مادر زاد مجاہد (مفتی محمد اصغر خان کشمیری)

Madarzaad Mujahid mufti-asghar
مادر زاد مجاہ
مفتی محمد اصغر خان کشمیری (شمارہ 653)

ہماری لڑی کا ایک تابناک موتی ہم سے جدا ہوگیاجی ہاں ! ہنستا مسکراتا اوراپنے ظاہری اور باطنی حسن کا نو ر برساتا ہمارا حنظلہ شہید ہو گیا ہے ۔انا للہ وانا الیہ راجعون

میری یہ عادت نہیں ہے کہ کسی کی تعریف میں مبالغہ آرائی سے کام لوں اور کسی شہید کی عظمت اور تقدس ثابت کرنے کیلئے زمین و آسمان کے قلابے ملائوں بلکہ میں صرف حقیقتِ حال تحریر کیا کرتا ہوں ۔جس میں وضاحت ہوتی ہے کہ شہید موصوف پہلے کیا تھے، پھر زندگی میں تبدیلی کیسے آئی، پھر کیسے مجاہد بنے، پھر مجاہد بن کر کیسے وقت گزارا اور پھر کیسے شہید ہوگئے۔ مگر حنظلہ شہید ؒ کی زندگی کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا کچھ لکھنے کو نہیں مل رہا کیونکہ انکی زندگی میں کوئی اُتار چڑھائو یا نشیب وفراز نہیں آیا بلکہ انکی زندگی میں مکمل یکسانیت رہی وہ مادرزاد ولی اللہ، متقی، پرہیزگار اور مجاہد تھے اور پھر زندگی کا ہر آنے والادن ان کی ان صفات میں اضافہ ہی کرتا چلا گیا ۔

حنظلہ شہید ؒ کے والدِگرامی مولانا نواز صاحب نے جب اس نوخیز مجاہد کو ہمارے حوالے کیا توحنظلہ کی معصومیت ، نو عمری اور اس کے دھکتے ہوئے جذبہ جہاد اور شوقِِ شہادت پر ہمارے تعجب اور تجسس کو وہ بھانپ گئے اور کہنے لگے مفتی صاحب ! میں کوئی عام سی چیز آپ کے حوالے نہیں کر رہا یہ بڑی خاص چیز ہے بس آپ خوب خوب کام لینا ان شا ء اللہ بہت فائدہ ہوگا میں نے جب اس مجمل جملے کی تفصیل جاننا چاہی اور اس مہکتے پھول کا پسِ منظر معلوم کرنا چاہا تو انہوں نے مختصر الفاظ میں پوری داستان سنا دی جسے سن کر مجھے اس کمسن ننھے ولی اللہ اور مجاہد کی پوری شخصیت سمجھ آگئی ۔

مولانا نواز صاحب نے فرمایا : ہو ا یوں تھا کہ1999؁ کے اواخر میں میرے بڑے بھائی محترم افضل صاحب عرصہ آٹھ سال کی بھرپور جہادی زندگی گزارنے کے بعد ایک خون ریز معرکے میں راجوری کے علاقے دھرمسال میں شہید ہوگئے تو ان کی اس قربانی نے میرے دل اور دماغ پر گہرا اثر ڈالا۔ میں شرمندہ شرمندہ رہنے لگاکہ بڑا بھائی تو اللہ کے راستے میں جان کی بازی لگا گیا اور میں شادی کرکے اسی دنیا کے جنجھل میں پھنسا پڑا ہوں ، بس یہ احساس ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہنے لگا، پھر یہ احساس اتنا بڑھا کہ ایک دن میں نے اپنی رفیقہ حیات سے مشورہ میں طے کیا کہ اب اللہ ہمیں جو بچہ عطا فرمائیں گے ہم اس کو جہاد کیلئے وقف کردیں گے ، اس کو پالیں گے، پوسیں گے مگر اس سے کبھی بھی کوئی بھی دنیاوی کام نہیں کروائیں گے، بس اس کی خدمت کریں گے اور جب وہ جہادی عمر کو پہنچ جائے گا تو اس کو مجاہدین کے حوالے کردیں گے پھر وہ تا دم زیست جہاد ہی کرے گا یہاں تک کہ شہادت پاکر اللہ کے حضور حاضر ہوجائے۔ بس ہم نے یہ عزم کیا تو اللہ تعالیٰ نے امید بھی دلوادی۔ پھر حنظلہ کی ولادت کا پُر مسرت موقع آگیا۔ میں اس وقت مَری میں ایک مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض سرانجام دے رہا تھا آدھی رات کا وقت تھا گھر والوں نے کہا مجھے تکلیف محسوس ہو رہی ہے کسی متعلقہ عورت کو لائیں۔ میںیہ سن کر گھر سے نکلنے ہی والا تھا کہ میرا کمرہ نور سے بھر گیا اور ہر طرف عجیب وغریب خوشبو مہکنے لگی، مجھے سخت تعجب ہو اکہ یہ سب کیا ہے؟؟ ان دنوں میں عملیات کا کام بہت زیادہ کرتا تھا اس لئے میرے ذہن میں فوراً یہ آیا کہ یہ کوئی جناتی عمل ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کچھ جنات شرارت کررہے ہوں یا واقعتاً بچے کی آمد پر خوشیاںمنا رہے ہوں۔ الغرض میں ایمرجنسی میں تھا ،زیادہ غورخوض کرنے کی بجائے متعلقہ خاتون کو لینے تیز قدموں کے ساتھ گھر سے نکل گیا ،کچھ ہی دیر میں، میں خاتون کو لے کر واپس آیا تو وہ خاتون گھر سے کچھ دور ہی کھڑی ہوگئی اور کہنے لگی تم میرے ساتھ مذاق کر رہے ہو؟ یہ بیماری والا گھر ہے؟ میں نے کہا کیا ہو ا؟ اس نے کہا یہ چکا چوند روشنیاں کیسی ہیں اور ہر طرف چراغاںکیوں ہے؟ میں یہ سن کر متوجہ ہوا تو دیکھا کہ گھر سے آسمان تک روشنی کا ایک ستون ہے، جس کی کرنیں چارسو پھیل رہی ہیں تو میری کیفیت عجیب ہوگئی۔ میںنے خاتون سے عرض کیا : آپ ان چیزوں کو رہنے دیں بس آپ اندر کمرے میں پہنچ جائیں، وہ کمرے میں چلی گئیں اورمیں انجانی روشنیوں اور مہکتی خوشبوئوں میں محو ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس نے آکر حنظلہ کی ولادت کی خوشخبری سنائی، بس پھر کیا تھا ایک انتہائی حسین وجمیل اور ہنستا مسکراتا پھول ہماری گود میں تھا، ہم نے اسی لمحے اللہ سے دعا کی کہ یا اللہ! ہم نے اس بچے کو پیدائش سے پہلے ہی آپ کے پسندیدہ راستے جہاد فی سبیل اللہ کیلئے وقف کر رکھا ہے بس آپ ہمارے دل میں اس کی زیادہ محبت نہ ڈالنا تاکہ ہم ایفائِ عہد میں بڑی مشکل سے دوچار نہ ہوں۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا ہم نے عام طریقے سے اس کی پرورش کی، البتہ اس عہد کو ہمیشہ یاد رکھا کہ ہم نے اس سے کبھی کو ئی دنیوی کام نہیں کروانا ہے، چنانچہ ہم نے اس کی پوری عمرمیں اس سے کوئی کام نہیں لیا ، صرف پالا پوسا، خدمت کی اور پڑھایا اور پھر جب تھوڑا بڑا ہو گیا اور قد بت نکال لیا تو جہادی میدانوں کے سپرد کردیا۔ ہاں اس پورے دورانیے میں ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایک عجیب معاملہ رہا، میں نے بار ہا آزمایا کہ جب بھی مجھ پہ کوئی مشکل آن پڑتی یا کوئی انتہائی مجبوری یا ضرورت لاحق ہو جاتی تو میں اللہ تعالیٰ کے سامنے ہاتھ پھیلا کے بیٹھ جاتا اورعرض کرتا یا اللہ! میرے پا س آپ کے دربار میں پیش کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں، نہ نماز نہ روزہ ، نہ ذکراذکار کے بڑے ذخائر ،نہ آہ ِسحر گاہی اور نہ ہی محاسبے اور مراقبے مگر اے ہمارے اللہ! ہمارے گھر میں ایک چیز ہے جس کو ہم صرف تیرے لیئے پال رہے ہیں، بس میں اسی کو آپ کے دربار میں پیش کرکے دعا کرتا ہوں کہ ہماری مشکل حل کردے اور ہماری ضروریات پوری فرما دے، پھر کیا ہوتا کہ دعا کے درمیان ہی دل کو تسلی مل جاتی اورپھر سالوں، مہینوں یا دنوں اور گھنٹوں میں نہیں منٹوں میں ہمارے مسائل حل ہوجاتے، پریشانیاں دور اور ضرورتیں پوری ہوجاتیں اور یہ معاملہ ایک آدھ بار نہیں حنظلہ کی زندگی میں بارہا ہوا ۔الغرض خلاصہ یہ کہ حنظلہ اپنی سترہ سالہ مختصر زندگی میں ہمیں فقیر سے بادشاہ بنا کر چلا گیا ہے ۔

