حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور کارنامے

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور کارنامے

بنو امیہ کا وہ خوش نصیب شخص جسے دنیا جرنیل اسلام ، کاتب وحی ، فاتح عرب وعجم ، امام تدبیر و سیاست اورسب سے بڑی اسلامی ریاست کے حکمران کے تعارف سے جانتی ہے، وہ سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما ہیںجو خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ایک نہایت جلیل لقدر صحابی اورآسمان نبوت کے وہ ستارے ہیں کہ جن پر سب سے زیادہ اعتراضات اور کئی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ تمام اعتراضات و الزامات کی وجہ قرآن و سنت کے مقابلہ میں تاریخی روایات کو اہمیت دینا ہے۔ جب کہ قرآن وسنت کی تعلیمات کے خلاف ہر روایت قابل تردید ہے۔ چہ جائے کہ اس پر تکیہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام پر براہ راست اور بالواسطہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر انگلی اٹھائی جائے، حالاں کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ صحابہ کرام کا مقام تاریخ کی کتابوں سے متعین نہیں کیا جاسکتا ، کیوں کہ تاریخیں کئی صدی کےبعد لکھی گئی ہیں ۔امام حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : مقام صحابہ کا تقاضاہے کہ ایسی تمام روایتیں لکھنے والوں کے منہ پر مار دی جائیں۔ ( البدایہ والنہایہ ابن کثیر )”سیدنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ اصحاب رسولﷺ کے درمیان پردہ ہیں، جو یہ پردہ چاک کرے گا، وہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہ پر لعن طعن کی جرات کر سکے گا۔“(دفاع معاویہ )مولانا احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں:”جو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کرے، وہ جہنمی کتوں میں سے ایک کتا ہے، ایسے شخص کے پیچھے نماز حرام ہے ۔“(احکام شریعت )یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت مقام صحابہ کے خلاف کسی واقعے اور روایات کو تسلیم نہیں کرتے ، بلکہ اس کے انکار کو اپنا ایمان سمجھتے ہیں ۔ خاتم الانبیاءجناب حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی احادیث طیبہ سے بھی ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت اور ان کے دشمنوں سے نفرت کا درس ملتا ہے ۔
آپ کا نام معاویہ بن صخر ابی سفیان بن حرب بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدالمناف ہے آپ چار پشتوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شجرہ سے جا ملتے ہیں آپ کا خاندان بنی امیہ خاندان رسول بنی ہاشم کا قریبی تھا ان کے ایک دادا تھے عبدالمناف ۔ آپ کو ابوعبدالرحمن اور خال المومنین بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ آپ کی بہن سیدہ ام حبیبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج میں شامل تھیں،آپ بعثت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے تھے اور ہجرت کے وقت آپ کی عمر اٹھارہ سال تھی ۔آپ کاحلیہ مبارکہ :سروقد ، لحیم وشحیم، رنگ گورا، چہرہ کتابی ،آنکھیں موٹی گھنی داڑھی، وضع قطع، چال ڈھال میں بظاہر شا ن وشوکت اورتمکنت مگر مزاج اور طبیعت میں زہد وتواضع، فرونتی، حلم برد باری اور چہرہ سے ذہانت اور فطانت مترشح تھی۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سردار قریش ابوسفیان کے صاحبزادے تھے ، آپ رضی اللہ عنہ کا شمار قریش کے ان 17 ِافرا دمیں ہوتا تھا جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے قبول اسلام کااعلان فتح مکہ 8 ھ کے موقع پر فرمایا ، لیکن اس سے بہت عرصے پہلے آپ رضی اللہ عنہ کے دل میں اسلام داخل ہوچکا تھا ،جس کا ایک اہم اور واضح ثبوت یہ ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور صلح حدیبیہ میںحصہ نہیں لیا ، حالانکہ آپ رضی اللہ عنہ جوان اور فنون حرب وضرب کے ماہرتھے ۔اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے شب وروز خدمت نبوی ﷺ میں بسر ہونے لگے آپ رضی اللہ عنہ کے خاندان بنو امیہ کےتعلقات قبول اسلام سے پہلے بھی حضور اکرم ﷺ کے ساتھ دوستانہ تھے ۔
