بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ

بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح رحمہ اللہ
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
دنیا میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو دنیا کا نقشہ بدل کر رکھ دیتے ہیں بانی پاکستان محترم قائداعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کا شمار ایسی ہی گوہر نایاب شخصیات میں ہوتا ہے،بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان بنانے میں انتھک محنت کی اور آئین اور قانون کے اندر رہتے ہوئے یہ وطن حاصل کیا۔ ان کی زندگی کے چند پہلوؤں کے بارے میں جاننا ہمارے لئے اور آنے والی نسلوں کے لئے بےحد ضروری ہے۔قائداعظم محمد علی جناح 25 دسمبر1876ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔آپ کے والد کا نام پونجا جناح تھا آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد علی رکھا گیا ، والدین نے آپ کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام کیا ، آپ نے ابتدائی تعلیم کراچی سے حاصل کی اورامتیازی نمبروں سے مکمل کرنے والے ہونہار بیٹے محمد علی جناح کو ان کے والد نے اعلیٰ تعلیم کے لیے 1891 میں برطانیہ بھجوادیا اس سے قبل ہی قائد اعظم کی شادی 16سال کی عمر میں دور کے عزیز ایمی بائی سے انجام پائی۔انہوں نے 1896 میں قانون کی اعلیٰ ڈگری حاصل کی اور وطن واپس لوٹ آئے۔ قائد اعظم نے وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست میں عملی طور پر حصہ لیا اور 1906 میں کانگریس میں شمولیت اختیار کی۔کانگریس کے ساتھ سات سالہ طویل رفاقت کے بعد قائد اعظم نے ہندو رہنماؤں کی چالوں کو بھانپتے ہوئے 1913 میں مسلم رہنماؤں سر آغا خان سوئم، علامہ اقبال اور چوہدری رحمت علی کی درخواست پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور مسلمانوں کی سیاسی بیداری اور تحریک آزادی کی داغ بیل ڈالی۔محمد علی جناح نے اپنے تدبر، فہم وفراست، سیاسی دور اندیشی اور جہد مسلسل کے باعث نہ صرف انگریوں کو چلتا کیا بلکہ مسلمانوں کو ہندو بنیے کے شکنجے سے بچاتے ہوئے 14 اگست 1947 میں ایک آزاد ریاست حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
7مئی 1937کو قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں علامہ اقبال نے اس بات کا اظہار بھی فرمایا کہ اسلام کے لیے سوشل ڈیموکریسی کی کسی شکل میں ترویج جب اسے شریعت کی تائید ومدافعت حاصل ہو حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اس کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندووں سے کہیں زیادہ آسان ہے اور اسلامی ہندوستان میں ان مسائل کا حل آسانی سے رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کی ذریعے اسلامی ریاست کا قیام اشد ضروری ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانان برصغیر کی آنکھوں کا تارا بن گئی اور اس طرح ملت کا دل افسردہ قافلہ سخت جاں جوا گرچہ تھا تو عشق کی وادی ہی میں مگر رہنماوں کی جلد بازیوں سے دلبرداشتہ ہو کے کچھ کچھ حوصلہ ہار بیٹھا تھا دوبارہ کمر بستہ ہوا اور ایک تازہ ولولے کے ساتھ قائد اعظم کی رہنمائی میں راس کماری سے لے کر پشاور تک رواں دواں ہو گیا وہ مسلمان ملت برصغیر جس میں شرح خواندگی تین فیصد سے بھی کم تھی ۔