یہ تو تھیں حنظلہ شہیدؒ کے والد محترم کی ایمان افروز باتیں جن سے ہمیں ننھے حنظلہ کی سحر انگیز شخصیت کا پسِ منظر سمجھ آگیا۔ اب مزید حنظلہ کی زبانی سنیں کہ انتہائی کمسنی میں اس کے کیا احساسات اورجذبات ہوتے تھے ۔اور ہم تک پہنچنے سے پہلے وہ کن کن مراحل سے گذرا، انہوں نے مجھے بتایا کہ میں ابھی 12سال کی عمرمیں آٹھویں کلاس میں پڑھتا تھا کہ میرے دل میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت نے انگڑائی لے لی، میں سکول میں ہوتا یا گھر میںتنہائی کے لمحات تلاش کرتا اور پھر اکیلے بیٹھ کر خوب روتا اور اللہ سے دعا کرتا کہ یا اللہ! میں آپ کے راستے میں جہاد کرنا چاہتا ہوں اور شہید ہوکے آپ سے ملنا چاہتا ہوں یا اللہ! مجھے کشمیر پہنچا دے اور مجھے ظالم ہندئوں سے لڑتے لڑتے شہادت عطا فرمادے۔ یہ دعاکرتے ہوئے میں اتنا بے قرار اور بے چین ہوتا کہ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا ’’میرے جسم کے پرخچے اُڑ جائیں گے‘‘

واضح رہے حنظلہ کی یہ حالت کسی دینی مدرسے یا خانقاہ کے ماحول میں نہیں بنی تھی بلکہ وہ انگلش میڈیم سکول میں آٹھویں کا طالبعلم تھا اور اس وقت کی یہ کیفیت بیان ہو رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ آٹھویں جماعت میں میری یہ کیفیت ہو چکی تھی مگر مجھے اچھی طرح احساس تھا کہ اس عمر میں مجھے کوئی جہاد میں نہیں بھیجے گا ۔

چنانچہ والد صاحب کے تما م نیک جذبات اور عزائم کے باوجود میں نے ان سے جہاد کی اجازت مانگ کر ان کوکسی آزمائش میں نہیں ڈالا بلکہ حسبِ حکم پڑھتا رہا البتہ اپنے اللہ کے سا تھ راز و نیاز کی باتیں ہوتی رہیں اور تنہائی میں اللہ کے سامنے آنسو کا سمندر بہتا رہا، یہاں تک کہ میں نے میٹرک کرلی، بعد ازاں مزید تعلیم جاری رکھنے کیلئے ذھن بالکل تیار نہ ہو ا، اس لئے میں نے پڑھنا چھوڑ دیا اورکچھ عرصہ فارغ ہی رہا مگر دل میں جذبہ جہاد اور شوقِ شہادت بدستور موجزن رہا کچھ وقت ایسے ہی گزرا پھر جب عمر اورقد بت کچھ جہاد کے مناسب ہو گئے تو میں مزید نہ ٹھہر سکا اور والد محترم کی اجازت اور دعائو ں سے عملی قدم اُٹھا ہی لیا اور میں دنیا کی تنگیوں سے نکل کر جہاد کے وسیع وعریض میدانوں میں کود گیا ۔ابتدائی عسکری تربیت حاصل کی پھر اعلیٰ تربیت حاصل کی او ر پھر آپ کے پاس پہنچ آیا ۔

یہ غالباً 2017؁ کے اوائل کی بات ہے جب بھائی حنظلہ تربیت مکمل کرکے ہمارے پا س پہنچے، وہ اکثر میرے پاس آکر بیٹھ جاتے اور اپنی عمر اور شکل و صورت سے بالکل مختلف بڑی بڑی باتیں کرتے اور کام کے حوالے سے ایسے ایسے عزائم کا اظہار کرتے جن پر عمل بظاہر ناممکنات میں سے ہوتا تو میں بچہ سمجھ کر ان کو نظرانداز کر دیتا اور جان بوجھ کر ان سے چھوٹی چھوٹی باتیں کرتا جو مجھے ان کے لیول کی نظر آتیں ۔ خصوصاً میں اس لیے بھی ان کو نظر انداز کر رہا تھا کہ یہ ابھی بہت چھوٹے تھے میرا خیال یہ تھا کہ اگر ان کی باتوں پر زیادہ توجہ دی اور کان دھرا تو یہ فری ہو جائیں گے اور لانچنگ کیلئے مجبور کریں گے مگر میری ایک نہ چلی، حنظلہ نے بالکل ہمت نہ ہاری ، میں مجلس میں ہوتا یا تنہائی میں وہ کبھی مجھ سے اوجھل نہ ہوتا اور اپنی زبانِ حال اور زبانِ قال سے مسلسل میرے سامنے اپنے پُرسوز خیالات اورجذبات کا اظہار کرتا رہتا،یہاں تک کہ اس نے مجھے اپنی جادوئی شخصیت کی طر ف سو فیصد متوجہ کر ہی لیا اور اب میں پوری توجہ اور محبت سے اس کی باتیں سننے لگا۔ ان باتوں کے علاوہ حنظلہ کی نماز، تلاوت اور ذکراَذکار و مناجات کے معمولات بھی غیر معمولی تھے، جو عام طور پر اس عمر کے بچوں سے متصور ہی نہیں ہو سکتے ۔میں نے محسوس کیا کہ یہ کوئی عام بچہ نہیں ہے اس کی پرواز بہت اونچی ہے اور اس نے اللہ کے قرب کی وہ منازل ابھی سے طے کی ہوئی ہیں جن کو طے کرنے کیلئے صوفیاء برسہا برس خانقاہوں میں رگڑے کھاتے ہیں ۔

میں یہاں زیادہ وضاحت سے کچھ نہیں لکھوںگا مگر حنظلہ کی اللہ تعالیٰ سے ملاقات کیلئے بیتابی اور اس ملاقات کیلئے ہر وقت جان قربان کرنے کی باتیں کرنا اور جنت کا تذکرہ کرتے کرتے پھوٹ پھو ٹ کر رو پڑنا ایسی باتیں ہیں جنہیں دیکھ کر اتنا ضرور سمجھ آتا ہے کہ حنظلہ کی ا ٓنکھوںکے آگے سے اللہ تعالیٰ نے وہ پردے ہٹا دیئے تھے جو عام لوگوں کی آنکھوں پر ہوتے ہیں اور بلا مبالغہ وہ بہت ساری ایسی چیزوں کا مشاہدہ اپنی کھلی آنکھوں سے کر رہا تھا جو کچھ ہم نے ان شا ء اللہ آگے چل کر دیکھنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہروقت سر مستی کے عالم میں ہوتا تھا اور دنیا اور اس کی چیزوں کو اس نے کبھی مرے ہوئے مچھر کے برابر بھی اہمیت نہ دی۔ حنظلہ کے یہ حالات دیکھ کر میں نے اس کو زیادہ دیر اپنے پاس روکنا مناسب نہ سمجھا اور آگے بجھوا دیا۔ اب وہ مجاہدین کی اگلی قرار گاہ میں مقیم تھا جہاں سے مجاہدین جنتِ ارضی کشمیر کیلئے رختِ سفر باندھتے ہیں ۔یہاںکے جہادی ماحول میں حنظلہ کی کیفیت مزید تبدیل ہوگئی اور وہ ہر وقت ایک جذب کی کیفیت میں رہنے لگا ،کسی سے کچھ لینا دینا نہیں، بس ہر وقت تسبیحات و نوافل اور جہادی ترانو ں کی گونج میں مست رہنا اس کا معمول بن گیا۔ عام ساتھیوں کو چونکہ حقیقتِ حال کا پتہ نہیں تھا اس لئے ان میںسے بعض شکایت بھی کرتے کہ یہ عام ماحول میں نہیں جڑتا مگر مجھے اس کی دلی کیفیت کا ادراک تھا اس لئے شکایات سن کر بھی حنظلہ کو کچھ نہ کہتا۔

اسی قرار گاہ میں قیام کے دوران ایک دن یوں ہوا کہ حنظلہ شہید ؒ کے تایا ابو بھائی افضل شہید ؒ جو 1999؁ میں شہید ہو گئے تھے ایک انتہائی عجیب وغریب اور انتہائی خوبصورت گھوڑے پر بیٹھے ہوئے اس کے پاس تشریف لے آئے ۔
مادر زاد مجاہد۔۲ (مفتی محمد اصغر خان کشمیری)

Madarzaad Mujahid mufti-asghar
مادر زاد مجاہ۔۲
مفتی محمد اصغر خان کشمیری (شمارہ 654)

