آٹھ اکتوبر کی ایک قیامت خیز صبح

آٹھ اکتوبر کی ایک قیامت خیز صبح
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
وہ اکتوبر دو ہزار پانچ کاایک دن تھا، جو ہوا تھا بھولنا اتنا آسان نہیں تھا ،جب ایک ہنستی مسکراتی صبح قیامت میں تبدیل ہوگئی تھی۔ایک قیامت تھی جو آ کر گزر گئی تھی۔ لوگ سکتے کی کیفیت میں تھے۔ یقین آتا بھی تو کیسے؟ نہ کبھی دیکھا نہ سنا۔ یوں بھی کبھی ہوتا ہے کہ آن کی آن میں گاؤں کے گاؤں اور بستیوں کی بستیاں خاک ہو جائیں۔پاکستان کی تاریخ کا ناقابل فراموش زلزلہ 8 اکتوبر 2005 کو صبح 8 بجکر 50 منٹ پر آیا، جب آزاد کشمیر، اسلام آباد، ایبٹ آباد، خیبرپختونخوا اور ملک کے بالائی علاقوں پر قیامت ٹوٹ پڑی تھی، اور اس کا مرکز اسلام آباد سے 95 کلو میٹر دور اٹک اور ہزارہ ڈویژن کے درمیان تھا۔اس زلزلے سے مجموعی طور پر 6 لاکھ مکانات، 35 لاکھ کی آبادی اور 30 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ متاثر ہوا تھا۔ سب سے زیادہ عمارتیں مظفرآباد اور بالاکوٹ میں تباہ ہوئی تھیں جبکہ دوسرے متاثرہ علاقوں میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں واقع باغ اور راولا کوٹ کے علاوہ خیبر پختونخوا کے بٹگرام، ایبٹ آباد، ناران کاغان اور اسلام آباد شامل تھے۔2005 کے زلزلے میں تقریباً اسی ہزار سے زائد افراد جاں بحق جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے، لاکھوں مکانات منہدم اور اربوں روپے کی املاک تباہ ہوگئی، اسلام آباد جیسے شہر میں مارگلہ ٹاورز ، دکانیں ،سرکاری عمارات اور سینکڑوں گھر سب کچھ اس زلزلے کی نذر ہوگیا، بالاکوٹ مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔جب اس ہولناک زلزلے کے دوران جہاں اربوں روپے کی املاک تباہ اور ہزاروں انسان لقمہ اجل بن گئے وہاں سینکڑوں بچے بھی یتیم اور بے سہارا ہوکر رہ گئے، کئی اسکولوں کی تعمیر آج تک مکمل نہیں ہو سکی، کھربوں روپے کے فنڈ جاری ہوئے لیکن متاثرین آج بھی دربدر ہے.اس سے بچ جانے والے لوگ آج بھی سکتے کے عالم میں ہیں، اس سانحے کے زخم ابھی بھی تازہ ہیں، اس زلزلے نے کئی انسانی المیوں کو جنم اور کئی افراد کو عمر بھر کے لیے اپاہج کر دیا آج بھی سسک سسک کر زندگی گزار رہے ہیں۔
دنیا کی تاریخ حادثات اور قدرتی آفات سے بھری پُری ہے، بعض حادثات وآفات نے تو انسانی آبادی کے بڑے حصے کو چشم زدن میں صفحہٴ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا، آفات کئی طرح کی ہوتی ہیں، مثلا سیلاب، طوفان، وبائی امراض؛لیکن انسانی زندگی پر زلزلے کے اثرات دیگر قدرتی آفات کے مقابلے میں کہیں زیادہ خطرناک اور دیر پا ہوتے ہیں، زلزلوں کی ہلاکت خیزی جنگوں اور وبائی امراض سے کہیں زیادہ ہےاوران زلزلوں کی بڑی وجہ ہمارے اعمال بد ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (جب مندرجہ ذیل باتیں دنیا میں پائی جانے لگیں) تو اس زمانہ میں سرخ آندھیوں اور زلزلوں کا انتظار کرو، زمین میں دھنس جانے اور صورتیں مسخ ہوجانے اور آسمان سے پتھر برسنے کے بھی منتظر رہو اور ان عذابوں کے ساتھ دوسری ان نشانیوں کا بھی انتظار کرو جو پے در پے اس طرح ظاہر ہوں گی، جیسے کسی لڑی کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور لگاتار اس کے دانے گرنے لگیں (وہ باتیں یہ ہیں )
