سب سے بڑا ڈراما

سب سے بڑا ڈراما
پاکستان کے اسٹیج پر پاکستان کا سب سے بڑا ڈرما اور کامیاب ڈراما کامیابی سے جاری، ساری ہے، ڈرامے کے ہدایت کار اپنی ہدایت کاری کے جوہر دکھارہے ہیں… ہدایت کار کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہوتی ہے کہ اسے اپنے ڈرامے میں کسی سے کیا کام لینا ہے یا اس کے ڈرامے میں کتنے اتار اور چڑھائو ہیں… اس میں کتنے جذباتی سین ہیں… ہدایت کا ر نے ا س میں ڈانسوں کا بہت زیادہ حصّہ رکھا ہے تاکہ لوگ پوری توجہ سے ڈرامے کو دیکھیں… نظر ادھر سے ادھر نہ کر سکیں… آج جس وقت یہ کالم لکھا جا رہا ہے، اس ڈرامے کو شروع ہوئے آٹھ دن گزر چکے ہیں… اور واقعی… ہم نے… یعنی تمام پاکستانیوں نے اس ڈرامے کو بہت دلچسپی سے دیکھا ہے… پورے پاکستان کا موضوع آج کل یہی ڈرامہ ہے… پاکستان بھر کا کوئی شعبہ بھی ایسا نہیں جس نے اس ڈرامے کو اپنا موضوع ِ نہ بنایا ہو… کوئی ادارہ ایسا نہیں جس نے اس ڈرامے پر بات نہ کی ہو، گویا ہم سب اس وقت من حیث القوم اس ڈرامے کی لپیٹ میں ہیں… ڈرامے نے ہم سب کو مکمل طورپر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے…
وہ نوجوان طبقہ جو کبھی اخبارات کو ہاتھ تک نہیں لگاتا… چینلوں پر کبھی خبریں نہیں سنتا… ان دنوں تو

وہ طبقہ بھی کم ازکم دوسروں سے یہ ضرور پوچھ رہاہے… یہ کیسا ڈرامہ شروع ہو گیا… اس نے ہمیںہمارے ڈراموں سے بھی محروم کر دیا ہے… ہر بڑا ہم سے کہہ رہا ہے… ہٹو… ہمیں خبریں سننے دو… چینلوں کے تجزیے سننے دو… ابھی ابھی ایک ایس ایم موصول ہوا ہے… ذرا آپ بھی پڑھ لیں: ’’بیگم! میں سونے لگا ہوں… اگر صبح سویرے تک انقلاب آجائے اور نیا پاکستان بن جائے تو مجھے اٹھا ضرور دینا، ایسا نہ ہو، میں پرانے پاکستان میں سوتا رہ جائوں۔‘‘ جمہوری حکومت اتنی کمزور ہوتی ہے کہ حکمران اور ممبران پارلیمنٹ میں محصور ہوجائیں اور کچھ بھی نہ کر سکیں… کہا جارہا ہے… ڈرامے میں حصہ لینے والوں میں معصوم بچے اور عورتیں بھی ہیں، اس لیے ہم گولی چلانے کا حکم نہیںدیں گے… تو پھر ڈرون حملوں کا کیا جواز رہ جاتا ہے… کوئی ہے… جو اس سوال کا جواب دے سکے… ہم جواب کو خوش آمدید کہیں گے۔