حنظلہ شہید ؒ کہتے ہیں کہ تایا ابو نے جو گویا کہ گھوڑے کو ہوا میں اُڑاتے ہوئے آرہے تھے میرے سامنے آکر گھوڑے کو روکا، وہ انتہائی خوبصورت لباس میں ملبوس تھے اور مسکرا رہے تھے گھوڑا روک کر وہ نیچے اُترے اورمیرے پا س آگئے،کہا: حنظلہ! کیا تاخیر ہے؟ تمہارا محل جنت میں میرے محل کے ساتھ ہے، جو انتہائی بڑا اور انتہائی خوبصورت ہے مگر خالی پڑا ہے اور تمہارے انتظار میں ہے جلدی کرو میں ادھر تمہارا منتظر رہوں گا ۔

حنظلہ شہیدؒ کہتے ہیں کوئی دو گھنٹے ہماری یہ ملاقات رہی پھر وہ اپنے گھوڑے پربیٹھ کر پرواز کر گئے مگر مجھے یوں لگا کہ وہ میر ا دل اور روح بھی نکال کر ساتھ لے گئے ہیں۔ اب مجھے یہ دنیا ویران کھنڈرات کی طرح لگتی ہے۔ اس واقعہ کے بعد حنظلہ شہیدؒ کی کیفیت عجیب ہو گئی وہ مدہوشی کی سی کیفیت میں رہنے لگے اور کبھی رات کو کیمپ سے نکل کر بارڈر کی طرف بھاگ بھی پڑتے ،ساتھی پکڑ کر لاتے اور پوچھتے کہ کدھر جا رہے ہو ؟تو وہ کہتے کشمیر جا رہا ہوں۔ بات سمجھ میںآنے والی ہے کہ اس چھوٹی عمر میں اپنے شہید چچا کو کھلی آنکھوں سے جنتی گھوڑے پر دیکھنا اور پھر انہی کی زبانی جنت کی بشارت پانا ایسی چیزیں ہیں کہ اس سے اگر عقل اُڑ بھی جائے تو کم ہے ۔یہ تو حنظلہ کا ہی جگر تھا کہ پھر بھی وہ قابو میں رہا۔ پھر اسی پر بس نہ ہوئی ابھی چند ہی دن گزرے تھے اور حنظلہ اسی قرار گاہ میں تھا کہ وہ ایک قدم اور آگے بڑھ گیا اس کی آنکھوں کے پردے مزید کھل گئے اور وہ عجیب وغریب مشاہدات کرنے لگا۔ وہ کہتا تھا میرے سامنے آسمان کے دروازے کھلتے ہیں اور ان دروازوں سے انتہائی حسین و جمیل لڑکیاں نکلتی ہیں اور پھر وہ ہو اکے دوش پہ سوارہوکراُڑتی اُڑتی میرے سامنے اُتر جاتی ہیں، وہ کہتی ہیں: حنظلہ تم ہمارے ہو ہم نے تمہارے والد سے تمہاری بات کرلی ہے، معاملہ سارا طے ہے، بس اب دیر نہ کرو۔ وہ پھر اُڑتی ہیں اور آسمان کے انہیں دروازوں سے اندر داخل ہوتی ہیں اور دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ یہ واقعات کئی مرتبہ پیش آئے اور حنظلہ کی اس نورانی مخلوق کے ساتھ جو گفتگو ہوتی وہ قریب بیٹھے ہوئے سارے ساتھی بھی سنتے تھے، البتہ آواز صرف حنظلہ کی ہی سنائی دیتی ۔حنظلہ بھائی کہتے ہیں میں نے ایک دن بے قرار ہو کر ان میں سے ایک لڑکی کی طرف ہاتھ بھی بڑھا دیا مگر اس نے یہ کہہ کر ہاتھ ملانے سے انکا ر کر دیا کہ ابھی تھوڑی دیر باقی ہے۔ ان واقعات کے بعد حنظلہ سخت پریشان اور افسردہ رہنے لگا ، ساتھیوں سے بات چیت بند کردی اور ہر وقت MP3 پہ اونچی آواز میں یہ نظم لگا کرسنتا رہتا اور مست رہتا:

میں اپنے غم کی داستان کہوں تو کس طرح کہوں

مجھے بتا اے آسماں میںکیا کروں، میںکیا کروں

وہاں موجود تمام ساتھی یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے، پھر ان میں سے بعض سمجھ دار ساتھی تو پوری بات کوصحیح صحیح سمجھ رہے تھے اور بعض کا خیال یہ تھا کہ حنظلہ پر جنات کا اثر ہے اور اس کی یہ تمام کیفیات جناتی مداخلت کا شاخسانہ ہیں، اس کا علاج کروانا چاہئے۔ اسی دوران میں آگے کے دورے پر گیا تو تمام حالات سننے کے بعد حنظلہ کو اپنے پاس بلا لیا اور اصل معاملہ پوچھ لیا، حنظلہ بھائی نے من و عن پورا معاملہ سنا دیا، وہ مجھے باتیں سنا رہا تھا اور ساتھ ہی اس کی کیفیت یہ بنتی جا رہی تھی جیسے وہ ابھی پھٹ پڑے گا۔ بہر حال اس نے پوری بات رکھ دی، میں نے مزاح سے کہا: حنظلہ! ساتھیوں کا تو خیال ہے تماری یہ حالت جناتی اثرکی وجہ سے ہے، تو وہ مسکرا کر بولا :مفتی صاحب! ساتھیوں کی باتوںکو چھوڑیں آپ کوتو سب پتا ہے نا! بس آپ مہربانی فرما دیں مجھے کشمیر بھیجنے کا بندوبست کردیں میں جا کر شہید ہوجائوں۔ میں آپ کو کیسے بتائوں کہ دنیاوی زندگی کا ایک ایک لمحہ گذارنا میرے لیے کتنی بڑی قیامت ہے، میں نے پوری صورت حال کا جائزہ لیا تو حل صرف ایک ہی نظر آیا کہ اس کے راستے سے ہٹ جائوں اور اسے آسمانوں کی طرف اڑان بھرنے دوں، جہاں اس کا محل اور اس کی حوریں اس کی منتظر ہیں اور زمین پر آآکر اس کو بلا رہی ہیں، مگر اس کی عمر ابھی سولہ سال تھی اور دنیا والوں کے ترش اور تیکھے سوالوں کی بوچھاڑ کا مجھے خاصہ طویل تجربہ اور مشاہدہ بھی تھا ۔اسی لیے میرا اپنا ذہن یہ تھا کہ اٹھارہ سال سے پہلے اس کو کشمیر نہیں بھیجنا چاہئے۔

چنانچہ میںنے ایک اورکوشش کی اور حنظلہ کو گھر بھیجنے کیلئے تیار کیا، مقصد یہ تھا کہ حنظلہ کی موجودہ کیفیات اگر ہمارے جذباتی جہادی ماحول کا نتیجہ ہیں تو یہ جب گھر میں والدین، بہن بھائیوں اور دوستوں یاروں سے ملے گا اور دنیاوی ماحول میں رہے گا تو اس کی یہ کیفیات خود بخود زائل ہوجائیں گی اور وہ نارمل ہو جائے گا۔ پھر ہم اپنی مرضی کے ٹائم میں اس کو لانچ کریں گے اوراگر اس کی یہ کیفیات کسی جناتی عمل کا نتیجہ ہیں جیسے بعض ساتھیوں کا خیال ہے تو گھر میں اپنے والد صاحب کی صحبت میں رہ کراس کا علاج بھی ہوجائے گا،کیونکہ اس کے والد محترم خود ایک عالم باعمل اور بڑے درجے کے عامل بھی ہیں۔ حنظلہ بھائی میرے کہنے پر گھر جانے کیلئے تیار ہوگئے اور چلے بھی گئے، مگر میری توقع کے عین مطابق انہوں نے چند دن بعد ہی مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ مفتی صاحب ! ادھر میرا بالکل دل نہیں لگ رہا، آپ کو تو سب کچھ معلوم تھا پھر بھی آپ نے مجھے کہاں پھینک دیا ہے؟ میںادھر نہیں رہ سکتا، آپ نے انکار نہیں کرنا ہے، میں بس واپس آرہا ہوں۔ میں پوری بات سمجھ گیا کہ حنظلہ پر نہ تو کوئی جناتی اثرہے اورنہ ہی اس کی یہ کیفیات کسی جذباتی ماحول کا نتیجہ ہیں بلکہ وہ جو کچھ دیکھ رہا ہے وہ سب حقائق ہیں، ہمیں یہ تسلیم کرناچاہئے، ہم ماضی کے مجاہدین کے ایسے واقعات پڑھتے ہیں تو جھوم جھوم کر سبحان اللہ کہتے ہیں اور اُچھل اُچھل کر نعرے لگاتے ہیں مگر یہی سب کچھ اگر اللہ تعالیٰ اس دورکے جہاد کی حقانیت ثابت کرنے کیلئے اسی دور میں دکھا دے توہم ایک دوسرے کو جذبات کا شکار ہونے اور آسیب زدہ ہونے کے طعنے دینے لگتے ہیں، اللہ ہمیں اس احساس کمتری سے بچائے، یقیناً ہمارا جہاد برحق ہے اورماضی کے مسلمانوں کے جہاد کی طرح ہمارے جہاد کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کی مکمل تائید اور نصرت شامل ہے۔ میرے ذہن میںاس وقت حالیہ جہاد کے اس قبیل کے بہت سارے واقعات آنا شروع ہوگئے ہیں مگر طوالت کے ڈر سے ان سب کو چھوڑ کر میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں۔

