کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے  (آخری قسط)

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے  (آخری قسط)
اوریا مقبول جان  پير 20 مارچ 2017

سپریم کورٹ کے سامنے سینٹرل سلیکشن بورڈ کے حق میں جو سب سے بڑی دلیل پیش کی گئی وہ یہ تھی کہ اس میں پورے پاکستان کے نمایندہ اعلیٰ افسران موجود ہوتے ہیں۔ ان میں چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹری، انسپکٹر جنرل پولیس، اہم ترین فیڈرل سیکریٹری، چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو، سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیکریٹری کیبنٹ جیسے اعلیٰ ترین تجربہ کار اور ملکی معاملات کے سرد گرم کشیدہ افراد ہیں۔ اس لیے ان کا فیصلہ اس ملک کی بیوروکریسی کی اجتماعی عقل و دانش ”Collective Wisdom” سمجھا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان بحث کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے ترقیوں کے معاملے میں شدید بے قاعدگیاں کی ہیں اور منظور نظر افراد کے لیے اصول و قواعد کو جس طرح نظر انداز کیا اس کی مثال پاکستان کی گزشتہ تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن اس کے باوجود جب اٹارنی جنرل اور چار حکومتی وکلاء اس بات پر مصر ہوئے کہ یہ بیورو کریسی کی اجتماعی عقل و دانش ہے تو میں نے عدالت کے معزز جج حضرات سے کہا کہ اگر اس ملک کی بیورو کریسی کی اجتماعی عقل و دانش متفقہ طور پر بددیانت ہوجائے، جب ان سب میں سے کوئی ایک شخص بھی اختلافی نوٹ تحریر نہ کرے کہ کہیں اس کی نوکری خطرے میں نہ پڑ جائے، اس کی مراعات میں کمی نہ کردی جائے، اسے او ایس ڈی نہ لگا دیا جائے تو پھر یہ اس ملک کے لیے عبرت کا مقام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے آرٹیکل 184 (3) کے تحت ملک کی سب سے بڑی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے زیادہ ’’قومی اہمیت‘‘ کا معاملہ اور کیا ہو گا کہ حکومت پر بیٹھے سیاسی آقا یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں فلاں شخص کو ترقی دی جائے اور فلاں فلاں کو نہیں اور اس ضمن میں قوانین کو توڑنا مروڑنا، ان فیصلوں کا جواب فراہم کرنا تمہارا کام ہے اور یہ حکم سنتے ہی پورے ملک کی بیورو کریسی کے منتخب اعلیٰ دماغ سر تسلیم خم کر دیں، اجتماعی سجدے میں گر جائیں اور اپنے غلط فیصلے کو اجتماعی عقل و دانش ”Collective Wisdom” کا نام دے کر ڈھٹائی کے ساتھ اس کا دفاع کریں۔
میں نے عدالت سے کہا کہ اگر مجھے ترقی عزیز ہوتی تو میں آغاز سے ہی ان تمام لوگوں کی طرح بننے کی کوشش کرتا اور اگر پھر بھی ترقی نہ ملتی تو وہ راستہ اختیار کرتا جو ترقی کے قوانین کے مطابق ہے۔ یعنی سروسز ٹربیونل میں اپیل، لیکن میں تو سپریم کورٹ کے سامنے اپنی ترقی کی درخواست ہی لے کر نہیں آیا، اگر ایسا مقصود ہوتا تو اس مقدمے کی پہلی پیشی پر سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے عدالت کے سامنے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ مجھے فوری طور پر ترقی دینے کو تیار ہے اور میں نے اس آفر کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر آج اس زوال پر بحث کرتے ہوئے حالات سدھارنے کی کوشش نہ کی گئی تو اگلے سالوں میں آپ کو افسران میں ایماندار، باضمیر اور جرأت مند آفیسر ڈھونڈے سے بھی نہیں ملیں گے۔
