(۲)محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی دوسری خصوصیت(کاملیت)

کسی انسانی سیرت کے دائمی نمونہ عمل بننے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کی زندگی کے تمام حصے ہمارے سامنے ہوں، کوئی واقعہ پردہ راز میں اورناواقفیت کے اندھیر ے میں گم نہ ہوں، اس کی زندگی کے حالات روزِروشن کی طرح دنیا کے سامنے عیاںہوں ؛تاکہ معلوم ہو کہ اس کی سیرت کہا ں تک انسانی سوسائٹی کیلئے ایک آئیڈیل زندگی کی صلاحیت رکھتی ہے، پیغمبرِ اسلام کی زندگی کا ہر لمحہ پیدائش سے لیکر وفات تک آپﷺ کے زمانہ کے لوگوں کے سامنے اور آپﷺ کے وصال کے بعد اقوامِ عالم کے سامنے موجود ہے، حضوراکرمﷺاپنے اہلِ وطن کی آنکھوں سے کبھی اوجھل نہ رہے، پیدائش،شیر خواری، بچپن،جوانی، تجارت، شادی،احباب، قبل نبوت امین بننا اورخانہ کعبہ میں پتھر نصب کرنا، غارحراء کی گوشہ نشینی، وحی، دعوت وتبلیغ، مخالفت، سفرِ طائف، معراج،ہجرت، غزوات،حدیبیہ کی صلح، دعوت اسلام کے خطوط وپیغام، حجۃ الوداع،وفات ؛ان میں سے کون سا زمانہ ہے جو دنیا کی نگاہوں کے سامنے نہیں اورآپﷺ کی کون سی حالت ہے جس سے اہلِ تاریخ ناواقف ہیں؟ آپ کا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، شادی بیاہ، بیوی بچے،دوست احباب، عبادت وبندگی،صلح وجنگ آمدورفت، سفر وحضر،نہانا دھونا، کھانا پینا،ہنسنا رونا، پہننا اوڑھنا،چلنا پھرنا، ملنا جلنا، خلوت وجلوت،طور طریق، رنگ و بو،خد و خال، قدوقامت یہاں تک کہ میاں بیوی کے خانگی تعلقات کے واقعات ہر چیز پوری روشنی میں مذکور اورمحفوظ ہے،آنحضرت ﷺ خلوت میں ہوں یا جلوت میں مسجد میں ہوں یا میدانِ جہاد میں، نماز میں مصروف ہوں یا فوجیوں کی درستی میں،منبر پر ہوں یا گوشہ تنہائی میں ہروقت اور ہر شخص کو حکم تھا کہ جو کچھ میری حالت اورکیفیت کودیکھے وہ سب منظر عام پر لایا؛ اِس اخلاقی وثوق اور اعتماد کی مثال کہیں نہیں مل سکتی،آپﷺ کی زندگی کا کوئی پہلو زیر پردہ نہیں، ایک اور حیثیت سیغور فرمائیے،آنحضرتؐ ہمیشہ صرف اپنے معتقدوں ہی کے حلقہ میں نہیں رہے؛ بلکہ مکہ میں قریش کے مجمعوں میں رہے، نبوت سے پہلے چالیس برس اُن ہی کے ساتھ گذرے،وہ بھی گوشہ نشینی میں نہیں بلکہ تاجرانہ لین دین اورکاروبار کی زندگی گذاری جس میں صادق وامین کے لقب سے مشہور ہوئے، نبوت کے بعد بھی لوگوں کو آپﷺ پر یہ اعتماد تھا کہ اپنی امانتیں آپﷺ ہی کے پاس رکھواتے، دعوائے نبوت پر قریش نے مخالفت اوردشمنی کی تمام حدیں پارکرلیں؛ لیکن آپﷺ کے اعمال واخلاق کے خلاف ایک حرف بھی زبان سے نہ نکال سکے،سیرت محمدیؐ دنیائے اسلام کا عالم گیر آئینہ ہے اور جوکوئی اِس آئینہ میں اپنی زندگی سنواریگا وہ دنیا میں بھی کامیاب زندگی گذارے گا اور مرنے کے بعد بھی اُس کوہمیشہ ہمیش کی کامیابی وکامرانی نصیب ہوگی؛ اس لیے تمام انسانیت کے لیے یہی ایک کامل نمونۂ حیات ہے ۔
)۳(محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی تیسری خصوصیت)جامعیت(