حنظلہ کی یہ باتیں سن کر میں نے اس سے کہا کہ آپ کو کوئی انکار نہیں ہے، آپ تشریف لے آئیں ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ چنانچہ وہ گھر سے اس حال میں واپس آیا کہ اس کی بیتابی پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ چکی تھی اُ س نے آتے ہی بہت اصرار شروع کردیا کہ بس ا ب جلد از جلد مجھے کشمیر بھیجیں، مگر اب سردیاں شروع ہو چکی تھیں اور ہمالیہ کے پہاڑ برف کا سفید لباس زیب تن کرکے اپنی طرف آنے والے ہر ذی روح کو سرخ جھنڈی دکھا چکے تھے۔چنانچہ حنظلہ کی 2017؁ اور اٹھارہ کی درمیانی سردیاں ہمارے پاس ہی گذریں، جن میں ہم نے حنظلہ کی برکت سے بہت کچھ دیکھا،ان سردیوں میں جب بھی حنظلہ کااصراربڑھا تومیں نے اس کا د ل بہلانے کیلئے مختلف بہانے کرکے ایک سے زائد مرتبہ اس کوگھر بھی بھیجا، مگر ایک مرتبہ بھی وہ چند دن سے زائد اپنے گھر پہ نہ رکا ،وہ راولاکوٹ کی خوبصورت دھرتی میں واقع اپنے خوبصورت گھر کی سینریاں بنا بنا کر واٹس ایپ کے ذریعے مجھے بھیجتا اور بہت زیادہ پیار کرنے والے اپنے پھول جیسے چھوٹے بھائی کی پیار بھری تصاویر بھی بھیجتا اور ساتھ ہی لکھتا :مفتی صاحب مجھے اس گھر میں اس بھائی کے ہوتے ہوئے بھی دل نہیں لگتا میں کیا کروں؟آپ مجھے سمجھو۔ پھر میںاس کو اپنے پاس بلوا لیتا۔ وقت گذرتا رہا اور ہر آنے والے دن کے ساتھ حنظلہ کی نماز، روزہ، ذکراذکار، تہجد، نوافل اور مراقبات و مناجات کی کمیت اور کیفیت بڑھتی رہی۔ وہ خصوصاً مغرب کی نماز کے بعد بہت لمبی دعاء کرتا اور دعاء میں بلک بلک کر روتا اور رو رو کر نامعلوم اپنے رب سے کیا کچھ منوا لیتا، ایک مرتبہ ہماری مسجد میں بڑا دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ مغرب کے فرضوں میں حنظلہ کے ساتھ ہمارے محلے کے ایک بابا جی کھڑے ہوگئے، بابا جی بہت سادے سے انسان اور پکے نمازی ہیں، مگر عام سادہ سی نماز کے علاوہ شاید ان کو آگے کی گرمی عشق اور معرفت الہٰی کی معلومات نہیں ہیں۔ چنانچہ فرضوں کے بعد والی رسمی دعاء کے بعد وہ سنتوں کیلئے کھڑے ہوگئے اور دیہاتی انداز میں جلدی جلدی سنتیں پڑھنے لگے جبکہ ان کے پہلو میں معصوم حنظلہ بیٹھے تڑپ تڑپ کے رو رہا تھا اور دعائیں کر رہا تھا، بابا جی نے سنتوں کا سلام پھیرا اور دعاء میں مشغول ننھے حنظلہ کو اپنی بغل میں دبوچ لیا اور کہنے لگے: کیا ہوا بچے؟ کیا ہو ابچے؟ میں پچھلی صف میں بیٹھا پورا منظر دیکھ رہا تھا، حنظلہ نے جھٹکا دے کر بابے سے اپنے آپ کو چھڑایا اور اس کی طرف دیکھے بغیر ہی اپنی مناجات میں مصروف ہوگیا، بابا نفل پڑھ کے مسجد سے باہر نکل آیا مگر مڑ مڑ کے حنظلہ کو دیکھ رہا تھا، میں بھی بابے کے ساتھ باہر آگیا، بابے نے مجھے دیکھتے ہی کہا: اوجی بچے کو کیا مسئلہ ہے؟ میںنے کہا:کچھ نہیں آپ جائیں، بابا میری طرف تھوڑا سا گرم ہو کر کہنے لگا ’’اوجی مسئلے ہوندے ہن تسی پتہ کرو‘‘میںنے کہا: بزرگو! آپ جاؤ میں پتہ کرلوں گا ، بہرحال بابے کی تسلی نہ ہوئی اور وہ کچھ کہتا کہتا چلا گیا اور میں مسجد کے صحن میں بڑبڑاتے ہوئے بابے اور مسجد کی صفِ اول میں آہ وزاری کرتے ہوئے حنظلہ کے درمیان مسجد کے برآمدے میں کھڑا سوچتا رہ گیا کہ واہ اللہ! تیری کیا شان ہے ،کوئی ستر سال میں بھی تجھے نہ پہچان سکا اور کوئی سولہ سترہ سال کی عمر میں ہی تیرے عشق و محبت کی بھٹی سے حرارت لے کر آسمانوں کی بلندیوں پر محوِ پرواز ہے ۔

یہی دن تھے کہ حنظلہ کواللہ تعالیٰ کی کچھ غیر مرئی کائنات اور مخلوقات کا مشاہدہ کھلی آنکھوں کے ساتھ کثرت سے ہونے لگا ،جس سے اس کی دنیا کی ظاہری زندگی متاثر ہونے لگی ،ظاہر ہے ساتھی پوری بات سمجھ نہیں پا رہے تھے اور عجیب عجیب تبصرے کرتے تھے تو میں نے ایک مرتبہ پھر مولانا نوا ز صاحب سے بات کرکے اس کو گھر بھیج دیا ۔مقصد یہ تھا کہ وہ اصل بات کو سمجھ کر کچھ چارہ کریں گے ۔مگر وہ بھی پوری بات سمجھ نہ سکے اور اپنے لاڈلے بیٹے کو راولپنڈی لے گئے اور اسے وہاں ہسپتالوں میں چیک کرواکے واپس لے آئے ۔ حنظلہ بھی ان سے اجازت لے کر واپس ہمارے پاس آگیا ،آکر پھر وہی اصرار اور کیفیات شروع ہوگئیں ۔

اتفاق کی بات ہے اس سال رمضا ن المبارک سے پہلے میری کمر میںشدید در دشرو ع ہوگیاتھا ، جس سے میں تقریباًصاحب فراش ہوگیا تھا ،علاج کروائے مگر مکمل افاقہ نہ ہوا ان دنوں ہماری مخصوص مجلسوں میں حنظلہ اور اس کی کیفیات کے بارے میںتذکرہ چلتا رہتا تھا ،ایک دن عشاء کے بعد حنظلہ آکر میرے پا س بیٹھا تواچانک عبداللہ بھائی نے اس کو کہہ دیا :آپ کا کیا فائدہ ہے مفتی صاحب بستر پر پڑے ہیں اور آپ کچھ کرتے ہی نہیں کوئی دم وم کرو یہ ٹھیک ہوجائیں ۔حنظلہ نے یہ سن کر یک دم سر جھکا دیا اور کسی گہری سوچ میں چلا گیا ، اس کا چہرہ متغیر ہوتا رہا ،پھر کافی دیر کے بعد میری طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا: مفتی صاحب !ایک عہد کرتے ہیں ، میں آپ کا علاج کرتا ہوں آپ مجھے کشمیر بھیج دیں ۔میں نے کہا: میرا علاج ہو جائے گا ؟وہ کہنے لگا: ضرور ہو گا صرف ایک ہفتے کا ٹائم ہے آپ نہ صرف کھڑے ہو کر نماز پڑھیں گے بلکہ کلومیٹروں کے حساب سے واک بھی کریں گے ،سامنے والی پہاڑی کو بھی سر کریں گے اور دوبارہ سے بیڈمنٹن بھی کھیلیں گے اور یہ سب کچھ میں خود آپ سے ایک ہفتے میں کروادوں گا ، بس آپ یہ عہد کریں کہ پھر آپ مجھے کشمیر بھیج دیں گے ۔میں بستر پر پڑ ا ہو اتھا میرے لیے یہ سارے دعوے اور باتیں سمجھنا اور ماننا بظاہر ممکن نہ تھا مگر پیشکش بڑی ہی پُر کشش تھی ،میں نے سوچا حنظلہ کو کب اندر بھیجنا ہے اور کب بندوبست ہوگا یہ کسے معلوم ؟چلو علاج کا ایک موقع ہے اس کو آزما لیتے ہیں ۔چنانچہ میں نے حامی بھر لی اور اسے کہہ دیا علاج کرو میں آپکو بھیجنے کی کوشش کروں گا ۔حنظلہ نے کہا کوشش نہیں عہد کریں اور یہ عہد صرف میرے ساتھ نہیںہوگا بلکہ میرے جو لوگ ہیں جن کا آپ کو پتہ ہے ان سب کے ساتھ ہوگا ،انہوں نے ہی آپ کے علاج میں کردار ادا کرنا ہے ۔میں نے کچھ تاویلات کا سہارالے کر اس کو مطمئن کردیا تاکہ وہ علاج کردے اور میرے اوپر بھی شرعی عہد کی ذمہ داریاں عائد نہ ہو ں۔

