سیرتِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم….ایک تعارف

سیرت کی لغوی تعریف
سیرت عربی ڈکشنری میں عادت، خصلت، طریقہ اور طرزِ زندگی کے کیفیات وسلوک کوکہتے ہیں اور “سِیْرَۃُ الرَّجُلْ” سوانح عمری کو کہتے ہیں۔
سیرت اسلام کی اصطلاح میں
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائشِ مبارکہ سے لیکر وفات تک کے تمام گوشوں اور آپﷺ کی ذات مقدس وصفات عالیہ، عبادات ومعاملات، فضائل ومعجزات، احوال وارشادات وغیرہ کے جامع بیان کوسیرت کہتے ہیں۔
انسانی دنیا کے نامور تاریخ ساز شخصیات کا ایک طائرانہ جائزہ
آنحضرتﷺکی سیرت کی اہمیت کو جاننے سے پہلے مختصر سااگرہم انسانی دنیا کی تاریخ کا جائزہ لے لیں توآنحضرتﷺ کی سیرتِ پاک کی اہمیت اور اچھی طرح واضح ہوسکتی ہے۔
انسانی دنیا میں ویسے تولاکھوں کروڑوں اربوں کھربوں انسان پیدا ہوئے اور گذرگئے؛ لیکن کچھ لوگ ایسے بھی گذرے ہیں جواپنے علم وفن میں نمایا کارنامے انجام دئے اور تاریخ انہی لوگوں سے بنتی ہیں اور صدیوں تک اُن کے نام وکارنامے یاد کیئے جاتے رہتے ہیں تواِس طرح وہ حضرات لوگوں کے دلوں میں زندہ وباقی رہتے ہیں اور لوگ انہی کارآمد شخصیات کے نام وکارناموں کواپنے سینوں میں بھی محفوظ رکھتے ہیں اور اپنی زندگی کے لیے ایک نمونہ وآئیڈیل بناکر اُن کے سانچے میں اپنے آپ کوڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں؛ ایسی ہزاروں لاکھوں شخصیات دنیائے انسانیت کی تاریخ میں گذری ہیں کہ جن کی زندگی کے آئینہ میں بعد کے لوگ اپنے آپ کوسنوارنے وبنانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں اور اُس علم وفن میں اپنے لیے ایک آئیڈیل ونمونہ تسلیم کرتے ہیں کہ جن میں شاہانِ عالم، فاتحینِ عالم، سپہ سالاران، حکماء، اطباء، فلاسفر، شعراء، امراء، قانون ساز، سائنٹس وانجینئرس وغیرہ ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی کی عملی زندگی ان کے متعلقہ علم وفن کے علاوہ دنیا کی پیدائش کا مقصد، انسانی فلاح وبہبود کس میں ہے، حسن معاشرت وحسنِ اخلاق مرنے کے بعد کیا ہوگا وغیرہ میں سے کسی کا درس، ان کی زندگیوں میں سے کسی کی حیات میں نہیں ملتا کہ جن کو لائقِ تقلید ونمونہ بنائیں ہاں! شاہانِ عالم وفاتحینِ ممالک اپنی بادشاہت وکامیابی کے خوب جلوے دکھائے، پرشکوہ محلات ودربار سجائے اور اپنی بادشاہت ووجاہت کے دنیا پر خوب رعب ودبدبے جمائے؛ لیکن انسانوں کواوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کی قید وبند سے نہ چھڑاسکے اور نہ ان کوروحانی بیماری وناامیدی کے دلدل سے نکال کرروحانی صحت وامید کی صاف ستھری زمین پرلاکھڑا کرسکے؛ اسی طرح فوج کے سپہ سالاران، ملکوں وخزانوں اور انسانی جسموں کوتوفتح کرنے کے خوب کارنامے انجام