عورتوں اور بچوں کو آنے کیوں دیا گیا…؟ آئے دن قانون میں ترمیمیں کی جاتی ہیں… جمہوری حکومت میں احتجاج اگر عوام کا حق ہے تو کیا دھرنوں اور جلسوں، جلوسوں میں معصوم بچوںکا شامل ہونا بھی ضروری ہے… یہ قانون کیوں نہیں بنایا گیا کہ عورتوں اور بچوں کو سڑکوں پر نہیں لایا جا سکتا…؟ خواتین آ ٹھ دن سے ڈانس کر رہی ہیں… اسکرین پر ان ڈانسوں کو مسلسل دیکھا جارہا ہے… اور ان ڈانسوں کو دیکھ دیکھ کر ڈانس کے شائقین لڑکے اور لڑکیاں اس ڈرامے میں شامل ہو رہے ہیں… ہدایت کارکو اس پر کوئی اعتراض نہیں… وہ خوش ہو رہا ہے کہ ان ڈانسوں نے تو اس کے ڈرامے کو مزید چار چاند لگا دیے ہیں… اچھا ہے شرکا کی تعداد تو بڑھ رہی ہے، یہی تو ہم چاہتے ہیں… پورے پاکستان کے عوام اس ڈرامے میں شرکت کرلیں… اور پارلیمنٹ میں صرف اس کے ارکان رہ جائیں اور انقلاب آجائے۔
یہ ڈراما سنگل ڈراما نہیں… ڈبل ڈراما ہے… سنگل ڈرا مہ وہ ہے جو سکرین پر سب دیکھ رہے ہیں… دوسرا ڈراما وہ ہے جو اندر خانے صرف ان لوگوں کے درمیان جا ری ہے جو اس ڈرامے کے اصل محرک ہیں… اس ڈرامے کا عنوان ہے ’’ دبائو‘‘ اندر ونی ڈرامے کا ہر کردار اپنا دابائو بڑھا رہا ہے… دبائو بڑھانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے… آپ تقاریر کرنے والوں کو دیکھ لیں… ہر ایک کا انداز یہ ہے، دنیا ادھر کی ادھر ہو جائے، وہ اپنی بات منوا کر چھوڑے گا… بیا نات میں اس قدر شدت ہے… جیسے یہ پرانے زمانے کے جاہلیت کے دور کے قبیلوں کی لڑائی ہے :سرخیاں پڑھیے۔
’’ اگر مجھے ہلاک کر دیا جائے تو ان میں سے کسی کو نہ چھوڑنا۔ ‘‘ ’’ جو اندر ہیں، وہ باہر نہ نکلنے پائیں… جو باہرہیں، وہ اندر نہ جائے پائیں۔ ‘‘ ’’آج اتنے بجے تک استعفیٰ دے دیں… ورنہ ہم اپنے کار کنوں کو نہیں روک سکیں گے۔ ‘‘ ’’ فوج کا معاملہ جلد حل کرنے پر زور۔ ‘‘ ’’وزیر اعظم کسی صورت استعفیٰ نہیں دیں گے۔ ‘‘ ’’وزیر اعظم ہائوس اور ایوان ِ صدر کا گھیرائو۔ ‘‘ ’’ کارکنوں کا پارلیمنٹ کے دروازوں پر قبضہ۔ ‘‘ ’’ کار کنوں کی پاک سیکرٹریٹ میں گھسنے کی کوشش۔ ‘‘ ’’ وہاں موجود اہل کاروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں۔ ‘‘ ’’ اسلام آباد کے دھر نوں کی بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں کوریج۔ ‘‘ ’’ امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے دھرنے کو اہم سیاسی موڑ قرار دے دیا۔ ‘‘ ’’ فو ج کا ڈرائیونگ سیٹ پر آنا حکمرانوں کی مشکلات کو بڑھا دے گا۔ ‘‘( رائٹرز کی رپورٹ )