دنیا کے ادیان ومذاہب نے خدا کی محبت کا اہل بننے اور ایک اچھی پاکیزہ اور کامیاب زندگی گزارنے کے لیے ایک ہی تدبیر بتائی ہے کہ اُس مذہب کے شارع نے جو عمدہ نصیحتیں کی ہیں ان پر عمل کیا جائے؛ لیکن اسلام نے اس سے بہتر تدبیر یہ بتائی کہ اُس نے اپنے پیغمبرکا عملی نمونہ انسانیت کے سامنے رکھ دیااور اسے تمام انسانوں کے لیے اسوہ اور آئیڈیل قرار دیا۔
دنیا میں لوگ جس مذہب کے بھی ماننے والے ہوں یہ ناممکن ہے کہ سب ایک ہی صف انسانی سے تعلق رکھتے ہوں؛ بلکہ دنیا کا یہ نظام مختلف پیشوں اور مختلف کاموں سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور ان کے باہمی تعاون سے چل رہا ہے اور یہ مختلف پیشوں میں بٹ جانا اور ہرایک کا الگ الگ کام کاج میں لگ جانا بہت ضروری تھا؛ تاکہ دنیا کا یہ نظام چل سکے اور سب کی ضروریات بھی پوری ہوتی رہیں؛ چنانچہ دنیا میں بادشاہ اور حکام بھی ہیں اور مطیع وفرماں برداررعایا بھی،قاضی اور جج بھی ہیں مجرم وسزاوار بھی فوجوں کے سپہ سالار بھی ہیں اور ان کے ماتحت عام فوجی بھی غریب بھی ہیں اور دولت مند بھی،رات کے عابد، زاہد بھی ہیں اوردن کے سپاہی ومجاہد بھی،اہل وعیال بھی ہیں اور دوست واحباب بھی،تاجر اور سودا گر بھی ہیں اور امام وپیشوا بھی تو اِن تمام مختلف قسم کی مصروفیات رکھنے والے لوگوں کواپنی اپنی زندگی کے لیے عملی مجسمہ اور نمونہ کی ضرورت تھی،تواِس اعتبار سے اور دوسرے انسانی زندگی مختلف اوقات میں مختلف کیفیات سے دوچار ہوتی ہے؛کبھی راضی ہیں توکبھی ناراض، کبھی خوش ہیں توکبھی غم زدہ، کبھی مصائب سے دوچار ہیں کبھی نعمتوں سے مالا مال،کبھی ناکام ہوتے ہیں کبھی کامیاب توان سب حالتوں میں بھی ہم کوعملی سیرت کی ضرورت تھی؛مگر وہ کہاں مل سکتی ہے ؟وہ صرف اور صرف محمدرسول اللہؐ کی عملی زندگی میں مل سکتی ہے۔
ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر انسانی جماعت کے لیے کافی ہو اور انسان کے مختلف احوال وکیفیات کے اعتبارسے ہر قسم کے صحیح جذبات اورکامل اخلاق کا نمونہ ومجموعہ ہوتووہ صرف محمدرسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ ہی میں نظر آئیگا؛اگر تم دولت مند ہو تو مکہ کے تاجرکی تقلید کرو؛اگر غریب ہوتوشعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو؛اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو؛اگر رعایا ہوتو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو؛ اگر فاتح ہوتو بدر وحنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ؛اگر تم نے شکست کھائی ہے تومعرکۂ احد سے عبرت حاصل کرو؛ اگر استاد ومعلم ہوتو صفہ کی درسگاہ کے معلم اور ناصح کو دیکھو؛ اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ؛اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو؛ اگر تنہائی وبیکسی کے عالم میں حق کے منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یار ومددگار نبی علیہ السلام کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہو؛ اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اورمخالفوں کوکمزوربناچکے ہوتوفاتح مکہ کا نظارہ کرو؛اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر،خیبر وفدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو؛ اگر یتیم ہو تو عبداللہ وآمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو؛اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو؛ اگر تم جوان ہو تومکہ کیایک چرواہے کی سیرت پڑھو؛اگر سفری کاروبار میں ہوتو بصرٰی کے کاروان ِسالار کی مثالیں ڈھونڈو؛اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کودیکھو جو حجر اسود کو کعبہ کے ایک گوشے میں کھڑا کررہا ہے اورمدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو جس کی نظر انصاف میں شاہ وگدا اور امیر وغریب برابر تھے؛ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو؛ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہ رضی اللہ عنہا کے باپ اور حسنؓ وحسینؓ کے نانا کا حال پوچھو؛غرض تمہاری جوبھی حیثیت ہو اور کسی حال میں بھی ہو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ اور تمہاری سیرت کی درستی واصلاح کے لیے سامان،تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ وراہنمائی کا نور محمدرسول اللہﷺ کی جامعیت کبرٰی کے خزانے میں ہر وقت وہرلحظہ مل سکتا ہے۔
بادشاہ ایسیکہ ایک پورا ملک اُن کی مٹھی میں ہو اور بے بس ایسے کے خود اپنی ذات کو بھی اپنے قبضہ میں نہ جانتیہوں؛ دولت مند ایسے کہ خزانے کے خزانے اونٹوں پر لدے ہوئے ان کی حکومت میں آرہے ہیں اور محتاج ایسے کہ مہینوں ان کے گھر چولہا نہ جلتا ہو اور کئی کئی وقت ان پر فاقے گزر جاتے ہوں،سپہ سالار ایسے کہ مٹھی بھر نہتے آدمیوں کو لے کر ہزاروں اٰلاتِ حرب سے لیس فوجوں سے کامیاب لڑائی لڑے ہوں اور صلح پسند ایسے کہ ہزاروں پر جوش جاں نثاروں کی ہمرکابی کے باوجود صلح کے کاغذ پر بے چون وچرا دستخط کردیتے ہوں،شجاع اور بہادر ایسے کہ ہزاروں کے مقابلہ میں تن تنہا کھڑے ہوں اور نرم دل ایسے کہ کبھی آپﷺ نے انسانی خون کا ایک قطرہ بھی اپنے ہاتھ سے نہ بہایا ہو،باتعلق ایسے کہ عرب کے ذرہ ذرہ کی ان کو فکر،بیوی بچوں کی ان کو فکر،غریب ومفلس مسلمانوں کی ان کو فکر،خدا کی بھولی ہوئی دنیا کے سدھارکی ان کو فکر،غرض سارے جہاں کی آپﷺ کو فکر اور بے تعلق ایسے کہ اپنے خدا کے سوا کسی اور کی یاد ان کو نہ ہو،آپﷺ نے کبھی اپنی ذات کے لیے اپنے کوبُرا کہنے والوں سے بدلہ نہیں لیا اور اپنے ذاتی دشمنوں کے حق میں دعائے خیر کی اور ان کا بھلا چاہا؛ لیکن خدا تعالی کے دشمنوں کو کبھی معاف نہیں کیا اور حق کا راستہ روکنے والوں کو ہمیشہ جہنم کی دھمکی دیتے اور عذاب الہی سے ڈراتیرہے۔
دنیا کے عام بادشاہوں کی طرح آپﷺکی زندگی عیش وآرام طلبی کی نہ تھی ؛بلکہ جب آدھا عرب آپ ﷺ کے زیرِحکومت تھا،حضرت عمرؓ حاضر دربار ہوتے ہیں اِدھر اُدھر نظر اٹھاکر آپ ﷺکے حجرۂ مبارکہ کے سامان کا جائزہ لیتے ہیں توکیا دیکھتے ہیں کہ آپﷺ ایک کھڑی چار پائی پر آرام فرمارہے ہیں، جسمِ مبارک پر چار پائی کی رسی کے نشان پڑگئے ہیں،ایک طرف مٹھی بھر جورکھے ہیں ایک کھونٹی پر خشک مشکیزہ لٹک رہا ہے،سرورِ کائنات ﷺ کے گھر کی یہ کل کائنات دیکھ کر حضرت عمرؓ رو پڑتے ہیں،سبب دریافت ہوتا ہے، توعرض کرتے ہیں یا رسول اللہﷺ اس سے بڑھ کر رونے کا اور کیا موقع ہوگا ؟قیصر وکسری باغ وبہار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور آپﷺ پیغمبر ہو کر اس حالت میں ہیں، ارشاد ہوتا ہے عمرؓ کیا تم اِس پر راضی نہیں کہ قیصر وکسریٰ دنیا کے مزے لوٹیں اور ہم آخرت کی سعادت۔
