نظر بد اور اس کا علاج و مسائل


نظر بد اور اس کا علاج و مسائل
آج کل نظر بد لگ جانا عام سی بات ہے، اس معاملے میں کچھ افراط و تفریط بھی دیکھی گئی ہے، چنانچہ اس سلسلہ میں شریعت مطہرہ کی اہم گزارشات پیش خدمت ہیں تاکہ راہِ اعتدال سامنے رہے۔ (سفیان بلند)
احادیث نبویہ کی روشنی میں
١- حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ “العين حق” کہ نظر لگنا برحق ہے۔(بخاری)
٢- حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم سے نقل کرتے ہیں کہ:
“العين حق فلو كان شيء سابق القدر سبقته العين وإذا استغسلتم فاغسلوا”
کہ نظر بد حق ہے یعنی نظر لگنا ایک حقیقت ہے اگر تقدیر پر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی تو وہ نظر ہی ہوتی اور جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے تو تم دھو دو۔ (مسلم)
٣- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے حکم دیا کہ ہم نظر بد  کا اثر دور کرنے کے لئے جھاڑ پھونک کروائیں۔ (متفق علیہ)
فائدہ: نظر بد ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اثر ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ اللہ تعالی نے اس میں یہ خاصیت رکھی ہے کہ سحر کی طرح یہ نظر بد بھی انسان وغیرہ پر اثر انداز ہوتی ہے اور بعض حضرات نے اس کو “زہر” سے تعبیر کیا ہے، ان حضرات کا کہنا ہے کہ جس طرح اللہ تعالی نے بچھو کے ڈنک اور سانپ کے منہ میں زہر رکھا ہے، اسی طرح بعض آدمیوں کی آنکھوں میں بھی زہر رکھا ہے کہ ان کی نظر جس چیز کو بھی لگ جاتی ہے خواہ وہ انسان ہو یا مال و اسباب ہو یا زمین و جائیداد ہو یا کھیتی و باغات اور جانور ہو، اس کو کھا جاتی ہے، چنانچہ نظر بد کو دور کے لئے دعا و تعویز اور جھاڑ پھونک نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ حضور اکرم صلی تعالیٰ علیہ و سلم نے اس مقصد کے لئے مختلف دعائیں بھی تعلیم فرمائی ہیں، اور مشائخ نے بھی مختلف مجربات ذکر کئے ہیں۔
اوپر ذکر کردہ ارشاد مبارک “اگر تقدیر الہٰی بر سبقت لے جانے والی کوئی چیز ہوتی” کا مطلب یہ ہے کہ کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کا مرکز و منبع، تقدیر الہی ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت کا اثر و نفوذ بھی تقدیر الہٰی سے وابستہ ہے اور چھوٹے سے چھوٹے تک کی حرکت و سکون بھی تقدیر الہٰی کے بغیر ممکن نہیں، گویا کوئی چیز بھی تقدیر کے دائرہ سے باہر نکلنے کی طاقت نہیں رکھتی، اگر بالفرض کوئی چیز ایسی طاقت رکھ سکتی کہ وہ تقدیر کے دائرہ کو توڑ کر نکل جائے تو وہ نظر بد ہوتی کہ وہ تقدیر کو بھی پلٹ دیتی اور اس پر غالب آجاتی، گویا یہ بات اشیاء میں تاثیر نظر کی شدت اور اس کے سرعت نفوذ کو زیادہ سے زیادہ کے ساتھ بیان کرنے کے لئے فرمائی گئی ہے۔
حدیث بالا میں یہ ارشاد گرامی بھی ہے: “جب تم سے دھونے کا مطالبہ کیا جائے.”
اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت عرب میں یہ دستور تھا کہ جس شخص کو نظر لگتی تھی، اس کے ہاتھ پاؤں اور زیر ناف حصے کو دھو کر وہ پانی اس شخص پر ڈالتے تھے جس کو نظر لگتی تھی اور اس چیز کو شفا کا ذریعہ سمجھتے تھے، اس کا سب سے ادنیٰ فائدہ یہ ہوتا تھا کہ اس ذریعہ سے مریض کا وہم دور ہوجاتا تھا، چنانچہ حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے اس کی اجازت دی اور فرمایا کہ اگر تمہاری نظر کسی کو لگ جائے اور تم سے تمہارے اعضاء دھو کر مریض پر ڈالنے کا مطالبہ کیا جائے تو اس کو منظور کرلو۔ (مستفاد: مظاہر حق)
بعض روایات میں معوذتین پڑھنے اور بعض روایات میں یہ دعا
(أعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللہِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ)
پڑھنے کا ذکر ہے۔ (ترمذی)
اوپر ذکر کردہ احادیث نبویہ کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ احادیث میں ایک خاص انداز سے نظر لگانے والے کے بدن سے بہا ہوا پانی نظر لگنے والے کے بدن پر ڈالنے کا ذکر ہے، اس سے یہ استدلال کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ تدبیر جس میں شرکیہ کلمات کا استعمال نہ ہو اور نہ ہی کسی اور حرام کا ارتکاب ہو، اُس کو بطور علاج اپنانے کی گنجائش ہے، البتہ یہ واضح رہے کہ مشائخ کے تجربات مباح علاج کی ایک صورت ہے، جس کو دین یا عبادت کا رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی اُسے واجب یا فرض سمجھا جائے، بلکہ اس تدبیر کو تدبیر ہی کے درجہ میں رکھنا ضروری ہے۔  (کتاب النوازل ٣٠٥/١٦)
نظر بد اتارنے کے متعلق اہم مسائل:
١- کالا نشان لگانا
خوبصورت چھوٹے بچے کو نظر لگنے سے بچانے کی غرض سے چہرے پر کالا نشان لگانے کی گنجائش ہے، جیسا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی ایک روایت سے ثابت ہے۔
□ وفی حدیث عثمان أنه رأی صبیا ملیحا، فقال: دسموا نونته کي لا تصیبه العین روی ثعلب عن ابن الأعرابی: النونة النقبة التی تکون فی ذقن الصبی الصغیر ومعنی دسموا سوِّدُوا۔ (تفسیر قرطبی، دار الکتب العلمیۃ بیروت ۱۱/ ۳۲۹، فتاوی قاسمیہ ٣٤٧/٢٣)
٢- مرچیں جلانا:
نظر اُتارنے کے لئے آیات قرآنیہ مثلا سورہ فاتحہ یا سورة القلم کی آخری دو آیات یا معوذتین سات مرتبہ وغیرہ پڑھ کر بطور علاج مرچوں کو جلانا درست ہے۔ (مستفاد: فتاوی محمودیہ ۲۸؍۳۳۱ ڈابھیل)
□ لا بأس بوضع الجمامم في الزرع والمطخة لدفع ضرر العین؛ لأن العین حق ت
صیب المال والآدمي والحیوان، ویظهر أثرہ في ذلک۔ (شامي ٦؍۳٦٤ کراچی)
٣- گلے میں تعویذ پہنانا:
بچوں کی شرارت کم کرنے کے لئے اور اُن کو نظر بد سے بچانے کے لئے گلے میں تعویذ پہنانا جائز ہے، بشرطیکہ وہ شرکیہ یا غیر شرعی کلمات پر مشتمل نہ ہوں۔ (کتاب النوازل ٣٠٧/١٦)
□ ولا بأس بالمعاذات إذا کتب فیها القرآن أو أسماء اللّٰہ تعالی، وإنما تکرہ العوذۃ إذا کانت لغیر لسان العرب ولا یدریٰ ما هو، ولعله یدخله سحر أو کفر أو غیر ذٰلک، وأما ما کان من القرآن أو شيء من الدعوات فلا بأس به۔ (شامي، کتاب الحظر والإباحة / قبیل: فصل في النظر والمس ۹؍۵۲۳ زکریا)
٤- دم اور تعویذ کے لئے تین اہم شرائط:
دم اور تعویذ شرک نہیں بلکہ جائز ہیں اور اسی پر اجماع ہے، البتہ دم اور تعویذ کے لئے تین شرائط کا تحقق لازمی ہے، اگر وہ تین شرائط مفقود ہوجائیں تو پھر اس کے عدم جواز میں کوئی شک و شبہ نہیں، البتہ مطلقاً دم اور تعویذ کو شرک کہنا غلط ہے، وہ شرائط یہ ہیں:
