کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے

کریدتے ہو جواب راکھ جستجو کیا ہے
اوریا مقبول جان  جمعرات 16 مارچ 2017

آج سے چار سال قبل جب میں سول سروس میں ترقیوں کے طریق کار اور بہتری کے لیے درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچا تو مجھے اس بات کا اندازہ تک نہ تھا کہ بیورو کریسی جس طرح گزشتہ پچاس سالہ دیمک سے ایک کھوکھلی عمارت بن چکی ہے اور اب جس کا صرف خول باقی ہے، اسے واپس بہتری کی طرف لانے کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوجائیں گی۔
یہ 1959ء کی بات ہے جب ملک میں پہلا مارشل لاء لگا۔ ایک فوجی جرنیل کو ملک کے ادارے سنوارنے سدھارنے کی خواہش بے چین کیے رکھتی ہے۔ ویسے بھی ایوب خان تو انگریز کے زمانے سے اس بیورو کریسی کا ہم نوالہ و ہم پیالہ چلا آرہا تھا۔ اس کے اقتدار سے پہلے سول بیورو کریسی ایک ’’سینئر پارٹنر‘‘ کے طور پر اور ملٹری بیورو کریسی ایک جونیئر پارٹنر کے طور پر ملک کے اقتدار میں شریک تھی۔ اسی لیے قیام پاکستان سے لے کر ایوب خان کے 27 اکتوبر 1958ء کے مارشل لاء تک آپ کو سیاست دانوں کے اقتدار کے ساتھ کھیلتے اور اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہوتے یہ بیورو کریٹ ہی نظر آئیں گے۔ گورنر جنرل غلام محمد سے لے کر سکندر مرزا تک ایک تاریخ ہے۔
انگریز نے اس سول سروس کا خمیر مغرب کی کاسہ لیسی اور سیکولر اقدار پر رکھا تھا۔ اس لیے انھوں نے پہلے گیارہ سال پوری کوشش کی یہ ملک اپنی اساس یعنی کلمۂ طیبہ پر قائم نہ ہوسکے۔ غلام محمد اور اس کے بیورو کریٹ ساتھی بھارت کی طرز پر رکھی ہوئی ایک قرارداد مقاصد لے کر وزیراعظم لیاقت علی خان کے پاس گئے اور اسے اس سیکولر لبرل قسم کی قرارداد کو اسمبلی سے پاس کروانے کے لیے کہا۔ ابھی وہ لوگ زندہ تھے جنہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا۔ انھیں ان لاکھوں شہداء کے خون رنگ چہرے بھی یاد تھے جو اس لیے شہید کردیے گئے کہ وہ کلمہ طیبہ پڑھتے تھے۔ انھیں یاد تھا کہ جب مسلمان اس خطے میں آزادی کی تحریک چلا رہے تھے تو یہ بیورو کریٹ انگریز کی ملازمتوں پر فائز ڈپٹی کمشنر یا ایس پی کی حیثیت سے انھی مسلمانوں کے خلاف کیس بنارہے تھے، لاٹھی چارج کرتے تھے اور ترغیبات دے کر خریدنے کی کوشش کرتے تھے۔
دوسری جانب پوری قوم پاکستان کی مذہبی قیادت کے پیچھے متحد ہوگئی۔ مسلم امہ کی تاریخ میں تقریباً 12سو سال بعد شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی سب نے مل کر 22 نکات متفقہ طور پر تحریر کیے اور سیاسی قیادت سے کہا کہ اگر اس بنیاد پر آئین بنادیا جائے تو انھیں کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ قرارداد مقاصد منظور ہوئی۔ یہ تصور مان لیا گیا کہ اقتدار اعلیٰ اللہ سبحان و تعالیٰ کا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں انگریز کی بنائی ہوئی، مغربی اقدار میں رچی سیکولر بیورو کریسی کی پہلی شکست تھی۔ اس کے بعد ان کا سازشی چہرہ سامنے آنے لگا۔ گورنر جنرل غلام محمد جو انھی کی صفوں سے نکل کر اقتدار پر قابض ہوا تھا، اس نے آئین ساز اسمبلی ہی توڑ دی۔