مگر دنیاوی اعتبار سے وہی سادہ اور نا خواندہ مسلمانوں نے جو سامراجی قوتوں کے ستائے ہوئے اور ہندوں کی تنگ نظری چھوت چھات کے ذلت آمیز رویوں اور سودی ناانصافیوں کا شکار تھے انہوں نے تاریخ کا وہ عظیم الشان سفر اپنے عظیم قائد کے ساتھ طے کیا اور پوری دنیا کو حیران کر دیا جس نے اقوام عالم کی تاریخ میں بالکل ہی نئے اور انوکھے انداز انقلاب کا آغاز کر دیا ۔بابائے قوم کے چند ارشادات ملاحظہ فرمائیں
٭… 15 نومبر1942 ء کے قائداعظم کے بصیرت افروز اور چشم کش خطاب میں بھی آپ نے فرمایا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا ؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن مجید میں ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا یہ ہیں ہمارے قائداعظم محمد علی جناح جن کو جھوٹ سے نفرت ہے اور وہ کسی بھی دباؤ میں آکر اپنی رائے کے اظہار میں کبھی بھی کسی مداہنت سے کام نہیں لیتے آج پھر اس ملت پاکستان کو ایک ایسے ہی رہنما ء کی ضرورت ہے اور 6 دسمبر1943 ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائداعظم نے فرمایاوہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے جس نے امت کی کشتی محفوظ کر دی گی ہے وہ رشتہ ،وہ چٹان ، اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے مجھے امید ہے کہ جوں جو ںہم آگے بڑھتے جائیں گے قرآن مجید کی برکت سے زیادہ سے زیادہ اتحادپیدا ہوتا جائے گا ایک خدا، ایک کتاب ، ایک رسول ، ایک امتقائداعظم کا یہ خطاب کسی تبصرے یا وضاحت کا محتاج نہیں اس کا لفظ لفظ تو پکار رہا ہے کہ یہ بات کہنے والا امت کے حقیقی تصور سے بھی آشنا ہے اور خدا ، کتاب اور رسول کو مان لینے کے لازمی نتائج سے بھی باخبر ہے ۔
٭… قائد اعظم نے 17 ستمبر 1944ء کو گاندھی جی کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا:” قرآن مسلمانوں کا ضابطہ حیات ہے۔ اس میں مذہبی اور مجلسی ، دیوانی اور فوجداری ، عسکری اور تعزیری ، معاشی اور معاشرتی سب شعبوں کے احکام موجود ہیں۔ یہ مذہبی رسوم سے لے کر جسم کی صحت تک ، جماعت کے حقوق سے لے کر فرد کے حقوق تک ، اخلاق سے لے کر انسدادِ جرائم تک ، زندگی میں سزا و جزا سے لے کر آخرت کی جزا و سزا تک غرض کہ ہر قول و فعل اور ہر حرکت پر مکمل احکام کا مجموعہ ہے۔ لہذا جب میں کہتا ہوں کہ مسلمان ایک قوم ہیں تو حیات اور مابعد حیات کے ہر معیار اور پیمانے کے مطابق کہتا ہوں “10 ستمبر 1945 ء کو عید الفطر کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :” ہمارا پروگرام قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی پروگرام کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی”۔
٭… 14 فروری 1948 ء کو قائد اعظم نے بلوچستان میں خطاب کرتے ہوئے فرمایا :” میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ اس سنہری اصولوں والے ضابطہ ء عمل میں ہے جو ہمارے عظیم واضح قانون پیغمبر اسلام ﷺنے ہمارے لیے قائم کر رکھا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اخلاقی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہئیں۔ اسلام کا سبق یہ ہے کہ مملکت کے امور و مسائل کے بارے میں فیصلے باہمی بحث و تمحیص اور مشوروں سے کیا کرو۔”
