اخلاص :

مذہب کا سب سے بڑا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسان کے دل کو مخاطب کرتا ہے ، اس کا سارا کاروبار صرف اسی ایک مضغۂ گوشت سے وابستہ ہے ، عقائد ہوں یا عبادات ، اخلاق ہو یا معاملات ، انسانی اعمال کے ہر گوشہ میں اس کی نظر اسی ایک آئینہ پر رہتی ہے ۔ب اسی حقیقت کو آنحضرت صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے ایک مشہور حدیث میں یوں ظاہر فرمایا ہے : ترجمہ : ’’ ہشیار ہو کہ بدن میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا بدن درست ہوتا ہے ، اور وہ خراب ہو تو سارا دن خراب ہوتا ہے ، ہشیار ہو کہ وہ دل ہے ۔ ‘‘
اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ جو نیک کام بھی کیا جائے اس کا محرک کوئی دنیاوی غرض نہ ہو اور نہ اس سے مقصود ریاء و نمائش ، جلب منفعت ، طلبِ شہرت یا طلب معاوضہ وغیرہ ہو بلکہ صرف اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کی حکم بجا آوری اور خوشنودی ہو ۔ اسی کا نام اخلاص ہے ۔ رسول کو حکم ہوتا ہے :
فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ ہ اَلَا لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ ۔
’’ تو اﷲ کی عبادت کر خالص کرتے ہوئے اطاعت گزاری کو اسی کیلئے ہشیار کہ اﷲ ہی کیلئے ہے ، خالص اطاعت گذاری ۔ ‘‘
اخلاص کے معنی صرف یہ ہیں کہ نیت صرف ایک ہی شے کی ہو یعنی عمل کا محرک یا صرف ریا ہو اور یا محض رضائے حق ۔ ان دونوں پر اخلاص کے لغوی معنی صادق آتے ہیں ۔ کیونکہ خالص اسی شے کو کہتے ہیں جس میں کسی دوسری جنس کی آمیزش نہ ہو ۔ مگر اصطلاح شرع میں اخلاص کے یہ معنی ہیں کہ محض حق تعالیٰ جل شانہ‘ کی ذات مقصود ہو کیونکہ ماسوا کی جانب میلان اور قصد کرنے پر شرعاً اخلاص کا اطلاق نہیں ہوتا ۔
عبادت سے مقصود اگر محض عبادت ہے تب تو اخلاص کہلائیگا اور اگر اس میں ریا اور دکھلاوے کی آمیزش ہے یا عبادت کے ضمن میں دنیا کے کسی فائدہ کا ارادہ بھی شامل ہے تو اس کو اخلاص نہیں کہیں گے ۔ مثلاً روزہ رکھنے سے مقصود یہ بھی ہو کہ روزہ رکھنا عبادت ہے اور یہ بھی مقصود ہو کہ کھانے پینے کا پرہیز کرنے سے بیماری کو بھی نفع ہوگا پس ایک کام میں دو نیتیں شامل ہوئیں تو اس کو اخلاص نہ کہیں گے ۔ یا مثلاً حج سے یہ مقصود ہو کہ وہ نیک کام اور عند اﷲ محبوب ہے اور یہ بھی نیت ہو کہ حج کرنے سے سفر میں حرکت ہوگی اور حرکت سے مزاجِ صحت اعتدال پر آجائے گا یا اہل و عیال کے بار سے چند روز خلاصی مل جائے گی یا دشمن کی ایذائوں سے کچھ دنوں کیلئے نجات ہوگی ۔ یا کسی بیمار کی عیادت کی مگر اس نیت سے کہ تمہارے بیمار ہونے پر وہ تمہاری عیادت کو آئے ۔ یامثلاً فقیر کو اس نیت سے کچھ دیا کہ وہ سر ہو رہا تھا غل مچا رہا تھا پس اس کا شور رفع ہوجائے گا وغیرہ ذالک یہ سب خیالات اخلاص کے منافی ہیں ۔
حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرماتا ہے کہ اے محمد ( صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم ) اپنے پاس سے ان کو علیحدہ نہ کرو جو صبح و شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں درآنحالیکہ اسی ذات کو چاہتے ہیں اس آیت سے معلوم ہوا کہ عمل سے حق تعالیٰ جل شانہ‘ کی ذات مقصود ہو رسول مقبول صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ اعمال کا مدار نیت پر ہے کچھ لوگوں کے صحیفہ اعمال حق تعالیٰ جل شانہ‘ کے حضور پیش ہونگے اور حق تعالیٰ جل شانہ‘ فرمائیں گے کہ ان کو پھینک دو کیونکہ ان اعمال سے اس شخص کو میری ذات مقصود نہ تھی ۔