خاتم المرسلین حضور اکرم ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو نہ صرف کاتبین وحی صحابہ رضی اللہ عنہم میں شامل فرمالیا تھا بلکہ دربار رسالت ﷺ سے جو فرامین اور خطوط جاری ہوتے تھے ، ان کو بھی آپ رضی اللہ عنہ لکھا کرتے تھے ۔ “حضور اکرم ﷺ کے کاتبین میں سب سے زیادہ حاضر باش حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ شب وروزکتابت وحی کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہ کا کوئی شغل نہ تھا ” (علامہ ابن حزم، جامع السیر ) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جلیل القدر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین پر مشتمل ایک جماعت مقرر کر رکھی تھی جو کہ ” کاتب وحی ” تھے ان میں حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا چھٹا نمبر تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ حدث دہلوی لکھتے ہیں کہ حضورﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو کا تب وحی بنایا تھا۔ اورآپ ﷺاسی کو کاتب وحی بناتےتھے جو ذی عدالت اور امانت دار ہوتا تھا(“ازالتہ الخلفاء ازشاہ ولی اللہ”)
امام الانبیاء خاتم الانبیاء ﷺ کے ساتھ آپ جنگ حنین ، طائف اور تبوک میں شریک رہے ۔حضرت معاویہ اور آپ کے خاندان نے خلافت صدیق میں بہت قربانیاں دیں اور جہاد میں بھرپور حصہ لیا ۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شام کی طرف جو لشکر بھیجےگئے آپ رضی اللہ عنہ اس کے ہراول دستے میں شامل تھے ۔ حضرت صدیق نے آپ کے بھائی یزید بن ابی سفیان کو امیر بنا کر شام بھیجا تھا جہاں ان کا انتقال ہوگیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ حضرت معاویہ کو ان کی جگہ امیر بنایا ۔ اس موقع پر آپ کے والد نے آپ سے فرمایا کہ ہم اسلام لانے میں ان سے بہت پیچے رہ گئے ہیں اور یہ ہم سے بہت آگے ہیں امیر المومنین نے تم پر اعتماد کیا ہے اس کو بخوبی نبھانا۔
حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت میں سیدنا معاویہ نے شام و حمص کو فتح کرلیا اور فاروق اعظم نے وہاں کا گورنر انہیں ہی بنا دیا ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں گورنر شام کی حیثیت سے آپ رضی اللہ عنہ نے روم کی سرحدوں پر جہاد جاری رکھا اور متعدد شہر فتح کئے۔ آپ حضرت فاروق اعظم کے واحد گورنر ہیں جن کی کوئی خاص شکایت کبھی بھی نہیں آئی ۔ آپ رعیت کا بہت خیال رکھنے والے تھے ۔ آپ نے چاہا کہ بحری فوج بھی تیار کرلی جائے لیکن حضرت فاروق اعظم نے آپ کو اس کی اجازت نہیں دی۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں آپ رضی اللہ عنہ نے عموریہ تک اسلام کا پرچم لہرا یا ۔ آپ رضی اللہ عنہ کا ایک اہم جہادی کارنامہ قبرص کی فتح ہے ۔ شام کے قریب واقع یہ حسین وزرخیز جزیرہ اس حیثیت سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کہ یورپ اور روم کی جانب سے یہی جزیزہ مصر وشام کی فتح کا دروازہ تھا ۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے سمندری مشکلات کے پیش نظر آپ رضی اللہ عنہ کو لشکر کشی کی اجازت نہیں دی تھی ، لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہ کے عزم کامل اور شدید اصرار کو دیکھتے ہوئے اجازت مرحمت فرمادی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے یہاں حملہ کرنے کی غرض سے 500 جہازوں پر مشتمل بحری بیڑہ تیار فرمایا ۔ جب اہل قبرص نے اتنے عظیم بحری بیڑے کو قبرص میں لنگر انداز دیکھاتو ابتدا میں کچھ شرائط پر مسلمانوں سے صلح کرلی، لیکن موقع پاکر عہد شکنی کی اور مسلمانوں کے خلاف رومیوں کومدد فراہم کی چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نےدوبارہ حملہ کردیا اور اس اہم جزیرے کو مسخر کرلیا ۔ یہ اسلام کا پہلا بحری بیڑہ تھا اور باتفاق محدثین آپ رضی اللہ عنہ کے اس بیڑے میں شامل مجاہدین ہی اس حدیث کا مصداق ہیں جس میں حضور اکرم ﷺ نے بحری جہاد کرنے والوں کو جنت کی خوشخبری دی ہے ، علاوہ ازیں افرنطیہ ،ملطیہ ،روم کے متعدد قلعے بھی آپ رضی اللہ عنہ نے فتح کئے ۔
واضح رہے کہ حضورﷺ نے حدیث میں دو اسلامی لشکروں کے بارے میں مغفرت اور جنت کی بشارت وخوش خبری فرمائی، ان میں سے ایک وہ لشکر جو سب سے پہلے اسلامی بحری جنگ لڑے گا اور دوسرا وہ لشکر جو قیصر کے شہر میں جنگ کرے گا۔پہلی بشارت سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ کے دور خلافت میں پوری ہوئی۔اس لشکر کے امیروقائد خود امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ تھے ۔آپ کی قیادت میں اس پہلی بحری لڑائی اور فتح قبرص کے لئے بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین، جن میں حضرت ابو ایوب انصاری ، حضرت ابوذرغفاری، حضرت ابودرداء، حضرت عبادہ بن صامت اور حضرت شداد بن اوس، سمیت دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین شریک ہوئے۔اس جنگ کی تفصیل یہ ہے کہ28ہجری میں آپ پوری شان وشوکت، تیاری وطاقت اور اسلامی تاریخ کے پہلے بحری بیڑے کے ساتھ بحر روم میں اترے،ابتدامیں وہاں کے باشندوں نے مسلمانوں کے ساتھ صلح کرلی، لیکن بعد میں مسلمانوں کو تنگ کرنے اور بدعہدی کرنے پر حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پوری بحری طاقت اور عظیم الشان بحری بیڑے کے ساتھ قبرص کی طرف روانہ ہوئے اور بڑی بہادری سے لڑتے ہوئے قبرص کو فتح کرلیا۔اس لڑائی میں رومیوں نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا، تجربہ کاراور بحری لڑائی کا ماہر ہونے کے باوجود اس لڑائی میں رومیوں کو بد ترین شکست اور مسلمانوں کو تاریخی فتح حاصل ہوئی۔
حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان جنگ صفین ہوئی جس کا سبب بنیادی طور پر خلیفہ راشد، امیر المؤمنین سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت تھی جس کے پس پردہ وہی یہودی و مجوسی سازش کارفرما تھی جو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی شہادت کی ذمہ دار تھی۔ صحیح صورتحال کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تک بروقت پہنچ جانا، اس زمانہ میں ممکن نہ تھا، جبکہ اسلام دشمن عناصر گمراہ کن افواہیں تسلسل سے پھیلانے میں مصروف تھے۔ ان حالات میں عوام و خواص میں غلط فہمیوں کا پیدا ہو جانا باعث تعجب نہیں۔ اس لئےغلط فہمیاں پھیلیں اور اس کے نتیجہ میں باہمی جنگیں ہوئیں جسمیں مسلمانوں کو ایک طرف تو ناقابل بیان جانی و مالی نقصان ہوا، دوسری طرف ان کی ملی وحدت ٹکڑے ٹکڑے ہوئی اور تیسری طرف وہ فاتحانہ قدم جو بڑی تیزی کے ساتھ یورپ، افریقہ اور ایشیاء کی طرف بڑھتے چلے جا رہے تھے، یکدم رک گئے۔یہ قضا و قدر کے وہ قطعی فیصلے تھے جن کی خبر مخبر صادق خاتم النبیین جناب نبی اکرم ﷺ نے ان واقعات کے رونما ہونے سے بہت پہلے دے دی تھی۔ دونوں طرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تھے۔ کسی ایک کو موردِ الزام ٹھہرانا نہ تو درست ہے اور نہ ہی انصاف ہے۔ اس مسئلہ میں وہ لوگ بھی غلط ہیں جو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم کی شان اقدس میں زبان طعن دراز کرتے ہیں اور وہ بھی غلط ہیں جو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ یا دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی اجتہادی خطاء پر ان کی شان و عظمت میں گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ہمارے نزدیک اﷲ تعالیٰ، رسول اﷲ!ﷺ صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ علیھم اجمعین، آئمہ کرام، اولیائے عظام اور علماء و اہل اسلام کا ادب واحترام ہی ایمان اور تقویٰ ہے۔
٭… حضرت معاویہ ؓ نے فرمایا میرا حضرت علیؓ سے اختلاف صرف حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے قصاص کے مسئلہ میں ہے اور اگر وہ خون عثمان ؓ کا قصاص لے لیں تو اہل شام میں ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے والا سب سے پہلے میں ہوں گا (البدایہ و النہایہ ج 7‘ص 259)٭… حضرت علی المرتضیٰ ؓ نے فرمایا۔ میرے لشکر کے مقتول اور حضرت امیر معاویہؓ کے لشکر کے مقتول دونوں جنتی ہیں (مجمع الزوائد ‘ ج 9‘ ص 258)٭… صفین سے واپسی پرجب آپ نے سناکہ بعض اہل لشکرحضرت سیدنامعاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف بے احتیاطی سے کلام کررہے ہیں تولوگوں سے ارشادفرمایا: اے لوگو!تم معاویہ کی گورنری اور امارت کو نا پسند مت کرو، کیوں کہ اگر تم نے انہیں گم کر دیا تو دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کر گریں گے، جس طرح اندرائن کا پھل اپنے درخت سے ٹو ٹ کر گر تا ہے۔(البدایہ والنہایہ ،حافظ ابن کثیر )٭… بہ ایں ہمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کوان تمام عہدوں اورمناصب پرنہ صرف برقراررکھا،جن پرآپ عہدعثمانی میں فائزتھے،بلکہ یہ فرماکرہرقسم کے شکوک وشبہات کوبھی دورفرمادیا:ہم بھی مسلمان ہیں اوروہ بھی ہمارے مسلمان بھائی ہیں،ہمارااوران کااختلاف صرف دم(خون) عثمان کے مسئلے میں ہے۔(نہج البلاغہ)
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعدمحض چھے ماہ خلافت کے منصب پرفائزرہنے کے بعد41ھ میں حضرت سیدناحسن رضی اللہ عنہ نے برضاورغبت خلافت آپ کوسونپ دی اورحضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہمانے آپ کوخلیفہ برحق مانتے ہوئے بیعت کرکے منافقین کے تمام عزائم کوناکام بنادیا۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے یزید کو اپنا ولی عہد بنایا دیا، جس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین نے اختلاف بھی کیا لیکن انہوں نے اپنا فیصلہ واپس نہ لیا جو بعد میں مسلمانوں کے لئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا۔ یہ اُن کی اجتہادی خطاء تھی۔
تمام انسانوں میں انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کے بعد فضیلت میں حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کا درجہ ہے ۔ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اگر چہ معصوم نہیں ہیں ، مگر ان سے جو بھی گناہ ( اللہ تعالیٰ نے کسی حکمت کے تحت صادر کرائے اور ) ہوئے تھے ، اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرما کر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بلا تفریق اپنی رضا کا پروانہ عطا فرما یا ہے ،لہٰذا حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر ہمیشہ اچھے لفظوں میں کرنا چاہیے۔اسلام دشمنوں کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہےکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی حیثیت کو کم کیا جائے، تاکہ ان کے ذریعے سے ہم تک پہنچنے والے دین میں نقب زنی آسان ہوجائے ۔
