(۱)انبیائے کرام علیہم السلام اور اُن کے فرائض

ہم سب سے زیادہ اُن چنندہ وبرگزیدہ، پاک ومقدس ہستیوں کے شکرگذار ہیں کہ جن کوہم انبیاء علیہم السلام کہتے ہیں، جن کی اس دنیا میں آمد کی برکت سے دنیا میں جہاں کہیں بھی ایک اللہ کی پرستش، عبادت کی مختلف شکلیں، نیکی کی روشنی، اچھائی کا نور، اخلاص وللّٰہیت کی عملی شکل وصورت، دل کی صفائی کا اجالا، رحم وکرم، عدل وانصاف، غریبوں کی مدد، یتیموں کی پرورش، بے واؤں کا سہارا، بیماروں کی تیمارداری، محتاجوں وضرورتمندوں کی مدد ونصرت، اخلاق کی بہتری، مختلف حالتوں میں انسانی قویٰ میں اعتدال ومیانہ روی پیدا کرنے کی کامیاب کوششیں ملتی ہیں؛ خواہ وہ پہاڑوں کے غاروں، جنگلات کے جھنڈوں، ریگستانوں کے کھلے میدانوں، دریاؤں وسمندروں کے کناروں پر ہوں یاشہروں وبستیوں کی آبادیوں میں وہ سب کی سب اِنہی انبیاء علیہم السلام میں سے کسی نہ کسی فرد سے منسلک ہوں گی؛ اورانہی کی ہدایات وتعلیمات ہی کا نتیجہ ہوگا کہ جن کے ذریعہ ہماری اندرونی حرص وھویٰ کی چالیں درست ہوئیں اور انہوں نے ہی ہمارے روحانی بیماریوں کے علاج کے نسخے ترتیب دئے اور ہمارے جذبات، احساسات اور ارادوں کے نقشوں کودرست کیا اور ہمارے نفوس وقلوب کے عروج ونزول کی کیفیات کوحداعتدال میں رکھنیکے فن ترتیب دئے جن سے مادی وروحانی زندگی کے صحیح تمدن وحسنِ معاشرت کی تکمیل ہوئی، اچھی سیرت وحسنِ اخلاق، انسانیت کا جوہر قرار پایا؛ نیکی وبھلائی، ایوانِ عمل کے نقش ونگار ٹھہرے، اللہ وبندہ کے درمیان باہم روابط مضبوط ہوئے؛ الغرض ہرزمانہ میں لوگ انبیاء علیہم السلام ہی کی عملی زندگی کودیکھ دیکھ کراپنی دنیوی زندگی کے تمدن، حسنِ معاشرت وحسنِ معاملگی کوسیکھ کراس پر عمل کرتے رہے اور منشائے خداوندی کے مطابق اپنی زندگی کے شب وروز گذارتے رہے تاکہ اخروی دائمی زندگی کے چین وسکون کورضائے الہٰی وجنت کی شکل وصورت میں پاسکیں۔
خاتم النبیین حضرت محمدﷺکے اسوۂ حسنہ میں قیامت تک آنیوالی انسانیت کی نجات ہے
یہ دنیا امتحان گاہ ہے ایک دن اِس کو ختم ہونا ہے توجس طرح ایک دن یہ ختم ہوگی اُسی طرح اُس میں پیدا ہونے والی انسانیت کوبھی ختم ہونا ہے اور انبیا علیہ السلام کی آمد کا سلسلہ انسانوں میں ہی ہوا کرتا تھا؛ لہٰذااِس آمدِ انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ کوبھی ختم ہونا تھا تویہ سلسلہ آدم علیہ السلام سے لیکر محمدﷺ تک چلتا رہا؛ چونکہ اللہ تعالیٰ نے محمدﷺ ہی کووجہِ کائنات، سرورِ دوعالم، اشرف الانبیاء اورخاتم الانبیاء بنایا ہے اس لیے اس کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ آپﷺ کی تشریف آوری سب سے اخیر میں ہو؛ تاکہ لوگوں پر بھی ظاہرہوجائے کہ آپﷺ کس طرح اشرف الانبیاء، افضل الانبیاء اور خاتم الانبیاء ہیں، یہ ہم اپنے مذہبی عقیدہ کی بنیاد پرمحض کوئی دعویٰ نہیں کررہے ہیں؛ بلکہ یہ ایک واقعی حقیقت ہے جس کی بنیاد دلائل وشواہد پر قائم ہے۔