’’پاک فوج کے جوانوں نے قومی اسمبلی کے دفاتر خالی کرا لیے۔ انہوںنے پارلیمنٹ میں کنٹرول روم قائم کر لیے۔‘‘ ’’ دھرنوں سے عوامی حقوق متاثر ہو رہے ہیں… دھرنا دینے کے ذمے دار سپریم کورٹ میں حاضر ہو کر جواب دیں، وزرات ِ قانون اور داخلہ کے سیکرٹریوں کو بھی نوٹس جا ری۔ ‘‘ ’’ آئین میں حکومت کو ہٹانے کا طریقہ موجود ہے، بنیادی حقوق کی آڑ میں کسی کو حکومت ختم کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ‘‘
یہ تمام باتیں ہدایت کار کی فن کاری کی دلیل ہیں… وہ ہمیں کٹھ پتلیوں کی طرح نچا رہا ہے… پاکستان کا ہر شہری دوسرے سے یہ سوال کرتا نظر آرہا ہے… کیا جمہوری حکومت اس قدر کمزور اور بے بس ہے کہ بیس تیس ہزار لوگ حکومت کو نہایت آسانی سے چلتا کر دیں… جواب میں پھر کہا جاتا ہے… دراصل معاملہ عورتوں اور بچوں کا ہے… سوال… جب لوگ اپنے اپنے شہروں سے نکلے تھے… تو کیا حکومت کو اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ دھرنا دینے والے عورتوں اور بچوں کو ڈھال بنا لیں گے۔
اس وقت اگر انداز ہ نہیں تھا اور اگر اب اندازہ ہو گیا ہے تو پہلی فرصت میں قانون بنا لیا جائے… عورتیں اور بچے دھرنوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔ ان جلوسوں کو اپنے اپنے شہروں میں روک لیا جاتا تو کم از کم عورتیں اور بچے اسلام آباد نہ پہنچ پاتے اور ملک کی یہ صورت ِ حال نہ ہو تی جو اس وقت ہے۔ آیندہ ایک آدھ دن میں کیا ہونا ہے… صرف اور صرف ڈرامے کے ہدایت کار کو معلوم ہے… کیونکہ ڈرامے کا اختتام اسے معلوم ہونا ہے… کرداروں کو معلوم نہیں ہوتا… عوام کو تو کہاں معلوم ہونے لگا؟
بہر حال… ان دھرنوں کا ایک دلچسپ ترین فائدہ ضرور ہوا ہے… پورے پاکستان نے ریڈ زون دیکھ لیا… پارلیمنٹ ہائوس اور وزیر اعظم ہائوس کے دروازے دیکھ لیے… جن کو ہم لوگ خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے… کالم کے آخر پر پہنچ کر آپ کہہ اٹھیں گے… ہدایت کار کا نام تو بتایا ہی نہیں… بتائے دیتا ہوں… ہدایت کار اپنا نام صیغۂ راز میں رکھنے پر تلا ہے… اگر چہ اس کا چہرہ سب کے سامنے ہے… اور ہمیشہ سے سب کے سامنے چلا آرہا ہے… ہم ہی اسے نہ پہچانیں تو یہ اس کا نہیں… ہماری آنکھوں کاقصور ہے… میرا مطلب ہے… عقل کی آنکھوں کا… ظاہر کی آنکھیں تو ڈانس دیکھنے میں محو ہیں… اللہ حافظ!