آپ کی شخصیت احادیث کی روشنی میں:
٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ معاویہ کو ہدایت دینے والا اورہدایت یافتہ بنا دیجیے اوراس کے ذریعہ سے لوگوں کو ہدایت دیجیے۔ (ترمذی)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اے اللہ! معاویہ کو حساب کتاب سکھا اور اس کو عذاب جہنم سے بچا۔(کنزالعمال)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:معاویہ میرا رازداں ہے، جو اس سے محبت کرے گا وہ نجات پائے گا، جو بغض رکھے گا وہ ہلاک ہو گا۔(تطہیرالجنان)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالی قیامت کے دن معاویہ کو اٹھائیں گے ، تو ان پر نور ایمان کی چادر ہوگی۔(تاریخ الاسلام حافظ ذہبی)٭… رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت میں معاویہ سب سے زیادہ بردبار ہیں۔(بحوالہ :سیرت امیرمعاویہ)٭… صحابی عبدالرحمٰن بن ابی عمیرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے لئے فرمایا کہ! اے اللہ! اسے ہادی مہدی بنادے اور اس کے ذریعے لوگوں کو ہدایت دے (سنن الترمذی)٭… حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اے اللہ معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کو ہدایت دینے والا، ہدایت پر قا ئم رہنے والا اور لوگوں کیلئے ذریعہ ہدایت بنا۔( جا مع ترمذی)
آپ کی شخصیت اکابر صحابہ کی نظر میں :
٭… معاویہ رضی اللہ عنہ کا ذکر بھلائی کےساتھ کرو۔ ( *حضرت عمر فاروق ؓ)٭… لوگو ! فرقہ بندی سے بچو ۔ اگر تم نے فرقہ بندی اختیار کی تو یاد رکھو معاویہ رضی اللہ عنہ شام میں موجود ہیں ۔ ( حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ) ٭… معاویہ رضی اللہ عنہ کی امارت کو برا نہ سمجھو کیونکہ جب وہ نہیں ہوں گے تم سروں کو گردنوں سے اڑتا دیکھو گے ( حضر ت علی رضی اللہ عنہ) ٭… میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امو ر سلطنت وبادشاہت کے لائق کسی کو نہیں پایا۔ ( حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ) ٭… میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد ان سے بڑھ کر حق کا فیصلہ کرنے والانہیں پایا ۔ ( حضرت سعدؓبن ابی وقاص)٭… میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر برد بار ،سیادت کے لائق ، باوقاراور نرم دل کسی کو نہیں پایا ۔( حضرت قبیصہؓ بن جابر ) ٭… اگر تم معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ پاتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ عدل وانصاف کیا ہے؟( امام اعمشؒ)
آپ کی خدمات اور کارنامے:
٭… آپ رضی اللہ عنہ نے فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک حصہ موسم سرما میں اور دوسرا حصہ موسم گرما میں جہاد کرتا تھا ۔آپ رضی اللہ عنہ نے فوجیوں کا وظیفہ دگنا کردیا ۔ ان کے بچوں کے بھی وظائف مقرر کردئیے نیز ان کے اہل خانہ کا مکمل خیال رکھا ۔٭… آپ رضی اللہ عنہ کے دو رخلافت میں فتوحات کا سلسلہ انتہائی برق رفتاری سے جاری رہا اور قلات ، قندھار، قیقان ، مکران ، سیسان ، سمر قند ، ترمذ،شمالی افریقہ ،جزیرہ روڈس ،جزیرہ اروڈ ،کابل ،صقلیہ (سسلی ) سمیت مشرق ومغرب ،شمال وجنوب کا 22 لاکھ مربع میل سے زائد علاقہ اسلام کے زیر نگیں آگیا ۔ ان فتوحات میں غزوہ قسطنطنیہ ایک اہم مقام رکھتاہے ۔ یہ مسلمانوں کی قسطنطنیہ پر پہلی فوج کشی تھی ، مسلمانوں کا بحری بیڑہ سفیان ازدی رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روم سے گزر کر قسطنطنیہ پہنچا اور قلعے کا محاصرہ کرلیا ۔ ٭… بیت اللہ شریف کی خدمت کےلئے مستقل ملازم رکھے ۔ بیت اللہ پر دیبا وحریر کا خوبصورت غلاف چڑھایا ۔ ٭… حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا قامتی ہسپتال دمشق میں قائم کیا۔ ٭… نہروں کے نظام کے ذریعے سینکڑوں مربع میل اراضی کو آباد کیا اور زراعت کو خوب ترقی دی ۔٭… ڈاک کے نظام کو بہتر بنایا ، اس میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ محکمہ بناکر ملازم مقرر کئے ۔٭… احکام پر مہر لگانے اور حکم کی نقل دفتر میں محفوظ رکھنے کا طریقہ ایجاد کیا۔٭… عدلیہ کے نظام میں اصلاحات کیں اور اس کو مزیدترقی دی ۔٭… آپ نے دین اخلاق اور قانون کی طرح طب اور علم الجراحت کی تعلیم کا انتظام بھی کیا۔٭… حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور میں ہی سب سے پہلے منجنیق کا استعمال کیا گیا۔ ٭… مستقل فوج کے علاوہ رضا کاروں کی فوج بنائی ۔٭… بحری بیڑے قائم کئے اور بحری فوج ( نیوی ) کا شعبہ قائم کیا ۔ یہ آپ رضی اللہ عنہ کا تجدیدی کارنامہ ہے ۔ ٭… جہاز سازی کی صنعت میں اصلاحات کیں اور باقاعدہ کارخانے قائم کئے۔پہلا کارخانہ 54 ھ میں قائم ہوا ۔ ٭… قلعے بنائے ، فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور ” دارالضرب ” کے نام سے شعبہ قائم کیا ۔ ٭… امن عامہ برقرار رکھنے کےلئے پولیس کے شعبے کو ترقی دی جسے حضرت عمررضی اللہ عنہ نے قائم کیا تھا ۔دارالخلافہ دمشق اور تمام صوبوں میں قومی وصوبائی اسمبلی کی طرز پر مجالس شوری قائم کیں ۔
معزز قارئین:دشمنانِ صحابہ کرام من گھڑت داستانیں سنا کر پروپیگنڈا کر کے حقائق چھپاکر شر انگیزی میں مصروف ہیںاگرعلم و عقل سے سوچا سمجھا جائے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا دامن داغ دار کرنے کے لئے جھوٹی داستانیں گھڑی جاتی ہیں۔ حضرت امیر معاویہؓ کاتبِ وحی ہیں۔اور آخری سانس تک صحابی رسول ﷺرہے ۔نبی اکرمﷺ انہیں جنت کی بشارت دے چکے ہیں۔ تمام ادوار میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اسلام کے لئے بے شمار خدمات ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہماجمعین سے بغض پیدا کر کے در حقیقت دشمنانِ اسلام ہمارے نبی حضرت محمد ﷺ کی آبرو تک ہاتھ ڈالنا چاہتے ہیں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان پر تنقید کرنے والے در حقیقت ختمِ نبوت کے دشمن ہیں۔ اور مسلمانوں کے ایمان کو کمزور کر کے کافر طاقتیں اسلام کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ بغضِ صحابہ کی معافی نہیں۔ لہذاتبرا بازوں اور سب وشتم کرنے والوںسے ہمدردانہ التجاء ہے کہ گالی گلوچ بد اخلاقی دکھا کر اپنا دوزخ کی طرف راستہ آسان نہ کریں۔کیونکہ جن ہستیوں پر آپ بد دیانتی اور خیانت کا الزام لگاتے ہیں وہ ہستیاں جنت کی بشارت پا چکی ہیں۔اور ان پر بد گمانی پیدا کر کے لوگ جہنم خرید رہے ہیں۔اختلاف ہو سکتا ہے۔دلائل کے ساتھ عزت کے دائرہ میں رہ کر کریں۔کیونکہ ان ہستیوں کا احترام سب پہ لازم ہے۔ لہٰذا کوئی مسلمان ان کی شان میں گستاخی کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جو گستاخی کرے وہ مسلمان نہیں ہو سکتا ۔
22رجب المرجب 60ھ میں کاتب وحی، جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، فاتح شام و قبرص اور 19سال تک 64 لاکھ مربع میل پر حکم رانی کرنے والے حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ 78 سال کی عمر میں وفات پاگئے۔ حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ تعالی عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور دمشق کے باب الصغیر میں مدفون ہوئے۔اللہ کی ان پربے شماررحمتیں نازل ہوں۔(آمین)