چنانچہ حنظلہ نے دوسرے دن سے کسی ماہر حاذق طبیب کی طرح علاج شروع کردیا ۔ میں حیران تھا کہ یہ معصوم بچہ اور کمر کے پیچیدہ نظام پر اس قدر دسترس ؟ آخر یہ سب کچھ کیا ہے ؟
مادر زاد مجاہد۔۳ (مفتی محمد اصغر خان کشمیری)

Madarzaad Mujahid mufti-asghar
مادر زاد مجاہ۔۳
مفتی محمد اصغر خان کشمیری (شمارہ 655)

بہر حال حنظلہ نے زیتون کے تیل کو رات کے آخری پہر گھنٹوں دَم کیا اور پھر اس کے ذریعے کمر اور کندھوں اور سر کی عجیب وغریب مالشیں شروع کردیں، تو دوسرے دن ہی میں کھڑے ہو کر رکوع و سجود کے ساتھ نماز پڑھنے لگا، تیسرے دن صحن میں واک شروع کردی، چوتھے پانچویں دن روڈ پر واک اور چھٹے دن رات تراویح کے بعد سامنے والی پہاڑی پر چڑھ گئے یہاں بھی ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ ہوایوں کہ ہم چار آدمی تھے مگر کسی کو بھی یاد نہ آیا کہ پانی کی بوتلیں ساتھ لے چلیں ۔چنانچہ تھوڑا ہی اوپر جاکر میر احلق خشک ہو گیا جسم سے جان نکلنے لگی اور حالت خراب ہوگئی، ساتھی حنظلہ کو تنگ کرنے لگے کہ آپ نے پانی لانے کا ہمیں کیوں نہ کہا؟کسی نے ــطعنہ دیا کہ تمہارے دوستوں یاروں کا کیا فائدہ، اگر وہ یہاں مفتی صاحب کو پانی بھی نہ پلا سکیں،ایک ساتھی نے کہا میں واپس جا کرپانی لے آتا ہوںمگر حنظلہ نے اس کوروک دیا اور میرے پا س آکر کہنے لگا آپ ہمت نہ ہارنا ،چلتے رہیں آپ کے لئے پانی کا بندبست میں کروں گا ۔یہ کہہ کر وہ ہم سب سے پیچھے ہو گیا اور تسبیح پر انتہائی تیزرفتاری سے کچھ پڑھنے لگا ،تھوڑا ہی اوپر جا کر پیچھے سے آواز دی کہ رُک جائیں،ہم رُک گئے وہ میرے پاس آیا، گلے ملا اور میرے منہ کے اندر پھونک ماردی مجھے دفعتاً یوں لگا جیسے کسی نے آبِ حیات کا جگ میرے منہ میں انڈیل دیا ہے ۔میرے تنِ مردہ میں جان آگئی اور میں ہشاش بشاش ہوگیا ۔ایک ساتھی میرے قریب آیا اور کہا کیا صورتِ حال ہے میں نے کہا میرے ساتھ توحنظلہ نے یہ معاملہ کیا ہے میں تو بالکل تازہ دم ہوگیا ہوں ،میں نے حنظلہ والا عمل عملًا کرکے دکھایا تو وہ ساتھی بھی میرے ساتھ چھونے کی وجہ سے یکدم تازہ دم ہوگیا، اور کہنے لگا مجھے تو یوں لگ رہاہے جیسے میرے جسم میں نئی جان آگئی ہے۔ بہرحال ہم مقررہ ہدف تک پہنچ کر آرام کرنے کے بعد واپس مرکز آگئے مگر اس سفر کی یادیںآج تک دماغ میں تر و تازہ ہیں ۔

اس سے اگلا دن ہفتے کا آخری دن تھا ،عصر کے بعد حنظلہ نے کہا نیٹ لگائیں آج میں آپکو بیڈ مینٹن کھلاتاہوں پھر میرا کام پورا ہوجائے گامیںنے کہا رہنے دیں بس آپکا کام پورا ہوگیا۔ میںالحمدللہ ٹھیک ہوگیا ہوں یہ سن کر حنظلہ خوشی سے میرے گلے لگ گیا اور کہنے لگا پھر تو اب آپ کی باری ہے میں تیار ہوں فوراََہمیں بھیجنے کا بندوبست کریں ،میں نے کہا ایسا ضرور کروں گا ،مگر وہ تو میرے بس میں نہیں ،ہم لگے ہوئے ہیں ،جب اللہ کو منظور ہوا ،راستہ مل گیا تو آپ کو بھیج دیں گے ،اب اس میں کتنا وقت لگتا ہے وہ تو اللہ کو معلوم ہے ۔حنظلہ نے کہا میں نے آپ کو پہلے ہی کہا تھا کہ معاملہ بڑا نازک ہے ،آپ کی بات صرف میرے ساتھ نہیں ہو رہی ،بلکہ آپ کا یہ عہد میرے مہمانوں کے ساتھ بھی ہورہاہے اور وہ یہاں مجلس میں موجود بھی ہیں لہٰذا اب بات کو دائیں بائیں نہیں کرنا بس صرف ایک بات ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں بھیج دیں ۔میں معاملے کی نزاکت سمجھ گیا اور خود سے کچھ بھی کرنے کی بجائے حنظلہ کے والد صاحب سے مدد لینے کی سوجھی ،میں نے ان کو فون کیا اور پوری صورت حال سے آگاہ کیا اور اشارہ یہی دیاکہ آپ اپنی طرف سے اسکو کچھ وقت کیلئے روک دیں ، سال دو سال کے بعد اسکو خود بھیج دیں گے ،وہ سمجھ گئے اور حنظلہ کو فون پر سمجھانے کی ناکام کوشش بھی کی ،پھر کہنے لگے میں خود مظفرآباد آجاتا ہوں ۔

چنانچہ وہ دوسرے دن ہمارے پاس آگئے ،وہ جو ں ہی میرے کمرے میں داخل ہوئے حنظلہ بھی فوراََ وارد ہوگیا ،حالانکہ ہم تھوڑی دیر تنہائی میں بات چیت کرنا چاہ رہے تھے ہم نے حنظلہ کو باہر بھیجنے کی کوشش کی مگر وہ نہ مانا اور کہنے لگا میرے سامنے بات کریں ۔دراصل اسکو شک تھا کہ یہ دونوں حضرات مل کر مجھے کشمیر جانے سے روکنے کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ۔اس لئے وہ ہمیں اکیلا چھوڑنے پر آمادہ نہ تھا،چاروناچار اسکے ہوتے ہوئے ہی بات شروع ہوگئی ،میںنے پوری بات اسکے والد صاحب کے آگے رکھ دی ،پھر وہ اپنے بیٹے سے مخاطب ہو کر اسے سمجھانے لگے ،بیٹا بھی آگے سے بول پڑا کہ جب آپ نے مجھے پیدائش سے پہلے سے جہاد کیلئے وقف کر رکھا ہے تواب آکر روڑے کیوں اٹکا رہے ہیں، اس پر دونوں باپ بیٹے میں بہت دلچسپ مناظرہ ہوا جس سے ہم خوب محظوظ ہوئے ۔ دراصل والد صاحب بھی اسکو روک نہیں رہے تھے صرف یہ کہہ رہے کہ تھوڑامزید بڑے ہو جائو تو چلے جانا ۔حنظلہ کی دلیل یہ تھی کہ میں سترہ سال کا ہو گیا ہو ں جو جہاد کیلئے آئیڈیل عمر ہے اب مزید کس چیز کا انتظار کرنا ہے ،حنظلہ دلیل میں بار بار بدر شہیدؒ کا تذکرہ کر رہا تھا جو گذشتہ سال صرف سولہ سال کی عمر میں جموں کے سنجواں برگیڈ پر دوسرے دو ساتھیوں کے ہمراہ قہر بن کر ٹوٹا تھا اور تین دن تک پورے انڈیا کو تگنی کا ناچ نچا کر خود ساتھیوں سمیت لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہوگیا تھا۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو غریق ِ رحمت کرے ۔