ہم اور ہمارا احتجاج
ہم تو عجیب ہیں ہی، ہمارا احتجاج ہم سے بھی زیادہ عجیب ہے… بلکہ عجیب تر ہے… جی ہاں! اور کیا، ہم نے تو آج تک یہ بھی نہیں سوچا کہ آج تک ہمارے احتجاجوں سے بنا کیا ہے… البتّہ بگڑتا ضرور ہے… اپنی ہی چیزوں کو توڑا پھوڑا جاتا ہے… اور یہ جو غزہ کے مظلوم ترین مسلمانوں کی حمایت میں ہم نے اسرائیلی صدر کے پتلے بنا کر جلائے ہیں، اس سے کیا حاصل ہو گیا… غور کرنے کی بات ہے، ہم نے اپنی فضائی آلودگی میں اضافہ کیا… پتلے بنانے پر اپنا خرچ کیا، ان کو جلانے پر اپنا پٹرول یا مٹی کا تیل خرچ کیا… یہ کس کھاتے میں گاا… کیا اسلام نے اس قسم کے اخراجات کی اجازت دی ہے… اور معاملہ جب آگے بڑھ جا تا ہے تو پھر گاڑیوں کے شیشوں کی باری آجاتی ہے، موٹر سائیکل جلا دیے جاتے ہیں… کبھی ہم نے سوچا، جن کی گاڑیوں کے شیشے ہم توڑ رہے ہیں… جن کی موٹر سائیکلوں کو ہم جلا رہے ہیں… یاجن کی دکانوں کو ہم توڑ پھوڑ رہے ہیں… وہ سب تو ہمارے اپنے بھائی ہیں… ان لوگوں نے تو فلسطینی بھائیوں پر ظلم نہیں ڈھائے… لوڈ شیڈنگ انہوں نے نہیں کررکھی… آخر اس بے سود اور فضول ترین احتجاج کا فائدہ کیا ہے…
آپ یقین کریں، ہمارے احتجاج کے اس انداز پر غیر مسلم قومیں ہمارا مذاق اڑاتی ہیں… ہم پر ہنستی ہیں اور کہتی ہیں… یہ پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں.

.. ظلم ان پر ہم کرتے ہیں اور بدلہ لیتے ہیں یہ اپنے بھائیوں سے، اپنے بھائیوں کے قیمتی اثاثوں سے… ان جیسے بے وقوف لوگ تو دنیا کے تختے پر کہیں بھی نہیں ہو ں گے… لہٰذا ان کے فلسطینی بھائیوں پر اور ظلم کرو… تاکہ یہ اور توڑ پھوڑ مچائیں… اپنا خوب نقصان کریں… یہی تو ہم چاہتے ہیں… ہر طرف سے اور ہرطرح سے نقصان میں یہی رہیں… ہر طرح سے انھی کی بھد اڑے… انہیں کا مذاق اڑے… ہمارے احتجاج کا ہمیشہ سے یہی طریقہ چلا آرہا ہ
ے جب کہ ہمارے پاس احتجاج کے اس قدر بہترین طریقے ہیں کہ دشمن چوکڑیاں بھول جاتے، ناکوں چنے چبانے پر مجبور ہو جائے، اپنے اُ س احتجاج سے ہم ان طاقتوں کی سٹی بہت آسانی سے گم کر سکتے ہیں۔ اس طرح گم کر سکتے ہیں کہ یہ ڈھونڈے نہ ڈھونڈ پائیں اور ہماری ذہانت کے قائل ہو جائیں… لیکن افسوس…! ہم احتجاج کے ان طریقوں پر عمل میں ایک ہو جائیں تو پھر یقین جانیے… ظلم کی ہوائیں یک دم غائب ہو جائیں، ظلم کے ایوانوں میں سناٹوں کا راج ہو جائے… سکتے طاری ہو جائیں… بڑے سے بڑے ظالم لوگ بھی سر پکڑ کر بیٹھ جائے اور بے ساختہ پکار اٹھیں : ’’یہ کیا… یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا۔‘‘ لیکن افسوس…! ہمیں اپنے فرسودہ طریقوں کے علاوہ احتجاج کا کوئی طریقہ آتا ہی نہیں… کوئی بتانا چاہے… سمجھانا چاہے تو ہم اسے گھا س نہیں ڈالتے… الٹا اس کو دانٹنے لگتے ہیں… ’’بڑا آیا سمجھانے والا… ہم کیوں اپنا اور اپنے باپ دادا کا طریقہ چھوڑ دیں… ہمارے بڑے پتلے جلاتے آئے ہیں… ہم بھی جلائیں گے… پتلے جلانے سے مسئلے ہوئے ہوں گے، تبھی ہمارے بڑے جلاتے رہے… لہٰذا ہم بھی جلائیں گے… ہماری آیندہ نسلیں بھی جلائیں گے… کوئی جلتا ہے تو جلا کرے… ہے کوئی تک۔‘‘