حقیقت اخلاص :
ہر عمل کا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے اور ایک اس کی روح ہوتی ہے ۔ نماز میں ہاتھ اٹھا کر تکبیر کہنا قیام و قعود و رکوع و سجود وغیرہ یہ سب نمازکا ڈھانچہ ہے اور اس کی روح اخلاص ہے کہ دوران نماز غیراﷲ کا خیال نہ آنے پائے ۔ اﷲ اکبر کہ کر ہاتھ باندھنے کا عمل ایک دعویٰ ہے کہ ہم نے ما سوا اﷲ سے ہاتھ اٹھا لیا ہے اسی کو احسان صلوٰۃ کہاجاتا ہے ۔ تمام اعمالِ صالحہ کی روح اخلاص ہے اس لئے ہمیں ہر عمل کے وقت اس کا خیال رکھنا ہوگا کہ اس عمل کا ڈھانچہ بھی درست ہو اور اس میں روح بھی موجود ہو ۔ اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے یہاں اعمال کے اعداد کا شمار نہیں ہوتا کہ کتنی نمازیں پڑھیں ، کس قدر روزے رکھے ، کتنے حج کئے بلکہ وہاں بندوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گا تعداد نہیں گنی جائے گی ۔
احسن قرآنِ کریم میں :
احسن عملاً فرمایا گیا ہے اکثر عملاً نہیں فرمایا ۔ ہر عمل میں حسنِ عمل دیکھا جائے گا اﷲ تعالیٰ جل شانہ‘ کے یہاں عمل کے وزن کے اعتبار سے جزا ملے گی اعمال میں جس قدر اخلاص ہوگا اسی قدر اعمال وزنی ہونگے ۔ کسی کا عمل دیکھنے میں معمولی ہوگا لیکن اخلاص کی بدولت اس کی جزا بہت بڑی ہوگی اور کسی کے اعمال دیکھنے میں بہت عظیم ہونگے لیکن اخلاص نہ ہونے کی وجہ سے ان کی جزا بہت معمولی ہوگی ۔ احادیث میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ کسی صحابی کا ایک مد مال خرچ کرنا (جو ہمارے ایک سیر کے قریب ہوتا ہے ) غیر صحابی کے جبل احد کے برابر خرچ کرنے سے بھی زیادہ باعث اجر ہوگا ۔ آخر اس کا سبب کیا ہے ۔ بظاہر تو یہ بے انصافی معلوم ہوتی ہے کہ ایک شخص احد کے برابر مال خرچ کر کے بھی صحابی کے ایک سیر مال کے برابر اجر حاصل نہ کر سکے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ صحابی کو رسول کریم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کے شرفِ صحبت سے جو اخلاصِ عمل حاصل ہوگیا وہ غیر صحابی کو حاصل ہو ہی نہیں سکتا ۔ اسی لئے اخلاص عمل کیوجہ سے صحابی کے معمولی اعمال کا وزن بڑھا ہوا ہے اور غیر صحابی میں اخلاص عمل کی کمی کیوجہ سے اس کے عمل کا درجہ گھٹا ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عبد اﷲ ابن مبارک سے کسی نے سوال کیا کہ حضرت عمر بن عبد العزیز (جو عمر ثانی کہلاتے ہیں ) اور حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ میں سے کون افضل ہے تو حضرت عبدا ﷲ ابن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا کہ : ’’ میں بقسم کہتا ہوں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کا مقام تو بہت بلند ہے ۔ حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ عنہ کے گھوڑے کی ناک کا وہ غبار جو رسول اﷲ ! صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی معیت میں جہاد کے وقت اس کی ناک میں پہنچا ، سینکڑوں عمر بن عبدا لعزیز (رحمۃ اﷲ علیہ ) سے بہتر ہے ۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اﷲ علیہ کے فضائل و کمالات اپنی جگہ سب مسلم ہیں لیکن وہ حضور اکرم صلَّی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی معیت کی دولت کہاں سے لا سکیں گے ۔ ‘‘