میری اس دلیل کے بعد کیس کی باقاعدہ سماعت کا آغاز ہوا۔ حکومت کی جانب سے اٹارنی جنرل، اور مختلف بیورو کریٹس کی طرف سے وکلاء کا ایک پینل پیش ہوتا رہا جن میں سپریم کورٹ کے سابق صدر رشید اے رضوی، سابق سینیٹر اور وکیل افتخار گیلانی اور سروس کے معاملات کے ماہر وکلا جب کہ میرے پاس تو لاہور سے اسلام آباد سفر کے اخراجات بہم کرنا بھی ان دنوں مشکل تھا۔ اس لیے میں بغیر کسی وکیل کی مدد کے بذات خود عدالت میں یہ مقدمہ لڑتا رہا۔ کئی تاریخوں کی مسلسل بحث کے بعد چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز چوہدری نے ایک فیصلہ تحریر کیا جو آج بھی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر مقدمہ نمبر 22 of 2013 کے ریفرنس سے پڑھا جاسکتا ہے۔
یہ فیصلہ گزشتہ چار سال سے پاکستانی بیورو کریسی کے گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔ اس لیے اس فیصلے میں کچھ ایسے اصول و ضوابط وضع کردیے گئے ہیں کہ کوئی ان پر عمل نہیں کرنا چاہتا۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہر سیاسی پارٹی کے اپنے وفادار سرکاری افسران ہیں اور اس کے نزدیک وہی ایماندار ہیں، وہی قابل ہیں اور انھی کو ترقی ملنا چاہیے۔ اسی لیے ان سیاسی حکومتوں کے ’’چہیتے‘‘ اور ’’لاڈلے‘‘ ان ترقیوں، پوسٹنگوں اور مراعات کے لیے اپنے اپنے سیاسی گھرانوں کا طواف بلکہ مستقل طواف کرتے رہتے ہیں۔ فیصلہ دو اہم معاملات کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔ ایک سیاسی اثرو رسوخ اور گروہ بندی کا خاتمہ اور دوسرا کرپشن اور بددیانتی کا تدارک۔ عدالت کے سامنے میں نے ان دونوں کے حل کے لیے دو تجاویز رکھیں۔
سیاسی اثرو رسوخ یا گروہ بندی کا خاتمہ ایک ایسے آزاد و خود مختار سینٹرل سلیکشن بورڈ سے ہوسکتا ہے جس کے ممبران کومنتخب کرنے کے لیے کوئی سیاسی فرد شامل نہ ہو بلکہ یہ لوگ پاکستان بھر کے اعلیٰ ترین دماغوں پر مشتمل ہوں جن کا انتخاب یونیورسٹیوں، عدالتوں اور دیگر اعلیٰ سطحی اداروں سے کیا جائے۔
یہ منتخب افراد پاکستانی معاشرے کا وہ سرمایہ ہوں جن پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے۔ یہ جب ترقی جانچنے کے لیے سیاسی وفاداری کو دیکھنا چاہیں تو کسی قدر آسان فارمولا بنایا جاسکتا ہے۔ مثلاً اگر 17 گریڈ میں ایک آفیسر ن لیگ کے دور اقتدار میں اچھی پوسٹنگ لیتا ہے تو اسے پانچ نمبر دیے جائیں۔ اگر 18گریڈ میں بھی ن لیگ ہی اسے اچھی پوسٹنگ دے تو پھر بھی پانچ نمبر دے دیے جائیں لیکن اگلے گریڈ میں بھی اسے اگر ن لیگ ہی اچھی پوسٹنگ دے تو پھر پانچ نمبر منفی کر دیے جائیں۔ اسی طرح دوسری سیاسی پارٹیوں کے افراد کے معاملے میں بھی کیا جائے۔ آپ کو ایسے افسران مل جائیں گے جو سیاسی وفاداری سے پاک ہوں گے۔ اس فارمولے کو مزید بہتر بناکر سیاسی وفاداریاں جانچنے کا شاندار پیمانہ بنایا جا سکتا ہے۔