٭… 13 اپریل 1948 ء کو اسلامیہ کالج پشاور میں تقریر کرتے ہوئے بانی پاکستان نے فرمایا:” ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایسی جائے پناہ چاہتے تھے جہاں ہم اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں”
٭… 25 جنوری 1948 ء کراچی بار ایسوسی ایشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :” آج ہم یہاں دنیا کی عظیم ترین ہستی حضرتﷺ کو نذرانہ ء عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ آپﷺ کی عزت و تکریم کروڑوں عام انسان ہی نہیں کرتے بلکہ دنیا کی تمام عظیم شخصیات آپﷺ کے سامنے سر جھکاتی ہیں۔ وہ عظیم مصلح تھے ، عظیم رہنما تھے ، عظیم واضع قانون تھے ، عظیم سیاستدان تھے اور عظیم حکمران تھے ، ہم ان کی تعلیمات پر عمل کرتے رہے تو کسی میدان میں کبھی بھی ناکامی نہ ہوگی”ایک خطاب میں آپ نے فرمایا :” میں نے بہت دنیا دیکھ لی۔ اللہ تعالی نے عزت ، دولت ، شہرت بھی بے حساب دی۔ اب میری زندگی کی ایک ہی تمنا ہے کہ مسلمانوں کو باوقارا ور سر بلند دیکھوں۔ میری خواہش ہے کہ جب مروں تو میرا دل گواہی دے کہ جناح نے اللہ کے دین اسلام سے خیانت اور پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ کی امت سے غداری نہیں کی۔ مسلمانوں کی آزادی ، تیظیم ، اتحاد اور مدافعت میں اپنا کردارٹھیک ٹھیک ادا کیا اور میرا اللہ کہے کہ اے میرے بندے! بے شک تو مسلمان پیدا ہوا۔ بے شک تو مسلمان مرا “۔
بابائے قوم محمد علی جناح رحمہ اللہ عملی طور پر کیسے انسان تھے بطور مثال چند واقعات قارئین کی نظرکرتا ہوں:…
٭… یہ 25 اکتوبر 1947 کی بات ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی بار عید الاضحیٰ کا تہوار منایا جانا تھا۔ عید الاضحیٰ کی نماز کی امامت کا فریضہ مشہورعالم دین مولانا ظہور الحسن نے انجام دینا تھا۔ قائد اعظم کو نماز کے وقت سے مطلع کردیا گیاتھا۔ مگر قائد اعظم عید گاہ نہیں پہنچ پائے۔ اعلیٰ حکام نے مولانا ظہور الحسن کو مطلع کیا کہ قائد اعظم راستے میں ہیں اور چند ہی لمحات میں عید گاہ پہنچنے والے ہیں۔ انہوں نے مولانا سے درخواست کی کہ وہ نماز کی ادائیگی کچھ وقت کے لیے موخر کردیں۔ مولانا ظہور الحسن درس نے فرمایا ’’میں قائد اعظم کے لیے نماز پڑھانے نہیں آیا ہوں بلکہ خدائے عزوجل کی نماز پڑھانے آیا ہوں‘‘ چنانچہ انہوں نے صفوں کو درست کرکے تکبیر فرما دی۔ ابھی نماز عید کی پہلی رکعت شروع ہوئی ہی تھی کہ اتنے میں قائد اعظم بھی عید گاہ پہنچ گئے۔ نماز شروع ہوچکی تھی۔ قائد اعظم کے منتظر اعلیٰ حکام نے قائد سے درخواست کی وہ اگلی صف میں تشریف لے چلیں مگر قائد اعظم نے ان کی درخواست مسترد کردی اور کہا کہ میں پچھلی صف میں ہی نماز ادا کروں گا۔ چنا نچہ ایسا ہی ہوا اور قائد اعظم نے پچھلی صفوں میں نماز ادا کی۔ قائد اعظم کے برابر کھڑے نمازیوں کو بھی نماز کے بعد علم ہْوا کہ ان کے برابر میں نماز ادا کرنے والا ریاست کا کوئی عام شہری نہیں بلکہ ریاست کا سربراہ تھا۔ قائد اعظم نمازیوں سے گلے ملنے کے بعد آگے تشریف لائے۔ انھوں نے مولانا ظہور الحسن کی جرات ایمانی کی تعریف کی اور کہا کہ ہمارے علماء کو ایسے ہی کردار کا حامل ہونا چاہیے۔