جی ہاں ! واقعی کوئی تک نہیں ہے… ایک اخبار نے احتجاج کرنے کے اس طریقہ پر خوب زور دیا کہ غیر مسلم ممالک کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کر دیا جائے… یہ اپنی موت آپ مر جائیں گے… یہ ان دنوں کی بات ہے جب گستا خانہ خاکے بنانے کی دیوانگی شرو ع ہوئی تھی… خیر… لوگوں نے اس پر عمل کر نا شروع کر دیا… لیکن آپ کو بہت زیادہ حیرت کی بات بتا دیتاہوں ہوں… اس اخبار کے دفتر میں میر اجانا ہو گیا… میں نے وہاںدیکھا کہ تمام مصنوعات وہی استعمال کی جا رہی تھیں… جن کے بائیکاٹ کا اعلان خود انہوں نے کیا تھا… یہ دیکھ کر میں دھک سے رہ گیا…
اب ماڈرن قوم کو کیسے سمجھائیں…؟ جنہوں نے ہوش سنبھالتے ہی گھر میں سیف گارڈ استعمال ہوتے دیکھا… اس کے پلے بات کیسے باندھی جائے، وہ ان نزاکتوں کو کب گھا س ڈالیں گے… ایسا ہی ایک گھرانا ہمارے ہاں کچھ دنوں کے لیے مہمان ہوا… ہمارے گھر کے غسل خانوں میں انہیں تبّت سوپ اورانگلش ٹوٹھ پیسٹ رکھا نظر آیا… خوب ناک بھوں چڑھائی… اور صاف کہہ دیا : ’’ ہم تو اپنے گھر میں سیف گارڈ سے نہاتے ہیں… لہٰذا ہمارے لیے تو یہی لایا جائے۔‘‘
معاملہ مہمان نوازی کا ہو تو آدمی چکر ا جاتا ہے… فوری طور پر تو ان کے لیے سیف گارڈ منگوایا… اس کے بعد ایک دن موقع پا کر میں نے ان سب کی موجودگی میں کہنا شروع کیا… ’’میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتاہوں… ایک شخص کا ایک کارخانہ ہے… اس کے کارخانے میں تمام چیزیں بہت بہترین تیار ہوتی ہیں… آپ کے والد بھی اسی کا رخانے سے چیزیں خریدتے ہیں، لیکن ایک دن اس کا رخانے کے مالک نے آپ کے والد کوخوب گالیاں دیں… بر ا بھلا کہا… خوب ہی ان کی توہین کی… آپ لوگ بتائیں اتنا کچھ ہو جانے کے بعد کیا آپ سب اس کارخانے کی چیزیں استعمال کریں گے۔‘‘ ان سب نے ایک زبان ہو کر کہا: ’’ نہیں ہر گز نہیں… اس صورت میں ہم کیسے اس کارخانے کی چیزیں استعمال کر سکتے ہیں۔
‘‘ اب میں مسکرایا، پھر کہنے لگا : ’’تو پھر سیف گارڈ، لکس اور نیسلے وغیرہ مصنوعات،یہ پیپسی کولا وغیرہ سب انہی لوگوں کی مصنوعات ہیں جو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو گالیاں دیتے ہیں، آپ کی توہین کر تے ہیں… آپ کے کارٹون اخبارات میں چھاپتے ہیں… کارٹون تو سمجھتے ہیں نا آپ… اب بتائیں… کیا ان لوگوںکی مصنوعات ہمیں استعمال کرنی چاہییں۔‘‘ ان سب کو ایسی چپ لگی کہ میں اندر سے کھل اٹھا… میں نے اپنی بات نہایت سادہ انداز میں ان کے دلوں میں اتار دی تھی… آج ضرورت ہے بات کو سادہ انداز میں دلوں میں اتارنے کی۔