آپﷺ کی بعثت کے بعد سے قیامت تک آنے والی انسانیت کے لیے اگرکوئی کامل ومکمل لائقِ عمل وقابل تقلید زندگی ہے تووہ صرف اور صرف محمد ﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہے آپﷺ کے علاوہ کسی نبی ورسول کی زندگی اس طرح مضبوط طریقہ پر محفوظ نہیں ہے جس طرح آنحضرتﷺ کی سیرت محفوظ ہے، دیگرانبیائعلیہم السلام کی مکمل سیرت محفوظ رکھنے کی اب چنداں ضرورت بھی نہیں ہے؛ اس لیے کہ ہر نبی ورسول کا وقت، علاقہ، قوم وبستی متعین ومحدود تھی؛ اس لیے اللہ تعالیٰ اس وقت تک، اس قوم کی حد تک، اُن کی زندگیوں کومحفوظ رکھا تھا؛ اب چونکہ اُن کی نبوت ورسالت کا دور ختم ہوچکا ہے؛ اس لیے اُن کی تاریخی زندگیاں بھی تکوینی طور پرمحفوظ نہیں رکھا گیا ؛ اب چونکہ محمدﷺ کی نبوت ورسالت کا دور ہے جو کہ آپﷺ سارے عالَموں کے، رہتی دنیا تک کے، جن وانس کے نبی ورسول ہیں؛ اِس لیے آپﷺ کی پوری عملی زندگی مختلف انداز وطریقوں سے محفوظ کی گئی؛ تاکہ جن وانس کے مختلف احوال ومصروفیات کے اعتبار سے ایک کامل ومکمل، بہترین نمونۂ حیات ثابت ہو، آپ ﷺ کی سیرتِ پاک میں ہرآدمی کواس کے اپنے احوال ونسبتوں کے اعتبار سے ایک بہترین زندگی گذارنے کا طریقہ میسر آئے۔
محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے سیرت کی اہمیت اسلام کی نظر میں
اسلام میں سیرتُ النبیﷺ کی اہمیت اور مقام ومرتبہ اُتناہی اہمیت کا حامل ہے جتنا کہ کتاب اللہ کا یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی رہبری ورہنمائی اور زندگی گذارنے کے دستور کوکتاب یعنی قرآن مجید کی شکل میں نازل فرمایا اُسی طرح اُس پر عمل آوری کی بہترین شکل وصورت اور انسانوں کے لیے سب سے عمدہ اُسوہ ونمونہ صاحبِ کتاب یعنی حضرت محمدﷺ کی شکل وصورت میں مبعوث فرمایا، جس طرح پورا قرآن کریم انسانی زندگی کے لیے کتابی دستور کی حیثیت رکھتا ہے اُسی طرح آنحضرتﷺ کی پوری عملی زندگی عملی دستور وقانونِ الہٰی کی حیثیت رکھتی ہے؛ اسی کوبتلانے اورسمجھانے کے لیے خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
“وَمَایَنْطِقُ عَنِ الْھَوَیo إِنْ ھُوَإِلَّاوَحْیٌ یُوحَیo”۔
)النجم:۴،۳(

یعنی آپﷺ قرآنِ مجید کے علاوہ جوبات بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ وحی الہٰی ہی ہوتی ہے، یعنی آپﷺاپنی طرف سے کچھ نہیں فرماتے جوکچھ بھی ارشاد فرماتے ہیں وہ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے، بس!فرق صرف اتنا ہے کہ وہ وحی غیرمتلو یعنی حدیث ہوتی ہے جس کونماز میں قرآنِ شریف کے طور پر نہیں پڑھ سکتے، باقی حکم وعمل کے اعتبار سے دونوں برابر درجہ کے ہیں، وحی غیرمتلو میں حکم وعمل کے اعتبار سے جوتخفیف ہوئی ہے وہ قوتِ دلیل میں کمی کی وجہ سے ہے؛ ورنہ توقرآن اور آپﷺ کی عملی زندگی اعتقاد، حکم اورعمل کے اعتبار سے دونوں برابردرجہ کے ہیں؛ اس کو سمجھنے کے لیے دل میں عشقِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحب حبیب اللہﷺ کی چنگاری کی ضرورت ہے، جب وہ چنگاری سُلگ کربڑھتے بڑھتے ایک شعلہ جوّالہ بن جاتی ہے تواس وقت جب ایک سچے امتی کو صحیح طریقہ پر معلوم ہوجاتا ہے یہ آنحضرتﷺ کا قول وفعل ہے توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہراداء کی نقل اتارنے کوباعثِ فخر وسعادت اورقرب خداوندی میں رفعِ درجات کا سبب سمجھتا ہے توپھر وہ حضراتِ صحابہؓ ہی کی طرح عشقِ نبیﷺ وحب نبیﷺ میں ڈوب کرسرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک اداء کی نقل اُتارنے کوفرضِ لازمی کیدرجہ میں لیکر پوری کیفیات واحساسات کے ساتھ ادائیگی پرمرمٹنے کوہروقت وہمہ تن تیار ہوجاتا اور وہ اپنی زندگی کے اُن احوال اور اُن اعمال پر فخر کرتا ہے جن میں عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں غرق ہوکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اداء کی نقل اتاری ہو۔