1956ء کی اسمبلی نے ایک اسلامی روح کے ساتھ آئین مرتب کیا تو سابق فوجی افسر اور بعدازاں سول سروس کے اہم رکن سکندر مرزا نے مارشل لاء لگا دیا جسے پاکستان کی عدلیہ کے بدنام کردار جسٹس منیر نے تحفظ دیا اور یہ نظریہ دیا کہ ’’ہر فاتح انقلاب جائز ہوتا ہے۔‘‘ یوں ایوب خان کو احساس ہوا کہ اصل طاقت تو اس کی فوج کے پاس ہے جس کے بل بوتے پر سکندر مرزا نے مارشل لاء لگایا تو اس نے صرف 20 دن بعد اسے ایوان صدر سے نکال کر خود براجمان ہوگیا۔ سول سروس سے اسے پرانی رنجش تھی۔ لاہور میں اس انگریز دور کی اشرافیہ اور سول سروس کے دو کلب تھے، ایک جم خانہ جو لارنس گارڈن کے بیچ خوبصورت عمارت میں تھا جسے آج کل قائداعظم لائبریری کہتے ہیں اور دوسرا پنجاب کلب جو مال روڈ پر پرل کانٹی نینٹل کے سامنے عمارت میں تھا جس میں آج کل اسٹاف کالج قائم ہے۔
ایوب خان نے اوائل نوکری میں ان دونوں کلبوں کی ممبر شپ کے لیے درخواست دی جو سول بیورو کریسی اور سیاسی اشرافیہ نے مسترد کردی کہ فوج ابھی تک اقتدار کی ’’جونیئر پارٹنر‘‘ تھی۔ ایوب خان نے آتے ہی ان دونوں کلیوں کو ان عالیشان عمارتوں سے بے دخل کردیا اور جسٹس کارنیلس کی سربراہی میں سول سروس کو بہتر بنانے کے لیے ایک کمیشن قائم کیا۔ اس وقت تک سول سروس اپنے بام عروج پر تھی اور اس کے دامن پہ بددیانتی کے چھینٹے نہیں تھے۔ لیکن کارنیلس کی رپورٹ نے خطرے کی گھنٹی بجادی اور کہا ’’گزر گئے وہ دن جب سی ایس پی آفیسر ایماندار ہوتے تھے، اس وقت تین بڑے کرپشن کیس انھی سی ایس پی افسران کے خلاف چل رہے ہیں۔ بیورو کریسی نے حالات کا جائزہ لیا اور پھر سرنگوں ہوکر فرمانبرداری کے ساتھ ایوب خان اور یحییٰ خان کی ملٹری بیورو کریسی کی نوکری کرنے لگ گئی۔ آقا کو خوش رکھنا تو ان کی گھٹی میں 1773ء میں ڈال دیا گیا تھا۔
اب جیسا آقا ویسے ہی یہ سول سرونٹ۔ جو خادم نما نہیں تھے پہلے ایوب خان نے نکالے پھر یحییٰ نے 303 کو نکال کر ایک ایسا خوف قائم کیا کہ سب سربسجود ہوگئے۔ ذوالفقار علی بھٹو آیا تو اس نے نوکری کو دیے گئے تمام تحفظات جو آئین میں موجود تھے نکال کر سیاسی بالادستی کے ڈسٹ بین میں پھینک دیے اور ساتھ ہی ایسے چودہ سو سول سرونٹس کو نشان عبرت بنانے کے لیے نوکری سے نکال دیا۔ اب بیورو کریسی وہ خوبصورت رقاصہ بن گئی جو ہر نئے آنے والے حکمران کے لیے سج سنور کر اصول و قواعد کی پازبیں پہنے، صلاحیتوں کے گھنگھروں کی جھنکار کے ساتھ حاضر ہوجاتی اور جیسا رقص مقصود ہوتا ویسا رقص کرنے لگتی۔