٭… جب مالِ غنیمت کو گھر کی دولت سمجھا جانے لگے۔٭…امانت دبالی جائے۔٭…زکوٰۃ کو تاوان اور بوجھ سمجھا جانے لگے۔٭…علم دین دنیا کے لیے حاصل کیا جائے۔٭…انسان اپنی بیوی کی اطاعت کرے اور ماں کی نافرمانی کرے۔٭…دوست کو قریب کرے اور اپنے باپ کو دور کرے۔٭…مسجدوں میں شور وغل ہونے لگے۔٭…قوم کی قیادت، فاسق وفاجر کرنے لگیں۔٭…انسان کی عزت اِس لیے کی جائے تاکہ وہ شرارت نہ کرے۔٭…گانے بجانے کے سامان کی کثرت ہوجائے۔٭…شباب وشراب کی مستیاں لوٹی جانے لگیں۔٭…بعد میں پیدا ہونے والے،امت کے پچھلے لوگوں پر لعنت کرنے لگیں۔(سنن الترمذی، رقم:211)
انصاف کے ساتھ موجودہ ماحول کا جائزہ لیجیے، مذکورہ باتوں میں سے کون سی بات ہے، جو اب تک نہیں پائی گئی ہے، مذکورہ ساری پیشین گوئیاں حرف بہ حرف پوری ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں،دھوکہ، بے ایمانی، کرپشن، سرکاری وعوامی چیزوں میں ناجائز تصرفات عام ہیں، مسلمانوں کے مالیات کا نظام بد سے بدتر ہے،والدین کی نافرمانی کے واقعات اب پرانے ہوگئے ہیں، بیوی کی اندھی محبت نے کتنے بنے بنائے گھر اجاڑ دیے، مساجد کا پرسکون اور قدسی ماحول پراگندہ ہوچکا ہے، عہدے اور مناصب اور قیادت وسیادت نا اہل کے ہاتھوں میں برسوں سے ہے، گانا، میوزک، فلم اور اِس طرح کی چیزوں کا بازار اتنا گرم ہے کہ الامان والحفیظ، اِس حوالے سے کچھ کسرباقی رہ گئی تھی، موبائل اور انٹر نیٹ کے منفی استعمال نے پوری کردی، ام الخبائث شراب کا شوق جہاں غیروں کو ہے، وہیں اپنے بھی اب پیچھے نہیں رہے، اور مرحوم علماء، صلحاء، اتقیا اورنیک لوگوں پر کیچڑ اچھالنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے، اور یہ ساری باتیں آج سے نہیں بہت پہلے سے ہیں، اللہ کے نبی نے چودہ سو سال پہلے ہی اِس کی اطلاع دی تھی، جہا ں یہ ارشاد ایک طرف اسلام کی حقانیت کی واضح دلیل ہے، وہیں دوسری طرف زلزلوں کی آمد کی وجوہات سمجھنے میں معین ومدد گاربھی ہے اور یہ وہی ماحول ہے ، جس کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے ارشاد فرمایا تھا: جب لوگ زنا کو حلال کرلیں، شراب پینے لگیں اور گانے بجانے کا مشغلہ اپنا لیں تو اللہ کی غیرت جوش میں آتی ہے اور زمین کو حکم ہوتا ہے کہ وہ زلزلہ برپا کردے۔
چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور ضابطہ ہے جس کی جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وضاحت فرما رہے ہیں۔ اس کے مطابق ہمیں جہاں یہ عقیدہ رکھنا ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے، وہاں یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے، سزا ہے، تنبیہ ہے، اور عبرت کے لیے ہے جس سے ہمیں سبق حاصل کرنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں ہمارا سب سے پہلا فریضہ یہ ہے کہ ہم توبہ و استغفار کریں، اپنے جرائم اور بداعمالیوں کا احساس اجاگر کریں، اپنی زندگیوں کو بدلنے کی کوشش کریں، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام کریں، معاشرے میں برائیوں کو روکنے اور نیکیوں کو پھیلانے کی محنت کریں، اور دین کی طرف عمومی رجوع کا ماحول پیدا کریں۔اور اُس قیامت خیز سانحے میں جاں بحق ہونے والے خواتین و حضرات کے لیے دعائے مغفرت کا اہتمام ضروری ہے۔ چونکہ وہ لوگ اچانک اور حادثاتی موت کا شکار ہوئے تھے اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق وہ شہداء میں شامل ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور بلندیٔ درجات کی دعا بھی ہم پر ان کا حق ہے اور ہمیں اپنی دعاؤں میں انہیں یاد رکھنا چاہیے۔