سیرتِ مبارکہﷺپڑھنے اورسننے کے فوائد
سرورِ کونین، آقائے نامدار، تاجدارِمدینہ حضرت محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ کا بار بار مطالعہ کرنے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے متعلق بارہا بیانات سنتے رہنے کے بے شمار فوائد ہیں جن میں سے چند یہاں ذکر کیے جارہے ہیں:
)۱(وہ اپنے آپ کوآنحضرتﷺ کی مجلس میں بارہا پاتے رہتا ہے اور اپنی عملی زندگی میں ویسا ہی کچھ کرتے رہنیکی کوشش کرتا ہے جوآنحضرتﷺ کوکرتے یاکہتے رہنے کا مطالعہ کرتا یاسنتا ہے۔
)۲(سیرت النبیﷺکے مطالعہ سے مسلمان کے حوصلے وعزائم برھتے ہیں جن کی مدد سے امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے پر وہ آسانی سے قادر ہوجاتا ہے۔
)۳(سیرت کی برکت سے مسلمان کے اندر حکمت ودانائی، بصیرت وفراست میں ترقی ہوتی ہے اور دوراندیشی پیدا ہوتی ہے، جس سے آدمی خطرات ونقصانات سے بچتے رہتا ہے اور ایک محتاط زندگی گذارنے کا عادی ہوتا ہے۔
)۴(آپﷺ اللہ تعالیٰ کا پیغام ہم تک پہنچانے کی خاطر جوجومصیبتیں وتکلیفیں برداشت کیئے اُن کا مطالعہ کرنے سے ہمارے اندر بھی آپﷺ سے عشق ومحبت اور اسلامی فداکاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور اپنے اندر نیکیوں پر عمل کرنے میں جودشواری اور برائیوں سے بچنے میں جوتکلیف محسوس ہوتی ہے اس پر صبرکرنے اور اس کو برداشت کرلینے کی صفت پیدا ہوتی ہے اور اسلام کی خاطر ان کوبرداشت کرلینے پر جوبشارتیں اور خوشخبریاں ہیں اس کو پڑھنے سے رنج وغم دور ہوکر ایک خوشی ومسرت پیدا ہوتی ہے اور ہروقت دل ودماغ میں تازگی وفرحت، سرور وانبساط کی کیفیت رہتی ہے۔
)۵(سیرت النبیﷺ کا مطالعہ ہزاروں لچھے دار تقاریر کے بالمقابل، پندونصائح اور عبرت آموزی کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔
)۶(آنحضرتﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے انصاف پسند طبائع یہ اندازہ قائم کرسکتی ہیں کہ اللہ کے پیغمبر محمدﷺ اپنی ذات، اپنے اخلاقِ حسنہ واوصافِ حمیدہ سے اور اپنے علمی وعملی کمالات سے دنیا میں کس طرح امن وامان قائم کیا تھا؟ اور بھٹکتی دنیا کوایک معبودِ حقیقی پرکس طرح لاکھڑا کیا تھا؟ اور دنیا سے ظلم وزیادتی اور حق تلفی کومٹاکر امن وامان قائم کیسے کیا تھا؟ اور پوری انسانیت کے لیے رہتی دنیا تک کیا اُسوہ ونمونہ چھوڑا؟۔
)۷(ہرمسلمان کا دینی واخلاقی فریضہ ہے کہ آپﷺ کی حیاتِ مبارکہ کا مطالعہ کریں؛ کیونکہ آپﷺ سے محبت ہمارا ایمان ہے اور آپﷺکا ذکر ہماری جان ہے اور آپﷺ کی سیرت کی اتباع ہمارے لیے فلاحِ دارین ونجاتِ ابدی کی پہچان ہے اور آپﷺ کی حیاتِ طیبہ ہماری علمی وعملی زندگی کی دلیلِ راہ ہے؛ لہٰذا ہرمسلمان کا دینی واخلاقی اور آپﷺ سے محبت کے تقاضہ کا بھی یہی فریضہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی سیرت کا مطالعہ اس کثرت سے کرے کہ آپﷺ کی اتباع کے بغیر اپنی زندگی کا کوئی قول وفعل ادا ہی نہ ہو اور آپﷺ کے قول وفعل کے خلاف عمل کرنے کی ہمت وجسارت ہی نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم کو کمالِ اتباع کی توفیق نصیب فرمائے اور خلافِ سنت کا حوصلہ ہی نہ پائے، آمین۔