باپ بیٹے کا بحث مباحثہ جب کسی نتیجے پر نہ پہنچا تو فیصلہ آکر اس پر ٹھہراکہ کل حنظلہ اپنے والد کے ہمراہ گھر جائے گا پھر وہاں فیصلہ ہوگا کہ کیا کیا جائے ۔ میں بھی اسی پر خوش تھا کہ یہ گھر جائے تاکہ اگر خدانخوستہ یہ کسی غلط غیرمر ئی مخلوق سے متاثر ہے تو والد صاحب وہاں گھیر گھار کے علاج کردیں گے اور یہ نارمل ہو جائے گا ۔واضح رہے کہ اتنا کچھ دیکھنے کے بعد حنظلہ پر اس قسم کے شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی ۔مگر ایک کمزور انسان ہونے کے ناطے دل میں کچھ کچھ شک آہی جاتاتھا ،

دوسرے دن فیصلے کے مطابق مولانا نوازصاحب حنظلہ کو لیکر گھر کیلئے نکلے تو انکا کہنا ہے کہ جب ہم مظفرآباد اڈے پر پہنچے تو حنظلہ کے جسم سے اچانک وہی خوشبوپھوٹ پڑی جو اسکی پیدائش کے وقت مری میں ہمارے گھر میں اور آس پاس پھوٹ پڑی تھی گاڑی کا ڈرائیور جو اپنا ہی ایک ساتھی تھا حیران رہ گیا کہ یہ کیا ہے اس کی آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے ،میںنے اسکو صبر کی تلقین کی اور ماجرا بتایا کہ حنظلہ کی کشمیر کی تیاری ہے بس یہ اسی کے اثرات ہیں ،انکے والد صاحب کہتے ہیں کہ پورے راستے میں یہ سلسلہ جاری رہا ،حنظلہ ہمارے درمیان بیٹھا تھا اور ہم یوں محسوس کر رہے تھے جیسے ہم اپنے درمیان کوئی پھولوں کا گلدستہ رکھ کر سفر کر رہے ہیں ۔گھر پہنچے تو حنظلہ نے پہلے مرحلے میں ہی اپنی والدہ اوربڑے بھائی کو اپنا ہمنوابنا لیا اور وہ حنظلہ کے موقف کی بھرپور تائید کرنے لگے ۔اب والد صاحب کے پاس اسکو روکنے کا کوئی بہانہ نہ تھا ،کہتے ہیں میں آخری چارے کے طورپر اسکو اکیلے کمرے میں لے گیا اور بات کرنا چاہی مگر اس نے چھوٹتے ہی مجھے عجیب و غریب مشاہدات کروا ڈالے اور پھر میری طرف مخاطب ہو کربولا اب بتائیں اسکے بعد آپ مجھے دنیا کے اس قید خانے میںکیسے روک رہے ہیں ؟میں اس کے سامنے لاجواب ہوگیا ،اور ادھر ہی میں نے طے کرلیاکہ اب اسکو رکنے کا نہیں کہوں گا ۔

چنانچہ ایسے ہی ہوا، ادھر حنظلہ نے رابطہ کرکے مجھے بتایا کہ گھر سے میرا مسئلہ حل ہوگیا ہے ،بس اب میں آ رہا ہوں اورادھراسکے والد محترم کا بھی فون آگیا کہ ہم حنظلہ کو بھیج رہے ہیںاور اسکا سارا معاملہ آپ پر چھوڑ رہے ہیں ۔بس آپ مناسب فیصلہ کرلیں۔چنانچہ حنظلہ مکمل فاتحانہ انداز میں ہمارے پاس واپس آگیا اور آکر کہنے لگا اب سب مسائل ختم ہو گئے ،ہر طرف سے اجازت مل گئی ،بس اب جلدی کریں اور ایفائے عہد کا بندوبست کریں۔

پھر یہ حسن ِاتفاق تھا یا حنظلہ شہید کی کرامت تھی کہ ُادھراس کے سارے مراحل طے ہو رہے تھے اور اِدھر بارڈر پر ہمارے عظیم مجاہد کمانڈر بھائی قمر راستے ڈھونڈنے میں لگے ہوئے تھے ، پھر ادھر جوں ہی حنظلہ کے مسئلے حل ہوئے اِدھر سے بس چند دن کے بعدہی بھائی قمر نے بھی خوشخبری سنا دی کہ راستہ صاف ہے اور اندر کے سفر کیلئے سازگار ہے بس حکم کا انتظار ہے ۔حنظلہ میرے پاس ہی بیٹھاکرتا تھا اس نے ہماری گفتگوسن لی بس پھر کیا تھا ؟جیسے گلاب کا پھول صبح کی شبنم پڑنے سے کھل اُٹھتا ہے حنظلہ ایسے کھل اُٹھا، حنظلہ کی امیدیں بھر آئیں،گروپ کی تیاری ہوگئی ،آخر میں میں نے حنظلہ کو کہا :آپ کے والدصاحب کو بلوالیتے ہیں تاکہ آخری ملاقات ہوجائے مگر اس نے سختی سے منع کردیا اور کہا میں تمام گھر والوں سے آخری ملاقات کرکے آیا ہوں ،بس اب دوسری ملاقات جنت میں ہوگی ادھر کسی کو نہیں بلانا ۔میں نے اس کے انکار کے باوجود کال ملانے کی کوشش کی مگر حنظلہ نے فون ہاتھ سے لے لیا اور رابطہ نہ ہو سکا ، حنظلہ کو غالباً یقین تھا کہ والد محترم تمام تر پختہ جہادی نظریات کے باوجود محبت پدری سے مجبور ہو جائیں گے اور وہ اپنے لاڈلے بیٹے کو یوں رات کی تاریکیوں میں کسی گمنام راستے میں آنکھوں سے اوجھل ہونے کے منظر کو برداشت نہیں کر سکیں گے ۔ ہم نے بھی حنظلہ کی بات مان لی اور مولانا نواز صاحب کو نہیں بلوایا ۔

یہ چھ جون 2018؁ٗ؁ء کا بدھ کا روز تھا ، رمضان المبارک کی معطر بہاریں تھیں ، گلفاموں اور مہہ پاروں کا قافلہ تیار ہوگیا یہ کل آٹھ ساتھی تھے جن میں سے ہر ایک دوسرے سے بڑھ کر چمک دھمک رہا تھا ، بھائی حنظلہ، بھائی افضل خان ، بھائی سرفراز احمد ، بھائی قمر خان ، بھائی عاقب، بھائی گل زیب ، بھائی اعجاز ، اور بھائی عبداللہ ۔ 21رمضان المبارک کی افطاری کی محفل خوب سجی ، ان جنتیوں کے ساتھ ہمیں بھی آخری افطاری کی سعادت ملی اور پھر رات کی تاریکیاں تھیں اور یہ قافلۂ عشق ووفا تھا ، حنظلہ بھائی سب ساتھیوں کے آخر میں جب گلے مل کر رخصت ہوئے پھر ان کو یقین آیا کہ ہاں وہ واقعتا کشمیر کے لیے روانہ ہو گئے ہیں ورنہ وہ تیاری کر لینے کے بعد بھی انجانے خوف میں مبتلا تھے اور بات بات پر ٹھٹھک کر ادھر ادھر دیکھنے لگتے تھے کہ مبادا مجھے روکنے کا کوئی مشورہ تو نہیں ہو رہا پھر جب ان کے تمام خدشات ٹل گئے اور میں نے ان کو گلے مل کر الوداع کر دیا اس وقت ان کا چہرہ دیکھنے کے قابل تھا ، میں بلا مبالغہ لکھ رہا ہوں کہ اندھیری رات کے اندر ان کا چہرہ تمام خدو خال کے ساتھ اس طرح چمک رہا تھا جیسے ان کی جلد کے پس پردہ کوئی بلب لگا دیا گیا ہو ۔ اب وہ کشمیر کی راہوں پر تھے اور ہم سدا کے مسافر ان کو الوداع کر کے اپنی قرار گاہ کی طرف چل دئیے۔