٭… ایک بار قائد اعظم سفر کر رہے تھے۔ سفر کے دوران انہیں یاد آیا کہ غلطی سے ان کا ریل ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اور وہ بلا ٹکٹ سفر کر رہے ہیں۔ جب وہ اسٹیشن پر اترے تو ٹکٹ ایگزامنر سے ملے اور اس سے کہا کہ چونکہ میرا ٹکٹ ملازم کے پاس رہ گیا ہے اس لیے دوسرا ٹکٹ دے دیں۔ ٹکٹ ایگزامنر نے کہا آپ دو روپے مجھے دے دیں اور پلیٹ فارم سے باہر چلے جائیں۔ قا ئداعظم یہ سن کر طیش میں آگئے۔ انہوں نے کہا تم نے مجھ سے رشوت مانگ کر قانون کی خلاف ورزی اور میری توہین کی ہے۔ بات اتنی بڑھی کہ لوگ اکھٹے ہو گئے ٹکٹ ایگزامنر نے لاکھ جان چھڑانا چاہی لیکن قائداعظم اسے پکڑ کر اسٹیشن ماسٹر کے پاس لے گئے۔ بالآخر ان سے رشوت طلب کرنے والا قانون کے شکنجے میں آگیا۔
٭… اوروکالت میں بھی قائدِاعظم کے کچھ اْصول تھے جن سے وہ تجاوز نہیں کرتے تھے۔ وہ جائز معاوضہ لیتے تھے۔ مثلاً ایک تاجرایک مقدمہ لے کر آیا۔
موکل:مَیں چاہتا ہوں کہ آپ اس مقدمہ میں میری وکالت کریں۔آپ کی فیس کیا ہوگی۔
قائدِاعظم: مَیں مقدمے کے حساب سے نہیں، دن کے حساب سے فیس لیتا ہوں۔
موکل: کتنی؟ قائدِاعظم: پانچ سوروپے فی پیشی کے۔
موکل: میرے پاس اس وقت پانچ ہزار روپے ہیں۔ آپ پانچ ہزار میں ہی میرا مقدمہ لڑیں۔
قائدِاعظم: مجھے افسوس ہے کہ مَیں یہ مقدمہ نہیں لے سکتا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مقدمہ طول پکڑے اور یہ رقم ناکافی ہو،یا یہ مقدمہ دو چار پیشیوں میں مکمل ہوجائے تو آپ کو نقصان ہوگا بہتر ہے کہ آپ کوئی اور وکیل کرلیں کیوں کہ میرا اصول ہے کہ مَیں فی پیشی فیس لیتا ہوں۔
چنانچہ قائدِاعظم نے اپنی شرط پر مقدمہ لڑا اور اپنی فراست سے مقدمہ تین پیشیوں ہی میں جیت لیا اور فیس کے صِرف پندرہ سو روپے وصول کیے۔ تاجر نے اس کامیابی کی خوشی میں پورے پانچ ہزار پیش کرنا چاہے تو قائدِاعظم نے جواب دیا، ’’میں نے اپنا حق لے لیا ہے۔‘‘‘
٭… کابینہ کی جتنی میٹنگز ہوتی تھیں قائد اعظم محمد علی جناح نے منع فرمایا تھا کہ کچھ بھی کھانے کے لئے نہ دیا جائےاور 1933سے لے کر 1946تک قائداعظم محمد علی جناح نے ایک اندازے کے مطابق 17 قرار دادیں پیش کیں جس میں فلسطین کے حق خود ارادیت کی بات کی گئی۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستان بھی وجود میں نہیں آیا تھا مگر اس کے باوجود ان کے دل میں امت مسلمہ کے لئے جذبہ کوٹ کوٹ کے بھرا ہواتھا۔
٭… قائد اعظم جب بیمار تھے تو ایک خاتون ڈاکٹر ان کی خدمت پر مامور تھیں۔ آپ نے اس سے پوچھا کہ تم نے میری بہت خدمت کی ہے بتاؤ میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں تو اس نے کہا کہ میری ٹرانسفر میرے آبائی شہر میں کروا دیں تو آپ نے کہا کہ یہ میرا کام نہیں یہ وزارتِ صحت کا کام ہے۔
٭… ایک دفعہ آپ گاڑی میں کہیں جا رہے تھے تو ایک جگہ ریلوے ٹریک بند ہوگیا۔ آپ کا ڈرائیور اتر کے وہاں پر موجود شخص سے کہنے لگا کہ گورنر جنرل آئے ہیں ٹریک کھولو۔ مگر ہمارے عظیم لیڈراور بانی پاکستان نے فرمایا کہ نہیں اسے بند رہنے دو۔ میں ایسی مثال قائم نہیں کرنا چاہتا جو پروٹوکول پر مبنی ہو۔
