہ کام کرتے ہیں حکم کفر ہے ۔یہ امر ذہن نشین رکھنا ضروری ہے اور اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ کرسمس مسیحیوں کا مذہبی تہوار ہے۔ مسلمانوں کے لیے اسے مذہبی طور پر اپنانا جائز نہیں ہے۔ غیرمسلموں کے مذہبی تہواروں کے موقع پران کو مبارک باد دینے کے بارے میں شرعی حکم یہ ہے کہ چوں کہ یہ تہوار مشرکانہ اعتقادات پرمبنی ہوتے ہیں اورمسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے لیے شرک سے برأت اوربے تعلقی کا اظہارضرروی ہے، کرسمس کی مبارک باد دیناگویا ان کے نقطۂ نظرکی تائید ہے؛ اس لیے کرسمس کی مبارکباد دینا جائزنہیں۔ اگر اس سے ان کی دین کی تعظیم مقصود ہو تو کفر کا اندیشہ ہے۔ اور اگر کرسمس کے موقع پر صراحتاً کوئی شرکیہ جملہ بول دے تو اس کے شرک ہونے میں تو کوئی شک نہیں ہوگا۔
ہمارا یہ دینی فریضہ ہے کہ اس موقع پر منعقد ہونے والی اُن کی مذہبی تقریبات میں شرکت نہ کریں اگر آپ کا کوئی پڑوسی یا ساتھی عیسائی ہے اور وہ اس موقع پر Merry Christmasکہتا ہے تو آپ خوش اسلوبی کے ساتھ دوسرے الفاظ (مثلاً شکریہ) کہہ کر کنارہ کشی اختیار کرلیں کیونکہ جس عقیدہ کے ساتھ Merry Christmas منایا جاتا ہے وہ قرآنی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے۔ آپ کو اپنے پڑوسی یا ساتھی کی فکر ہوسکتی ہے، لیکن دوسری طرف اللہ کی ناراضگی اور سخت عذاب کا بھی معاملہ ہے ، اس لئے واضح الفاظ میں اُن سے کہہ دیا جائے کہ ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باوجویکہ ایک برگزیدہ رسول اور نبی ہیں، وہ اللہ کے بیٹے نہیں۔ اس لئے اس موقعہ پر منعقد ہونے والی تقریبات میں شرکت سے معذرت خواہ ہیں۔