اس جنتی قافلے کا سفر انتہائی ذوق و شوق کے ساتھ کٹتا گیا ،سفر کا دوسرا یا تیسرا دن تھا نہ جانے ساتھیوں کے دل میں کیا آئی کہ ہر ساتھی نے دوسرے ساتھی سے ایک دوسرے کے حق میں ہونے والی کوتاھیوں کی معافی مانگی اور کہا کہ اس سفر میں کسی کے دل میں کسی کے لیے کدورت نہیں ہونی چائیے۔ یہ مبارک سفر صاف دل کے ساتھ کرتے ہیں ۔ میں نے جب یہ سنا تو مجھے لگا کہ اللہ رب العزت نے جنت کی خاصیت اس قافلے پر دنیا میں ہی اتار دی کہ ان کے دلوں کو کینے ،بغض ، اور باہمی نفرت سے پاک کر کے انھیں شیشہ دل بنا دیا ، پھر چوتھا دن تھا ،قافلہ ایک جگہ دشمن کی پوسٹوں سے اوٹ لے کر بیٹھا ہوا تھا ، بھائی عاقب شہید کو تھوڑی سی اونگھ آئی پھر وہ جھٹکے سے ہنستے ہوئے اٹھ گئے اور کہنے لگے میں نے دیکھا کہ مولانا عبدالمتین شہیدؒسفید لباس اور سفید پگڑی پہنے ہوئے انتہائی خوش وخرم ہمارے درمیان بیٹھے ہیں اور مسکرا رہے ہیں ۔ اس خواب اور مشاہدے سے ساتھی اور زیادہ خوش اور شیر دل ہوگئے اور آگے کا سفر شروع کر دیا ، بھائی حنظلہ پورے سفر میں ذکر اذکار اور معمولات میں مکمل طور پرغرق تھے اور ساتھیوں کو بھی بار بار یہی تلقین کرتے رہے ۔

(جاری ہے)
مادر زاد مجاہ۔۴
مفتی محمد اصغر خان کشمیری (شمارہ 656)

سفرکی پانچویں رات تھی اور یہی اہم رات تھی ۔ دشمن کی پوسٹوں کے جنگل سے ساتھیوں نے گزرنا تھا مگر عین موقع پر جا کر پتہ لگا کہ صورتحال بدل چکی ہے اور یہاں سے گزرنے کی جو گنجائش ریکی کے دوران دیکھی تھی وہ اب موجود نہیں ہے ،اس ناگہانی صورتحال سے نمٹنے کے لیے قافلہ سالار بھائی قمر نے رفقاء سفر سے صلاح مشورہ شروع کر دیا مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ، دشمن مجاہدین کی آمد کو محسوس کر چکا تھا ،اس نے ذرہ برابر تاخیر نہ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے فضا روشنی کے گولوں سے روشن ہو گئی اور رات کا سناٹا وکرس کی ترتراہٹ اور مارٹر گولوں کی گھن گرج سے ٹوٹ گیا ، الغرض ہر قسم کا فائر کھل گیا اور وہ کچھ شروع ہوگیا جس سے بچنے کے لیے ہم سب نے چار دن سے اللہ کے آگے جھولیاں پھیلائی ہوئی تھیں ، پر اللہ کا لکھا اٹل ہے اور وہ ہو کر رہتا ہے۔ اس میں اس حکیم ذات کی کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں ؟یہ سمجھنا ہماری محدود عقل کے بس کی بات نہیں ہے ۔بہر حال رات بھر یہ معرکہ چلتا رہا اور ہر گزرتے وقت کے ساتھ روشنی کے گولوں اور مارٹر کی گولہ باری میں اضافہ ہی ہوتا رہا ،صبح سات بجے تک یہ سلسلہ جاری رہا اور ہمارے جانباز ایک ایک کرکے شہید ہوتے رہے۔ ظاہر ہے دشمن اپنے مضبوط بنکروں کے اندر تھا اور ساتھی کھلے پہاڑپر تھے ،چنانچہ ہمارے آٹھ میں سے 6ساتھی ادھر ہی لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہوگئے ۔ ایک ساتھی عبداللہ بھائی جو سرینگر کے رہنے والے تھے لاپتہ ہوگئے اور دوسرے ساتھی حنظلہ کے قریبی اور گہرے دوست بھائی اعجاز تھے جو دشمن کو چکمہ دے کر وہاں سے نکلنے اور ہم تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ۔بھائی حنظلہ کی شہادت بالکل ان کے پہلو میں ہوئی وہ حنظلہ شہید کے آخری لمحات کے بارے میں بتلاتے ہیں کہ سخت گولہ باری میں ہم زمین پر لیٹ گئے تھے اور کھسک کھسک کر محفوظ جگہوں کی طرف بڑھ رہے تھے اتنے میں میں نے اپنے آپ کو بھائی سرفراز شہید اور حنظلہ شہید کے درمیان پایا ،سرفراز بھائی تو سینے پر گولیاں کھا کر گہری نیند سو چکے تھے جبکہ حنظلہ بھائی کے چہرے کی ایک سائیڈ پر گولیاں لگ گئیں تھیں اور خون بہہ رہا تھا مگر ابھی وہ زندہ تھے انہوں نے مجھے دیکھتے ہی دونوں ہاتھ میری طرف پھیلا دیئے جیسے وہ گلے ملنا چاہ رہے ہوں یا مجھے حفاظت کے لیے نیچے لیٹنے کی ہدایت کر رہے ہوں، بھائی اعجاز کہتے ہیں کہ اتنے میں روشنی کا گولہ چڑھا تو اس کی روشنی میں میں نے دیکھا کہ حنظلہ زخموں سے چور ہے مگر چہرے پر مکمل سکون واطمینان ہے اور چہرہ چاند کی طرح چمک رہا ہے ، پھر زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس بے قرار روح کے قرارکا وقت آگیا اور سترہ سال پہلے خوشبوئیں بکھیرتے ہوئے دنیا میں آنے والا یہ بچہ کشمیر کے برف پوش کہساروں کو اپنے خون سے رنگین کرکے آسمانوںمیںخوشبوئیں بکھیرنے کے لیے اوپر کی طرف اُڑان بھر گیا۔اللہ تعالیٰ ان سب جانبازوں کی شہادت کو قبول فرمائے۔ آمین

اس کو کہتے ہیں ؎

کسی کو گھر سے نکلتے ہی مل گئی منزل

اور کوئی تمام عمر میری طرح سفر میں رہا

حنظلہ شہید اور ان کے دیگر ساتھیوں کی شہادت کا دکھ بہت گہرا ہے۔ یہ سب انتہائی با صلاحیت لوگ تھے اور ابھی انہوں نے بہت کچھ کرنا تھا خصوصاً بھائی حنظلہ کی عمر اور شکل وصورت کے مطابق ہم نے ان کو کام کے بہت بڑے بڑے منصوبے دیئے تھے جن کو سر انجام دینے کے لیے وہ مکمل تیار اور یکسو تھے مگر اللہ کی حکمتوں بھری تقدیر درمیان میں حائل ہوگئی اور حنظلہ بھائی اپنے رفقاء سمیت کشمیر پہنچنے کی بجائے رب کی جنتوںمیں پہنچ گئے، اللہ کی حکمتیں اللہ کو ہی معلوم ہیں مگر میں اپنی ناقص عقل سے یہ سمجھ پایا ہوں کہ حنظلہ شہید کے اس حسین لشکر کے ساتھ اللہ نے جو جانوں کے بدلے جنت کا سودا کیا تھا وہ اللہ کے ہاں بھی اس قدرحسین اور مقبول تھا کہ اللہ نے سودا کرتے ہی مبیع کو بھی فوراًاپنے پاس بلا لیا اور عام معمول کے مطابق اس کو مزید دنیا کی الجھنوں اور آزمائشوں میں نہیں ڈالا ، بس نقدونقد سودا ہوگیا

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا

ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں

حنظلہ شہید کے والدین کو دھری چوہری مبارک کہ رب نے ان کے ساتھ نقد سودا کیا ہے یہ افسوس کی بات نہیں ہے کہ حنظلہ زیادہ دیر تک کام نہیں کر سکا بلکہ زیادہ خوشی کی بات ہے کہ اللہ نے آپ کے تحفے کو فوراً شرف قبولیت سے نوازدیا ہے ؎

عش وجنوں کا راستہ نکلا قریب کا

کیفی حرم کی راہ طوالت کی راہ تھی

ساتھیوں کی شہادت کے بعد بزدل دشمن ان کی لاشیں عام عوام کے سپرد کرنے کی ہمت نہ کر سکا اور اس نے شہداء کو ادھر پہاڑ کی چوٹی پر ہی دفن کرنے کا فیصلہ کر لیا چنانچہ وہاں قریب بہکوں سے عام لوگوں کو اور ٹنگڈار کی پولیس کو بلوا کر ان کے ذریعے بارہ تیرہ ہزار فٹ بلندبملہ کی اس برف پوش چوٹی پر ان کو دفنا دیا ، میں نے جب سنا کہ یہ انوکھا کام ہوگیا ہے کہ پہلی مرتبہ ہمارے شہداء کو آرمی کیمپوں اور پولیس سٹیشنوں کے چکروں کی بجائے فوراً ہی دفن کر دیا گیا ہے تو دل سے سبحان اللّٰہ نکلا…سبحان اللّٰہ کیا بات ہے دہلی کی تہاڑ جیل سے لیکر جموں سے ہوتے ہوئے کشمیر کے چپے چپے پر اور اب بملہ پہاڑ کی چوٹی پر بھی ہمارے شہداء کا قبضہ ہو چکا ہے ،بھارت اب کشمیر کو کیسے ہضم کرے گا ؟؟ ہرگز نہیں، ہرگز نہیں ۔ ہمارے شہداء کشمیر کا پہرہ دے رہے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ کشمیر ہضم کرنے کے لالچ میں بھارت ان پہرے داروں کے ہاتھوں اپنے دانت بھی تڑوا بیٹھے گا جس کے بعد اس کے لیے اپنے وجود کو برقرار رکھنا بھی ان شاء اللہ اس کے بس میں نہیں رہے گا ۔