کرپشن اور بددیانتی کا صرف ایک ہی حل دریافت کیا گیا ہے کہ افسران سے ان کے اثاثہ جات کے گوشوارے ہر سال پُر کروائے جاتے ہیں اور پھر انھیں ایک بڑے سے کمرے کی الماریوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ ان گوشواروں پر کنٹرول بھی انھی کے سینئر افسران کا ہوتا ہے۔ پورا گروہ ان گوشواروں پر ایسے بیٹھا رہتا ہے جیسے خزانے پر سانپ، اس لیے ان گوشواروں کو کبھی کھول کر نہیں دیکھا گیا کہ کون صحیح بیانی کررہا ہے اور کون غلط بیانی۔ اس کے لیے ایک بالکل آزاد اور خود مختار ادارہ قائم کیا جائے جہاں ایک آفیسر نوکری میں آتے ہی اپنے، اپنے والدین اور بہن بھائیوں کے اثاثہ جات کی تفصیل جمع کروائے۔
عموماً یہ ہوتا ہے کہ کرپشن کے پیسے سے یا تو والدین کی جائیداد میں اضافہ ہوتا ہے یا پھر بیوی اور سسر کی جائیداد میں۔ ہر ’’کامیاب‘‘ سرکاری آفیسر کے والدین نسلی امیر اور صاحب جائیداد بن جاتے ہیں، جیسے ہر فلمی ہیروئین کے والدین ’’بہت سخت‘‘ ہوتے ہیں۔ یہ تمام گوشوارے ہر سال بھروائے جائیں اور وہ آزاد اور خود مختار ادارہ ہر سال ان کے بارے میں تفتیش و تحقیق کرے۔ اس کے بعد جب یہ افسران اعلیٰ گریڈ یعنی 20 گریڈ میں ترقی کے لیے جانچے جائیں تو ان کی جائیدادوںکو اخبارات میں مشتہر کیا جائے اور لوگوں سے ان پر معلومات طلب کی جائیں۔ یہ عوامی عہدوں پر فائز ہوتے ہیں اس لیے ان کی اس طرح کی ذاتی زندگی بھی عوامی جانچ پڑتال کا حق رکھتی ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ ایک بڑے ضلع میں دس سے زیادہ ممبران قومی اسمبلی اور اس سے زیادہ ممبران صوبائی اسمبلی ہوتے ہیں۔ ان کی جائیدادوں کی عوامی سطح پر جانچ پڑتال ہوتی ہے لیکن اس پورے ضلع میں ایک ڈپٹی کمشنر، ایس پی یا انکم ٹیکس کمشنر ہوتا ہے لیکن ان کی جائیدادیں عوام کی نظروں سے اوجھل رکھی جاتی ہیں۔ یہ لوگ کسی بھی عوامی عہدہ رکھنے والے شخص سے بھی زیادہ عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہئیں۔
ان تجاویز کے بعد سپریم کورٹ نے حکومت کو ایک فارمولا وضع کرنے کے لیے فیصلہ دیا، وہ تمام ترقیاں  کالعدم قرار دے دیں اور آیندہ کے لیے یہ قانون مرتب کردیا کہ سیاسی وفاداری جانچے بغیر اور بددیانتی اور کرپشن کے معاملات کو زیر غور لائے بغیر ترقی نہیں دی جاسکتی۔
یوں تھا کہ اس فیصلے کے بعد سول سروس کی راکھ میں بچی ہوئی چنگاریوں سے دیانت اور میرٹ کی گرمجوشی برآمد ہوگی لیکن اس  کے بعد جو ہوا وہ ہماری قومی بدقسمتی کی داستان ہے۔ عدالتی مقدمہ بازی کا دروازہ کھلا، ہر کوئی جومایوس ہوتا ہے، عدالت جاتا ہے اور میرے والے کیس کا حوالہ دیتا ہے۔ کئی سو لوگ ترقی پاتے ہیں اور پھر واپس جاتے ہیں۔ آخر چار سال بعد سپریم کورٹ کو ایک بار پھر کہنا پڑتا ہے کہ ماتحت عدالت کا یہ حکم درست ہے۔
”Is declared to be un lawful and in violation of the law laid down by the Supreme Court in Orya Maqbol case”
’’ہم اس سب کو غیر قانونی اور ان قوانین کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں جو سپریم کورٹ نے ’’اوریا مقبول کیس‘‘ میں بتائے تھے‘‘
ایسے حالات میں بہتری کی کیا امید رکھی جاسکتی ہے۔ صرف ایک راستہ ہے۔ پورے سیٹ کو از سرنو مرتب کیا جائے۔