کسی کو آئیڈیل اورنمونہ بنانے کے چاراہم اصول
کسی بھی شخصیت کونمونۂ عمل ولائقِ تقلید بنانے کے لیے اس میں چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے، جن میں سیکوئی ایک چیز بھی نہ ہوتو وہ شخصیت دوسروں کے لیے نمونہ عمل نہیں بن سکتی اور وہ چاروں چیزیں آنحضرتﷺ کی حیاتِ طیبہ میں سوفیصد بدرجۂ اتم پائی جاتی ہیں؛ اگراِن چاروں چیزوں کومعیار وسانچہ بناکر کسی بھی نبی ورسول کی عملی زندگی کی معلومات کواُن پرپرکھیں اورڈھالیں توکسی بھی نبی ورسول کی عملی زندگی سے متعلق وہ معلومات فراہم نہیں ہیں کہ جن کومعیار بناکر ہرآدمی اپنی اپنی مختلف مصروفیات، مختلف احوال اورمختلف کیفیات میں ایک نمونہ عمل پاکر اُسی کے مطابق عمل پیرا ہوکر دنیا وآخرت کی سرخروئی حاصل کرسکے؛ سوائے حضرت محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کے، آپﷺ کی حیاتِ طیبہ ہی کی یہ خصوصیت ہے کہ آپﷺ کی چھوٹی سی چھوٹی ادا اور نقل وحرکت کوبڑی عقیدت ومحبت اور بڑے فخرواعزاز کے ساتھ اور پورے اہتمام وانصرام کے ساتھ انتہائی مضبوط طریقوں سے محفوظ کیا گیا کہ جن کی تاریخ میں مثال ونظیر ملنی ایک ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔
وہ چار باتیں یہ ہیں
)۱(تاریخیت:یعنی مستندطریقہ سیواقعات ثابت ہوں،افسانوں اور کہانیوں کی طرح من گھڑت نہ ہوں )۲(کاملیت:جس کواپنے لیے جس شعبۂ حیات میں نمونہ ٔعمل بنانا چاہتا ہے اس میں مکمل طریقہ موجود ہو)۳(جامعیت:ہر انسانی جماعت کے لیے اس میں نمونہ موجود ہو،زندگی کے کسی شعبہ میں تشنگی باقی نہ رہے)۴(عملیت:انسانیت کے لیے جو ہدایات دی جارہی ہیں ان ہدایات پر اس آئیڈیل کاعمل موجود ہو، اب ہرایک کی کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیے:
)۱(محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی پہلی خصوصیت)تاریخیت(
ہم تمام ابنیاء کرام علیہم السلام کا ادب اور احترام کرتے ہیں اور ان کے سچے پیغمبر ہونے پر یقین رکھتے ہیں، ان میں سیہر ایک نے اپنے اپنے وقت میں اوراپنی اپنی قوموں کے سامنے اُس زمانے کے مناسب حال، اخلاقِ عالیہ اور صفاتِ کاملہ کا ایک نہ ایک بلند ترین معجزانہ نمونہ پیش فرمایا؛ لیکن دوام وبقاء خاتمِ نبوت اور آخر ی کامل انسانی سیرت ہونے کی حیثیت سے محمد رسول اللہؐ کو جو خاص شرف عطا ہوا ہیوہ دیگر انبیاء کو اس لیے مرحمت نہیں ہوا کہ ان کو دائمی، آخری اور خاتمِ نبوت نہیں بنایا گیا تھا،ان کی سیرت کا مقصد ایک خاص قوم کو ایک خاص زمانہ تک نمونہ دینا تھا، وہ قوم گذرگئی اور وہ زمانہ ختم ہوگیا اس لیے آج اُن کی سیرتیں محفوظ وموجود بھی نہیں رہیں۔
آج کسی شخصیت کی زندگی تاریخی اعتبار سے سب سے زیادہ مستند اور محفوظ ہمارے سامنے ہے تو وہ صرف محمد رسول اللہﷺ کی زندگی ہے، اس باب میں تمام دنیا متفق ہے کہ تاریخی حیثیت سے اسلام نے اپنے پیغمبر کی، نہ صرف پیغمبر کی بلکہ جن لوگوں کیذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہم تک پہونچی اُن کے بھی نام ونشان،زندگی کے احوال وکیفیات،اخلاق وعادات کاایک ایسا ریکارڈ اور سرمایہ اِس امت کے پاس موجودو محفوظ ہے کہ جس کی مثال کوئی قوم ہرگزپیش نہیں کرسکتی۔