بھائی حنظلہ شہیدکی شہادت کی خبر جب ان کے عظیم والدین کو پہنچی تو انہوں نے انتہائی صبر اور حوصلے کے ساتھ خبر کو لیا ، وہ الحمدللہ خود بھی مجاہد ہیں مگر یہ سچ ہے کہ اتنی جلدی شہادت کی خبر سننے کے لیے وہ تیار نہ تھے بلکہ وہ تو ابھی حنظلہ کے جہادی کارنامے سننے کے منتظر تھے مگر مبارک ہے ان کو کہ تو قع کے برعکس خبر سن کر بھی وہ نہ تو سٹپٹائے اور نہ ہی آہ وواویلا کیا بلکہ اس خبر کا انہوں نے پوری گرم جوشی سے استقبال کیا اور خبرکے بعد پہلی افطاری پر ہی ان کے گھر پر بہت بڑا اجتماع منعقد ہوا ، پرجوش اور نظریات بھری تقریریں ہوئیں جس میںسب سے زیادہ وزن دار تقریر خود حنظلہ کے والد گرامی کی تھی … میں اس مجلس میں تو حاضر نہیںتھا البتہ اس کے دو دن بعد وہاں حاضری دی تو دیکھا کہ اس پورے گھرانے پر نور کی بارش جاری ہے ، حنظلہ کے والد ہوں یا والدہ ، بھائی ہوں یا بہنیں ، ہر ایک کی زبان اور دل شکر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سب مزے لے لے کر حنظلہ اور اس کی پر نور زندگی کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

یہاں ان کے گھر پر ایک اور بات بھی پیش آئی اس کا تذکرہ کر کے بات ختم کرتے ہیں اس کا تذکرہ اس لیے ضروری ہے تاکہ ایک عام غلط فہمی کا ازالہ ہوسکے ۔ہوا یوں کہ ہم ابھی ادھر گھر پر ہی موجود تھے کہ وہاں مزید کچھ لوگ بھی آگئے جن میں کچھ بزرگ حضرات بھی تھے ۔دوران گفتگو پہلے دبے لفظوں میں پھر سرعام حنظلہ کی اس عمر میں لانچنگ پرسوال اُٹھنے لگے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آوازیں بھی بلند ہونے لگیں ،میرے لیے وہاں بولنا مناسب نہیں تھا اور مجھے ہدایت بھی یہی دی گئی تھی کہ آپ خاموش رہنا ،مگر کچھ دیرخاموش رہ کر میں نے محسوس کیا کہ خاموشی کا صاف مطلب یہی ہے کہ ہم بھی اس عمر میں جہاد کرنے کو جرم ہی سمجھتے ہیں اور حنظلہ کو کشمیربھیجناواقعتا ہمارا جرم ہے ،چنانچہ مجھے بولنا ہی پڑا اور میں نے بزرگوں کی خدمت میں مختصراً عرض کر دیا کہ جناب میں اور آپ بلکہ پورے برصغیر کے لوگ جو آج کلمہ پڑھ کر ایک خدا کے آگے جھک رہے ہیں یہ سب کچھ حنظلہ ہی کی عمر کے ایک 17سالہ مجاہد جسے تاریخ اسلام محمد بن قاسم کے مبارک نام سے جانتی ہے کا مرہون منت ہے ،اگر وہ نہ ہوتے تو کیا معلوم آج ہم ہندوستان کے بتکدوں میں کیسے کیسے بھگوانوں کے سامنے سجدے کر رہے ہوتے ، محمد بن قاسم سترہ سال کی عمر میں بحیرہ عرب کا سینہ چیرتے ہوئے ادھر پہنچے ،جہاد کیا ،اسلام کو غالب کیا ،تو آج ہم بھی مسلمان ہیں اور محمد بن قاسم کو اپنے ماتھے کا جھومر سمجھتے ہیں … تعجب کی بات ہے کہ ہم محمد بن قاسم اور ان کے جہاد کوتو اسلام کی سنہری تاریخ قرار دیتے ہیں مگر اس گئے گزرے دور میں اگر کوئی ہمارا بچہ اس محمد بن قاسم کی راہ پر چل پڑے اور مظلوم مسلمان بہنوں کی چیخ وپکار پر محمد بن قاسم بن کر میدان میں نکل پڑے تو ہماری زبانیں دراز ہو جاتی ہیں اور ہم اعتراضات کی وہ بوچھاڑ کر تے ہیں کہ تاریخ ہم پر ہنس پڑتی ہے انا للّٰہ واناالیہ راجعون

خوب یاد رکھیں حنظلہ شہید جیسے نوجوان جیسے کل اس امت کے ماتھے کا جھومر تھے ویسے ہی آ ج بھی اس امت کے ماتھے کا جھومر ہیں ۔ میں تو کہتا ہوں کہ یہ وہ قابل فخر لوگ ہیں جنہوں نے ہمارے آج کو اُٹھا کر ہمارے گزشتہ کل سے ملا دیا ہے اور ان کی روشن پیشانیوں کی کرنوں سے لَو لے کر ہم دیکھ رہے ہیں کہ جیسے کل کفر کا سورج غروب اور اسلام کا سورج طلوع ہو ا تھا ایسے آج بھی ہونے والا ہے۔

لہٰذا اے نوجوانان اسلام !تم کسی کی باتوں اور اعتراضات سے متأثر نہ ہونا ،وہ دیکھو میدان بدر میں عمیر بن ابی وقاصؓ اتنی کمسنی کے عالم میں مشرکین کے لشکر پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں کہ ان کے بھائی سعد بن ابی وقاصؓان کی کمسنی کی وجہ سے ان کی تلوار کے پٹے کو گرہیں لگا رہے ہوتے ہیں ، وہ دیکھو انصار کے دو کم سن لڑکے معاذؓاور معوذؓ اس امت کے سب سے بڑے فرعون ابو جہل کا قصہ اپنے ہاتھوں سے تمام کررہے ہیں، وہ دیکھو رافع بن خدیجؓ اور سمرہ بن جندب ؓ چودہ چودہ سال کی عمر مین غزوہ احد میں شمولیت کے لیے نبی کریمﷺ کی موجودگی میں کشتیاں کر رہے ہیں اور وہ دیکھو سلطان محمد فاتح صرف 22سال کی عمر میں خلافت کا بوجھ اٹھا تے ہیں اور پھر خشکی پر کشتیاں چلاتے ہوئے سلطنت روما کے آخری گڑھ قسطنطنیہ کو روند کر فتح کر لیتے ہیں اور حضور ﷺ سے جنت کی بشارت پاتے ہیں۔

لہٰذا اعتراضات کی پرواہ نہ کر و اٹھو ،آگے بڑھو اور اس امت کی کشتی کو جو بیچ منجھدار کے ہچکولے کھارہی ہے اس کو کنارے لگا دو، یقیناً یقیناً اگر تم نے یہ کر لیا تو بعد والی نسلیں تمہیں ایسے ہی یاد کریں گی جیسے آج ہم محمد بن قاسم ؒ،طارق بن زیاد ؒ،سلطان محمد فاتحؒ اور دوسرے فاتحین کو یاد کرتے ہیں اور جہاد پر ہونے والے اعتراضات ماضی کی طرح معترضین سمیت مٹ جائیں گے اور تم زندہ رہوگے ۔

ہم چراغوں کو تو تاریکی سے لڑنا ہے فراز

گل ہوئے پر صبح کے آثار بن جائیں گے ہم

آخر میںحنظلہ شہیدکی خدمت میں چند اشعارجو حنظلہ کے مکمل حسب حال ہیں ؎

وہ شخص تھا ایک گلاب جیسا

چمن میں رنگ شباب جیسا

جہاں کی ہنگامہ خیزیوں میں

محبتوں کا تھا باب جیسا

پہاڑوں جیسا تھا عزم اس کا

جنوں تھا اک سیلِ آب جیسا

وہ روبرو سارے جابروں کے

کھڑا تھا یوم حساب جیسا

نظام باطل کے رہبروں کو

وہ اک شعلہ عذاب جیسا

سحر کا تھا ایک استعارہ

طلوع ہوا آفتاب جیسا

افق کے اس پار جا چکا ہے

وہ دل میں زندہ ہے خواب جیسا

اللہ سے دعاء ہے کہ وہ اس امت کی گود مولانا نواز صاحب جیسے لوگوں سے بھر دے جن کی گود میں حنظلہ شہید جیسے بچے پروان چڑھیں اور پھران کے ہاتھوں اس امت کی عظمتِ رفتہ اور سطوتِ گزشتہ بحال ہوجائے۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز

٭…٭…٭