٭… وفات سے کچھ عرصے قبل بابائے قوم نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کا افتتاح کیا۔ یہ وہ آخری سرکای تقریب تھی جس میں قائداعظم اپنی علالت کے باوجود شریک ہوئے وہ ٹھیک وقت پر تقریب میں تشریف لائے انہوں نے دیکھا کہ شرکاء کی اگلی نشستیں ابھی تک خالی ہیں انہوں نے تقریب کے منتظمین کو پروگرام شروع کرنے کا کہا اور یہ حکم بھی دیا کہ خالی نشستیں ہٹا دی جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور بعد کے آنے والے شرکاء کو کھڑے ہو کر تقریب کا حال دیکھنا پڑا۔ ان میں کئی دوسرے وزراء اور سرکاری افسر کے ساتھ اس وقت کے وزیراعظم خان لیاقت علی خان بھی شامل تھے وہ بے حد شرمندہ تھے کہ ان کی ذراسی غلطی قائد اعظم نے برداشت نہیں کی اور ایسی سزا دی جو کبھی نہ بھولے گئی۔
٭… قائد اعظم محمد علی جناح، علامہ اقبال کے خواب اور مسلمانوں کی خواہش پاکستان کو عملی طور پر قائم کرنے کے محض ایک سال بعد ہی 11 ستمبر 1948 کو 71 برس کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جاملے۔یوں لگتا ہے جیسے قائد اعظم پاکستان کے قیام کے لیے ہی دنیا میں وارد ہوئے اور اپنا فریضہ ادا کرتے ہی دنیا سے منہ موڑ گئے۔محمد علی جناح 1913ء سے لے کر پاکستان کی آزادی 14 اگست 1947ء تک آل انڈیا مسلم لیگ کے سربراہ رہے، پھر قیام پاکستان کے بعد سے اپنی وفات تک، وہ ملک کے پہلے گورنر جنرل رہے، مرنے سے پہلے آپ نے اپنے ڈاکٹر سے کہا ’’ کہ پاکستان ہرگز وجود میں نہ آتا اگر اس میں فیضان نبوی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم شامل نہ ہوتا ‘‘آخر میں شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ایک قول جو انہوں نے قائداعظم کے لئے کہا “محمد علی جناح کو نہ تو خریدا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ شخص خیانت کر سکتا ہے۔
ہفتہ11ستمبر 1948کی رات 10بج کر 25منٹ پر قائد اعظم محمد علی جناح حرکت قلب رک جانے کے باعث اس جہان فانی سے رحلت فرماگئے۔اتوار کےساڑھے 4بجے جنازہ نمائش کے میدان میں پہنچ گیا جہاں قائد کی تدفین کی جانی تھی۔نمائش کے میدان میں ایک ستون بنایاگیا تھا۔ اس ستون کے نیچے مولانا شبیر احمد عثمانی نے نماز جنازہ پڑھائی۔6لاکھ کا مجمع نماز میں شریک تھا۔نمازجنازہ کے فوری بعد مولانا شبیر احمد عثمانی نے مجمع سے خطا ب کرتے ہوئے کہا کہ اب قائد اعظم اپنی قوم میں موجود نہیں جو قوم کی رہنمائی کرسکیں مگر قائد اعظم کی ہدایات اور جذبہ مسلسل قوم کی رہنمائی کرتا رہے گا۔قائداعظم کی وفات صرف پاکستان ہی کا نقصان نہیں بلکہ یہ ساری اسلامی دنیا کا نقصان ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کا یوم پیدائش منانے کے لیے اپنے قائد کے ہر فرمان کو بھی مانے اور اپنی نسل کو بھی اپنے قائد کی روشن سیرت و کردار سے متعارف کروائیں اگر ہمارے رہنماء اور قوم قائداعظم جیسی سیرت و کردار کا مظاہرہ کریں تو ہم آج بھی سرخرو ہو سکتے ہیں ۔محمد علی جناح امت مسلمہ کے عظیم لیڈر تھے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ فوری طور پر عظیم قائد کے بارے میں نصاب میں ایسے واقعات شامل کریں تا کہ ہماری قوم اپنے عظیم لیڈر کے بارے میں جان سکیں۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ قائداعظم محمد علی جناح پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔( آمین یارب العٰلمین)