دیئے اور رہتی دنیا تک تاریخِ انسانی میں اپنا نام سنہری حرفوں سے لکھوالیے؛ لیکن روح کے سکون واخلاقی اقدار کوفتح کرنے کے کارنامے انجام نہ دے سکے؛ اسی طرح اطباء، حکماء وفلاسفر بھی اِس دنیا میں گذرے ہیں جواپنے فن وفلسفہ اخلاق سے تومرتے ہوئے کوبچالیے اور اپنی کمالِ عقلی سے نظامِ عالم کے نقشے کوبدل دیئے اور عجائباتِ عالم کے حیرت انگیز کارنامے، نظیریں وپیشین گوئیاں دنیا کے سامنے پیش کئے اور علمِ اخلاق کے وہ فلسفیانہ اسرار ورموز دنیائے انسانیت کے سامنے رکھ دیئے کہ دنیا اُن کوسن کر حیران وششدر رہ گئی؛ لیکن وہ اپنے علمِ طب وفلسفہ سے روحانی بیماریوں کی دواؤں کے نسخے ترتیب نہ دے سکے اور نہ عملی مثال ونمونہ پیش کرسکے، جس کی وجہ سے فلاسفہ کے وہ اخلاقی نظریات اور ان کے اسرار ورموز، نظریات وگفت وشنید ہی کی حد تک رہ گئے، اُس سے آگے بڑھ نہ سکے اس لیے کہ اُن میں سے کسی نے اُن نظریات کی ترجمانی کرنے والی کوئی عملی شخصیت بطورِ نمونہ عام انسانوں کے سامنے پیش نہیں کی کہ جس کو دیکھ کر لوگ فلسفیانہ اخلاقی اقدار اپنا سکیں؛ اس لیے کہ انسانی زندگی میں اخلاقی اقدار صرف کانوں سے سن سن کرمنتقل نہیں ہوتے؛ بلکہ کانوں سے سننے کے ساتھ ساتھ آنکھوں سے کسی کواُ س پر عمل کرتا دیکھ دیکھ کر منتقل ہوتے ہیں ؛ جس طرح اِن اطباء، حکماء اور فلاسفر کی زندگیاں انسانی فلاح وبہبود کا کوئی عملی نمونہ پیش نہ کرسکیں اس طرح شعرا، امراء، وقانون ساز کی زندگیاں بھی فلاحِ دارین کا کوئی نمونہ پیش نہ کرسکیں؛ جہاں تک شعراء کا تعلق ہے گووہ خیالی دنیا کے شہنشاہ ضرور ہیں جو زمین وآسمانوں کے خلائوں کوملانے پر قدرت رکھتے ہیں؛ بلکہ خیالی دنیا میں توناممکن کوبھی ممکن بنادیتے ہیں؛ لیکن عملی زندگی میں پوری انسانیت کوسامنے رکھ کر کوئی کامیاب وکامران زندگی پیش نہ کرسکے کہ جس پر چل کر ایک عام آدمی دارین کی کامیاب زندگی کو پالے۔
اِسی طرح ایک طرف امراء اور دولتمندوں کی داستانیں ہیں جوہم کومال ودولت کمانے کے راز ہائے سربستہ توبتاتی ہیں لیکن اُس صحیح زندگی کے گر کا پتہ نہیں بتاسکتیں جودارین کی کامیاب زندگی کی ضامن ہو اور دوسری طرف قانون سازوں کے قانون اور اُن کی عملی زندگیاں ہیں یہ بھی انسانی فلاح وکامیابی کی ضمانت نہیں دیتیں اس لیے کہ جوقانون وضع کیئے گئے ہیں وہ صرف اِس دنیا کی حیات ہی کی حد تک محدود ہیں وہ بھی ناقص جوآئے دن بدلتے رہتے ہیں؛ بلکہ وہ قوانین توحکمران کی خوشنودی حاصل کرنے اور حکومت کی بقاواستحکام کے لیے وضع کیے جاتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ ہرحکمران اپنے دورِ حکومت میں اپنی مرضی وپسند کے قوانین وضع کرواتا ہے اور سابقہ حکمرانوں کے قوانین کوحرفِ غلط کی طرح کاٹ دیتا ہے آج بھی اِس مہذب دور میں بھی یہی صورتِ حال قائم ہے کہ آئے دن آئین ساز کمیٹی قوانین بناتی ہیں جواپنے ہراجلاس میں آج جوبناتی ہیں کل اس کو ختم کردیتی ہیں ایسا کیوں ہوتا ہے؟ ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ حاکم کیحکومت کے دن کسی طرح بڑھائے جائیں اور اس کومستحکم کیا جائے اور اس طرح اپنی روزی روٹی پکی ہوتی رہے۔