١- تعویذات اللہ کے کلام یعنی قرآن کریم سے ہوں یا اللہ کے اسماء و صفات سے ہوں۔
٢- عربی زبان میں ہوں اور اگر کسی عجمی زبان میں ہوں تو اسکے الفاظ کے معانی معلوم ہوں۔
۳- دم کرنے اور کروانے والا دونوں یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ دم اور تعویذ میں بذاتہ کوئی تاثیر نہیں بلکہ مؤثر حقیقی صرف اللہ تعالی کی ذات ہے، یہ دم اور تعویذ صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔
جیسا کہ فتح الباری میں ہے:
“وقد أجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثة شروط: ان یکون بکلام اللہ تعالی، أو باسمائه وصفاته وباللسان العربی أو بما یعرف معناہ من غیرہ، وإن یعتقد أن الرقیة لا توثر بذاتها بل بذات اللہ تعالیٰ……” الخ۔(کتاب الطب – باب الرقی ۱۰؍۱۹۵)
اور مسلم شریف میں ہے کہ جس دم اور تعویذ میں شرک نہ ہو وہ جائز ہے اس میں ممانعت نہیں، جیسا کہ فرماتے ہیں:
“لابأس بالرقی مالم یکن فیه شرك” (باب استحباب الرقیة من العین والنملة -۲؍۲۲٤، قدیمی)
مذکورہ شرائط کے ساتھ دم اور تعویذ کے جواز پر چاروں ائمہ متفق ہیں، جیسا کہ “کتاب الاثار” میں ہے:
“قال محمد: وبه نأخذ إذا کان من ذکر اﷲ أو من کتاب ﷲ وھو قول أبی حنیفة” (کتاب الحظر والاباحة -باب الرقیة من العین والاکتواء -رقم الحدیث: ۸۸۹- ۳۷٦ – ۳۷۷ الرحیم اکیڈمی)
٥- اسلاف سے دم کرنے اور تعویذ لکھنے کا ثبوت:
١- حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کا تعویذ لکھ کر دینا ثابت ہے۔
٢- حضرت عبد ﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ بچے کی پیدائش کے لئے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے۔
٣- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ اس بات کو منع نہیں فرماتی تھی کہ پانی کو تعویذ میں ملا کر اس پانی کو مریض پر چھڑکا جائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ)
٤- یہاں تک کہ ابن صلاح رحمہ اللہ سے جب یہ دریافت کیا گیا کہ کیا حیوانات کو بھی نظر لگتی ہے؟ اگر ایسا ہے تو اسکے لئے جائز تعویذ قرآنی کا کیا حکم ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں جانوروں کو بھی نظر لگتی ہے اور انکے لئے قرآنی تعویذ جائز ہے اور مکروہ نہیں ہے البتہ اسکا ترک مختار ہے۔ (تجلیات صفدر)
غرض کہ مذکورہ شرائط پائے جانے کے وقت جائز دم اور جائز تعویذ جائز ہے، جیسے جائز علاج جائز ہے اور ناجائز علاج ناجائز ہے۔
٦- تعویذ باندھنا:
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تعویذات وغیرہ بطور علاج کے لٹکائے جاتے ہیں، تو ظاہر سی بات ہے انسان کے جس حصہ اور عضو میں تکلیف ہوگی اسی حصہ اور عضو میں وہ تعویذ بطور علاج و دوا کے باندھا جائے گا، اور اس طرح باندھنا جائز ہے، اور یہی تعویذ وغیرہ اگر کپڑے یا چمڑے میں لپٹا ہوا ہو تو اسے ناف، ران اور جسم کے کسی بھی دوسرے حصے میں باندھنے سے اسکی اہانت نہیں ہوتی جیسا کہ انسان کے جسم کے کسی بھی حصے میں اگر درد ہو اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونک دینے سے اس کی اہانت نہیں ہوتی، تو اسی طرح قرآنی آیات کو اگر بطور علاج کے باندھا جائے تو اسکی اہانت نہیں ہوگی، البتہ کپڑے یا چمڑے میں لپیٹے بغیر تعویذ کو ران وغیرہ کے قریب باندھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں قرآن کریم کی اہانت لازم آتی ہے، جیسا کہ فتاوی شامی میں ہے:
“ولا بأس بان یشد الجنب والحائض التعاویذ علی العضد إذا کانت ملفوفة” (رد المحتار، کتاب الحظر والاباحة، فصل فی اللبس- ٦؍۳٦٤ ایچ ایم سعید)
٧- نقشہ کی صورت میں تعویذ:
جو تعویذات نقشوں و ہندسوں کی صورت میں لکھے جاتے ہیں، اگر وہ ہندسے اور نقشے ایسے ہیں جو کہ قرآن کریم کی آیات اور مسنون دعاؤں کے علاوہ کے ہندسے ہیں تو وہ ناجائز ہیں، ان کا باندھنا اور لکھنا درست نہیں ہے البتہ وہ ہندسے وغیرہ ایسے ہیں جو کہ قرآنی آیات اور مسنون دعاؤں وغیرہ کے ہیں تو ان ہندسوں والے تعویذوں کے جائز ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے، اس لئے کہ وہ قرآنی آیات اور دعاؤں پر دلالت کررہے ہیں، دراصل اکابرین نے عوام کی سہولت کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا ہے، کیونکہ قرآن کریم کی آیت کو بلا وضو اور ناپاکی کی صورت میں چھونا جائز نہیں ہے، جبکہ ان حالات میں ان کے ہندسوں اور نقشوں کو چھونا جائز رہے گا۔
حاصل یہ ہے کہ جائز تعویذات کے نقش اور ہندسے جائز اور ناجائز کے ناجائز ہیں اور اکابرین نے آیات کے نقش اور ہندسوں میں تاثیر ہونے پر اپنے تجربات کو ذکر کیا ہے اور اس میں علاج والی تاثیر موجود ہونے کی صراحت کی ہے، لہٰذا جائز تعویذات کے نقش و ہندسوں کے عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں ہے جیسا کہ فتاویٰ شامی میں ہے:
“اقول الذی رایته فی المجتبی: التمیمة المکروھة ما کان بغیر القرآن…ولا باس بالمعاذات اذا کتب فیھا القرآن أو أسماء ﷲ تعالی و یقال رقاہ الراقی رقیا أو رقیة إذا عوذہ ونفث فی عوذته قالوا: وإنما تکرہ العوذۃ إذا کانت بغیر لسان العرب ولا یدری ما ھو ولعله یدخله سحر أو کفر أو غیر ذلک و اما ما کان من القرآن أو شئی من الدعوات فلا بأس به” اھ (المرجع السابق: ٦؍۳٦٣)
اور قرآن کریم کے الفاظ کو آگے پیچھے اور اُلٹ پلٹ کر لکھنا خلاف سنت اور ناجائز ہے اور ایسی لکھائی پر مشتمل تعویذ بھی خلاف سنت اور ناجائز ہے، جیسا کہ “الاتقان فی علوم القرآن” میں ہے:
“وقال البیھقی فی شعب الایمان من یکتب مصحفا فینبغی ان یحافظ علی الهجاء الذی کتبوا به تلک المصاحف ولا یخالفھم فیه ولا یغیر مما کتبوہ شیئا فانھم کانوا اکثر علما وا صدق قلبا ولسانا واعظم أمانة منا فلا ینبغی أن نظن بانفسنا استدراکا علیھم……الخ (النوع السادس والسبعون فی مرسوم الخط وآداب کتابته -فصل :القاعدۃ العربیة -۲؍۱٦٧ سہیل اکیڈمی لاھور / مستفاد : فتاوی بینات ١١٧/٢)
٩- نظربد اور حسد سے حفاظت کا اہم وظیفہ:
کسی کو نظر بد لگ جائے یا وہ کسی کے حسد کا شکار ہوجائے تو اس کو ختم کرنے کا یہ ایک اہم وظیفہ ہے، وہ یہ کہ ایک بالٹی میں پانی بھرلے اور پھر اس میں اپنے دونوں ہاتھ آدھی بالٹی تک ڈال کر یہ پڑھے :
سات دفعہ درود شریف
سات دفعہ سورة الفاتحة
سات دفعہ آیت الکرسی
سات دفعہ سورة الکافرون
سات دفعہ سورة الاخلاص
سات دفعہ سورة الفلق
سات دفعہ سورة الناس
پھر سات دفعہ درود شریف
اور یہ پڑھ کر پانی پر دم نہیں کرنا بلکہ اس پانی سے غسل کرلیں۔
یہ عمل اکیس دن تک کیا جائے یا چودہ دن تک کیا جائے یا سات دن کیا جائے ورنہ کم از کم ہر ہفتہ میں ایک دن ضرور کیا جائے۔
ناشر: دارالریان کراتشی