فتح مکہ سے پہلے آنحضرتﷺ کے سب سے بڑے دشمن سردارِ مکہ ابوسفیان تھے، فتحِ مکہ کے موقع پر جب وہ حضرت عباسؓ کے ساتھ کھڑے ہوکر اسلامی لشکر کا جائزہ لے رہے تھے توکیا دیکھتے ہیں کہ رنگ رنگ کی جھنڈیوں کے سایہ میں اسلام کا دربار امنڈتا آرہا ہے، قبائل عرب کی موجیں جوش مارتی ہوئی بڑھتی چلی آرہی ہیں، ابو سفیان کی آنکھیں اب بھی دھوکہ کھاتی ہیں، وہ حضرت عباسؓ سے کہتے ہیں عباس تمہارا بھتیجا تو بہت بڑا بادشاہ بن گیا، حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی آنکھیں کچھ اور ہی دیکھ رہی تھیں، فرمایا: ابوسفیان یہ بادشاہت نہیں، نبوت ہے۔
یہ نبوت بھی ایسی کہ جوسارے انبیاء علیہم السلام کی نبوت وکارہائے نبوت کواپنے اندر بڑے خوش اسلوبی کے ساتھ سمیٹی ہوئی ہے؛ اگرہم مشہور وجلیل القدر انبیاء علیہم السلام کی زندگیوں کا انفرادی طور پر طائرانہ جائزہ لیں تواندازہ ہوگا کہ اُن کی کارِ نبوت کاپورا زور کدھر تھا اورہمارے آقاﷺ کا کدھر کدھر، مثلاً حضرت نوحؑ کی زندگی کفر کے خلاف غیظ وغضب کا ولولہ پیش کرتی ہے، حضرت ابراہیمؑ کی حیات بت شکنیوں کا منظر دکھاتی ہے، حضرت موسیؑ کی زندگی کفار سے جنگ وجہاد کی مثال پیش کرتی ہے،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی خاکساری،تواضع،عفو ودرگزر اور قناعت کی تعلیم دیتی ہے،حضرت سلیمانؑ کی زندگی شاہانہ الوالعزمی کی جلوہ گاہ ہے، حضرت ایوب علیہ السلام کی حیات صبر وشکر کا نمونہ ہے،حضرت یونسؑ کی سیرت ندامت اور انابت اور اعتراف کی مثال ہے، حضرت یوسف ؑ کی زندگی قید وبند میں بھی دعوت حق اور جوش تبلیغ کا درس دیتی ہے، حضرت داؤدعلیہ السلام کی سیرت گریہ وبکا حمد وستائش اور دعا وزاری کا نمونہ پیش کرتی ہے، حضرت یعقوبؑ کی زندگی امید،خدا پر توکل اور اعتماد کی مثال ہے؛ لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت مقدسہ میں نوحؑ، ابراھیمؑ، موسیؑ، عیسیؑ، سلیمانؑ، داؤدؑ، ایوبؑ، یونسؑ، یوسفؑ اور یعقوبؑ )علیہم السلام( سب کی زندگیاں اور سیرتیں سمٹ کر سما گئی ہیں؛اس لیے اعلان عام ہے:
“قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّھَ فَاتَّبِعُونِی”۔
)ال عمران:۳۴(

اگر تم کو اللہ کی محبت کا دعوی ہے،توآؤ میری پیروی کرو۔
اگر تم بادشاہ ہو تو میری پیروی کرو؛اگر تم رعایا ہو تو میری پیروی کرو؛ اگر تم سپہ سالار ہو یا سپاہی ہو تو میری پیروی کرو؛ اگرتم استاذ ومعلم ہو تو میری پیروی کرو؛اگر دولت مند ہو تو میری پیروی کرو،اگر غریب ہوتو میری پیروی کرو؛اگر بے کس ومظلوم ہوتو میری پیروی کرو؛اگر تم خدا تعالی کے عابد ہو تومیری پیروی کرو؛غرض جس نیک راہ پر بھی تم ہو اور اُس کے لیے بلند سے بلند اور عمدہ سے عمدہ نمونہ چاہتے ہوتو میری پیروی کرو۔