ائمہ حضرات کیلئے ایک مفید کتاب

ائمہ حضرات کیلئے ایک مفید کتاب
از قلم:… قاری محمد اکرام چکوالی
اس وقت میرے سامنےادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان کی ایک کتاب امامت کورس رکھی ہوئی ہے جوکہ میرے ایک بزرگ جناب محترم،مکرم پروفیسر حافظ عبد الشکور صاحب دامت برکاتہم لعالیہ( خلیفہ مجاز حضرت شیخ الحدیث صوفی محمد سرور صاحب رحمہ اللہ )نے انتہائی خلوص اور محبت سے عزیزم قاری تصور ا حمد حفظہ کے ہاتھ بھجوائی ہے۔ یہ کتاب جب میرے ہاتھ میں آئی تو یہ سوچ کرسرسری طور پر فہرست مضامین پرنظرڈالی اور ایک طرف رکھ دی کہ بعض میں دیکھوں گا ،ٹھیک تیسرے دن بعد حضرت والانے امامت کورس کتاب کے متعلق تاکیداً حکم فرمایا کہ امامت کورس کا مطالعہ ضرورو کرویہ تیرے لئے بہت مفید ہے۔
الغرض !اس کتاب کو خوبصورت انداز میں ترتیب دیا گیا ہےبالخصوص وہ ائمہ حضرات جو غیر عالم ہیںان سے راقم کی عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ اس امامت کورس کتاب کو ضرور پڑھیں اور اس پر عمل پیرا ہوکراس سے بربھرپور فائدہ اٹھائیںجہاں کوئی بات سمجھ سے باہر ہو اس کو اپنے مقامی مستند علماء سے سمجھ لیں ،اس کتاب میںامام کی تربیت انتظامیہ اور مقتدی حضرات کے لئے گراں قدر ہدایات ہیںمثلاً:… ائمہ کرام کے اوصاف اور ذمہ داریاں٭… امامت کے ضروری مسائل٭… امام اور مقتدی حضرات کا باہمی تعلق٭… موذن اور خدام مساجد٭… خطبہ جمعہ اور وعظ درس٭… امام اور متولی وانتظامیہ وغیرہم۔کیونکہ ائمہ مساجدہمارے معاشرے کا اہم کردار ہیں اور وہ لوگ ہیں جن کو ہم اپنے معاشرے کا مقدس ترین ادارہ یعنی”مسجد” حوالہ کرتے ہیں اور مسجد کے حوالے سے ہم اب تک بخوبی جان چکے ہیں کے یہ دیگر عبادت خانوں کی طرح صرف مذہبی رسوم و عبادت ادا کرنے کی جگہ نہیں ہے بلکہ مسجد کا ایک اسلامی معاشرے میں بہت وسیع کردار ہے جو صوم و صلاۃ سے بڑھ کر ہماری زندگی کے بہت سے زندہ مسائل سے تعلق رکھتاہے قابل غور پہلو ہے کہ ہماری ہر گلی میں مسجد ہونے کے باوجود ہم اس مسجد کے آس پاس رہنے والوں تک دین کا پیغام جس طرح پہنچانے کا حق ہے ہم نہیں پہنچا رہے اور یہ لوگ مسجد کی تمام ضرورتوں کو پورا کر رہے ہیں ، اس کے بدلے ہمیںمسجد کا امام ہونے کی حیثیت سے ان کی دینی ضرورت کا کتنا خیال رکھ رہے ہیں ؟ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا پنج وقتہ مقتدی جب اپنے گھر جاتا ہے اور آج کے مروج ذرائع ابلاغ ٹی وی،موبائل ،انٹرنیٹ،اخبار وغیرہ کی طرف بڑھتا ہے تو اس دجالی میڈیا کا نہ ختم ہونا والاجو جال ہے اس کی طرف بڑھتا ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہم سے اتنا قریب رہنے کے با وجود دور کیوں ہوتا جا رہا ہے ؟اور غیروں سے اجنبیت کا تعلق ہونے کے با وجود ان کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملاتا جا رہا ہے ،حالانکہ اگر ہم خلوص دل اور محنت کے ساتھ دین کا پیغام اس تک پہنچانا چاہیں تو وہ شخص ہم سے آسانی اور بہت خوبی کے ساتھ بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔تو کیا اس سلسلے میں ہماری یہ ذمہ داری نہیں بنتی کہ ہم ان تمام لوگوں کی تعلیم و تربیت کا مضبوط انتظام کریں،تاکہ ان تمام نمازیوں کا مسجد آنا جانا ان کے اپنے لیے اور اس معاشرے کے لیے اصلاح کا ذریعہ بن جائے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ان پر خلوص اور بھرپور توجہ سے محنت کی جائے تو ان کی ایمانی،اخلاقی،معاشرتی اور تجارتی زندگی میں ایک دینی رنگ چھا سکتا ہے ۔