اسی طرح سائنسدان وانجینئرس اپنی تاریخی زندگی سے توستاروں وسیاروں سے لییکرذرات تک کی تحقیقات انسانیت کے سامنے رکھدئے اور اس کائنات کے پوشیدہ خزانوں کوکھول دکھاتے رہے اور انجینئرس اپنے فن کا جادو جگائے اور ایسی عالی شان فلک بوس عمارتیں اور محلات تعمیر کیئے اور ان میں وہ کُنْ فَیَکُوْنِیْ شان والے آلات استعمال کیئے کہ جن کواستعمال کرنے والے شخص میں بھی خدائی کے جلوہ کا احساس ہو؛ لیکن ان کے یہ کارنامے حقیقی خداوجنت کی خدائی کا احساس نہ دلاسکے۔
اِن میں سے ہرایک کی عملی زندگی اُن کے اپنے علم وفن کی حد تک تولائقِ تقلید ہوسکتی ہے؛ لیکن اِن میں سے کسی کی عملی زندگی نہ اچھائیوں کے اقدار بتاسکی اور نہ برائیوں کے حدود وسرحدیں قائم کرسکی، نہ انسانیت کواوہام پرستی وخیالاتِ فاسدہ کے دلدل سے نکال سکی اور نہ برادرانہ باہمی تعلقات کی گھتی سلجھاسکی کہ جس سے انسان کی معاشرت درست ہو اور وہ روحانی مایوسیوں وناامیدیوں کا علاج کرسکیاور دلوں کی ناپاکی وزنگ کودور کرسکے اور نہ اچھے اخلاق واعمال کی کوئی عملی تصویر پیش کرسکے کہ جس سے نسلِ انسانی سے روحانی واُخروی مشکلات دُورہوں اور دلوں کی بستی میں امن وامان قائم ہو، بادشاہوں نے توظاھری ملک کے نظم ونسق کوتودرست کرلیا؛ لیکن روحوں کی مملکت اور دلوں کی دنیا کا نظم ونسق درست نہ کرسکے یہ کام اِن حضرات سے اس لیے بھی نہ ہوسکا کہ یہ اِن کا موضوع نہ تھا اور نہ وہ لوگ یہ کام کرسکتے تھے، اس لیے کہ اس کام کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سے جماعتِ انبیاء علیہم السلام کا انتخاب فرمالیا تھا۔
الغرض دنیائے انسانیت کی تاریخ میں کتنی ہی نامور شخصیات ایسی گذری ہیں جواپنے علم وعقل کے زور سے اپنے اپنے زمانہ میں علم وفن کے امام وشہنشاہ کہلائے اُن تمام کی قدرِ مشترک کوششوں وکاوشوں ہی سے انسان بتدریج اِس مادی دنیا کے خواص جان کردیگرمخلوقات کے بالمقابل عمدہ معاشرت، صحیح تمدن، اعلیٰ مقاصد کی تکمیل اور ساری مخلوقات پر اپنے وجود کوبرتر وبالاثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا؛ اِس لیے ہم اُن تمام اہلِ علم وفن کے ممنون ومشکور ہیں کہ جنھوں نے اپنی انتھک کوششوں وجدوجہد سے انسان کی اِس دنیاوی زندگی کی کٹھن، دشوار گذار، پرپیج وسنگ ریز راہ کوانتہائی سہل وآرام دہ بنادیا جس کے نتیجہ میں آج ایک عام آدمی قابلِ فخر زندگی گذار رہا ہے۔