لیکن اس رقاصہ کے لیے مشکل یہ آن پڑی کہ اب مسند حکومت پر تماش بین آقا دو گروہوں میں تقسیم ہوگئے اور ان کی باریاں لگنے لگیں۔ ایک 1988ء میں آیا تو دوسرا 1990ء، پہلے والا 1992ء میں پھر آگیا، 1997ء میں دوسرے والا آگیا، درمیان میں فوج نے مشرف کے ذریعے اس رقاصہ کو پھرنئے طریقے سے رقص کرنے کے لیے کہا، فوراً ڈپٹی کمشنر کا زرق برق لباس اتار کر ڈی سی او کے سادہ سے کپڑے پہن کر رقص میں مگن ہوگئی۔ جیسی تال اور دھن ویسے ہی رقص کے انداز۔ اب تو اسے عادت سی ہوگئی تھی۔
پوری کی پوری سول سروس نے خود کو دو گروہوں میں تقسیم کر لیا۔ 2008ء میں پہلے والا گروہ پھر آگیا اور 2013ء میں دوسرے والا۔ اب تو سب کے اپنے اپنے لاڈلے تھے، اپنے اپنے چہیتے۔ پیپلزپارٹی کا بہترین افسر، ن لیگ کے لیے بددیانت، کرپٹ اور ناکارہ اور ن لیگ کا بہترین آفیسر پیپلزپارٹی کے لیے بددیانت، کرپٹ اور ناکارہ۔ رقص کا انداز دونوں کا ایک جیسا، لیکن اب محبوبہ اپنی اپنی، کسی دوسرے کی محبوبہ کا اب رقص ایوان اقتدار میں نہیں ہوگا۔ جتنی دیر پہلا گروہ ہے دوسرے والے خوار اور دوسرا گروہ آئے گا تو پہلے والے خوار۔
یہ تھے وہ حالات جب میں اس سول سروس کی ترقی و بہتری کے لیے عدالت کے دروازے پر جاکھڑا ہوا۔ 184(3)کے تحت میری درخواست شنوائی کے لیے منظور ہوئی۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس عظمت سعید اور جسٹس اعجاز چوہدری پر مشتمل بنچ تشکیل ہوا۔ عدالت کا دروازہ جا کھٹکھٹانے کی بنیادی وجہ (Cause of Action) یہ تھا کہ سینٹرل سلیکشن بورڈ نے ملک کی اعلیٰ ترین شخصیت کے بہنوئی کو ترقی دینے کے لیے تمام اصول و قواعد کو پس پشت ڈال کر بائیس اسامیوں کے اوپر 82 لوگوں کو ترقی دی اور اس شخص تک پہنچنے کے لیے 55 لوگوں کو ترقی سے نااہل قرار دے دیا گیا۔ جب عدالت اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ یہ خرابی کا واقعہ ملکی بیورو کریسی کی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے تو مجھ سے سوال کیا گیا کہ آپ براہ راست سپریم کورٹ کیوں آگئے۔
میں نے جواب دیا۔ سینٹرل سلیکشن بورڈ جو بیس سے اکیس گریڈ میں افسران کو ترقی کی سفارش کرتا ہے، اس میں اس ملک کی بیورو کریسی کے اعلیٰ ترین افسران موجود ہوتے ہیں۔ پاکستان کی انتظامیہ ان پر بھروسہ کرتی ہے کہ یہ سب بہتر فیصلہ کریں گے جسے اجتماعی شعور ”Collective Wisdom” کہا جاتا ہے۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ سب کے سب اس بددیانتی اور قانون کے تمسخر پر اکٹھا ہوگئے، ان میں سے ایک نے بھی اختلافی نوٹ نہ لکھا۔ اگر کوئی ایک بھی ایسا ہوتا اور ان سے میری امید قائم رہتی اور میں سپریم کورٹ کا دروازہ نہ کھٹکھٹاتا۔
(جاری ہے)