ائمہ مساجد کا اصل مقصد مسجد اور اس مسجد کے آس پاس کے ماحول کو صالح ماحول میں بدلنا ہوتا ہے۔امام مسجد کا کردار اس ماحول میں موجود تمام لوگوں کے لیے مثالی بن جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ :… امام کا تعلق علاقہ مکینوں کے ساتھ صرف مصافحہ کی حد تک نہ ہو بلکہ ان کے احوال کی بھرپور فکرمندی جیسا رویہ ہو۔٭… جنازہ اور نکاح نہ پڑھانا ہو تب بھی شرکت کا اہتمام کیا جائے –٭… مقتدیوںکے دکھ درد میں شریک ہونے کا اہتمام کیا جائے۔٭… مقتدیوں کے علاوہ دیگر علاقہ مکین سےبھی تعلق رکھا جائے اور مل جل کر بیٹھنے کا اہتمام کیا جائےاوراس میں امیر غریب ،صاحب استطاعت اور بے روزگار میں امتیاز نہ برتا جائے ۔٭… جتنا زیادہ ہو سکے اہل سنت والجماعت کے عقیدے کو فروغ دیا جائے ورنہ فرقہ واریت کے خدشات بڑھ جائیں گے۔٭… نوجوانوں کے پوچھے گئے سوالات کو بالکل بھی نظر انداز نہ کیا جائے بلکہ چھوٹے بڑے تمام سوالات کو اہمیت دی جائے، چاہےوہ سوالات کسی بھی حوالے سے ہوں جن میں خاص کر موجودہ میڈیائی فتنے شامل ہیں جن کو دیکھ کر ان نوجوانوں کے ذہنوں میں دین ،ایمان ،توحید ،رسالت اور آخرت سے متعلق شکوک و شبہات پیدا ہوتے جارہے ہیں ۔ ان سوالات کا اگر بر وقت تسلی بخش جواب نہ دیا گیاتو ان کا ایمان خطرے میں پڑسکتا ہے ،اگر امام صاحب غیر عالم ہیں تو کسی مستند عالم کی طرف سوال کرنے والے نوجوان کی رہنمائی کی جائے٭… نو جوانوں کو ان کے مسائل میں ائمہ مساجد رہنمائی نہیں کریں گے تو وہ اپنے مسائل و اشکالات کو بھلا بیٹھنے والے نہیں بلکہ وہ انہی مسائل کے ساتھ جب مختلف تجدد پسند یا گمراہ فکر کے حامل لوگوں تک پہنچتے ہیں تو وہ انہیں اپنے طور ان مسائل کا حل پیش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ علماء اور تمام تر روایتی فکر سے منحرف ہو جاتے ہیں۔٭… ائمہ مساجد اس بات کے حریص ہوں کہ انکے وجود سے علاقہ مکین کو جتنا زیادہ دینی فائدہ ہو سکے تو ہو اور اس تعاون میں وہ جی بھر کر شریک ہوں۔٭… جو بھی بات کہی جائے وہ لوگوں کی ذہنی سطح،ماحول اور ضرورت کے اعتبارسے کی جائے۔٭… ائمہ مساجد سب سے پہلے اس بات کا جائزہ لیں کہ ان کے مقتدی قرآن کریم پڑھ سکتے ہیں یا نہیں اگر پڑھ سکتے ہیں تو ان کو بہت شوق و محبت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کے مستقل معمول کا عادی بنایا جائے،تاکہ اسے بلاناغہ معمول بنالیں ۔جس کے نتیجے میں ان کے گھر ،دفتر،دکان ،مسجد ہر جگہ تلاوت قرآن کریم کی گونج عام ہو جائے ۔٭… اور اگر قرآن نہیں پڑھے ہوئے تو پہلےکلمہ،نماز ،تسبیحات،آیۃ الکرسی،تیسویں پارے کی آخری دس سورتیں،دعائے قنوت اور دعائیں وغیرہ سکھائی جائیں ،ان بنیادی امور کے سکھانے میں بالکل بھی دیر نہ کی جائے اس کے بعد قرآن کریم ناظرہ پڑھایا جائے اور ہوسکے تو فضائل کی مختلف سورتیں مثلا یٰس ،رحمن، کہف اور عم پارہ وغیرہ حفظ کرایا جائے۔ اس طرح ایک عام شخص کا دینیات اور قرآن کریم کی بنیاد کے ساتھ ایک مضبوط تعلق پیدا ہوجائے گا ان شاءاللہ۔٭… ضرورت اس امر کی ہے کہ ائمہ کرام مساجد میں میں قرآنی فکر کو بہت آسان اور معیاری انداز میں امت تک پہنچائیں ، مدارس میں قرآن کریم کو جس محنت کے ساتھ ہمیں سکھایا گیا تھاضروری ہے کہ ہم بھی اس محنت کے بدلے قرآن کے پیغام کو پھیلانے کی سعی کریں ۔ قرآن کے ذریعے عقائد و نظریات پر خاص طور پر محنت کی جائے ، یہ ایسا دور ہے کہ جس میں باطل عقیدہ اور فکر پر ہر پل حملہ آور ہے ،آزادی،مساوات اور ترقی کے نام پر تابڑ توڑ حملے کیے جارہے ہیں ،بہت کثیر تعداد میں افراد اور وسائل صرف کیے جارہے ہیں ،میڈیا ،تعلیم ہر طرح سے کوشش کی جارہی ہے کہ ایک مسلمان کا عقیدہ کسی نہ کسی طرح کمزور یا مشکوک بنایا جائے۔
جب تمام ائمہ مساجد اپنی اپنی مساجد میں یہ کام اس فکر کے ساتھ شروع کریں کہ میرے اس کام کا مقصد فرد ،معاشرہ اور ریاست کی اصلاح ہے ۔ اسی طرح یہ کام ہرعلاقہ ، شہراور ملک میں ہونے لگے تو بعید نہیں کہ 20 سے 30 سال کے اندر اندر امت مسلمہ کی تقدیر ہی بدل جائے ان شاءاللہ۔ اس لیے راقم کا تمام ائمہ حضرات کو مشورہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ کے لیے اپنی مصروف زندگی سے تھوڑا بہت وقت ضرور نکالیں۔ مطالعہ ہی انسان کے ذہن پر لگے جالے صاف کرتا ہے اور فکری وسعت عطا کرتا ہے۔ زیر تذکرہ کتاب میں سوچنے سمجھنے اور جاننے اور اس پر عمل کرنے کے لئے بہت کچھ موجود ہے۔